حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

ویکی‌وحدت سے
مسجد النبی.jpg

محمد بن عبد اللہ بن عبد المطّلب بن ہاشم اللہ کے آخری نبی، پیغمبر اسلام اور اولو العزم انبیاء میں سے ہیں۔ آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن ہے۔ آپ یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق کے داعی ہیں۔ آپ عرب کے مشرک معاشرے میں پیدا ہوئے تھے تاہم بتوں کی پرستش اور معاشرے میں رائج اخلاقی برائیوں اور قباحتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپؐ چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔ آپ کا اہم ترین پیغام توحید اور یکتا پرستی تھا۔ مکارم اخلاق اور اچھائیوں کی تکمیل آپ کی بعثت کے اہداف میں سے تھے۔ مکہ کے مشرکین نے اگرچہ کئی سال تک آپ اور آپ کے پیروکاروں کو اذیت اور آزار کا نشانہ بنایا مگر آپ اور آپ کے پیروکار کبھی بھی اسلام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ مکہ میں تیرہ سال تک تبلیغ کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینے کی طرف آپ کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا آغاز قرار دیا گیا۔ مشرکین مکہ کی طرف سے آپ کو مدینے میں متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور مجموعی طور پر ان جنگوں میں فتح نے مسلمانوں کے قدم چومے۔ رسول خدا کی کوششوں سے عربوں کا جاہلیت زدہ معاشرہ مختصر سے عرصے میں ایک توحیدی معاشرے میں بدل گیا اور تقریباً پورے جزیرہ نمائے عرب نے آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اسلام قبول کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی آج تک اسلام کا فروغ جاری ہے اور آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ دنیا سے جا رہے تھے تو مسلمانوں کی ہدایت کیلئے اپنے بعد قرآن اور اہل بیت کا دامن تھامے رکھنے کی وصیت فرمائی۔ واقعہ غدیر سمیت مختلف مواقع پر امام علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا

نسب، کنیت اور القاب

مُـحـمّـد بـن عـبـد الله بن عبد المطّلب بن هاشم بن عبد مَناف بن قُصَىّ (زيد) بن كلاب بن مُرّة بن كَعب بن لُؤىّ بن غالب بن فِهر بن مالك بن نَضر بن كنانة بن خُزَيمة بن مُدركة بن الياس بن مضر بن نِزار بن مَعَدّ بن عدنان عليهم السلام.

بھی آپ 6 سال 3 مہینے یا ایک قول کی بنا پر 4 سال کے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب نے آپ کو آپ کے نھنیال والوں سے ملاقات کے لئے مدینہ لے گئیں تھیں لیکن مکہ واپسی کے وقت ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا اور وہیں سپرد خاک کی گئیں۔ شیعہ امامیہ کے نزدیک ابو طالب، آمنہ بنت وہب، عبداللہ بن عبدالمطلب اور حضرت آدم تک رسول خدا کے اجداد کے مؤمن ہونے پر اجماع قائم ہے [1]۔


  1. مجلسی، بحار الانوار، ج 15، ص 117