سید روح اللہ موسوی خمینی
سید روح اللہ موسوی خمینی (1281ء تا 1368ء) جو کہ امام خمینی کے نام سے جانے جاتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی، فقیہ اور اصولی اور عصر حاضر کے شیعہ تقلید کے عظیم مراجع میں سے ایک تھے،آپ 20 جمادی الآخرہ پیغمبر اسلام کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت سنہ 1320 ہجری بمطابق یکم مہر 1281 ہجری اور 24 ستمبر 1902 ہجری کو پیدا ہوئے۔ ان کے جد اعلی سید حیدر علی موسوی اردبیلی اپنے سسر میر سید علی ہمدانی کے ساتھ دین اسلام اور تشیع کی تبلیغ کے لیے آٹھویں ھجری کو ایران سے کشمیر ہجرت کی [1]۔ ان کے دادا سید احمد، جو تعلیم حاصل کرنے نجف گئے تھے، اہل خمین کی دعوت پر ایران میں داخل ہوئے اور خمین میں سکونت اختیار کی [2]۔ آیت اللہ سید روح اللہ مصطفوی موسوی خمینی المعروف امام خمینی 1902 میں خمین میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، سید مصطفی، خمینی کے ممتاز علماء میں سے تھے، جو قاجار دور کے آخری سالوں کے کشیدہ سیاسی حالات میں لوگوں کے لیے پناہ گاہ اور ان کے امان کی جگہ تھے۔ امام نے اپنے آبائی شہر میں پڑھنا لکھنا سیکھا، پھر مذہبی مضامین کا مطالعہ کیا اور اپنے بھائی آیت اللہ پسندیدہ سے بنیادی علوم سیکھے۔ آیت اللہ عبد الکریم حائری یزدی کے ذریعہ اراک اور پھر قم میں مدرسہ کے قیام کے ساتھ ہی وہ ان شہروں میں گئے اورفقہ واصول سے باہر کورس کرنے کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کی اور قم کے مدرسہ میں مدرس ہوئے۔ اس نے اپنی سیاسی جدوجہد رضا شاہ کے دورمیں اورحجاب کے تحفظ کے دوران شروع کی۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کے دوران انہوں نے اس کی حمایت کی اوراس کے بعد مدرسہ قم کے امور کی اصلاح کی تھی۔ 1341 میں شاہ کے سفید انقلاب پر ریفرنڈم کرانے کے سنجیدہ فیصلے کا امام نے بائیکاٹ کیا۔ 1342 کے شروع میں امام جعفر صادق کی شہادت کی مناسبت سے قم میں ماتمی تقریبات منعقد ہوئیں۔ 2اپریل کو، حکومت نے اسی موقع پرمدرسہ فیضیہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب پر حملہ کیا اور علماء کو زدوکوب کیا۔ واقعہ فیضیہ کے چالیس دن بعد، امام خمینی نے محمد رضا شاہ کے خلاف سخت تقریر کی، جس کی وجہ سے جون 1963 میں گرفتار ہوئے۔ نومبر 1964 میں کیپٹلیشن ایکٹ کے نفاذ کے دوران، انہوں نے شاہ کے خلاف ایک اور سخت تنقیدی تقریر کی، جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے ترکی اور پھر نجف اشرف بھیج دیا گیا۔ 1977 میں ان کے بڑے بیٹے سید مصطفیٰ کو شہید کردیا گیا اورملک بھرمیں لوگوں نے پہلوی حکومت پرحملہ کرنے کے بہانے سوگ کی تقریبات منعقد کیں۔ ان مظاہروں کے پھیلاؤ نے پہلوی حکومت کو امام کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے عراق کی بعثی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کرنے پرمجبورکیا۔ چنانچہ امام نے کویت جانے کا فیصلہ کیا جسے حکومت نے روک دیا تھا۔ اس کے بعد وہ فرانس چلا گیا اورنوول لوساتو میں سکونت اختیار کی۔ ایران میں عوام کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہنے اور شاہ کے 17 دسمبر 1978 کو ملک چھوڑنے کے بعد امام 3 فروری 1979 کو شاندار استقبال اور لاکھوں لوگوں کے درمیان وطن واپس تشریف لائے۔ امام کا انتقال 3 جون 1989 کو ہوا۔ ان کے جسد خاکی کو تہران میں بہشت زہرا میں پورے ملک کے لوگوں کے شاندار جنازے کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی تصانیف میں سے: 1-کشف الاسرار 2- منهاج النهايه 3- رساله توضيح المسائل 4- حاشيه بر مفتاح الغيب. آپ شاعرانہ طبع بھی رکھتے تھے آپ کا ایک شعری دیوان بھی ہے [3]۔
پہلا دور (1281 سے 1300 تک)
خاندان
امام کے والد آغا مصطفٰی کا شمار علاقہ خمین کی علمی اور ممتاژ شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے نجف اور سامرہ میں دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور خمینی واپس آنے کے بعد اسلام کے احکام کی اشاعت کی، لوگوں کے مطالبات پر توجہ دی اور بعض ظالم حکمرانوں کے خلاف مظلوموں کی حمایت کی۔ آخر کار آپ 1281 ہجری بمطابق 12 ذوالقعدہ 1320 ہجری کے موسم سرما میں خمین اراک کی سڑک پر مقامی ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوئے [4]۔ ان کے پاکیزہ جسم کو نجف اشرف لے جایا گیا اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے مزار پاک کے قریب دفنایا گیا۔ سید روح اللہ، جو اس وقت صرف پانچ ماہ کے تھے، بعد میں اپنے والد کی کہانی سن کر ان سے محبت کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا ذکر کرتے تھے۔ بالغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنا تخلص مصطفوی انتخاب کیا [5]۔ اور جوانی میں وہ اپنی بعض تحریروں کا اختتام ابن الشہید سے کرتے تھے [6]۔
بچپن اور جوانی
اپنے والد کے وفات کے بعد، روح اللہ کی پرورش ایک مہربان ماں (بانو ھاجر) کی گود میں ہوئی اور ایک دلسوز خالہ (صاحب خانم) اور ایک نیک دایہ کی دیکھ بھال میں ہوئی۔ روح اللہ کا بچپن اور جوانی ایک ساتھ ایران کے سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گزری۔ آپ اپنی زندگی کے آغاز سے ہی لوگوں کے دکھ درد اور معاشرے کے مسائل سے واقف تھے اور پینٹنگز کی شکل میں لکیریں کھینچ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ دفاعی مورچہ میں اپنے خاندان اور آس پاس کے لوگوں کے ساتھ اس کی کردار سازی اور آبیاری کی گئی، اور اس نے گھڑ سواری، گولہ باری اور شوٹنگ کی بنیادی تربیت حاصل کی، اور آپ واقعات کا سامنا کرتے ہوئے ایک مکمل مجاہد بن گیا [7]۔ اس دور کے کچھ متاثر کن واقعات، جیسے مجلس پر بم دھماکے، ان کی پینٹنگز اور خطاطی کی مشقیں ان کے بچپن اور نوجوانی میں جھلکتی ہیں اور دستیاب ہیں ^9]۔ جس کی ایک مثال نوعمری (9-10 سال کی عمر) میں شاعر کا ایک ٹکڑا ہے جس میں ایرانی قوم کو مخاطب ہو کر کہا تھا "دینی غیرت اور قومی تحریک کہاں ہے" کے عنوان سے ہے [8]۔ اہل ایران سے خطاب اس تحریر کو روح اللہ کے نوعمری کے پہلے سیاسی بیان کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے اور ملکی مسائل کے بارے میں ان کی فکری اور نظریاتی سوچ کا مطالعہ کیا سکتا ہے۔ روح اللہ کا جھکاؤ ہیروز اور جنگجوؤں کی طرف اس حد تک تھا کہ وہ جنگل کی تحریک میں مرزا کے بیان میں شاعری کے اظہار اور لکھنے کی حد سے آگے نکل گیا، اس نے جنگل کی تحریک میں شمولیت اختیار کرنا چاہی اور جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو اس کے پاس اس کی درخواست پر کچھ کھانے کی چیزوں کا انتظام کیا خود اور اپنے بھائی کے نام پر جنگل کو بھیجا گیا [9]۔ ایک دفعہ انہیں مشہد سے واپسی پر جنگل کا سفر کرنے کا موقع ملا اور مرزا کے اڈے کو قریب سے دیکھا۔
تعلیم
سید روح اللہ نے بچپن ہی سے تعلیم کا آغاز کیا۔ میرزا محمود اور میرزا محمد مہدی نام کے اساتذہ ان کے گھر آئے اور انہیں پڑھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ملا ابوالقاسم نامی ایک اور استاد سے گلستان اور بوستان سعدی کی تعلیم حاصل کی۔ پھر نئے علوم سے مستفید ہونے کے لیے اسکول گئے۔ کچھ عرصے تک آپ نے اپنے بڑے بھائی (آقا مرتضی) کے ساتھ خطاطی اور ابتدائی علوم (سیوطی، منطق اور مطول) کا درس پڑھا [10]۔
نوجوانی اور ہجرت
سنہ 1300 ہجری بمطابق 1339 ہجری میں 19 سال کی عمر میں آپ نے آیت اللہ عبدالکریم حائری یزدی کی نگرانی میں چلنے والے مدرسہ سپھدار سے استفادہ کے لیے اراک چلے گئے۔ وہاں انہوں نے آغا شیخ محمد گلپایگانی کی موجودگی میں منطق، آغا مرزا محمد علی بروجردی سے مطول اور آغا عباس اراکی سے میں شرح لمعہ جیسے علوم کی تعلیم حاصل کی۔
پہلا رسمی خطاب
اراک میں تعلیم کے دوران، رکن اعظم مشروطہ، آیت اللہ سید محمد طباطبائی کی مجلس میں آپ نے اپنی پہلی تقریر پڑھا۔ یہ تقریر دراصل ایک سیاسی بیان تھا جو ایک نوجوان طالب علم کے منہ سے پڑھا گیا تھا تاکہ مدرسہ اراک کی جانب سے مشروطیت کے عالم کی کاوشوں اور خدمات کو سراہا۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا: ... مجھے منبر پر جانے کی تجویز دی گئی، میں نے قبول کر لی۔ اس رات، میں بہت کم سویا تھا۔ لوگوں کے سامنے آنے کے خوف سے نہیں بلکہ میں نے دل میں سوچا کہ کل مجھے اس منبر پر بیٹھنا ہے جو رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ میں نے خدا سے میری مدد کی درخواست کی، میں پہلے سے لے کر آخری منبر تک، کبھی کوئی ایسا لفظ نہ کہوں جس کے ایک لفظ پر بھی یقین نہ ہو، اور یہ درخواست ایک وعدہ تھا جو میں نے خدا سے کیا تھا۔ میرا پہلا منبر لمبا تھا، لیکن اس نے کسی کو تھکا نہیں دیا... اور کچھ لوگوں نے ہاں کہا۔ جب میں ڈیل گیا تو مجھے اچھے الفاظ پسند آئے۔ اسی لیے میں نے دوسری اور تیسری دعوت کو ٹھکرا دیا اور چار سال تک کبھی کسی منبر پر قدم نہیں رکھا۔
زندگی کا دوسرا دور (1300 سے 1320 تک)
روح اللہ کی زندگی کا یہ دور ان کی قم کی طرف ہجرت کے ساتھ شروع ہوا اور رضا خانی دور (1320-1304) کی سیکولرائزیشن پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوا۔ اس وقت روح اللہ مطالعہ، تدریس، کتابیں لکھنے، اور ممتاز اور مبارز علماء، جیسے: حاج آغا نور اللہ اصفہانی [11]۔ ، سید حسن مدرس [12]۔ اور کچھ دوسرے علماء کو جاننے میں مصروف تھے۔ رضا خانی کی گھٹن کے اس دور میں علماء کا ہدف قم کے علمی میدان کو بچانا تھا جس کا ثمر عوام کی قیادت اور 1957 میں اسلامی حکومت کے قیام میں نظر آیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود سیاسی شخصیت کی نشوونما اور جوانوں میں مزاحمت کا جذبہ پیدا کرنے میں آیت اللہ سید حسن مدرس کا ناقابل تلافی کردار قابل توجہ ہے۔ 1301ھ (1340ھ) میں 20 سال کی عمر میں آغا سید روح اللہ اپنے استاد حضرت آیت اللہ عبدالکریم حائری یزدی، مدرسہ قم کے بانی کے ساتھ اس شہر میں ہجرت کر گئے۔ آپ نے آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی کے ساتھ سطحی دروس مکمل کیا اور اس کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کرنے تک آیت اللہ حائری کے درس خارج میں شرکت کی۔
شادی
1308 میں، 27 سال کی عمر میں آغا روح اللہ نے مرزا محمد ثقفی تہرانی کی بیٹی خدیجہ ثقفی سے شادی کی۔ اس شادی کے ثمرات میں سید مصطفیٰ (1309ھ)، سید احمد (1324ھ)، سید فریدہ، سید زہرا اور سیدہ صدیقہ نامی بچے تھے۔
علمی شخصیت
سید روح اللہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے علوم کے مختلف شعبوں میں تیزی سے گزرے۔ فقہ اور اصول کے علاوہ آپ نے فلسفہ اور تصوف کی اعلیٰ ترین سطح پر اس زمانے کے ممتاز اساتذہ جیسے (آیت اللہ حاج سید ابوالحسن رفیع قزوینی اور آیت اللہ مرزا محمد علی شاہ آبادی) سے قم میں تعلیم حاصل کی اور 6 سال کے عرصے میں آپ نے علم و عرفان کی تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1315ھ (1355ھ) میں جب حضرت آیت اللہ حائری کی وفات ہوئی تو حاج آغا روح اللہ مدرسہ قم کی مشہور علمی شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔
فلسفہ کی تدریس
آپ کے فلسفے کے درس 28 سال کی عمر سے پہلے 1308 (1348ھ) میں شروع ہو چکے تھے۔ اس وقت آپ مدرسہ دارالشفاء میں رہتے تھے اور ان کا شمار فلسفہ اور حکمت الہی کے عظیم استادوں میں ہوتا تھا۔ ان کے شاگردوں کا شمار مدرسہ قم کی دانشمند اور فکر انگیز شخصیات میں ہوتا تھا۔ حاج آغا روح اللہ نے خود ان کا انتخاب کیا اور باقاعدہ تحریری اور زبانی طور پر ان سے امتحان لیا۔
عرفان کی تعلیم
امام کے دروس میں سے ایک اور درس عرفان کا درس تھا۔ یہ درس خاص اور قابل اعتماد طلباء کے لیے تھا۔ عرفان ان کی اہم دلچسپیوں میں سے ایک تھا۔ اس طرح کہ 1307 میں انہوں نے دعائے سحر کی تفصیل نامی کتاب لکھی جو ماہ رمضان میں امام محمد باقر کی پڑھی جانے والی دعا کی جامع تفسیر تھی۔ دو سال بعد انہوں نے مصباح الہدایہ الی خلافت و الولایہ لکھی۔ ان سالوں میں ان کی ایک اور تصنیف تفسیر فصوص قیصریکا مجموعہ تھا۔ عرفان کا ان کی فکری اور روحانی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی مستقبل کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی بڑا اثر تھا۔
درس اخلاق
آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد پہلا درس جو آغا روح اللہ نے شروع کیا اور طلباء اور گلیوں اور بازاروں کے لوگوں نے اس کا استقبال کیا وہ اخلاق کا درس تھا۔ اس درس میں، مختلف مواقع پر، آپ نے پہلوی اول کی حکومت اور ڈی اسلامائزیشن کی ریاست کے بارے میں بیان کیا اور کبھی طنزیہ حوالہ دیا، جس کے نتیجے میں رضا خانی کی حکومت نے آپ کو وارننگ دیا۔ قم میں نئی قائم ہونے والی پہلوی حکومت کے پولیس افسران نے فیضیہ میں اس درس کو جاری رکھنے سے روک دیا۔ آغا روح اللہ نے بھی اپنے دروس کو مدرسہ حاج ملا صادق میں منتقل کیا۔ اربعین حدیث کی کتاب اس اخلاقی -عرفانی سبق کے نتائج میں سے ایک ہے۔
زندگی کا تیسرا دور (1320 سے 1340 تک)
آیت اللہ حاج آغا روح اللہ کی زندگی کا یہ دور چالیس سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ ان کے عقلی اور فلسفیانہ علوم و تحقیق کے وسیع علم نے انہیں حوزہ علمیہ قم کے فلسفہ کے پہلے اساتذہ میں سے ایک بنا دیا۔ آپ مکتب اسلام پر فکری شکوک و شبہات اور اعتراضات کا جواب دینے والے تھے۔ جیسا کہ اس نے کتاب کشف الاسرار کی کتاب اسرار ہزار سالہ کے جواب میں تصنیف کی۔ حوزہ علمیہ قم آیت اللہ حائری کی وفات (1315ھ) اور پہلوی حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ 20 کی دہائی کے آغاز اور رضا خان کے زوال کے ساتھ ہی مرجع عظمی کےحصول کا راہ ہموار ہو گیا۔ آیت اللہ بروجردی ایک ممتاز علمی شخصیت تھے جو مرحوم حائری اور حوزہ کی حفاظت کے مناسب جانشین ہوسکتے تھے۔ اس تجویز پر جلد ہی آیت اللہ حائری کے طلباء بشمول حاج آغا روح اللہ نے عمل کیا۔ حاج آغا روح اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو قم کی طرف ہجرت کی دعوت دینے اور حوزہ کی قیادت کی اہم ذمہ داری قبول کرنے میں بھرپور کوشش کی۔ اپنے گرانقدر اہداف کے حصول کے لیے 1328ھ میں آیت اللہ مرتضی حائری کے تعاون سے مدرسہ علمیہ کے ڈھانچے پر نظر ثانی کا منصوبہ تیار کیا۔ تاہم اسے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
فقہ اور اصول کا درس خارج
آیت اللہ حاج آغا سید روح اللہ نے 44 سال کی عمر میں (1364 ہجری) میں فقہ و اصول کا تدریس شروع کیا، جو آیت اللہ بروجردی کی قم میں آمد کے موقع پر ہوا۔ ان کے درس خارج کی کچھ خصوصیات اور فوائد یہ تھے کہ ہر مسئلے کا حل اور اس کے موضوعات کی مکمل وضاحت اور نشوونما، بنیادی موضوعات کو فلسفیانہ موضوعات کے ساتھ نہ ملانا، نئے اور اختراعی نظریات پیش کرنا اور سابقہ علماء کی تقلید نہ کرنا۔ یہاں، اساتذہ ، روایی مشایخ کے بزرگوں اور ان کے کاموں (کورس کے شیڈول سے باہر) کی فہرست دینا مناسب ہے۔
اساتذہ
حضرت امام نے علوم کے مختلف شعبوں جیسے فارسی اور عربی ادب، فقہ و اصول، منطق، مغربی اور مشرقی فلسفہ، عرفان، کلام وغیرہ میں بہت سے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق [13]۔، ان کے بعض اساتذہ کی تفصیل اس طرح ہے:
- آقا میرزا محمود افتخار العلماء؛
- میرزا رضا نجفی خمینی؛
- آیتالله پسندیده؛
- شیخ محمد گلپایگانی؛
- آقا میرزا محمدعلی بروجردی؛
- شیخ عباس اراکی؛
- میرزا محمدعلی ادیب تهرانی؛
- آیتالله سید محمدتقی خوانساری؛
- شیخ محمدرضا مسجدشاهی اصفهانی؛
- آیتالله سیدعلی یثربی کاشانی؛
- آیتالله سیدابوالحسن رفیعی قزوینی؛
- آیتالله عبدالکریم حائری؛
- آیتالله محمدحسین بروجردی؛
- آیتالله میرزا علیاکبر حکمی یزدی؛
- آیتالله میرزا محمدعلی شاهآبادی؛
- آیتالله میرزا جواد ملکی تبریزی.
