حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطّلب بن ہاشم اللہ کے آخری نبی، پیغمبر اسلام اور اولو العزم انبیاء میں سے ہیں۔ آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن ہے۔ آپ یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق کے داعی ہیں۔ آپ عرب کے مشرک معاشرے میں پیدا ہوئے تھے تاہم بتوں کی پرستش اور معاشرے میں رائج اخلاقی برائیوں اور قباحتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپؐ چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔ آپ کا اہم ترین پیغام توحید اور یکتا پرستی تھا۔ مکارم اخلاق اور اچھائیوں کی تکمیل آپ کی بعثت کے اہداف میں سے تھے۔ مکہ کے مشرکین نے اگرچہ کئی سال تک آپ اور آپ کے پیروکاروں کو اذیت اور آزار کا نشانہ بنایا مگر آپ اور آپ کے پیروکار کبھی بھی اسلام سے دستبردار نہیں ہوئے۔ مکہ میں تیرہ سال تک تبلیغ کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینے کی طرف آپ کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا آغاز قرار دیا گیا۔ مشرکین مکہ کی طرف سے آپ کو مدینے میں متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور مجموعی طور پر ان جنگوں میں فتح نے مسلمانوں کے قدم چومے۔ رسول خدا کی کوششوں سے عربوں کا جاہلیت زدہ معاشرہ مختصر سے عرصے میں ایک توحیدی معاشرے میں بدل گیا اور تقریباً پورے جزیرہ نمائے عرب نے آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اسلام قبول کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی آج تک اسلام کا فروغ جاری ہے اور آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ دنیا سے جا رہے تھے تو مسلمانوں کی ہدایت کیلئے اپنے بعد قرآن اور اہل بیت کا دامن تھامے رکھنے کی وصیت فرمائی۔ واقعہ غدیر سمیت مختلف مواقع پر امام علی علیہ السلام کو اپنے جانشین کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا
نسب، کنیت اور القاب
مُـحـمّـد بـن عـبـد الله بن عبد المطّلب بن هاشم بن عبد مَناف بن قُصَىّ (زيد) بن كلاب بن مُرّة بن كَعب بن لُؤىّ بن غالب بن فِهر بن مالك بن نَضر بن كنانة بن خُزَيمة بن مُدركة بن الياس بن مضر بن نِزار بن مَعَدّ بن عدنان عليهم السلام.
بھی آپ 6 سال 3 مہینے یا ایک قول کی بنا پر 4 سال کے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب نے آپ کو آپ کے نھنیال والوں سے ملاقات کے لئے مدینہ لے گئیں تھیں لیکن مکہ واپسی کے وقت ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا اور وہیں سپرد خاک کی گئیں۔ شیعہ امامیہ کے نزدیک ابو طالب، آمنہ بنت وہب، عبداللہ بن عبدالمطلب اور حضرت آدم تک رسول خدا کے اجداد کے مؤمن ہونے پر اجماع قائم ہے [1]۔
کنیت اور القاب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم اور ابو ابراہیم ہے۔ ان کے ناموں میں سے کچھ یہ ہیں: مصطفیٰ، حبیب اللہ، صفی اللہ، نعمت اللہ، خیرہ خلق اللہ، سید المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، نبی امی۔
شیعہ علماء میں مقبول رائے کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت 17 ربیع الاوّل کو ہوئی اور اہل سنت کی مقبول رائے کے مطابق 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ ان دو تاریخوں کے درمیان وقفے کو شیعہ اور سنیوں کے درمیان اتحاد کا ہفتہ کہا جاتا ہے۔
ولادت
شیعہ علماء میں مقبول رائے کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت 17 ربیع الاوّل کو ہوئی اور اہل سنت کی مقبول رائے کے مطابق 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ ان دو تاریخوں کے درمیان وقفے کو شیعہ اور سنیوں کے درمیان اتحاد کا ہفتہ کہا جاتا ہے۔ علامہ مجلسی نے اکثر شیعہ علماء کی رائے کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت 17 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔ البتہ محمد بن یعقوب کلینی نے کتاب الکافی میں اور شیخ صدوق نے کمال الدین کی کتاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا ذکر 12 ربیع الاول کو کیا ہے۔
رسول جعفریان کے مطابق شیخ مفید کے بعد شیعہ علماء 17 ربیع الاول کو پیغمبر اکرم (ص) کا یوم ولادت مانتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تفصیلات کے بارے میں سنی علماء کی مختلف آراء ہیں۔ بعض نے اس کی پیدائش عام الفیل میں اور بعض نے عام الفیل کے دس سال بعد کی ہے۔ چونکہ مورخین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 63 سال کی عمر میں 632 عیسوی میں ہوئی، اس لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور عام الفیل کا اندازہ 569 سے 570 عیسوی کے درمیان لگایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے بارے میں بھی اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے۔ 12 ربیع الاول، دوسری ربیع الاوّل، 8 ربیع الاوّل، 10 ربیع الاوّل اور ماہِ رمضان ان تبصروں میں سے ہیں۔
پیدائش کی جگہ
پیغمبر اسلام (ص) شعب ابی طالب میں پیدا ہوئے اور اس گھر میں جو بعد میں عقیل بن ابی طالب کے تھے۔ عقیل کے بچوں نے یہ گھر حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کو بیچ دیا جس نے اسے محل بنا دیا۔ بنی عباس کے دور حکومت میں ہارون الرشید خلیفہ عباسی کی والدہ خضران نے اس گھر کو خرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا۔
بچپن سے جوانی
ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت نہیں ہوئی تھی یا دوسری روایتوں کے مطابق آپ کی ولادت کو چند ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ آپ کے والد عبداللہ شام کے تجارتی سفر سے واپس آتے ہوئے مدینہ میں وفات پا گئے[2] ۔
اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی سے یتیم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے چار ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی سعد صحرائی قبیلے کی حلیمہ نامی عورت کو دودھ پلانے کے لیے دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً چار سال تک قبیلہ بنی سعد میں حلیمہ کے ساتھ رہے اور آپ کی پیدائش کے پانچویں سال حلیمہ انہیں ان کی والدہ آمنہ کے پاس لے آئیں۔ آپ کی ولادت کے ساتویں سال، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کے تھے، آپ کی والدہ آپ کو اپنے چچا سے ملنے مدینہ لے گئیں، اور مکہ واپسی کے دوران آپ کا انتقال "ابواء" میں ہوا۔