محمد بن حسن المهدی
محمد بن حسن (عج) (ولادت 255 ھ)، امام مہدی، امام زمانہ اور حجت بن الحسن جیسے القاب سے مشہور شیعوں کے آخری اور بارہویں امام ہیں۔ 260ھ کو امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی امامت شروع ہوئی جو آپ کے ظہور کے بعد تک جارے رہے گی۔ شیعوں کے مطابق آپ وہی مہدی موعود ہیں جو ایک طولانی عرصے تک غیبت میں رہنے کے بعد ظہور کریں گے۔ شیعہ مآخذ کے مطابق امام حسن عسکریؑ کے دور امامت میں عباسی حکومت کے کارندے آپؑ کے فرزند اور جانشین کی تلاش میں تھے اس لئے امام مہدیؑ کی ولادت خفیہ رکھی گئی یہاں تک کہ امام حسن عسکریؑ کے کچھ خاص اصحاب کے سوا کسی کو آپؑ کا دیدار نصیب نہیں ہوا۔ امام مہدیؑ کی خفیہ ولادت سبب بنی کہ بہت سے شیعہ آپؑ کی امامت کے سلسلے میں شک و تردید کے شکار ہوگئے اور شیعہ معاشرے میں مختلف قسم کے فرقے وجود میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے ایک گروہ نے آپؑ کے چچا جعفر کذاب کی پیروی شروع کردی۔ لیکن اس دوران امام زمانہؑ کی توقیعات جو عام طور پر شیعیان اہل بیت کے نام لکھی جاتی تھیں اور خاص نائبین کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھیں، مکتب تشیع کے استحکام کا سبب قرار پائیں۔ یہان تک کہ چوتھی صدی ہجری میں امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد وجود میں آنے والے مذاہب میں صرف شیعہ اثنا عشریہ باقی رہے۔ شیعہ مفکرین نے ان کی طویل عمر کی وجوہات اور تفصیلات کے بارے میں مختلف وضاحتیں کی ہیں۔ مہدی موعود اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک عالمی حکومت قائم کرے گا اور دنیا کو انصاف سے بھرا ہوا دکھائے گا کیونکہ یہ ظلم سے بھری ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے اور شیعہ روایات کے مطابق امام کی موت کی حقیقی توقع بہترین عبادتوں میں سے ایک ہے ۔
نام، کنیت اور لقب
شیعہ احادیث میں بارہویں امام کے لئے محمد، احمد اور عبداللہ جیسے نام نقل ہوئے ہیں، لیکن آپؑ شیعیان اہل بیت کے درمیان مہدیؑ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں جو آپؑ کے القاب میں سے ایک ہے [1]۔ متعدد احادیث کے مطابق آپؑ، اپنے جد امجد رسول اللہؐ کے ہم نام ہیں۔ بعض شیعہ احادیث اور مکتوب مآخذ من جملہ کلینی رازی کی تالیف الکافی و شیخ صدوق کی کتاب کمال الدین، میں آپؑ کے نام کے حروف کو جداگانہ طور پر "م ح م د" لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس ابہام نویسی کا سبب وہ متعدد احادیث ہیں جن میں آپؑ کا نام لینے سے منع کیا گیا ہے۔ [2]
امام مہدی مالکی علماء کی نظر میں
مالکی فرقہ کے علماء نے بھی دیگر اسلامی مکاتب فکر کے علماء کی طرح امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے عقیدہ کو اپنے عقیدوں میں شمار کیا ہے اور اس پر تاکید کی ہے۔ یہ حقیقت ان کی تحریروں اور کاموں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ مختلف ادوار میں اس رائے کی وضاحت بہت سی کتابوں اور ان کی تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اب مثال کے طور پر اس فرقہ کے چند ممتاز علماء کی تحریروں اور اقوال کی ایک رپورٹ پیش کی جائے گی:
قرطبی مالکی
وہ جو کہ مشہور و معروف سنی علماء اور مصنفین میں سے ہیں، نے اپنی سائنسی اور مشہور تصانیف چھوڑی ہیں، جن میں سب سے اہم "الجامع لہکم القرآن" کی تفسیر ہے۔ انہوں نے اپنی دوسری کتاب "موت کی حالت اور بعد کی زندگی کے معاملات کی یاد" میں ابواب اور ابواب امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بحث کے لیے مختص کیے ہیں اور اس موضوع پر سنی منابع سے متعدد احادیث نقل کی ہیں، اور ان میں سے بعض احادیث کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں کچھ باتیں بیان کی ہیں۔ البتہ مصنف نے اپنی کتاب تفسیر میں سورہ توبہ کی آیت نمبر 33 کی تفسیر میں اس آیت کے مندرجات پر غور کیا ہے جو کہ دین اسلام پر غالب آنے کا خدا کا وعدہ ہے، ایک قول کے مطابق جو زمانہ سے مطابقت رکھتا ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