روایی مشایخ
- شیخ محمدرضا اصفهانی نجفی، آل شیخ محمدتقی اصفهانی، محدث نوری سے ، شیخ انصاری سے ؛
- سید محسن امین، سید محمدهاشم موسوی رضوی هندی سے ، از شیخ انصاری سے ؛
- شیخ عباس قمی، محدث نوری سے ، از شیخ انصاری سے؛
- سید ابوالقاسم دهکردی اصفهانی، میرزا محمدهاشم اصفهانی سے ، از شیخ انصاری سے.
علمی آثار
- مصباح الهدایة إلی الخلافة و الولایة؛
- شرح دعای سحر؛
- شرح اربعین حدیث؛
- حاشیه بر فصوص الحکم قیصری و مصباح الأنس؛
- حاشیه بر مفتاح الغیب؛
- أسرار الصلوة یا معراج السالکین؛
- رسالهای در طلب و اراده؛
- حاشیه بر رساله شرح حدیث رأس الجالوت، قاضی سعید و شرح مستقلی بر حدیث؛
- کشف الأسرار؛
- شرح حدیث جنود عقل و جهل؛
- آداب الصلاة؛
- الرسائل؛
- کتاب البیع؛
- کتاب الطهارة؛
- أنوار الهدایة فی التعلیقة علی الکفایة؛
- مناهج الوصول إلی علم الأصول؛
- رسالة فی الاجتهاد و التقلید؛
- زبدة الأحکام؛
- المکاسب المحرمة؛
- تحریر الوسیلة؛
- جهاد النفس یا جهاد اکبر؛
- حکومت اسلامی یا ولایت فقیه؛
- تفسیر سوره حمد؛
- مناسک حج؛
- لمحات الأصول؛
- دیوان اشعار.
شاگرد
- آیتالله سید جلالالدین آشتیانی؛
- آیتالله حسین تقوی اشتهاردی؛
- آیتالله عبدالله جوادی آملی؛
- آیتالله مرتضی حائری یزدی؛
- آیتالله مهدی حائری یزدی؛
- آیتالله سید علی خامنهای؛
- آیتالله سید مصطفی خمینی؛
- آیتالله جعفر سبحانی؛
- آیتالله سید موسی شبیری زنجانی؛
- آیتالله یوسف صانعی؛
- آیتالله حسن طاهری خرمآبادی؛
- آیتالله محمد فاضل لنکرانی؛
- آیتالله محمدعلی گرامی؛
- آیتالله عباس محفوظی گیلانی؛
- آیتالله محمد محمدی گیلانی؛
- آیتالله حسین مظاهری؛
- آیتالله محمدهادی معرفت؛
- آیتالله حسینعلی منتظری؛
- آیتالله سید عبدالغنی موسوی اردبیلی؛
- آیتالله سید عبدالکریم موسوی اردبیلی؛
- آیتالله محمدرضا مهدوی کنی؛
- آیتالله حسین نوری همدانی.
ان کی زندگی کا تیسرا دور دو اہم واقعات سے ملتا ہے: ایک، دوسری جنگ عظیم کا آغاز اور دوسرا، ایران پر قبضہ، رضا خان کا ایران سے نکل جانا اور محمد رضا کے دور حکومت کا آغاز۔ حاج آغا روح اللہ کے عقیدے کے مطابق یہ وقت اصلاحی بغاوت کا اچھا موقع تھا۔ روح اللہ کی تمام تر امیدوں کے باوجود مطلوبہ بغاوت نہیں ہوئی۔ اس دور میں وہ ایک مکمل اور جامع عالم، علم اور سیاسی بصیرت کے سہارے ایک بیدار مصلح، رضا خانی کے 20 سالہ تجربے کے ساتھ ایران اور دنیا کے حالات کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ لہذا، 3/13/1323، (11 جمادی الثانی 1363ھ) کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے، وہ بنیادی تبدیلی کے صحیح وقت کی یاد دہانی کراتے ہیں: آج وہ دن ہے جب روحانی ہوا چلی ہے اور یہ دن فیام کے لیے بہترین دن ہے۔ اگر آپ نے موقع گنوا دیا اور خدا کے لیے کھڑے نہ ہوئے اور مذہبی تقریب میں واپس نہ آئے تو کل مٹھی بھر لغو اور ہوس پرست لوگ آپ پر غلبہ حاصل کر لیں گے اور آپ کے تمام دین اور عزت کو اپنے باطل کے نیچے لے جائیں گے۔
زندگی کا دوسرا دور (1300 سے 1320 تک)
روح اللہ کی زندگی کا یہ دور ان کی قم کی طرف ہجرت کے ساتھ شروع ہوا اور رضا خانی دور (1320-1304) کی سیکولرائزیشن پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوا۔ اس وقت روح اللہ مطالعہ، تدریس، کتابیں لکھنے، اور ممتاز عسکری علماء، جیسے: حاج آغا نور اللہ اصفہانی ^17]، سید حسن مدثر ^18] اور کچھ دوسرے لوگوں کو جاننے میں مصروف تھے۔ رضا خانی کی گھٹن کے اس دور میں علماء کا ہدف قم کے علمی میدان کو بچانا تھا جس کا ثمر عوام کی قیادت اور 1957 میں اسلامی حکومت کے قیام میں نظر آیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود سیاسی شخصیت کی نشوونما اور جوانوں میں مزاحمت کا جذبہ پیدا کرنے میں آیت اللہ سید حسن مدثر کا ناقابل تلافی کردار قابل توجہ ہے۔ 1301ھ (1340ھ) میں 20 سال کی عمر میں آغا سید روح اللہ اپنے استاد حضرت آیت اللہ عبدالکریم حائری یزدی، مدرسہ قم کے بانی کے ساتھ اس شہر میں ہجرت کر گئے۔ آپ نے آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی کے ساتھ سطحی کورس مکمل کیا اور اس کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کرنے تک آیت اللہ حائری کے خارجی کورس میں شرکت کی۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بےمثال اور ممتاز خصوصیات کے مالک تھے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر جتنا ھم غور کرتے ہیں آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں اور بےمثال دکھائی دیتی ھے۔ اگرچہ آج انے فراق کا داغ ہمارے دلوں کو تڑپارہاہے اور غم کی سنگینی یمارے دلوں پر بوجھہ بنی ہوئی ہے انکے فقدان کا کہیں زیادہ احساس کررہاہوں [14]۔
ارادہ الہی اور شرعی ذمہ داریوں میں محو
امام کی شخصیت بڑی حد تک ان کے عظیم اہداف اور مقاصد سے وابستہ ہے۔ آپ اپنی بلند ہمتی کےباعث اعلیٰ اہداف کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے ایسے اہداف کا تصور بھی دشوار تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اعلیٰ اہداف ناقابل حصول ہیں۔ لیکن آپ کی بلند ہمتی، ایمان و توکل،جہد مسلسل اور اس عظیم انسان کی ذات میں پوشیدہ بے پناہ صلاحیتیں اور توانائیاں کارفرما تھیں اور وہ اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد کی سمت بڑھتے چلے جاتے اور اچانک سب دیکھتے کہ وہ اعلیٰ اہداف حاصل ہوگئے ہیں۔ آپ کے کام کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آپ حکم الہی اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائگی میں کھو جا یا کرتے تھے ۔ آپ کے سامنے ذمہ داریوں کی ادائگی کے سوا اور کچھ نہی ہوتا تھا۔ آپ حقیقی معنوں میں ایمان اور عمل صالح کے مصداق تھے۔ آپ کا ایمان پہاڑ کی مانند مستحکم تھا اور عمل صالح کی انجام دہی میں آپ کھبی نہ تھکنے والی حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ (نیک) کاموں کی انجام دہی میں آپ انتہائی قوی اور باہمت شخصیت کے مالک تھے جو سبھی کے لئے حیران کن تھی۔ [15]۔
جامع صفات کی حامل عظیم شخصیت
ہمارے عظیم اور ہردلعزیز رہبر کبیر کی شخصیت کا در حقیقت انبیائے الہی اور آئمہ معصومین کے بعد کسی بھی اور شخصیت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے لئے عطیہ الہی، حجت خدا اور عظمت الہی کی نشانی تھے۔ جب انسان انہیں دیکتھا تو بزرگان دین کی عظمت کا اندازہ کر لیتا۔ ہم رسول خدا، امیرالمومینین ، سید الشہداء امام جعفرصادق اور دیگر اولیاء علیہھم السلام کی عظمت کا صحیح تصور تک بھی نہی کرسکتے ۔ ہمارے ذہن اس سے کہیں چھوٹے ہیں کہ ان عظیم ہستیوں کی عظمت ذاتی کا احاطہ کر سکیں یا اسے دائرہ تصور میں لاسکیں ۔ لیکن جب کوئی شخص ہمارے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کودیکھتا ہے، قوت ایمانی، عقل سلیم، حکمت و دانا ئی، صبر و بردباری، سچائی و پاکیزگی ، تجملات دنیا سے بے اعتنائی،، زھدو تقویٰ و پرھزگاری، خوف خدا، اور اللہ تعلی کا پر خلوص عبادت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس عظیم انسان اور آسمان ولایت کے خورشید تابناک کے سامنے سر تعظیم خم کر دیتا ہے اور خود کو انکے سامنے ذرے سے بھی کمتر سمجھتا ہے ، انسان کو کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء معصومین کی ذات کس قدر عظیم ہے۔ [16]۔
فاتح فتح الفتوح
آپ نے محاذجنگ پر ملنے والی ایک کامیابی کے موقع پر مجاہدین سے فرمایا :فتح الفتوح کا مطلب آپ جیسے انسانوں اور جوانوں کی تربیت کرنا ہے۔ درحقیقت اس فتح الفتوح کے فاتح وہ خود تھے۔ وہ تھے جنہوں نے ایسے انسانوں کو تیار کیا تھا۔ وہ تھے جنہوں نے یہ ماحول تیار کیا تھا۔ وہ ہی تو تھے جنہوں نے یہ راستہ بنایا تھا۔ یہ آپ (رہ) ہی تھےجنہوں نے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔ آپ کی میراث یہی اقدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر کیوں نہ ہوں، اسلامی جمہوری نطام اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے [17]۔
نماز شب کا گریہ
امام خمینی (رہ) ایسی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ انبیا اور آئمہ معصومین (علیم السلام ) کے علاوہ کسی اور میں ایسی خصوصیات اور پہلوؤں کا تصور بھی دشوار ہے۔ اس عظیم انسان نے قوت ایمانی کو عمل صالح کے ساتھ، آہنی ارادے کو بلند ہمتی، اخلاقی شجاعت کو حکمت و تدبیر، جرءت اظہار و بیان کو سچائی و متانت ، معنوی اور روحانی پاکیزگی کو ہوشیاری و کیاست ، تقویٰ و پرہیز گاری کو تیز رفتاری و استحکام ، قائدانہ رعب و دبدبے کو محبت و الفت کے ساتھ مختصر یہ کہ بہت سی پاکیزہ اور نادر صفات کہ جنکا صدیوں کے دوران بعض عظیم لوگوں میں جمع ہوجانا شاید ہی ممکن ہو اپنے مبارک وجود میں جمع کیا۔ یہ ساری صفات آپ کی نادر روزگار شخصیت میں موجود تھیں، آپ کی شخصیت بے نظیر تھی اور آپ کی انسانی عظمت ا تصور و تخیل سے بالا تر ہے۔ وہ ملت ایران کے لئے رہبر، باپ، استاد، مقصود اور محبوب اور مستضعفین عالم خاص طورپرمسلمانوں کے لئے روشن مستقبل کی نوید تھے۔ وہ خدا کے صالح و متواضع بندے، نیمہ شب میں پیش پروردگار گریہ کرنے والے ہمارے دور کی عظیم شخصیت تھے۔ وہ مسلمان کامل کے لئے سر مشق عمل اور ایک اسلامی رہنما کا بے بدل نمونہ تھے۔ انہوں نے اسلام کو عظمت دی اور قرآن کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا۔ انہوں نے ملت ایران کو اغیار کی قید سے نجات دلائی اور حمیت، تشخص اور خود اعتمادی عطا کی ۔ انہوں نے خود مختاری اور آزادی کا نعرہ پوری دنیا میں عام کیا اور دنیا کی ستم رسیدہ اقوام کے دلوں امید کی شمع روشن کی ۔ ایسے دور میں جہاں طاقتور سیاسی ہاتھ دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مٹانے پر کمر بستہ تھےا نہوں نے دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر نظام حکومت قائم کیا اور اسلامی سیاست اور حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دس سال تک تیز ترین طوفانوں اور فیصلہ کن مراحل میں اسلامی جمہوریہ کی پوری طاقت سے حفاظت اور رہنمائی کی اور اسے محفوظ مقام پر لا کھڑا کیا ۔ ان کی دس سالہ قیادت کا دور ہمارے عوام اور حکام کے لئے نا قابل فراموش اور قیمتی ذخیرہ ہے[18]۔
بے مثال شخصیت
امام( رح) کی شخصیت کا دنیا کے کسی بھی رہنماسے موازنہ نہی کیا جاسکتا، صرف انبیاء اور آئمہ معصومین کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ ان ہی کے شاگرد تھے یہی وجہ ہے کہ( امام خمینی کا) دنیا کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ موازنہ نہی کیا جاسکتا [19]۔
حکیم و دانا اور دور اندیش انسان
امام (رح) انتہائی دانا، دوراندایش، انسان شناس،حکیم،تیز بین،حلیم الطبع اور مستقبل کو دیکھنے والے تھے،ان صفات میں سے کوئی ایک بھی صفت کسی بھی شخص کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنے اور دوسروں کے لئے قابل احترام بنا نے کے لیے کافی تھی۔ امام (خمینی رح ) ایسے متین، بردبار اور حلیم الطبع تھے کہ اگر کسی محفل میں سو آدمی بات کر رہے ہوں اور انکی بات سے آپ متفق نہ ہوں تب بھی اگر ضروری نہ ہوتا توآپ کوئی بات نہی کرتے اور خاموش رہتے، حالانکہ اگر معمولی لوگوں کے سامنے انکے مزاج کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان میں فوری جواب دینےکا جذبہ کروٹیں لینے لگتا ہے [20]۔
نفس اور خواہشات پر مسلط انسان
حقیقتا ہمارے ہردلعزیز امام جیسے بے نظیر اور عظیم انسان کو منتخب انسان، عظیم دماغ،پاکیزہ ترین دل نذرانہ تکریم و تعظیم پیش کرتے ہیں ۔ ظاہری عہدے اور مقام کی بنا پر جن لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے ان میں اور ایسے شخص میں جسکا اسکی شخصیت و عظمت اسکی گہرائی اور گیرائی اور جس کی حیرت انگیز صفات، ہر محب کمال انسان کو تعظیم و احترام اور تعریف ستائیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بڑا فرق ہے ۔ امام ( رہ) مختلف النوع صفات کے مالک تھے: آپ انتہائی خرد مند دانا منکسر المزاج ، زیرک و ہوشیار و بیدار، محکم و مہربان بردبار اور متقی انسان تھے۔ انکے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہی کیا جاسکتا تھا ۔ وہ آہنی ارادے کے مالک تھے اور کوئی بھی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی تھی۔۔ وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا وقت ہو یا انسانی زندگی کے ایسے مواقع ہوں جہاں فطری طور پر دل محبت اور مہربانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات، مادی لذات انکے وجود کی اعلی چوٹیوں کو نہی چھو سکتے تھے۔ وہ ہواء نفس اور خواہشات پر پوری طرح مسلط تھے، خواہشات ان پر غلبہ نہی کر سکتی تھیں۔ وہ صابر و برد بار تھے اور سخت سے سخت حالات میں بھی انکے بحر بے کراں میں تلاطم پیدا نہی ہوتا تھا ۔
افق انسانی کا سورج
میں تاریخ ایران میں سورج کی مانند چمکنے والے اس عظیم انسان کے اعلی انسانی کمالات کو بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔ میں برسوں تک آپکی خدمت می رہا ہوں۔ ۱۳۳۷ میں انسے ملا اور اور انکے درس میں شریک ہونے لگا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں اور بحرانی حالات میں نے انکے جچے تلے اقدامات کا مشاہدہ کیا ۔ وہ غیر معمولی انسان تھے ، وہ ہم ایسے با لکل نہی تھے۔ حقیقتا اس عظیم انسان کی صفات اور خصوصیات کو میں بیان نہی کرسکتا [21]۔
مخلص اور عبادت گزار
اصل بات یہ ہے کہ اگر امام خمینی (رہ) کی روحانی شخصیت خلوص اور بندگی نہ ہوتی تو وہ یہ کامیابیاں کبھی حاصل نہ کر پاتے ۔ یہ کارنامہ اس قدر عظیم ہے کہ خدا سے رابطے کے بغیر کوئی بھی شخص،تما متر خصوصیات کے باوجود بھی انجام نہی دے سکتا امام(رہ) دنیا میں جو یہ عظیم تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو ئے، اسکی وجہ یہ کہ آپ کا خدا سے رابطہ تھا اور آپکو اس راستے میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہی ہیں، ان کی تعریفوں اور لوگوں کے تاثرات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور پوری دنیا انکے اس عظیم کارنامے کی عظمت کا، جس نے انسانوں کے سمندر کو موجزن کر دیا ہے، اعتراف کررہی ہے۔ یہ عظیم کارنامہ صرف اور صرف عزم ، استقامت، بہادری، ہوشیاری، باریک بینی اور مستقبل شناسی کے ذریعے ہی ممکن تھا تاہم یہ صفات جوش و ولولے کے اس عظیم طوفان کو وجود میں لانے سے قاصر تھیں ، اصل بات خدا سے رابطہ اور اس سے مدد مانگنا تھا ۔ اور اسی چیز نے امام (رہ) کے نام اور انکے کارنامے کو تاریخ میں ابدی بنا دیا ہے[22]۔
خلوص کا پیکر
ہمارے عظیم رہبرو رہنما اور امام (رہ) خلد آشیاں دنیا کی درخشاں شخصیت تھے۔ حقیقتا ان کے جیسا رہبر نہ اس زمانے میں ہے اور نہ اس سے پہلے کوئی گزرا ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات کے درمیان، انبیا اور اولیا علیھم السلام کے بعد ایسی عظیم، ہمہ جہتی اور ہمہ گیر شخصیت دکھائی نہی دیتی۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتاہوں کہ اگر یہ عظیم انسان، علم و یقین، دانائی و بہادری اور مضبوط اردے جیسی تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، اخلاص(عمل) اور خدا سے خاص رابطے سے بہرہ مند نہ ہوتے تو وہ کبھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی ایسے حالات میں نصیب ہوئی جب دنیا میں تمام علامتیں دین کی تنہائی اس کی فرسودگی اور شیطانی و مادی افکار کے غلبے پر دلالت کررہی تھیں [23]۔
خلوص اور خدا سے رابطہ کامیابی کا راز
میرے خیال میں انکی ( امام خمینی رہ) کی کامیابی کا سب سے بڑا راز خلوص اور خدا سے رابطہ تھا ۔ آپ ایاک نعبد و ایاک نستعین کے معنی پر عمل کرنےاور خدا کی لازوال طاقت کے سرچشمے سے وابستہ ہونے میں کامیاب رہے۔ جب کوئی ناچیز، کمزور اور محدود ظرفیت رکھنے والا انسان کسی بحر بے کراں سے متصل ہوجائے تو پھر کوئی مشکل اسکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی ۔ کوئی بھی انسان یہ کام کرےگا تو ایسا ہی ہوگا، البتہ ہر انسان کے لیے ایسا کرنا اتنا آسان بھی نہی ہے لیکن آپ( امام خمینی رہ) نے ایسا کر دکھایا۔ ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش کرنا چاہیے ۔ بزرگ ہستیاں چوٹیوں پر کھڑی ہیں ، ہمیں بھی پہاڑیوں کے دامن سے اوپر چڑھنا چاہیے اور ان کی طرف جانا چاہیے ، اگر ہم چوٹیوں تک نہ بھی پہنچ پائیں تب بھی عمل کرنا ہم سب کا فریضہ اور ذمہ داری ہے [24]۔
امام خمینی کے مشن کی خصوصیات
امام خمینی اپنے مشن کے اہداف گنواتے ہوئے فرماتے تھے عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد ، نہ مشرق نہ مغرب کے نعرے کے ضمن میں پوری قوت کے ساتھ اعتدال کو برقرار رکھنا ، قوموں کی ہمہ گیر اورحقیقی خودمختاری، حقیقی معنوں میں خود کفالت، دینی اصول و شریعت وفقہ اسلامی کے تحفظ پر مسلسل اصرار اور عزم راسخ، اتحاد ویکجہتی کی برقراری، دنیا کی مسلمان اور مظلوم قوموں پر توجہ، اسلام اور مسلمان اقوام کے وقار کی بحالی، عالمی طاقتوں کے مقابلے میں مرعوب نہ ہونا ، اسلامی معاشروں میں عدل وانصاف کا قیام ، معاشرے کے مستضعف و پسماندہ اورمحروم لوگوں کی بے دریغ حمایت اوران کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش، ہم سب اس بات کے شاہد رہے ہيں کہ امام نے ہمیشہ ان خطوط پر بھرپورطریقے سے عمل کیا ہے اورکسی بھی طرح کے پس وپیش کے بغیر ان خطوط اور مشن کو آگے بڑھایاہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم ان کے راستے، اعمال صالح اوران کے کردار و رفتار کی پیروی کریں [25]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عہد نو کی خصوصیتیں
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے عظیم امام کی خصوصیات نے نئے دورکا آغازکردیاہے اورآج جب ہمارے دل اورہماری جانیں امت اسلامیہ کی اس بے مثال ہستی کے فراق میں غمزدہ ہیں تو ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ان عصری خصوصیات کوکہ جن کا آغازامام خمینی نے کیاتھا اورپوری قوم اور دنیا کو جن سے متعارف کرایا پہچانیں اوران کو برقرار رکھیں ۔حقیقی سوگواری یہ ہے کہ ہم فریضوں پرعمل کریں وہ عصر وہ دورجس کاآغازامام خمینی نے کیا اسے جاری رکھیں اس نئے دور کی اپنی خصوصیات اورپہچان ہے ان خصوصیات میں قوم کے اندر خود مختاری و آزادی کے جذبے کی بیداری اور خود اعتمادی و خود کفالت ہیں وہ خصوصیات جنہیں قوموں سے چھین لینے کی منظم سازش کی گئي۔ اس دورکی ایک اورپہچان وخصوصیت امام خمینی جس کے موجد وبانی تھے انسانی اقدارکااحترام اوراس کی جانب رجحان ، عدل وانصاف اورانسانوں کے لئے حریت وآزادی اورلوگوں کےنظریات اوران کی رای کا احترام ہے ۔ یہی عظیم شخصیت جسے پوری دنیاکے لوگ آج احترام سے یاد کرتے ہيں اورجس کی عظمت وبزرگي کے صدق دل سے معترف ہيں کہتی تھی کہ مجھے رہبر کےبجائے خادم کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ یہ بات بڑی سنجیدگی سے فرماتے تھے اوراس میں کسی طرح کا تکلف نہیں کرتے تھے وہ اس قدر عوام کااحترام کرتے تھے کہ خود کو ان کا خدمت گزارکہتے تھے ہم اس طرح کی پوری دنیامیں کوئی نظیرومثال نہیں رکھتے اورتاريخ میں اس جیسی شخصیت کی مثال نہيں ملتی [26]۔
امام خمینی کے مشن اور راستے کا تعین
امام خمینی کا مشن ان کا راستہ جس پر ایرانی قوم رواں دواں ہے اسلام اورمسلمانوں کی عظمت و سربلندی، محروموں اور مستضعفوں کے کے دفاع کا راستہ ہے جس نے ایرانی قوم کو پوری دنیا میں ایک زندہ اور سرافراز و آزاد قوم میں تبدیل کر دیاہے۔ یہ قوم آج دنیاکی سب سے بیدار اور فعال قوم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے، اب یہ قوم دوسروں پر منحصر اور نہیں رہ گئی ہے۔ یہ وہ خط ہے کہ جس نے اسلام کے تئیں لوگو ں کے دلوں میں عشق و محبت کا جذبہ جگایا ہے اورانھیں اس راستے میں بے مثال فداکاریوں اورقربانیوں کا حوصلہ دیا ہے یہ راستہ، ہماری زندگی ہے یہی ہمارا وجود اورہمارا انقلابی اور قومی تشخص ہے ۔ پرودگار عالم کے فضل وکرم سے ہم اس راستہ ہر پوری پائداری و ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہیں جس کی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری تحریک کے دوران ہمیں تعلیم دی ہے۔ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ اوران کے مشن، ان کے انقلاب ان کی کوششو ں اور ایثار کو اپنی حیثیت اور سکت کے مطابق جاری رکھنے کے لئے آمادہ ہیں ۔ ہمارا لہو اور ہماری زندگي اس راہ پر قربان ہے ۔ ہماری سعادت خوشبختی اسی میں ہے کہ اپنی زندگی اسی راہ میں گذاريں اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے [27]۔
حقیقی رہنما
امام خمینی کے بعد گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران ہم نے ہدایت کا جو راستا طے کیاہے وہ کوئی معمولی اورعام راستہ نہیں ہے اس مشکل ترین راستے کو طے کرنے کے لئے تائيد غیبی اور توفیق الہی ناگزیر ہے۔ ہم عجیب وغریب پیچ وخم سے گذرے ہيں ۔ امام خمینی کی قیادت ورہبری کی برکت کی وجہ سے عجیب وغریب نشیب وفرازکو ہم نے عبورکیاہے اس راستے کو طے کرنے میں تائيد الہی ہمارے شامل حال رہی ہے ،خود امام خمینی کابھی اسپر ایقان و ایمان تھا میں نے خود ان کی زبانی سناتھا۔ وہ فرمایاکرتے تھے کہ میں انقلاب کے آغازسے ہی اس بات کا احساس کررہاہوں کہ ہر مقام پر راہ راست دکھانے اور ہدایت کرنے والا غیبی ہاتھ ہماری مدد کررہاہے اوریہ ہاتھ ہمارے آگے آگے چل رہاہے نتیجتا راستے ہمارے لئے آسان ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ واقعی ایک حقیقت تھی کہ خداوند عالم نے ہماری سعی و کوشش اور خلوص و رغبت کے عوض ہماری مدد فرمائی تھی۔ یہ ہدایت و تائيد الہی غافل انسان کو میسرنہیں ہوتی۔ اسی مناجات شعبانیہ میں ارشادہوتاہے کہ دل کی آنکھ کو منورکرنا اور بیدار دل کے لئے حقائق کو روشن کرنا اور مومن کو چشم بصیرت عطاہونا یہ سب مفت اوربلاسبب انجام نہیں پاتا۔ بغیرجدوجہد اور سعی وکوشش کے خدا سے ارتباط ممکن نہیں ہوپاتا [28]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دس سالہ دورایک انقلابی معاشرے کا نمونہ
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کایہ دس سالہ دور ایک انقلابی معاشرے کا بہترین نمونہ ہے ۔ امام خمینی کی حیات مبارک کے آخری دس سال ہمارے انقلابی معاشرے کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل ہے اورانقلاب کا اصلی راستہ وہي ہے جو امام خمینی نے ہمیں دکھایا۔ خام خیالی میں مبتلا ہمارےاندھے دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ امام خمینی کی رحلت کے بعد وہ انقلابی راستہ بھی معاشرے سے رخصت ہو جائے گا جس کے بانی امام خمینی تھے۔ امام خمینی ہمیشہ زندہ رہنےوالی حقیقت کانام ہے ۔ ان کا نام اس انقلاب کاپرچم، اور ان کی راہ اس انقلاب کی راہ ، اور ان کے اہداف اس انقلاب کے اہداف ہيں۔ امام خمینی کی امت اور ان کے شاگرد جو اس ملکوتی وجود کے سرچشمہ سے سیراب ہوئے ہیں اورجنھوں نے اپنا اسلامی عز و شرف اسی ذات سے حاصل کیا ہے اس وقت اس بات کامشاہدہ کررہے ہيں کہ دوسری مسلمان اور غیر مسلم قوميں بھی اس عظيم قائد و رہنما کی انقلابی تعلیم کے نسخے کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ رہی ہیں اور انھوں نے اپنی آزادی و سربلندی اسی راہ میں پائی ہے۔ آج اس دور کی اس بے مثال تحریک کی برکت سے پوری دنیاکے مسلمان بیدار ہو چکے ہيں اور ظالمانہ تسلط کے شاہی محل کھنڈرات میں تبدیل ہورہے ہیں۔ قوموں نے قومی تحریک کی اہمیت کو درک کرلیاہے اور انھوں نے شمشیر پر خون کے غلبے کا تجربہ کرلیاہے دنیا والوں کی نظریں ایران کی شجاع قوم پو ٹکی ہوئي ہیں [29]۔
اسلامی جمھوریہ کی تشکیل کے بنیادی عناصر
اسلامی جمھوری نظام کی تشکیل کا ایک بنیادی عنصر اسلام پسندی اور مستحکم اسلامی اور قرآنی بنیادوں پر تکیہ ہے- امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام پرتکیہ کیا اور اسلام کے نام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس بات پر ان کا اصرارتھا کہ ملک کے تمام سرکاری محکموں اورسماج کے اندر اسلامی قوانین اوراصولوں کو حقیقی معنای میں نافذ کیا جائے البتہ یہ ایک طویل المیعاد کام تھا۔ امام بھی اس کو جانتے تھے کہ مختصر سے عرصے میں یہ مقصود حاصل نہيں کیا جاسکتا ، امام نے راستہ کھلا رکھا اوراپنی تحریک شروع کردی اور سمت کی بھی نشاندہی فرمادی اور سب یہ سمجھ گئے کہ تمام معنی میں اسلامی تعلیم اور اسلامی احکامات کی جانب ہی رخ کرنا ہے اور معاشرے و نظام کو اسلامی معاشرہ اورنظام بناناہے تاکہ انصاف قائم کیا جاسکے غربت کا خاتمہ ہو بدعنوانیوں کوجڑسے اکھاڑ پھینکا جائے اور قوم کوجو مسائل اور مشکلات در پیش ہیں ان کا ازالہ ہو۔ دوسراعنصر جس پر امام خمینی بہت زیادہ توجہ فرماتے تھے وہ عوامی عنصرتھا - امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے عوامی نظام پر یقین رکھتے تھے جو صحیح معنوں میں اسلامی ہو اورجس کا بنیادی عنصر عوام ہوں۔ وہ عوام کو تمام موقعوں اور مرحلوں پر خاص توجہ کا مرکزقراردیتے تھے پہلاموقع نظام کی تشکیل کا تھا اس موقعے پر آپ نے فرمایا کہ نظام ایسا ہونا چاہئے جسے عوام پسند کرتے ہوں اور جس سے وہ راضی ہوں۔ دوسرا مرحلہ عوام کے سلسلے میں حکام کی ذمہ داریوں کا تھا - تیسرا مرحلہ ملک کی ترقی وپیشرفت میں عوام کے افکارونظریات اور تعاون سے استفادے کا تھا یعنی یعنی عوام کی صلاحیتوں کا نکھارا جائے اور پھر اس سے استفادہ کیا جائے۔ اسی طرح عوا م کوہمیشہ تمام امور سے آگاہ اور باخبر رکھا جائے - تیسراعنصر جوامام کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا وہ نظم ونسق کا عنصر تھا یہی وجہ تھی کہ انقلاب کی کا میابی سے قبل ہی امام نے حکومت کا تعین کردیاتھا - چوتھا بنیادی عنصرجسے امام نے اسلامی جمھوری نظام کی بنیاد قراردیا اوربحمد اللہ جس کی وجہ سے یہ نظام باقی ہے وہ دشمن کے مقابلے میں استقامت اورتسلط کوقبول نہ کرناہے۔ امام نے ایک لمحے کے لئے بھی دشمن کے مکروحیلے سے خود کوغافل نہیں رکھا اورنہ حکام کو غافل ہونے دیا [30]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا بے مثال فن
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا کارنامہ اور ہنر قوم کی مدد سے اپنی تحریک کے ذریعے اس سیاسی نظام کاخاتمہ کرنا تھا جو ایک بے ضمیر اور پٹھو شاہی نظام تھا وہ ایک ایسا نظام تھا جس کے حکام اورعہدیداروں کو نہ تو قوم کے جوانوں کے مستقبل کی کوئي فکر تھی نہ ہی ملک کی خود مختاری سے کوئي دلچسپی۔ رفاہ عامہ کے امور تو ان کے نزدیک درخور اعتنا ہی نہیں تھے۔ ملک کا نظم و نسق ایسا تھا کہ اسے نظم و نسق کا نام دینا مناسب نہیں جبکہ یہ وہ نظم و نسق تھا جس کی تھئوری دوسرے ملکوں سے درآمد کی گئي تھی یہ ایک خالص ڈکٹیٹرشپ اورآمرانہ نظام تھا ۔ ایسا نظام جومختلف عناوین اورگوناگوں روشوں سے کہ جن میں سے کوئی بھی روش عوا م کے عزم وارادے کی آئینہ دارنہ تھی اورکوئی بھی روش ملک کے مفاد میں بھی نہ تھی ،چلایاجارہاتھا ۔ انقلاب سے قبل اس وابستہ اور پٹھو نظام میں جوبالکل ناکارہ تھا عوام برائیوں اور بے راہ روی میں گھرے ہوئے تھے یا دوسرے لفظوں میں اور بہترانداز میں کہا جائے کہ عوام کواخلاقی برائیوں بے راہ روی اورخود فریبی وبے ایمانی کی ترغیب دلائی جاتی تھی ۔ یعنی عوام کواس راستے پر لگایا جاتا تھا کہ روز بروز ملک میں بے ایمانی بدعنوانی اوربرائی کا دور دورہ رہے اورلوگ حقیقی ایمان سے بے بہرہ ہو کر رہ جائیں اوربے راہ روی واخلاقی برائیوں میں گھرتے چلے جائیں اغیارکے مقابلے میں احساس کمتری میں اضافہ ہوتا جائے، ملک میں ثقافتی اوراقتصادی خود مختاری کا کوئي مفہوم ہی نہ رہ جائے ۔ اس فاسد و ناکارہ نظام کی بنیادی تصویر یہی تھی - اس صورت حال میں امام خمینی (رہ)کا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ اس فاسد نظام کی جگہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں عوام سے تغافل کے بجائے ان سے محبت اورعشق کیاجانے لگا۔ قوم کی تقدیر سے لاپروائی کے بجائے ان کی تقدیرو مستقبل پرسب سے زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ عوام اورجوانوں کے مستقبل کو نصب العین قرار دیا گیا۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں عوام کے اندر احساس کمتری کے بجائے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ سیاسی، سماج، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں غیروں کی تقلید کرنے کے بجائے خلاقیت اور مقامی تعمیری صلاحیتوں کا مظاہر کیا گیا [31]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد تھے اس عظیم انسان نے انقلاب کا خاکہ کھینچنے اوراس انقلاب کی بنیادپر ایک نئے سیاسی نظام یعنی اسلامی جمھوریہ کی تشکیل میں پرودگار عالم کے فضل و کرم اور ہدایت الہی سے ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبروں اورسرچشمہ غیب سے متصل بندگان خدا کی روش تھی ۔ یہ اس لئے ہے کہ امام قرآن سے خاص انس رکھتے تھے اور مکتب قرآن کے قابل فخر شاگرد تھے جب بھی کوئي موقع آیا آپ نے قرآن سے مدد لی۔ آپ قرآن کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے تھے ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دوسری اہم بات جسے میں آج آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کرناچاہتاہوں اورمختصرا عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ اس طرح کی عظيم تحریک عام طورپر رجعت پسندی یا پسپائی جیسے مسائل سے دوچارہوجاتی ہیں۔ اس طرح کے عظيم کارناموں کے سامنے رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں۔ رجعت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ کوئي شخص اسلام کےاصولوں اورفقہ اسلامی کے تناظر میں معاشرے کی تشکیل کرے لیکن وہ ظواہر پر ہی اکتفا کرلے اور اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی چاشنی اور معنوی کشش سے نا بلد رہے اور اس کا تشکیل کردہ نظام کسی قوم کسی ملک کے مسائل کے حل پر قادر نہ ہو۔ دیکھئے اسلامی تعلیمات کی ہر انسان کو ہر آن ضرورت رہتی ہے اب اگر اسلامی نظام کو تشکیل دینے والا شخص ان اصولوں، احکام اور تعلیمات سے بے خبر ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اگرایک ایسے سیاسی نظام کے سربراہوں کی حالت جواپنے نظام کواسلامی بنیادوں پر استوارکرنے کے دعوے کرتے ہیں ایسی ہوگي تویقینی طور پر اسلام بدنام ہوجائے گا اور اسلامی احکام و معارف کا لازوال سرچشمہ معاشرے کو سیراب نہیں کر سکے گا ۔ امام نےخود کواس آفت سے مبراکرلیاتھا ۔دوسری آفت وبلا جواس طرح کے مواقع پر حکام اورعہدیداروں کو خطرات سے دوچارکرتی ہے وہ موقف سے پسپائی ہے یہ ایک خطرہ ہے یہ ایک بڑاخطرہ ہے جو صاحبان فکر و نظر کو لاحق رہتا ہے۔ امام خمینی(رہ) اس آفت کے مقابلے میں پہاڑ کی مانند ڈٹے رہے اورکوہسارکی مانند ثابت قدم رہے (کالجبل لاتحرکہ العواصف ) امام اس نظام کی تشکیل اور چھوٹے بڑے تمام امور میں ہمیشہ ثابت قدم رہے [32]۔
محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کے سپاہی
محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کا لشکر ہیں اور یہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کا شاخصانہ تھا۔ دو چیزیں اس انقلاب کا گرانقدر سرمایہ تھیں اورہيں۔ ایک یہ ہے کہ انقلاب کا نصب العین اسلام اور دوسرے انقلاب کے سپاہی اوراس انقلاب کا لشکرمستضعف، ومحروم طبقہ اورجوان نسل ہے ۔ انقلاب کو مستضعف اورغریب طبقے نے کامیابی سے ہمکنارکیاہے اور آٹھ سالہ طویل جنگ کو اس مملکت کے جوانوں نے فتح مبیں میں تبدیل کر دیا اورآج بھی ہمارے جوان اللہ اوراس کے دین کی راہ میں قدم بڑھارہے ۔آج بھی اگر انقلاب کوکوئی خطرہ لاحق ہوگا توسب سے پہلے میدان میں جولوگ اتریں گے وہ ہمارے نوجوان ہوں گے ۔دینی تعلیمی مراکز کے نوجوان یونیورسٹیوں کے نوجوان پورے ملک کے نوجوان اورمختلف طبقوں سے تعلق رکھنےوالے نوجوان اورافراد ہوں گے جواس انقلاب کی حفاظت کے لئے میدان میں قدم رکھیں گے ۔امام خمینی اپنے پورے وجود کےساتھ اسلام کے شیدائی تھے اور آج سب لوگ پورے وجود کےساتھ امام کوچاہتے ہيں۔ امام کی باتیں بہت ہی صاف وشفاف ہیں ان کے کلمات واضح کلمات ہيں ان کے کلمات قرآنی جھلک ہے ۔ امام کے خطابات اوران کی باتیں آج بھی فضا میں گونج رہی ہیں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ اپنے امام کے ساتھ امت کا دائمی میثاق ہے۔ سب کوچاہئے کہ ان کی ان باتوں کوصحیح طریقے سے درک کریں اوران میں غور و فکر کریں تاکہ امام کی راہ کو صحیح طور پر پہچان سکیں اوراس میں کوئي غلطی نہ کریں ۔جولوگ امام سے محبت کادم بھرتے ہيں لیکن امام کے افکار ان کی راہ و تعلیمات سے دور ہیں ہو امام خمینی(رہ) کے شیدائي نہیں کہے جا سکتے [33]۔
سماجی انصاف اورعوام پراعتماد
میں چند اہم باتیں جنہیں ہم امام کی راہ و روش سے تعبیرکرتے ہيں یہاں پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ باتیں ہمیشہ امام کے پیش نظر رہتی تھیں، ان میں پہلے مرحلے میں تو اسلام ہے۔ امام اسلام سے بڑھ کرکسی بھی چیزکواہمیت نہيں دیتے تھے ۔ امام کی تحریک اورانقلاب اسی اسلام کی حاکمیت کے لئے ہی تھا اورعوام نے بھی کہ جنھوں نے اس نظام کوقبول کیا انقلاب برپا کیا اورامام کو( رہبر ) تسلیم کیاتھا وہ سب اسلامی جذبے کے تحت تھا - سب سےپہلی چیزجوامام کی نظرمیں اوران کے مشن میں سب سے اہم تھی وہ اسلام کے احکامات پر عمل آوری اورایمان وعمل کے میدان میں اسلام کی حاکمیت تھی ۔ دوسری بات عوام پر تکیہ اوراعتماد ہے ۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ۔ کسی کو بھی اسلامی نظام میں عوام ،عوام کی رائے اورعوام کی خواہشات کونظراندازنہیں کرناچاہئے ۔ کچھ لوگ اب عوام کی رائے کوقانون اورجوازکی بنیاد قراردیتے ہيں کم ازکم عوام کی رائے کوقانون اورجوازکی بنیاد تومانتے ہيں ۔عوام کی رائے کے بغیر،عوام کی مشارکت کے بغیر اورعوامی خواہشات کا احترام کئے بغیر اسلامی نظام کا خیمہ اوراس کا ستون ٹھہرنہیں سکے گا اوراس کی بنیاد مضبوط نہیں ہوسکے گی ۔ البتہ عوام ، مسلمان ہيں اورعوام کا یہ ارادہ اوران کی خواہشات بھی اسلامی احکامات وقوانین کے دائرے میں ہی ہیں۔ امام کے مشن کی تیسری خصوصیت سماجی انصاف کاقیام اورمحروم ومستضعف افراد کی مدد کرناہے کہ امام انہی لوگوں کواس انقلاب کا وارث اوراس ملک کا مالک سمجھتے تھے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ غریب طبقے کواس انقلاب کی کامیابی کا سب سے اہم عنصر سمجھتے تھے - ایک اورعنصر دشمن کوپہچاننا اوردشمن کے فریب میں نہ آناہے دشمن کا پہلاکام یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈہ کرتاہے کہ کوئی بھی دشمن نہيں ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی نظام کاکوئی دشمن نہیں ہے ؟ اس اسلامی نظام نےعالمی لٹیروں کوجوسالہاسال اس ملک کی دولت کولوٹتے رہے اس سنہری موقع سے محروم کردیاہے۔ ظاہرہے کہ وہ دشمن تو ہوں گے ہی ۔ اورہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ ہم سے دشمنی کررہے ہيں ۔ پروپیگنڈوں میں ، اقتصادی پابندیوں میں اورجہاں جہاں بھی ان سے ممکن ہوتاہے ہمارے نظام کے خلاف دشمنی کرتےہيں اوریہ بات وہ کھل کرکہتےبھی ہیں [34]۔
تمام اصولوں کا محور اسلام اورعوام ہيں
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کے تمام اصول وقواعد کامحور دو چیزیں تھیں ۔ایک اسلام اوردوسرے عوام ۔ عوام پراعتماد کانظریہ بھی امام نے اسلام سے حاصل کیا ۔ یہ اسلام ہے جو قوموں کے حقوق ، ان کی آراء ، اور عوامی جہاد کے اثر اور اس کی اہمیت پر تاکید کرتاہے۔ اسی لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشن کا محوراسلام اورعوام کوقراردیاتھا ۔ یعنی اسلام کی عظمت عوام کی عظمت ، اسلام کااقتدارعوام کااقتدار، اسلام کا ناقابل تسخیررہناعوام کا ناقابل تسخیررہناہے [35]۔
امام کے سیاسی مکتب فکر کی شناخت
میں امام کے سیاسی مکتب فکر پر تکیہ کرناچاہتاہوں ۔امام کا سیاسی مکتب فکر ان کی پرکشش شخصیت سے جدانہیں ہوسکتا ۔امام کی کامیابی کارازاس مکتب فکر میں پنہاں ہے جسے انھوں نے متعارف کرایاہے اورجسے انھوں نےایک نظام کی شکل میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ البتہ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب عوام کے ہاتھوں کامیاب ہوا اورایرانی عوام نے اپنی بے پناہ توانائیوں اورصلاحیتوں کا مظاہرہ کیا لیکن امت امام کے بغیر اوران کے سیاسی مکتب فکر کے بغیر اس عظیم کام کوانجام دینے پر قادرنہیں تھی ۔ امام کا سیاسی مکتب فکر ایک ایسا باب وا کرتا ہے کہ جس کا دائرہ اسلامی نظام کی تشکیل سے بھی کافی وسیع ہے ۔ وہ سیاسی مکتب فکر کہ جسے امام نے پیش کیا اورجس کے لئے جدوجہد کی اس میں دنیاوالوں کے لئے ایک نئی بات ہے اوراس کے ذریعہ انھوں نے دنیاوالوں کے سامنے ایک نئی بات رکھی اور نئي راہوں کی نشاندہی کی۔ اس مکتب فکر میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں کہ انسانیت جسے حاصل کرنے کے لئے بے قرار ہے اسی لئے یہ باتیں کبھی بھی پرانی نہيں ہوں گی ۔ جو لوگ کوشش کررہے ہيں کہ امام کوایک ایسی شخصیت کے طور پرپیش کریں جوتاریخ کاحصہ بن چکی ہو اورجو ماضي کی بات بن چکی ہے وہ اپنی اس کوشش میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے ۔امام اپنے سیاسی مکتب فکر کی شکل میں زندہ ہيں اورجب تک یہ سیاسی مکتب فکر زندہ ہے اس وقت تک امام کا وجود، امت اسلامیہ کے درمیان بلکہ بشریت کے درمیان باعث برکت اورجاوداں رہے گا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا سیاسی مکتب فکر بہت سی غیرمعمولی خصوصیات کا حامل ہے ۔میں یہاں پر ان میں سے چند کی جانب اشارہ کرناچاہوں گا ۔ان میں سے ایک خصوصیات یہ ہے کہ امام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت اورسیاست باہم آمیختہ ہيں اورامام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت سیاست سے جدانہیں ہے ، سیاست وعرفان سیاست واخلاق ۔ امام جواپنے سیاسی مکتب فکر کے مجسم نمونہ تھے ان کے اندرسیاست اورمعنویت ایک ساتھ جمع تھی امام کے تمام اعمال وافعال اوران کے تمام اصول خدا اور معنویت کے محورکے گرد گھومتے تھے ۔امام کے اندرسیاست اورمعنویت باہم تھی اور آپ اسی پرعمل کرتے تھے حتی اپنی سیاسی جدوجہد میں بھی وہ اپنامحورمعنویت کوہی قراردیتے تھے ۔ امام کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالی نے دنیا کی احسن تقویم کے معیار پر تخلیق فرمائی ہے اور وہ اس دنیا کو چلانے والا اور اس کا مالک ہے ۔ آپ کا کہنا تھا کہ جو اللہ کی شریعت کی ترویج کے راستے میں قدم بڑھاتاہے الہی سنت اورقوانین الہی اس کی مددکرتے ہيں ۔امام کا یہ یقین تھا کہ (وللہ جنودالسماوات والارض وکان اللہ عزیزاحکیما) امام قوانین شریعت کوہی اپنے اقدام وتحریک کی بنیاد سمجھتے تھے اورقوانین الہی کوہی اپنی تحریک کی علامت سمجھتے تھے ۔امام کا ہر اقدام اور تحریک ملک وقوم کی فلاح وسعادت کے لئے تھے جو اسلامی اورشرعی تعلیمات کی بنیادپرشروع کئے گئے۔ اسی لئے الہی فریضہ ہی امام کی نظرمیں سعادت وبھلائی کی کنجی تھی۔ یہی چیزامام کوبڑے بڑے اہداف تک پہنچانے میں مدد دیتی تھی ۔
دوسری خصوصیات
عوام کے کردارپر پختہ اورسچایقین ۔ اوراسی طرح انسان کی شرافت اورانسان کے ارادے کے فیصلہ کن ہونے کے بارے میں یقین بھی امام کے مکتب فکر کی ایک اہم خصوصیات ہیں۔ امام کے سیاسی مکتب فکر میں انسانی تشخص گرانقدرہے اور انسان عزت و اکرام کے لائق ہے اوراسی طرح انسانی تشخص طاقتوربھی ہے اورکارسازبھی۔ انسانی تشخص کوگرانقدراورباشرف سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی معاشرے کا نظم ونسق چلانے میں عوام کی آراء بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہیں ۔ ہمارے عظیم امام کے سیاسی مکتب فکر میں عوام کی رائے کا احترام یا جمھوریت، اسلامی تعلیمات سے اخذ کی گئی تھی اوریہی حقیقی جمھوریت ہے ، امریکی یا وہ جمھوریت نہيں ہے جس میں عوام کونعروں کے ذریعے محض فریب دیاجاتاہے اورلوگوں کےذہنوں کواغواکیاجاتاہے ۔ امام کے سیاسی مکتب فکر کی تیسری خصوصیت ، اس مکتب فکر کا عالمی اوربین الاقوامی زاویہ نگاہ ہے۔ امام کےکلام میں مخاطب انسانیت ہے نہ فقط ملت ایران ۔ ایران کی قوم نے امام کے اس پیغام کودل کی گہرائیوں سے سنا، قبول کیا اوراس پرعمل کیا اس کے لئے جدوجہدکی اور وہ اسی کے سایہ میں عزت وخودمختاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ پیام تمام بشریت کے لئے ہے ۔ امام کا سیاسی مکتب فکر ، پوری امت اسلامیہ اورپوری انسانیت کے لئے فلاح و بہبود اور عزت و خود مختاری کا ضامن ہے، یہ ایک مسلمان انسان کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے اور ساتھ ہی اس کے کاندھے پر بڑی ذمہ داری بھی ، البتہ امام میں اوران لوگوں میں جواپنے آپ ہی اپنے لئے عالمی ذمہ داری کے قائل ہیں یہ فرق ہے کہ امام کا سیاسی مکتب توپ ٹینک اسلحہ اورشکنجہ کے ذریعہ کسی قوم کواپنا پیرونہیں بناناچاہتا ۔ امریکی کہتےہيں کہ ہماری ذمہ داری عالمی سطح کی ہے اور ہم دنیامیں جمھوریت اورانسانی حقوق کا قیام و فروغ چاہتے ۔ کیا ڈیموکریسی کو پھیلانے کا طریقہ یہی ہے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم گرایاجائے؟ اسی طرح لاطینی امریکہ اورافریقہ میں حکومتوں کے خلاف بغاوت اورجنگ کی آگ بھڑکائی جائے؟ آج بھی مشرق وسطی میں فریب کاری، سازش اور ظلم و ستم کابازارگرم ہے۔ وہ اس طرح سے انسانی حقوق اوراپنی عالمی ذمہ داری کوپوراکرناچاہتے ہيں ۔جبکہ اسلام کاسیاسی مکتب فکر ذہن انسانی کو اعلی افکار و نظریات سے معمور اور نسیم بہاری کی مانند فضا کو معطر کر دیتا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی مکتب فکر کی ایک اوراہم خصوصیت، اقدار کی پاسداری و حفاظت ہے کہ جسے امام نے ولایت فقیہ کے مسائل بیان کرتے وقت واضح کردیا ہے ۔ اسلامی انقلاب کے آغاز اور اسلامی انقلاب کی کامیابی واسلامی نظام کی تشکیل کے بعد سے ہی بہت زیادہ کوشش ہوئی کہ ولایت فقیہ کے مسئلہ کو گمراہ کن انداز میں اورحقیقت کے برخلاف پیش کیا جائے۔ اسلام کے سیاسی نظام سے مختلف اور امام کے سیاسی نظريئے کے بالکل منافی مطالبات اور توقعات جو آپ دشمن سے مرعوب عناصر کی زبانی سنتے ہیں یہ کوئی نئي بات نہیں ہے شروع سے ہی یہ لوگ دوسروں کے کہنےمیں آکر اس طرح کی باتیں کرتے آئے ہیں ۔ امام کے سیاسی مکتب فکر کی پہچان کے عنوان سے آخری بات جو میں یہاں بیان کرناچاہتاہوں وہ سماجی انصاف ہے۔ سماجی انصاف امام کے سیاسی مکتب فکر کا ایک بہت ہی اہم عنصر اورخصوصیت ہے ۔ حکومت کے تمام پروگراموں، قانون سازی اوراس پر عمل درامد، عدالتی امورغرضیکہ ہرجگہ آپ نے سماجی انصاف و مساوات کومد نظر رکھا اورآپ اس سلسلے میں سماجی اورطبقاتی شگاف کوپر کرنے پر بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ امام کے سیاسی مکتب فکر کا یہ خاصہ تھا [36]۔
ایرانی عوام کی فلاح وسعادت کی راہ ہماری راہ ہے
جیسا کہ اس عظیم مردمجاہد نے ہمیں بتایاہے یہ راستہ استقامت اوراسلامی نظام کے اہداف کے حصول کاراستہ ہے ۔ امام کے دروس اور ان کی وصیت کے مطابق قوم کاراستہ یہی ہے ۔ پورے ایران میں ہمارے بھائي بہنیں توجہ دیں کہ ایرانی عوام کی سعادت کی راہ اسلامی و الہی احکام سے تمسک ہے۔ ایرانی قوم کی سعادت کا راستہ اپنے صلاحیتوں پر بھروسہ اوراپنی توانائیوں اوراستعداد پریقین ہے قوم کی فلاح کاراستہ عالمی تسلط پسندطاقتوں سے قطع امید کا راستہ ہے اورساتھ ہی ان سے بے خوفی کا درس دیتا ہے ۔ نہ تو ان سے ذرہ برابر خوف کھائيے اورنہ ہی ان سے ذرہ برابرامید رکھئے ۔ عزیزان گرامی ، اس اسلامی انقلاب نے جو سب سے بڑا ہدیہ قوم کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے بد عنوان پٹھو حکومتوں کے شر سے ملک و قوم کو نجات دلائی جو برسہا برس تک ظلم و ستم کے نشانے پر تھے اور اپنے قدرتی ذخائر کو غیروں کو ہاتھوں لٹتا دیکھ رہے تھے۔ آج خداوندعالم کے فضل وکرم سے ملک ( کا انتظام ) چلانے والے خود اسی ملک کے لوگ ہيں آج ہماری قوم کی ہمت و شجاعت اور فہم و فراست سے ملک میں عوام کی منتخب کردہ حکومت بہترین شکل میں ملک کا نظم نسق چلا رہی ہے [37]۔
ایرانی عوام کے کارناموں کے عظیم ثمرات
اگرایرانی قوم چاہتی ہے کہ عزت وشرف کی راہ کو جاری رکھے تو کامیابی اس کا مقدر ہوگی جیسا کہ بحمداللہ ان چند برسوں میں اسلامی جمھوری نظام کے پرتو میں خدمت گزار حکام کی کوششوں سے مختلف میدانوں میں پیش رفت ہو رہی ہے اورترقی وپیشرفت کےثمرات دیکھے جارہے ہيں ۔ اگرایرانی قوم چاہتی ہے کہ یہ ترقی وپیشرفت اسی طرح سے جاری رہے اور قوم رفاہ وآسائش میں زندگی گزارے اورکسی بلند مقام پر پہنچے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمنوں اور استکباری طاقتوں کے مقابلے میں استقامت اور پائمردی دکھاتی رہے۔ ایرانی عوام نے گزشتہ چند برسوں میں بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ہيں اوراس کے ثمرات بھی حاصل کئے ہيں اسی لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ ان ثمرات کاتحفظ کرے۔ ایرانی قوم اوربالخصوص حکام کوچاہئے اوران کی ذمہ داری ہے کہ اپنی تدبیر، دانشمندی، اور فہم و فراست سے ایرانی عوام کے ان گرانقدرثمرات کو ضائع ہونے سے بچائے خواہ وہ کامیابیاں جو براہ راست انقلاب کے ذریعہ قوم کو ملی ہیں، جیسے عوامی حکومت، عوامی صدر، عوامی نمائندے وغیرہ یا وہ ثمرات جوانقلاب سے متعلق ہيں مگربالواسطہ طورپراس قوم کو دئے گئے ہيں جیسے ملک کی تعمیر و ترقی کہ یہ سب انقلاب کی برکت کانتیجہ ہے اورانقلابی عناصر نے ان کارناموں کو انجام دیا ہے اور جو سارے بنیادی کام مختلف شعبوں اورمیدانوں میں انجام پائے ہيں اس طرح کے ثمرات کو ایرانی عوام اورحکام کو چاہئے کہ محفوظ رکھیں اور دل وجان سے ان کی حفاظت کریں، یہ بات ظاہر ہے کہ ان ثمرات کی حفاظت اور مزید ثمرات اورکامیابیوں کے حصول کاراستہ یہ ہے کہ ملت ایران اور ایران کے حکام اس راہ کو جس کی نشاندہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عمل کے ذریعہ کی ہے یعنی دشمنوں کے مقابلے میں استقامت اورپائمردی کا راستہ اور ملک کے باہر جو لوگ دریدہ دہنی کررہے ہيں ان کی دریدہ دہنی کے مقابلے میں ثابت قدمی کا راستہ، اس سے کبھی بھی منحرف نہ ہوں۔ یہ جو بار بار کہا جا رہا ہے کہ (امام کی راہ) سےکیامراد ہے ؟ اگرہم کہیں کہ امام کا راستہ اسلام وانقلاب ہے تو یہ ایک کلی بات ہے یہ بات تو ا ظہرمن الشمس ہے کہ امام کا راستہ اسلام وانقلاب کا ہے اورکوئی بھی شخص اسلام وانقلاب کامخالف نہیں ہے ۔ وہ عامل جو امام بزرگوار کے مقصود کو جو انقلاب کے معمار اور بانی ہيں صحیح طور پر پیش کرتا ہے استقامت ہے جسے انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا تھا اورجس کا انھوں نے مظاہرہ کیاتھا وہ دشمن کے مقابلے میں سرموبھی پیچھے نہيں ہٹے، دشمن سے ذرابھی نہيں ڈرے اور دشمنوں کی دھمکیاں ان کے ارادوں میں معمولی سا بھی خلل ایجاد نہ کرسکیں [38]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر اور انقلاب کے ثمرات و برکات
آپ وہ روح اللہ تھے کہ جنھوں نے موسوی عصا اور یدبیضاء اورمصطفوی بیان وفرقان سے مظلوموں کی نجات کی راہ ہموار کی، انھوں نے وقت کے فرعونوں کے تخت وتاج کولرزہ براندام کردیا اورکمزوروں کے دلوں کو نورامید سے روشن ومنور فرمایا، انھوں نے لوگوں کو وقار اور مومنوں کو عز و شرف عطا کیا اور مسلمانوں کو قوت و شوکت اور مادی وبے روح دنیا کو روحانیت و معنویت عطا کی اور عالم اسلام کو بیداری اور مجاہدین فی سبیل اللہ کو شجاعت ودلیری اور درس شہادت دیا۔ انھوں نے طاغوتی بتوں کو پاش پاش کردیا اور شرک آلود اعتقادات کو کاری ضرب لگائي، آپ نے پوری دنیا کو یہ سمجھا دیا کہ انسان کامل ہونا حضرت علی کے نقش قدم پر چلنا اور عصمت کی سرحدوں کے قریب تک پہنچ جانا کوئی افسانہ نہیں ہے۔ انھوں نے قوموں کو بھی یہ باور کرا دیا کہ خود اعتمادی کے ساتھ تسلط پسندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا ممکن ہے ۔ قرب حق کی چمک صاحبان بصیرت نے ان کے چہرہ منور پر دیکھی ہے اور ان کی حیات و ممات کے دوران ان پر نازل ہونے والی الہی نعمات و برکات سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی دعائیں مستجاب ہوتی تھیں آپ کہتے تھے ( الہی لم یزل برّک علیّ ایام حیاتی ، فلاتقطع برّک عنی فی مماتی ) [39]
امام خمینی (رہ) کے دس عظیم کارنامے
امام خمینی (رہ) کاپہلاعظیم کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلام کو حیات نو عطا کی۔ گزشتہ دوسو برسوں سے سامراجی مشینریوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کوفراموش کردیاجائے۔ برطانیہ کے ایک وزیر اعظم نے دنیاکے سامراجی سیاستدانوں کے اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ اسلام کو اسلامی ملکوں میں گوشہ نشین کردیں۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد اس کام کے لئے بےپناہ پیسے خرچ کئے گئے تاکہ اسلام پہلے مرحلے میں لوگوں کی زندگی سے ختم ہوجائے اوردوسرے مرحلے میں لوگوں کے دل و دماغ و ذہن سے نکل جائے کیونکہ سامراجی طاقتوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ دین بڑی طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے امام نے اسلام کودوبارہ زندہ کیا اسلام کوانھوں نے لوگوں کے ذہنوں اورعمل میں اوراسی طرح دنیاکے سیاسی میدان میں اتارا ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا بڑا کارنامہ مسلمانوں کے وقار کو بحال کرنا تھا امام خمینی کی تحریک کے نتیجے میں پوری دنیاکے مسلمانوں نے عزت وسربلندی کااحساس کیا اور اسلام محدود بحثوں سے نکل کر باقاعدہ سماجی اور سیاسی میدان میں وارد ہوا۔ ایک بڑے ملک کے ایک مسلمان شخص نے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں مجھ سے کہاکہ اسلامی انقلاب سے پہلے میں خود کو کبھی بھی دوسروں کے سامنے مسلمان ظاہر نہيں کرتا تھا ۔ اس ملک کے رسم و رواج کے مطابق سبھی لوگ وہاں کے مقامی نام رکھتے ۔ اگرچہ گھرکے اندرمسلمان اپنے بچوں کے نام اسلامی رکھتے لیکن گھرکے باہر وہاں کا مقامی نام پکاراجاتا اور اسلامی نام کوگھرکے باہرظاہرکرنے کی جرات نہ ہوتی تھی اوراس کو بتانے سے گریز کیا جاتا تھا ہم خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے احساس شرمندگی کرتے ، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمارے یہاں کے لوگ بڑے فخر کے ساتھ اپنا اسلامی نام ظاہر کرتے ہيں اور اگر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا ہیں اور آپ کون ہیں تو فخر کے ساتھ پہلے اسلامی نام بتاتے ہیں۔ بنابريں امام نے جوبڑاکارنامہ انجام دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت کا احساس ہونے لگا اوروہ اپنے مسلمان ہونے اور اسلامی کی پیروی کرنے پر فخر کرنے لگے۔ امام خمینی کاتیسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے مسلمانوں میں امت واحدہ کے جز ہونے کا احساس دلایا۔ اس سے قبل مسلمان جہاں بھی تھا اس کے لئے امت اسلامیہ کی کوئي اہمیت نہیں تھی آج تمام مسلمان پورے ایشیاء میں پورے افریقہ میں ، مشرق وسطی سے لے کریورپ تک اوریورپ سے لے کرامریکہ ولاطینی امریکہ تک اس بات کا احساس کررہے ہيں کہ وہ امت اسلامیہ کے نام کے ایک بڑے عالمی معاشرے کا حصہ ہيں ۔ امام خمینی نے امت اسلامیہ کےتئیں شعور کا احساس جگایا جو عالمی استکبار کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے دفاع کے لئے سب سے بڑا وسیلہ ہے ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا چوتھا بڑاکارنامہ ، علاقے اوردنیاکی ایک بد عنوان ترین حکومت کاخاتمہ تھا یعنی ایران میں شاہی حکومت کاخاتمہ۔ شاہی حکومت کا خاتمہ ان چند بڑے کاموں میں سے ایک ہے جو بالکل سامنے ہیں۔ ایران علاقے اورمشرق وسطی میں استکبار کا سب سے بڑا اورمضبوط قلعہ بن چکا تھا یہ مضبوط قلعہ ہمارے امام کے دست توانا سے ڈھہ گیا ۔ امام خمینی(رہ )کاپانچواں بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک اسلامی حکومت قائم کی یہ وہ چیز ہے جو غیر مسلم تو غیرمسلم مسلمانوں کے ذہن میں بھی نہيں سماتی تھی اوریہ ایک خوش نماخواب تھا جس کی تعبیر کے بارے میں سادہ لوح مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ امام نے معجزاتی طورپر اس افسانہ کوحقیقت کا لبادہ پہنایا ۔ امام کاچھٹا اہم کام، پوری دنیا میں اسلامی تحریک کا قیام تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل بہت سے ملکوں منجملہ اسلامی ملکوں میں مختلف گروہ، جوان، ناراض عناصر، حریت پسند اور ديگر گروہ بائيں محاذ کی آئیڈیالوجی کے سہارے میدان عمل میں اترتے تھے، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تحریکوں اورحریت پسندانہ قیام کی بنیاد اسلام بن گیا آج عالم اسلام کے وسیع وعريض علاقے میں جہاں کہیں بھی کوئی گروہ حریت پسند تحریک چلاتا ہے اور استکبار کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس کا مبنا اسلام ہی ہوتا ہے اور وہ اسلامی اصولوں کوہی اپنے کام کی بنیاد بناتا ہے اور اس کی فکر اسلامی فکر ہوتی ہے ۔ امام کاساتواں اہم کام، فقہ شیعہ ميں ایک جدید سوچ کو رائج کرنا اور شیعہ فقہ میں نیا نظریہ پیش کرنا تھا۔ ہماری فقہ کی بنیاد بہت ہی محکم تھی اورآج بھی ہے فقہ شیعہ ایک محکم ترین فقہ اوربہت ہی مستحکم اصول وقواعد پر استوارہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مستحکم فقہ کو مزید وسیع دائرے ميں اورایک نئے اندازمیں جو آفاقی اورحکومتی ہے پیش کیا اورفقہ کے متعدد پہلوؤں کوہمارے سامنے واضح و عیاں کیا جو اس سے پہلے عیاں نہیں تھے ۔ امام کا آٹھواں اہم کام ایسےغلط عقائد کو باطل قرار دینا جو انفرادی امور میں رائج تھے ۔ دنیا میں یہ بات مسلمہ ہے کہ جو لوگ سماج کے اعلی منصب پر فائز ہوتے ہيں ان کا مخصوص طور طریقہ ہوتاہے۔ کچھ غرور وتکبر بھی ہوتا ہے عیش و عشرت کی زندگي ہوتی ہے اور اسی طرح ان کا اپناخاص ٹھاٹھ باٹ ہوتاہے اور ان کا اپنا خاص انداز ہوتا ہے۔ اس دورمیں اعلی حکام کے لئے پروٹوکول ہوتاہے اور وہ اپنے لئے اس کو اپنی سرکاری زندگی کا لازمہ سمجھتے ہیں اوریہ سب ایسی باتیں ہیں جن کو دنیا نے آج تسلیم بھی کر لیا ہے کہ جو لوگ اعلی منصب پر فائز ہيں ان کا گویا یہ سب حق ہوتا ہے حتی ان ملکوں میں جہاں انقلاب آیا ہے وہاں کے انقلابی رہنما بھی جو کل تک خیموں اور قناتوں میں زندگی گزارتے تھے اور قید خانوں اورمخفی گاہوں میں روپوش رہتے تھے وہ جیسے ہی حکومت میں آتے ہيں ان کا رہن سہن تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کے حکومتی انداز بدل جاتے ہیں اوروہی سب کچھ انداز ان کا بھی ہو جاتا ہے جو ان سے پہلے کے حکمرانوں کا تھا اور جس طرح سے دنیا کے دیگر سلاطین اور بادشاہوں کا ہوا کرتا ہے۔ ہم نے تو قریب سے یہ ساری چیزیں دیکھي ہيں ہمارے عوام کے لئے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور تعجب کی بات بھی نہيں ہے ۔ امام نے اس طرح کے نظریات وعقائد کوغلط قرار دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ کسی قوم اور مسلمانوں کے محبوب قائد زاہدانہ زندگی کے مالک ہو سکتے ہيں اور سادہ زندگی گزار سکتے ہيں عالیشان محلوں کےبجائے ایک امام بارگاہ میں اپنے ملنے والوں سے ملاقات کرسکتے ہيں انبیاء کی زبان و اخلاق و لباس میں لوگوں سے مل سکتے ہیں۔ اگر حکام اور حکومتی عہدیداروں کے دل نور معرفت وحقیقت سے روشن ہوتے ہيں تو ظاہری چمک دمک، ٹھاٹ باٹ ، اسراف، عیش وعشرت کی زندگی، خودنمائی، تکبر و غرور ، اکڑ اور اس جیسی ديگرتمام باتیں ان کی زمام داری کا جزء نہيں سمجھی جائيں گي ۔ امام خمینی کےمعجزات میں سے ایک یہ تھا کہ وہ اپنی ذاتی زندگي میں بھی اور جب آپ ملک اورقوم کے اعلی ترین رہبر تھے اس وقت بھی نور معرفت وحقیقت ان کے پورے وجود میں جلوہ نما تھا ۔ امام کا نواں اہم کام ملت ایران کے اندر خود اعتمادی اور عزت نفس کا احیا تھا ۔ برادران گرامی ، فرد واحد کی مطلق العنان اور استبدادی حکومتوں نے سالہا سال ہماری قوم کو ایک کمزور قوم میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا وہ بھی ایک ایسی قوم جس کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور صدر اسلام کے بعد سے پوری تاریخ میں اس کا شاندار علمی اورسیاسی ماضی تھا۔ غیر ملکی طاقتوں نے کافی عرصے تک جن میں کبھی انگریزوں تو کبھی روسیوں نے اور اسی طرح یورپی حکومتوں نے اور پھر اس کے بعد امریکیوں نے ہماری قوم کی تحقیر کی ہمااری قوم کو بھی یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اور استعداد نہیں رکھتی۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں وہ کچھ بھی کرنے کی توانائی نہیں رکھتی ، کچھ نیاکرنے اورخلاقیت کے لئے اس کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ دوسرے ہی آئیں اور ان کے لئے کام کریں ان پرحکومت کریں ان سے سخت لہجے میں باتیں کریں اور اس طرح ہماری قوم سے ان کا قومی وقار چھین لیا گيا تھا اور اس کی عزت نفس کا خون کر دیا گياتھا لیکن ہمارے امام نے ایران کے عوام میں قومی افتخار اور عزت نفس کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ ہماری قوم کے اندر فرقہ پرستی اور غرور تکبر نہیں ہے لیکن اس کے اندر عزت و طاقت کا احساس ضرور پایا جاتا ہے ۔ آج ہماری قوم مشرق و مغرب کی مشترکہ سازشوں اور اپنے خلاف کسی بھی طرح کی دھونس و دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتی اور کمزوری کا احساس نہیں کرتی۔ ہمارے جوان اس بات کا احساس کررہے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو اب اپنی اس طاقت و توانائی کا احساس ہے کہ وہ مغرب و مشرق کی دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں،عزت نفس کا یہ احساس اور یہ خود اعتمادی وحقیقی قومی افتخار امام خمینی نے قوم میں دوبارہ زندہ کیا ہے۔ امام خمینی کادسواں بڑاکارنامہ، اس بات کوثابت کرناتھا مشرق اور مغرب کے بلاکوں سے فاصلہ بر قرار رکھنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔ دنیا والے یہ سمجھ رہے تھے کہ یا تو مشرقی بلا ک سے وابستہ ہونا پڑےگا یاپھر مغربی بلاک سے شامل ہونا پڑے گا۔ یا تو اس طاقت کی روٹی کھانی پڑے گی یاپھر ان کی چاپلوسی اورتعریف کرنی پڑے گی یاپھر اس طاقت کا گن گانا پڑے گا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا پڑے گی ۔ لوگ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کوئی قوم کیسے مشرق سے بھی خود کو الگ رکھے اور مغرب سے بھی خود کوالگ رکھے اور دونوں سے بیزاری کا اظہار کرے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی بھی رہ جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی بلاک سے وابستہ نہ ہو اور کسی کے بھی پرچم تلے نہ جائے اور اس دنیامیں اپنانام روشن کرے ؟ مگرامام خمینی نے اس کارنامہ کر دکھایا اور اس نکتہ کو ثابت کر دیا کہ مشرق و مغرب کی طاقتوں پر انحصار کئے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے [40]۔
بسیجی (رضاکار) ہونا ایک افتخار
امام خمینی بسیجی ہونے پرفخرکرتےتھے، جی ہاں امام (رہ) بسیجی ہونے پرفخرکرتے تھے رہبر کبیر انقلاب اسلامی خود کو بسیجی کہتے اور سمجھتے تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ انھوں نےپوری دنیا کو عالمی استکباری طاقتوں اور ظالموں کے مقابلے میں لا کھڑا کیاتھا اور لوگوں بسیجی یا رضاکاربننے کا شوق پیدا کر دیا تھا۔ یعنی سبھی رضاکارانہ طورپر اس فکرکے حامل ہورہے تھے کہ عالمی استکبار اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں۔ امام خمینی نے اپنے اس اقدام سے جابر طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور قوموں کے دلوں میں نور امید کو جو تمام کامیابیوں کی کنجی ہے روشن و منور کر دیا تھا۔ بلا شبہ تمام تر استکباری مشینریاں مل کر اس آبشار کو روک نہیں سکتی جو آپ نے جاری کر دیا اگرچہ وہ پوری قوت وقساوت کے ساتھ امام کے عظیم جہاد کے ثمرات کوختم کرنے میں لگی ہوئی ہيں [41]۔
انقلاب کی صورت میں امام خمینی کی حیات ابدی
جی ہاں ہمارے عظیم قائد امام خمینی (رہ) اگرچہ اس وقت ہمارے درمیان نہيں ہیں جس طرح سے ہمارے شہداء ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن امام بھی اورشہداء بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں اورہماری زندگي وہمارے انقلاب میں زندہ و پایندہ ہیں اور سرگرم و فعال ہيں۔ اس عظیم انسان اور ان کےشہید ساتھیوں کے وجود کااثرفقط ان کے زمانۂ حیات سےہی مختص نہیں تھا اور آپ کے وجود کااثر صرف ایران تک ہی محدود نہيں تھا ۔ آج ان کے وجود اور ان کی مبارک عمر اور اسی طرح سے ان کے شہید ساتھیوں کے وجود مبارک کی بدولت اسلام روز بروز تابندہ و درخشاں ہوتا جا رہا ہے اور تحریفوں، جہالتوں ، اورفتنوں کاابرغلیظ ہر روز چھٹتاچلاجارہاہے۔ جوانقلاب امام خمینی نے برپا کیا اورشہیدوں نے اپنے خون سے جسے لالہ زار بنا دیا اور اسے بوئے گل عطا کی اس وقت پوری دنیامیں مظلوم قوموں کی بیداری، مسلم معاشروں کی حیات نو، معنویت کی بنیادوں کو استحکام بخشنے ، اور دنیا پرستی کاشیرازہ بکھیرنے الغرض حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی میں اس نے خود کوپوری دنیا سے منوایا ہے ۔ انسان کے بام معنویت پر عروج کا پرچم جو آج دنیا کے گوشہ و کنار میں بلند ہے در اصل وہ ہمارے امام اور ان کے شہید ساتھیوں کا پرچم ہے وہ لوگ زندہ ہيں اورہر روز پہلے سے بھی موثر انداز میں اپنے معنی وجود اور زندگی کو پیش کر رہے ہیں [42]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا منفرد فن
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا ہنر و فن اور ان کی بے مثال خدمت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو گوشہ نشینی سے نکالا۔ مسلمان اپنے معاشرے اپنے شہروں اور وطن میں بھی اجنبی اور بیگانے تھے دشمنان اسلام نے اپنی الحادی ثقافت اور اخلاقی برائیوں کی ترویج کے ذریعے اور طاغوتی حکومتوں کو استعمال کرکر مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی چھین لیاتھا۔ ان حالات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغمبر اسلام کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اورجن کے ہاتھوں میں خدا نے الہی قوت عطا کی تھی، اسلام کے چہرے سے اجنبیت کی گرد صاف کی اور پوری دنیامیں ایک بار پھر اسلام کا تابناک چہرہ پیش کیا [43]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ خود اعتمادی کے معمار
انقلاب سے پہلے اورانقلاب کے بعد بھی آپ کا یقین تھا کہ ہم اہم سے اہم کام انجام دے سکتے ہيں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہم کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم خود اپنا کام انجام دے سکتے ہيں ہمیں خودکوشش کرنی چاہئے ہم خود اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے کام کریں ہم خود تعمیروترقی اورمصنوعات کی پیداوار اور استعمال کا اصول وضع کریں کہ جو ہمارے اپنے طور طریقے کے مطابق ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ان باتوں کو تعمیر و ترقی کے دور میں بروئے کار لائیں ہم ہرگز دوسروں کےتجربات سے انکار نہیں کرتے اوران کی اہمیت کے منکر نہيں ہیں۔ جس کے پاس جو بھی ہو علم ہو ٹکنالوجی ہو، وسائل ہوں، تکنیک ہو ، اگرہم ان سے استفادے کے لئے مجبور ہوئے اور ان سے اپنے اہداف کے تحت استفادہ کرسکیں گے تو ایک لمحے کے لئے بھی ان سے استفادے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم ان سب چیزوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کریں اور جتنا بھی ممکن ہو ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ان سے استفادہ کریں اور ہميں چاہئے کہ اپنی پیداوار کو غیرملکی مصنوعات پرترجیح دیں۔ ہمارے لئے اپنی مصنوعات غیر ملکی مصنوعات سے زیادہ مبارک اور بہتر ہیں حتی یہ بھی بہتر ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے اوردوسرے دروازے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں [44]۔
امام خمینی حالات کے ماہر نباض
تعمیروترقی کے محکمے، جہاد سازندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ديگرمحکموں کے مقابلے میں یہ محکمہ امام خمینی (رہ) کی یاد کو زیادہ تازہ کردیتا ہے ۔امام کس قدر اس انقلابی ،مخلص اورکارآمد محکمے کواہمیت دیتے تھے اورکس قدرآپ خوش ہوتے تھے جب یہ سنتے تھے کہ جہادسازندگی کی وزارت نے جنگی محاذ اوردور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں اتناکام کیا اور یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت ان کاوشوں اورکامیابیوں کودیکھ کرپرامید اورخوش و خرم ہو جایا کرتی تھی اس عظیم شخصیت کی بارکی بایں اور نکتہ سنج نگاہ کبھی غلطی نہیں کرتی تھی اورآپ جانتے تھے کہ یہ محکمہ جو مومن وانقلابی عناصر اور فرائض کی ادائگی کے شوق سے سرشار نوجوانوں سے تشکیل پایاہے کس حد تک ملک کے لئے مفید و کارآمد ہے ۔ آپ لوگ جو امام کے عاشق تھے اورآج بھی ان سے عشق کرتے ہيں اورآپ لوگوں کی رگ حیات امام سے متصل تھی اوران سے ارتبا ط کو جہاد کے اصلی تشخص میں گردانتے تھے آپ کوچاہئے کہ ان کی روح کی خوشنودی کے لئے جوملکوت اعلی کو پروازکرچکی ہے اورہمارے اعمال وافعال پر ناظرہے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں اورملک کی ترقی وپیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں [45]۔
نمازجمعہ کاقیام امام خمینی (رہ) کا دوراندیشانہ اقدام
آپ نے قوم کونمازجمعہ کاایک بہت ہی اہم معنوی تحفہ دیاہے۔ برسوں سے ہم نمازجمعہ سے محروم تھے اور اگر کہیں کسی علاقے میں کسی وقت نمازجمعہ ہوتی بھی تھی تو جو تاثیر نمازجمعہ ایک اسلامی حکومت میں رکھتی ہے اس سے وہ عاری تھی اوربعض جگہوں پر نماز جعمہ کے مہتمم افراد ایسے نامناسب افراد تھے کہ جن کا ذکربھی یہاں مناسب نہیں ہے۔ یہ نمازجمعہ کامسئلہ ہے [46]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کی قوت وعزت
آج چند باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جنھيں میں یہاں پر عرض کرناچاہتاہوں اوراس کے بعد ایک نتیجہ اخذ کروں گا جوملت ایران اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اہم ہے ۔ پہلی حقیقت جس کاکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا اور ہر منصف انسان جس کا معترف ہے یہ ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے مسلمانوں کو قوت وعزت بخشی ۔ دشمنان اسلام، اسلام کو کمزورکرنا چاہتے تھے ان کی یہ کوشش تھی کہ اسلام کومیدان عمل سے بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں سے دور کر دیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دشمن اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہيں ۔ اس گندی سیاست میں استکباری طاقتوں سے وابستہ فاسد حکومتوں نے بھی دشمنان اسلام کا ساتھ دیا ہے اوران سے تعاون کیا ہے ۔ امام نے اپنے اس انقلاب سے مسلمانوں کوجوش وولولہ عطاکیا انھیں ہمت وجرات دی اوراسلام کوزندہ کیا۔ آج بہت سے ملکوں میں اسلام، نوجوانوں کی آرزو اور مطمح نظر میں تبدیل ہوچکاہے اوربہت سےروشن فکر افراد اسلام کوگلے لگانےکے لئے بے تاب نظر آ رہے ہيں۔ اس کی ایک مثال فلسطین ہے، برسوں فلسطین کے موضوع پرباتیں ہوتی رہیں اور جدوجہد ہوتی رہی لیکن کوئي نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔ مگرآج ملت فلسطین ، اسلام کےنام پر جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کی طرف سے اسلام کےنام پر جد و جہد کی جا رہی ہے اسی لئے اب یہ جدوجہد تنظیموں، گروہوں، شخصیتوں اورحکام کے دائرے سے نکل کرعوام تک پہنچ چکی ہے اور اس طرح کا جہاد اورجدوجہد کبھی بھی ناکام نہیں ہوگی۔ عوامی جدوجہد اگر جاری رہتی ہے تو بلاشبہ اسے ایک دن ہرحال میں کامیابی نصیب ہوگی یہ اس اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے جسے امام نے دوبارہ زندہ کیا اور جسے آپ نے مسلمانوں کے قلوب میں سنوارا۔ آج شمالی افریقہ کے اسلامی ملکوں میں کچھ گروہ اسلام کے نام پر اورایک اسلامی حکومت کے قیام کے مقصدسے جدوجہدکررہے ہيں ،اور وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں آگے بھی بڑھے ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک سے قبل کس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی ؟ مشرق سے لے کرمغرب تک آج مسلمان بیدار ہو چکے ہيں۔ یورپی اورغیریورپی ملکوں میں جہاں کفر و الحاد کی حکومتیں ہیں مسلمان اپنی اہمیت کا احساس کررہے ہيں مسلمانوں کے اندر اسلامی تشخص اور شناخت پیدا ہو چکی ہے یہ سب کچھ امام اور ان کی اسی عظيم تحریک کی برکت ہے ۔ دور اندیشی، صبر و استقامت امام خمینی (رہ) اور قوم کی کامیابی کا راز دوسری حقیقت یہ ہے کہ جس چیز نے ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ہماری بہادر قوم کو اس عظيم تحریک میں کامیابی سے ہمکنار کیا وہ دوراندیشی و صبر و استقامت تھی۔ ایک ایسی استقامت جس میں بصیرت بھی ساتھ تھی جیسا کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا ۔ علم کی سنگینی کو صرف صاحبان بصیرت و استقامت ہی اٹھاسکتے ہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ آج مقابلہ خالص کفر اور خالص نفاق سے نہیں ہے کہ افکار و نظریات واضح ہوں اور ایک دوسرے کے سامنے محاذ آرائی اور صف بندی بھی آشکارہ ہو، بلکہ آج مقابلہ نفاق ، کھوکھلے دعووں ، مکر و فریب اور جھوٹ سے ہے جسے سامراج نے پورے عالم میں پھیلا رکھا ہے۔ بہت سے لوگ انسانی حقوق کی طرفداری کا دعوی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ، بہت سے لوگ اسلام کا دم بھرنے کا دعوی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ان کا اسلام ، سامراج کی مرضی و منشا کا تابع ہے۔ بہت سے لوگ انسانوں کے بیچ مساوات قائم کرنے کا دعوی کرتے تھے اور کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے تھے اور بولتے ہیں۔ اس لئے آج کل مقابلہ دشوار ہے ، نہ صرف سامراج کی دولت اور طاقت کے سبب بلکہ اس کے تشہیراتی وسائل کے سبب۔ کیونکہ سامراجی طاقتیں اپنے غلط کاموں کا جواز پیش کرنے کےلئے ، پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں۔ بے بصیرت لوگ جلدی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ فریب میں ہیں۔ اپنی اور دشمن کی صف میں تمیز نہیں کرپاتے ۔ ایران میں ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایرانی قوم کی بصیرت سے کہ جس میں صبر اور پائداری بھی ساتھ تھی اس راستہ کو طے کیا اور وہ کامیابی تک پہنچے ۔خود انہوں نے لوگوں میں بصیرت پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جہاں بھی دنیا میں کوئی تحریک چل رہی ہے اور کوئی نیک انسان لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش میں لگا ہے اسے یہ جان لینا چاہئے کہ یہ راستہ صرف اور صرف ہوشیاری اور بصیرت نیز صبر و پائداری سے طے ہوسکتا ہے ۔ مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک کا سرچشمہ اسلامی جمہوریہ ایران تیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، پوری دنیا کے مسلمانوں کی عظیم تحریک کامرکز ہے ۔نہ صرف مسلمان اور محروم و ستم رسیدہ لوگ بلکہ سامراج بھی اس بات کو سمجھ گيا ہے کہ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی اہداف کے لئے تحریک چل رہی ہے اس کا مرکز اسلامی جمہوریۂ ایران ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ساری دنیا میں دشمنی کا رخ ہماری طرف ہے۔ ہم میٹھی باتوں کی آڑ میں چھپی ہوئي دشمنی و کینہ کو پہچانتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ سامراج کواسلامی جمہوریۂ ایران ،ایرانی قوم اور ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی دشمنی ہے۔ دشمن چونکہ ان کےافکار و نظریات کو زندہ دیکھ رہا ہے اس لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اس کی دشمنی میں سرمو فرق نہیں آیا ہے۔ اگر سامراج اور اس کی پروپیگنڈہ مشنری یہ سوچتے کہ وہ انتقال کرگئے اور ان کا زمانہ ختم ہوچکا ہے توکبھی بھی ان سے اور اس کے نام سے اتنی دشمنی نہ کرتے جیسا کہ آج کررہے ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاایران ، انقلاب ایران ،اسلامی جمہوریۂ ایران ، مسلمانوں کی عالمی تحریک کا مرکز ہے اور اس لئے سب کی دشمنی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس چیز سے ہم غمگین ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں، ڈرنے کے بجائے ہمارے حوصلے بلند ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم طاقتور ہیں اور سامراج ، چوروں و لٹیروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ سامراج کی دشمنی سے ہمیں مزيد اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے انقلاب کو آگے بڑھانے اور ملک و سماج کی تعمیر کے لئے جس راستہ کو چنا ہے وہ صحیح اور کامیابی کا راستہ ہے ۔ اگر ہم نے انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور انقلاب و ملک کی مصلحتوں کی سمت میں غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا، تو دشمن، ہم سے اتنی دشمنی نہیں کرتا۔ پوری دنیا میں مختلف طریقوں سے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ ہمیں صراحت کے ساتھ برا بھلا نہ کہیں ، لیکن یہ ان کی دوستی کی علامت نہیں ہے ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے صراحتا ہمیں برا بھلا کہا تو پوری دنیا کی اقوام کے دل ہماری طرف اور مائل ہو جائیں گے ۔ اس لئے وہ سیدھے طور پر برا کہنے کے بجائے ہم پر الزام لگاتے ہیں خود کو ہم سے نزدیک دکھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں، یہ سب ان کے ہتھکنڈے اور خباثتیں ہیں [47]۔
آزادی و خود مختاری، اخلاقیات و روحانیت کے ہمراہ
ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاکمال یہ تھا کہ انہوں نے اس انقلاب کے لئے ایک محکم لائحہ عمل اور اصول و ضوابط بنائے اور انہوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یہ انقلاب بڑی طاقتوں کے زير اثر آجائے اور مسلط کردہ سیاسی دھاروں میں بہہ جائے ۔ نہ شرقی، نہ غربی، جمہوری اسلامی یا خود مختاری، آزادی، جمہوری اسلامی جیسے نعروں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات اور ان کی راہ کو عوام کے لئے واضح کیا اور ان نعروں کے معنی یہ تھے کہ یہ انقلاب ٹھوس اصولوں پر استوار ہے۔ یہ نہ تو مشرقی سوشلسٹ بلاک کے اصولوں سے وابستہ ہے اور نہ ہی مغرب کے لیبرل سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں سے ۔ مشرق اور مغرب کی انقلاب سے دشمنی کا سبب بھی یہی ہے ۔ انقلاب کی بنیاد ٹھوس اصولوں پر ہے، اس میں عدل و انصاف کے نفاذ، ملک کی آزادی و خودمختاری اور معنویت و اخلاق جیسی عوام کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی قدروں پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ انقلاب، انصاف، حریت، عوام کی حاکمیت، روحانیت اور اخلاق پر مشتمل ہے [48]
فراموش شدہ اسلامی اقدار کا احیاء
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے طاق نسیاں کی زینت بن جانے والی اسلامی اقدار کو معاشرے کی عملی زندگی میں شامل کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے اہم جو کام انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے سیاسی اورسماجی پہلوؤں کو زندہ کیا۔جب سے سامراج نے اسلامی ملکوں میں قدم رکھا اس کی تمام تر کوشش یہی تھی کہ اسلام کو سیاست، سماجی مساوات ،حریت پسندی اور خود مختاری کے پہلو سے عاری دکھائے ۔ سامراج و تسلط پسند طاقتوں کو قوموں کو دبانے اور اسلامی ملکوں کے ذخائر پر اپنا تسلط بڑھانے کے لئے، اسلام کے سیاسی پہلوؤں کو اسلام سے الگ کرنے کے سوا اور کوئي چارہ کار سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور سامراج اسلام کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا کرتا تھا کہ اسلام حادثات اور واقعات کے سامنے تسلیم ہونے اور جارح قوتوں کے سامنے جھک جانے نیز ظالم و طاقتور دشمن کے سامنے سر جھکانے کا نام ہے ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کے فراموش شدہ حقائق کو زندہ کیا۔ اسلام کی انصاف پسندی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس بات کو آشکار کیا کہ اسلام امتیازی سلوک سماجی تفریق اور غلامی کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے دن سے زندگي کے آخری لمحہ تک ، غریب ، مستضعف اور محروم طبقوں کی حمایت کی اور ان پر اتکا کیا۔ اسلامی نظام کی تشکیل کے آغاز سے اور دس سال تک اس نظام کی قیادت کے دوران تمام حکام اور ہم سب سے زور دے کر کہتے تھے کہ غریبوں کا خیال رکھیں کیونکہ آپ کو جو یہ مقام ملا وہ اسی غریب طبقہ کی جد و جہد کا ثمرہ ہے ۔ اے ایران کی عظيم قوم ہم نے امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی اس نصیحت پر منصوبہ بندی، قانون سازی، لوگوں کو منصبوں پر فائز کرنے اور انہیں معزول کرنے کے سلسلے میں جہاں جہاں عمل کیا، ہمیں کامیابی ملی عوام کے سلسلے میں امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے جو سب سے اہم کام کیا وہ یہ تھا کہ جمہوریت کے مفہوم کو مغربی معنی و مفہوم سے یکسر الگ کردیا ۔ مغربی منصوبہ ساز اور ان کے پٹھوؤں کی کوشش یہ تھی کہ اس بات کو عام کردیں کہ جمہوریت دین کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔ امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے اس دعوے پر خط بطلان کھینچ دیا اور دینی بنیادوں پر جمہوریت یعنی اسی اسلامی جمہوریہ کو نمونہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے صرف علمی دلیل کی حد تک نہیں بلکہ عملا اسے انجام دے کر دکھا دیا۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم کارنامے کے تئیں ہمارے فرائض
انقلاب کے ہاتھوں زخم کھائے اور گھات لگائے ہوئے دشمن برسوں اس موقع کی تلاش میں تھے اور آج بھی وہ سورج کے غروب کا انتظار کرنے والی چمگادڑوں کی طرح اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن ایرانی قوم کے جذبات کی گرمی ایسی ہے کہ دوستوں کو اس سے راحت ملتی ہے اور دشمنوں کے پر جل جاتے ہیں، پھر وہ شیطانی پرواز کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ہمارے رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم ورثاء جمہوری اسلامی نظام کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔ ہر مشکوک اقدام کے سلسلے میں ہم سب کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سامراج نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک ، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی ترک نہیں کیا ہے اور اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لئے ہر ممکن کاروائي کر رہا ہے۔ جب تک اسلامی جمہوریہ کے حکام اور ایرانی قوم، قومی وقار، خود مختاری اور اپنے اسلامی اصولوں کے پابند رہیں گے وہ ناقابل تسخیر بنے رہیں گے۔ اب تک خدا کے فضل و کرم سے، ایرانی قوم کے عزم و ارادے کے سامنے عالمی سامراج کی سازش بے نتیجہ رہی ہے اور اس کے مکر و فریب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس لئے میں قوم کےایک ایک فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں آمادہ و ہوشیاری کو انقلابی فریضہ سمجھیں اور دشمن کے مذموم سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی عزائم کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ آمادہ و ہوشیار رہنے سے دشمن کی سازش ناکام ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے عزیز رہبر کبیر ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) باربار اس بات پر زوردیتے تھے اور اپنے وصیتنامہ میں بھی آپ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ ہمارے بیچ اتحاد ہی، انقلاب کی کامیابی کا راز تھا اور یہی اس کی بقا کی کنجی ہے۔ قوم کا ایک دوسرے کے مخالف گروہوں میں بٹ جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اڑجانا، ہماری پوری قوم یا کم سے کم اس کی اکثریت سے وابستہ اہم اصولوں کو فراموش کردینا، دشمن کو بھلا دینا اور اس کو بھلا دینے سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کرنا ، ایسی قوم کے لئے ایک المیہ ہے جو اپنے پائمال شدہ حقوق کی بازیابی اور دوسروں پر انحصار سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے[49]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مشن سے وفاداری
ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور کوئی بھی اس بارے میں شک نہیں کرسکتا کہ ایرانی قوم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے سچی محبت کرتی ہے چنانچہ ہمیں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ان کے ہدف کو انقلاب کا نصب العین سمجھیں اور اس کی سمت بڑھیں۔ اپنی طرف سے کوئی نیا ہدف نہ بنا لیں۔ امام کے بتائے ہوئے اہداف و مقاصد واضح ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے بہت غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ کاتب تقدیر کا فیصلہ یہی تھا کہ اس کا نیک بندہ آگے بڑھتے بڑھتے یہ ذمہ داری دوسروں کو سونپ کر ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کرجائے اور اس کے جوار میں پناہ لے لے تو ہم اس ذمہ داری کو یونہی نہیں چھوڑدیں گے۔ قوم کا ایک ایک فرد اور ہر سطح کے عہدہ دار و حکام اس نکتے کو ذہن نشین کرلیں اور یہ عہد کریں کہ امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور ان کے اہداف و مقاصد کے لئے کام کریں گے اسی صورت میں ہم امام خمینی سے اپنی سچی محبت کا ثبوت پیش کر سکیں گے اور اگر اس کے برعکس ہم ان کی جدائی میں روئیں، سروسینہ پیٹیں، لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلیں، تو ان سے ہماری محبت و عقیدت سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے راستے پر چلیں، اس سے منحرف نہ ہوں [50]۔
امام خمینی کا خلوص
برادران گرامی! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا خلوص اور خدا کے ساتھ ان کے تقرّب اسی طرح عوام کی پر خلوص جد و جہد کے نتیجے میں ہم آج اس مقام پر ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا مقصد وہی ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد تھا تو ہمارے وسائل و ذرائع بھی وہی ہونے چاہئے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔ خدا سے طلب نصرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ تھا، تو آئیے ہم بھی خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ کام صرف زبان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عمل میں خلوص اور ترک گناہ شرط ہے[51]۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ پر گامزن رہنے کا عہد
ہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے راستے پر جو اسلام و قرآن و مسلمانوں کی سربلندی کا راستہ ہے، چلیں گے۔ نہ مشرق نہ مغرب کی سیاست ، مستضعفین و مظلومین کی حمایت، عظیم مسلمان قوم کی تحریک اور اتحاد کا تحفظ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والےعناصر پر قابو پانا، مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے جد وجہد، غریب و محروم طبقے کی مدد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سبھی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا، ہمارا اہم ترین منصوبہ ہے اور ان سب کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ( اسلام کے پرچم کو دوبارہ لہرانا ) اور قرآنی اقدار کا احیاء ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس 1989-7-5
ایرانی قوم کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت : خدا سے لولگائیں، اسلام کے پابند رہیں اور اپنی صفوں میں انتشار نہ پیدا ہونے دیں ہمارے عزیز قائد، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت میں ایک بات ایسی ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا : جس چیز نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا وہی اس کی بقا کی ضامن ہے۔ یعنی خدا پر توکل، اسلام پر ایمان، اسلامی احکام کی بجا آوری اور اتحاد، انقلاب کی کامیابی اور اس کی بقا کی کنجی ہے۔ یہ ایک ایسی نصیحت ہے جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آج ہمارے ملک پر اتحاد اور خلوص کا سایہ ہے۔ یہ سب کچھ عظیم انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پاکیزہ وجود کا ثمرہ ہے۔ اس عظیم مرد الہی کی رحلت کے بعد بھی آپ کا خلوص سرچشمہ برکات بنا ہوا ہے۔ اس خلوص نے دلوں کو باہمی محبت کے رشتہ سے جوڑ دیا اور رشتوں کو مستحکم بنایا ہے۔ آپ کا اتحاد و یکجہتی اور حکومت سے آپ کا تعاون اور گہرا رشتہ ساری دنیا کے لئے حیرت انگیز ہے۔ دشمن اسے دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگیا ہے، 1978 میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد سے انقلابی تحریک میں نئي جان آگئی اور یہ تحریک آگے بڑھنے لگی۔ اس کے نتایج حاصل ہونے لگے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خدا کا یہ لطف تھا کہ ان کے وجود میں اس نے یہ ساری برکتیں ودیعت کی تھیں اور ان کی وفات اور ملکوت اعلی کی طرف پرواز کے وقت بھی خدا کی خاص نعمتیں اور برکتیں ان کے شامل حال تھیں جو اس بات کا سبب بنیں کہ ان کی رحلت کے بعد بھی انقلاب اسلامی، کامیابی کے ابتدائی دنوں کی طرح ہی آگے بھی ترقی کرتا رہے اور دنیا میں اس کی عظمت قائم ہو جائے۔ اس انقلاب نے دشمن کو مایوس کردیا۔ آج ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے وجود کی برکت سے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں۔ کوئی یہ خیال بھی نہ لائے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اندر کسی طرح کسی کمزوری کا احساس کررہا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم اپنے معاملوں کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور اپنے اصولوں، اپنے دین اور مسلمان بھائيوں کے مفادات کے مطابق دیگر ملکوں سے بھی اپنے تعلقات کومستحکم کریں گے۔ اس بات کو یاد رکھئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا تاکید کی ہے کہ اتحاد و بیداری سبھی کامیابیوں کا راز ہے۔ اگر لوگوں میں اتحاد و بیداری نہ ہو تو ایرانی قوم ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا پائے گي لیکن اگر لوگوں نے اس راز کو سمجھ لیا اور اس کا خیال رکھا تو خدا بھی ان کی مدد کرے گا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد رب العزت ہے: جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم اپنے راستوں کی طرف ان کی ہدایت کریں گے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے خدا اس کے ساتھ ہے اور خدا کا وعدہ سچا ہے۔ الحمدللہ خداایرانی قوم کے ساتھ ہے اور اس عظیم و بے نظیر مرد الہی کا وجود ہمارے لئے ایک حقیقی نعمت تھی۔ آج بھی آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے بہترین نعمت ہے کیوں کہ ان کے کلام کا سرچشمہ خدا و انبیاء کا کلام ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔ خوزستان کے علماء ، حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-12
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر اور انہیں ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت آج ایرانی قوم کا کہ جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شیدائی اور ان کو دل و جان سے چاہنے والی ہے، سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پیش نظر رکھے ۔ رہبر کبیر انقلاب کی شخصیت، جس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، ان کی تعلیمات، بیانات اور ہدایات کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کافی فاصلہ طے کرنا ہے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس عظیم ملکوتی انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی ہمارے لئے ناشناختہ ہیں۔ ہم نزدیک سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو دیکھا کرتے تھے لیکن اتنی جلدی اس بزرگ شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بزرگ و گرانقدر انسان کی شخصیت اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ہمارے لئے بھی، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، اتنی جلدی ان کی شخصیت کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن اس بزرگ شخصیت کے بیانات ہمارے لئے سبق آموز ہیں اور یہ بیش بہا خزانہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر سے ہم اس عظيم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ادراک کرسکتے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ ان تعلیمات کو چند جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت اور ہر مرحلے میں ان کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایران کے تعلق سے جو صورت حال ہے اور اقوام عالم کے نزدیک ایرانی قوم کو جو پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے پیش نظر، ہمارے ہر دلعزیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم اس اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھیں جو مشیت الہی سے ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ آج ایرانی قوم کے درمیان انقلاب کے ابتدائی دس برسوں کی بہ نسبت زیادہ اتحاد ہے اور یہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ملکوتی شخصیت کی برکات کی بنا پر ہے ۔ ( زنجان ، نہاوند اور کاشمر کے علماء و حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-6 چارجون کی تلخ یادوں کے ساتھ یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مرحوم امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اگر چہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کی زندہ جاوید تعلیمات و افکار و وصیت ہمارے پاس ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کوئی بھی طاقت اس نعمت کو سلب کرپائے گی اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂ ایران کو اس کے بانی و معلم سے جدا کرپائے گي ۔ ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحتل کی دوسری برسی پر ، قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-3
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے وابستہ کچھ یادیں
خدا جانتا ہے کہ ان دس سالوں کے دوران، اس دن کے خیال سے دل ہمیشہ لرز اٹھتا تھا۔ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بنا دنیا کا رنگ کیا ہوگا۔ اسی لئے ہم نے کئی بار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا تھا: ہماری خدا سے اہم دعا یہی تھی کہ مجھے آپ سے پہلے اس دنیا سے اٹھالے۔ جب امام خمینی کی طبیعت بگڑ رہی تھی میں نے آئین پر نظر ثانی کرنے والی کاؤنسل کے کچھ اراکین کو بلایا اور کہا کہ امام کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں نظر ثانی کے کام میں تھوڑی تیزی لانی چاہئے اور اس کے مکمل ہونے کی خوش خبری امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو اسپتال میں دینی چاہئے تا کہ انہیں اطمینان حاصل ہوجائے۔ واقعا اس ممکنہ لمحے کے تصور سے میرا دل لرزتا تھا۔ شاید اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد یہ خبر پہنچی کہ یہ نعمت الہی اور گوہر نایاب ہم سے چھن گيا ہے ۔ فوج کے اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-6-7
قوم کے روح رواں امام خمینی کی رحلت اور قوم سے آپ کی جدائي کےبارے میں کچھ کہنا بڑا سخت اور دشوار کام ہےـ ہم تو یتیم ہو گئے۔ دس سال قبل جب آپ کو دل کا دورہ پڑا آّپ کے چاہنے والے افراد جن میں سے بڑی تعداد جام شہادت نوش کرنے کے بعد اس وقت ملکوت اعلی کی زینت بنی ہوئي ہے، پروانہ وار قم پہنچے۔ آپ کو تہران لایا گیا اور دل کے اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ایک ایک پل بڑی مشکل سے گزرتا تھا، ایک انجانا خوف ہر آن ستاتا۔ بارگاہ پروردگار میں ہم سب کی ایک ہی دعا اور التجا تھی کہ خدایا بشریت کی رگوں میں زندگی بھر دینے والے اس پاکیزہ دل کو شفا بخش دے۔ ہماری قوم کی دعا سن لے۔ اپنے عزیز قائد کی جدائي کا تصور ہمارے لئے جان لیوا تھا ہمیں ایسا لگتا تھا کہ گویا دنیا اندھیری ہو جائے گي۔ آج ہمارے سامنے یہی دشوار پل ہے ہم پر مصیبت عظمی ٹوٹ پڑی ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی کوئي مصییبت ہو سکتی ہے ـ کمانڈروں اور اسلامی انقلاب کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے بیعت کے موقع پر خطاب سے اقتباس 1989-6-8 آپ سب نے دیکھا کہ آپ کے امام (رہ) وصیت نامے کے آخر میں ایسے معاملات کی جانب اشارہ کیا گیا جن پر امام اس سے قبل خاموش تھے ۔ بنی صدر کے زمانے میں جب میں امام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ فرماتے تھے کہ وہ میرے حوالے سے جو کچھ کہتا ہے وہ غلط ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ لہذا جو بات بھی ہوتی آپ اس پر فورا مشتعل اور آشفتہ نہیں ہوتے اور اس کا فوری جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ یہ متانت، بردباری، حلم، نفس پر قابو اور وسیع القلبی کی اعلی مثال ہے۔ جس میں بھی یہ صفات ہونگی وہ عظیم انسان ہوگا۔ ساتھ ہی اگر امام (خمینی رح) میں روحانیت ، خدا سے رابطہ، رضائے الہی کے لیے اقدام، تقویٰ، ذمہ داریوں کی ادائیگی جیسی اہم صفات نہ ہوتیں تو انقلاب کامیاب ہوتا اور نہ ہی آپ لوگ اس طرح ان کے گرویدہ ہوتے، وہ نہ تو دنیا میں ایسی ہلچل مچا سکتے تھے اور نہ ہی دشمن کے رعب و دبدے اور دھمکیوں کے سامنے پہاڑ کی مانند سینہ سپر ہوسکتے تھے ۔ اسی حوالے سے ایک واقعہ میرے ذہن میں محفوظ ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ سن 1986 کے اختتام سے چند دن قبل امام(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ کے فرزند رشید جناب احمد خمینی بھی تشریف فرما تھے کسی امام معصوم کا یوم ولادت نزدیک تھا ہم نے امام سے درخواست کی کہ حسینیہ جماران میں لوگوں سے ملاقات فرمائیں۔ امام(خمینی رہ) نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ میں ملاقات نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد میرا مشہد جانا ہوگیا، اچانک امام(خمینی رہ) کو دل کی کوئي تکلیف پیدا ہوئی جناب اخمد خمینی نے جن کا قوم پر بڑا احسان ہے اور جنہوں نے امام خمینی رہ کی بڑی خدمت کی ہے، فوری طور پر ضروری طبی وسائل مہیا کئے۔ جب ھسپتال میں امام(رہ) کی خدمت میں حاضرہوا تو عرض کی، کتنا اچھا ہو ا جو آپ نے اس رات عوام سے ملاقات پر ہمارے اصرار کو قبول نہیں فرمایا ورنہ اگر لوگوں کےساتھ ملاقات کی خبر جار ی ہوجاتی اور لوگ آپ سے ملاقات کے لیے آجاتے اور اس وقت آپ اس حالت میں لوگوں سے ملاقات نہ کر پاتے تو اس کا دنیا میں منفی انداز میں پرو پیگنڈا کیا جاتا۔ آپ نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ۔ انہوں نے میری بات کے جواب میں فرمایا: جہاں تک میں سمجھا ہوں ، ایسا لگتا ہے کہ انقلاب کےآغاز سے اب تک ایک غیبی ہاتھ ہے جو تمام کاموں میں ہماری رہنمائی اور پشتپناہی کررہا ہے۔ عوام اور شہداء کے خاندانوں کے جذبات اور محاذ جنگ پر مجاہدین کا خلوص امام(رہ) کی حالت دگرگوں کئے دیتا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ امام(رہ) کو ، مجالس اور ذکر مصائب سید الشہدا کے علاوہ، روتے دیکھا ہے ۔ جب بھی عوام کے ایثار و قربانی کی بات امام(رہ) کے سامنے ہوتی آپ کی حالت منقلب ہوجاتی۔ مثال کے طور پر جب تہران کی نماز جمعہ کے دوران ، محاذ جنگ کی امداد کے لیے بچوں کی دی ہوئی غلقوں کو توڑا گیا تھا اور پیسوں کا ڈھیر لگ گیا، امام خمینی (رہ) اسپتال میں تھے آپ ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے، میں ان کے پاس تھا، مجھ سے فرمایا : تم نے دیکھا ان بچوں نے کیا کردکھایا! اور میں نے دیکھا کہ اس لمحے آپ آبدیدہ ہوگئے اور رونے لگے۔
انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8
آپ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ذکرخدا اور نمازو دعا میں مصروف رہے۔ حضرت امام خمینی(رہ) کے فرزند الحاج احمد خمینی کہا کرتے تھے: امام( خمینی رہ) اپنی حیات کے آخر دن دوپہر تک بستر پر لیٹے مسلسل نماز پڑھ رہے تھے۔ کافی دیر گزر گئی تو آپ نے پوچھا نمازظھر کا وقت ہوگیا ہے؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ تب آپ نے ظہر اور عصر کی نماز،نوافل کے ساتھ پڑھنا شروع کی۔ نماز ختم کرنے کے بعد آپ تعقیبات میں مشغول ہوگئے اور کوما کی حالت میں جانے تک مسلسل سبحان اللہ والحمد للٌہ ولا الہ الا اللہ اللہ اکبر کہتے رہے ۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے ۔ ہم اگر اپنے رہبر سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں ان کے کاموں اور کردار پر توجہ دینا چاہیے اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔
انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8
انہوں نے ہمیشہ عوام اور قوموں پر ھی بھروسہ کیا۔ بیرون ملک دورے سے قبل امام (خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت ایک ایسا معاملہ درپیش تھا جس پر میں نے آپ سے کہا کہ اس معاملے پر دنیا میں ہمارے خلاف بڑا پروپیگنڈا ہورہاہے البتہ میں یہ بات ان کے علم میں لانا چاہتا تھا ورنہ مجھے بھی عالمی ہنگامہ آرائی کا کوئی خوف تھا اور نہ ہی کوئی ڈر، میں نے سارا ماجرا سنایا۔ آپ ساری دنیا کی خبروں کا بڑے قریب سے ناقدانہ جائزہ لیا کرتے تھے اور شاید عالمی خبریں دوسروں سے پہلے امام(خمینی رہ) تک پہنچ جایا کرتی تھیں ۔ امام (خمینی رہ) نے میرے جواب میں تائیدی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن قومیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اور وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ اس دورے میں ہمارے ساتھ قوموں کی حمایت ایسی کھل کر سامنے آئی کہ سب حیران رہ گئے۔ بنا بر ایں آپ اپنے دوستوں کو بھی بخوبی پہچانتے تھے اور دشمنوں کو بھی، دوستوں پر اعتماد اور بھروسہ کیا کرتے تھے۔ آپ جیسے وفادار عوام ہی امام(خمینی رہ) کے سب سے بڑے دوست تھے اور امام(خمینی رہ) بھی آپ(ایرانی قوم) کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس 1989-7-15
انقلاب اسلامی کے آغاز سے آج تک مسلسل ذمہ داریاں نبھانے کے دوران، امیرالمومنین (علیہ الصّلاةوالسّلام) کا وہ جملہ ہمیشہ میرے مد نظر رہا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں اذا اشتدّ بنا الحراق التجينا برسولاللّہ جب جنگوں میں ہمیں دشوار ترین حالات کا سامنا ہوتا تھا تو ہم دامن رسول خدا(ص) میں پناہ لیتے تھے۔ جب امیرالمومنین (صلوات اللہ علیہ) کا یہ جملہ مجھے یاد آتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ یہ ہم پر بھی صادق آتا ہے ۔ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ مختلف مسائل اور مشکلات کے بارے میں دیگر عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے اور پھر مسئلے کو امام خمینی (رہ) کی خدمت میں لے جاتے اور وہ اپنی باریک بینی، قوت ایمانی کے ذریعے مشکل کو حل کر دیا کرتے ۔ خدا گواہ ہے ،میں نے اپنی پوری زندگی میں خدا پر اس حدتک بھروسہ اور اس سے امید رکھنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ہے ۔ وہ مشکلات اور گتھیاں بآسانی سلجھا دیتے تھے۔ آج وہ ہمارا سرپرست، مضبوط آسرا اور ہماری ڈھارس جو مشکلات میں ہماری پناہ گاہ تھا، ہمارے درمیان نہیں ہے ۔ صدر کی تقرری کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-8-3 ایک(جنگی)قیدی کی ماں نے، نہیں معلوم تبریز میں یا کہیں اور، مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا اسیر تھا ، آج خبر آئی ہے کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔ آپ امام (خمینی رہ) کی خدمت میں جائیں تو ان سے کہہ دیں کہ (میرابیٹا) آپ پر قربان، میں پریشان نہیں ہوں۔ وہ خاتون عجیب حال میں تھی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ مجمع کو ہٹاتی ہوئی آگے آ رہی ہے۔ لوگ آنے نہیں دے رہے تھے، میں نے کہا اسے آنے دیجئے، دیکھیں یہ خاتون کیا کہنا چاہتی ہے ۔ وہ آئی اور اس نے یہ بات مجھ سے کہی ۔ اس کی اس بات سے میں بہت متاثر ہوا ۔ امام(خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، پہلے تو بتانا بھول گیا، باہر آیا تو یاد آیا ، وہاں جو صاحب موجود تھے میں نے ان سے کہا کہ امام(خمینی رہ) سے کہیں کہ ایک بات رہ گئ ہے ۔ آپ (امام خمینی رہ) صحن کے دروازے پر تشریف لائے ، میں بھی وہاں گیا اور جب اس خاتون کی بات ان کو بتائی تو امام کا چہرا متغیر ہوگیا، آپ پرایسی رقت طاری ہوئي کہ مجھے پچھتاوا ہونے لگا کہ میں نے کیوں ان سے یہ بات ذکر کی۔ امام خمینی کی پہلی برسی کی مہتمم کمیٹی کے ارکان کے ساتھ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 22-5-1990 وہ اپنی ذات کےلیے کسی چیز کے خواہشمند نہیں تھے۔ الحاج احمد خمینی مرحوم جو امام(خمینی رہ) کو بہت عزیز تھے اور بارہا ہم نے امام(خمینی رہ) سے سنا کہ یہ(احمدخمینی) مجھے بہت عزیز ہیں۔ وہ امام خمینی (رہ) کی اس دس سالہ قیادت اور رہبری کے دوران ایک گھر بھی نہیں خرید سکے۔ ہم بارہا گئے اور ہم نے دیکھا ہے کہ امام(خمینی رہ) کے فرزند عزیز جناب احمد خمینی، حسینیہ (جماران میں) جہاں امام (خمینی رہ) مقیم تھے، پچھلے حصے میں واقع باغیچے کےدو تین کمروں میں رہتے تھے۔ وہ عظیم انسان اپنے لیے، دنیاوی مال ومتاع کے طالب نہیں تھے، جو تحفے تحائف انکے لیے لائے جاتے تھے وہ انہں بھی راہ خدا میں دے دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ ان کے پاس ہوتا اور جس کا بیت المال سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا وہ بھی بیت المال کی مد میں دے دیا کرتے تھے۔ یہ انسان کے زہد و تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے عزیز ترین فرزند کو دو چار لاکھ روپئے کا گھر بھی دلانے کو تیار نہیں تھے جبکہ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے پاس سے کروڑں تومان ، مختلف علاقوں کی ترقی، غریبوں اور سیلاب زدگان کی مدد میں خرچ کردیاکرتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ بہت سے معاملات میں امام(خمینی رہ) کا ذاتی سرمایہ لوگوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔ یہ سرمایہ وہ تحائف تھے جو امام(خمینی رہ) کے عقیدتمند اور چاہنے والے امام(خمینی رہ) کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ وہ انسان جس کا عزم و ارادہ قوم کےدشمنوں کو لرزہ براندام کر دیتا تھا، جو دیوار کی طرح مستحکم اور پہاڑ کی طرح ثابت قدم تھا، جب بھی کوئي انسانی اور جذباتی مسئلہ درپیش ہوتا تو انتہائی رحمدل، مہربان انسان کامل دکھائی دیتا تھا۔ میں یہ بات پہلے بھی نقل کر چکا ہوں کہ میرے ایک سفر کے دوران ، ایک خاتوں نے مجھ سے آکر کہا تھا کہ میری جانب سے امام(خمینی رہ) سے کہہ دیجئے گا کہ میرا بیٹا جنگ میں اسیر ہوگیا تھا اور اب خبر آئی ہے کی وہ شہید ہوگیاہے۔ میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے لیکن مجھے کوئی غم نہیں، میرے لئے آپ کی سلامتی زیادہ اہم ہے۔ مجھ سے یہ بات اس خاتون نے انتہائی جذباتی انداز میں کہی تھی۔ میں جب امام(خمینی رہ) کی خدمت حاضر ہوا، امام (خمینی رہ) کھڑے تھے میں نے یہ بات ان سےکہہ دی، میں نے دیکھاکہ استقامت و وقار کا وہی کوہ گراں، اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جیسے کوئي تناور درخت توفان کے باعث ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کی روح اس خاتون کی اس بات سے شدید طور پر متاثر ہوئی تھی۔ نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس1999-6-4 ایک رات، خصوصی میٹنگ کے دوران، الحاج احمد خمینی مرحوم اور دیگر دو تین افراد کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا۔ امام بھی تشریف فرما تھے۔ ہم میں سے کسی نے کہا: امام آپ روحانی مقام پر ہیں، منزل عرفان پر فائز ہیں ، ہمیں کچھ نصیحت کیجئے اور رہنمائی فرمائیے۔ اس عظیم انسان نے جو روحانیت و معنویت کی اس عظیم منزل پر فائز تھے، ایک شاگرد کے اس مختصر سے تعریفی جملے پر (البتہ ہم سب امام کے شاگرد اور ان کے بیٹوں کی مانند تھے اور وہ بھی ہمارے ساتھ باپ جیسا سلوک کیا کرتے تھے) شرمندگی اور انکساری میں ایسے ڈوب گئے کہ ہم سب کو بڑی تعجب ہوا۔ در حقیقت یہ بات کہہ کر ہم خود ہی شرمندہ ہوگئے۔ [52]۔
- ↑ علی قادری، «خمینی روحالله: زندگینامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص78
- ↑ ایضا، ص79
- ↑ امام خمینی، icro.ir
- ↑ ایضا، ص88، 90 و 122
- ↑ ایضا، ص105
- ↑ خاطرات آیتاللّه پسندیده (گفتهها و نوشتهها) - یادها، 9
- ↑ علی قادری، «خمینی روحالله: زندگینامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)،، ص131
- ↑ کوثر(مجموعه سخنرانیهای حضرت امام...)، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام... ، چاپ اول: 1371، جلد اول، ص615
- ↑ علی قادری، «خمینی روحالله: زندگینامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص232.
- ↑ ایضا،ص192 و 193
- ↑ آیتالله پسندیده و آیتالله مظاهری، خبرنامه نخستین همایش حاج آقا نورالله اصفهانی، شماره اول، ص16-17 و شماره دوم، ص13-12
- ↑ علی قادری، «خمینی روحالله: زندگینامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص376 و صحیفه نور، جلد 1، ص255 تا 266
- ↑ علی قادری، «خمینی روحالله: زندگینامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال»، چاپ دوم، تهران: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی(ره)، ص143، 180، 190، 192، 246، 259، 384، 385، 388 و 393؛ زمزم نور: زندگینامه، آثار و... امام خمینی، مؤسسه فرهنگی قدر ولایت، تهران، چاپ نهم، ص9 و 10؛ رضا بابایی، کارنامه نور (زندگینامه امام خمینی)
- ↑ وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت کے موقع ہر قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2007-6-6
- ↑ وزیر اعظم اور کابینہ سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-6
- ↑ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7
- ↑ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ, قائد انقلاب اسلامی کی نظر میں، khamenei.ir
- ↑ ملت ایران کے نام پیغام سے اقتباس 1989-6-8
- ↑ اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8
- ↑ اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8
- ↑ فوج میں امام خمینی کے نمائدے، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8
- ↑ تعمیری جہاد کے مجاہدین سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-10
- ↑ نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-11
- ↑ نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-11
- ↑ وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت یاتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیان سے اقتباس 1989-6-7
- ↑ فوجی کمانڈروں اورولی فقیہ کے نمائندوں کی طرف سے بیعت وتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1989-6-11
- ↑ صدرکی تقرری اورتوثیق کی تقریب میں رہبرانقلاب کا خطاب 1989-8-3
- ↑ امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد سے ملاقات میں خطاب 1990-3-1
- ↑ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی پہلی برسی کے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام کا اقتباس 1990-5-31
- ↑ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقدکے زائرین سے خطاب سے اقتباس 2001-6-4
- ↑ امام خمینی کے مرقد پر زائرین کے پرشکوہ اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1997-6-4
- ↑ امام خمینی کی برسی میں شریک زائرین سے رہبرانقلاب اسلامی خطاب 1997-6-4
- ↑ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نويں برسی میں شریک سوگواروں کے عظیم الشان اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کےخطاب سے اقتباس 1998-6-4
- ↑ نمازجمعہ کے خطبہ سے اقتباس 1999-6-4
- ↑ اسلامی جمھوریہ ایران کے بانی کی چوتھی برسی کے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2003-6-4
- ↑ امام خمینی (رہ) کی رحلت کی پندرہويں برسی پر رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2004-6-4
- ↑ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی پانچویں برسی ميں رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1994-6-4
- ↑ امام خمینی (رہ) کے مرقد مطہرپر زائرین کے اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1996-6-4
- ↑ امام خمینی کے چہلم کی مناسبت سے عوام کے نام پیغام2007-7-14
- ↑ نمازجمعہ کےخطبہ سے اقتباس 2007-7-14
- ↑ رضاکارفورس بسیج کے کمانڈروں کے اجلاس سے رہبرانقلاب کے خطاب کا اقتباس 2007-11-23
- ↑ شہداء جانبازوں اور عراق میں قید غازیان اسلام کوخراج عقیدت پیش کرنے کےلئے رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام سے اقتباس2008-2-8
- ↑ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی میں شریک غیرملکی مہمانوں کے پہلے گروپ سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-5
- ↑ وزارت پٹرولیم کے حکام اور ماہرین سے خطاب1991-12-3
- ↑ وزارت جہاد سازندگی کے عہدہ دارو اور کارکنوں سے تجدید بیعت کے موقع پر خطاب1991-6-10
- ↑ ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب 1990-5-28
- ↑ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس 1991-6-4
- ↑ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چودھویں برسی کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس2002-6-4
- ↑ قائد انقلاب اسلامی کا ایران قوم سے خطاب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدح سرائی کا اقتباس2007-6-8
- ↑ انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8
- ↑ انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8
- ↑ نماز جمعہ کے خطبے سے اقتباس 1999-6-