سید ثاقب اکبر

ویکی‌وحدت سے
سید ثاقب اکبر
سید ثاقب اکبر.jpg
پورا نامسید ثاقب اکبر
دوسرے نامقائداعظم
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہپاکستان
مذہباسلام
اثراتمحقق، دانشور، شاعر، سماجی رہنما

سید ثاقب اکبر ادب کے علما میں ایک معروف شخصیت اور پاکستان کے تعلیمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ وہ ترجمہ میں سرگرم تھے اور انہوں نے ایک سیریز کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مختلف تعلیمی مضامین پر تحقیق کرنا اور تعلیمی وسائل کا ترجمہ اور اشاعت کرنا تھا۔ اپنی تمام تر تحقیقی اور سماجی سرگرمیوں کے باوجود انہوں نے ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ وہ اتحاد اور جدید اسلامی تہذیب کے فروغ میں ایک فعال پاکستانی مفکر تھے۔ سید ثاقب اکبر نے جن موضوعات سے خطاب کیا ان میں مختلف قسم کے مذہبی، سماجی، ملکی اور بین الاقوامی مسائل اور تشریح، سوانح حیات، دینی تعلیمات، مسلم دنیا کے مسائل اور پاکستان کے مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے سائنسی حلقوں کے سامنے تقریبا 50 جلدوں کی تالیف اور ترجمہ پیش کیا ہے۔

پیدائش

وہ 1956 میں پاکستان میں پیدا ہوئے۔

خاندانی پس منظر و ابتدائی تعلیم

سید ثاقب اکبر لاہور کے نواحی علاقے جھگیاں جودھا کے ایک نقوی البخاری خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے آباو اجداد اہل علم و عرفان ہیں۔ سید ثاقب اکبر کے دادا پیر سید امام علی شاہ قادری نوشاہی سلسلے میں بیعت ہوئے۔ سید امام علی شاہ کا مزار جگھیاں جودھا میں مرجع خلائق ہے آپ ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ سید ثاقب اکبر پیر سید امام علی شاہ کے فرزند سید اکبر علی شاہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔

سید ثاقب نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول بیرون بھاٹی دروازہ لاہور سے حاصل کی، گریجویشن ایم اے او کالج لاہور سے کی۔ اس کے بعد یو ای ٹی لاہور سے سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ کے شعبے میں انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ جناب سید ثاقب اکبر 1989میں چند دیگر رفقا کے ہمراہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے قم المقدسہ ایران چلے گئے۔ جہاں سے فراغت کے بعد ان رفقا کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے اور یہاں ایک علمی و تحقیقی ادارے اخوت اکادمی کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز موجودہ دور کے اہم اور بااثر افکار و شخصیات جیسے امام خمینی، علامہ اقبال لاہوری اور شہید مرتضیٰ مطہری سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے مختلف تصانیف کا ترجمہ کرکے کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی تاکہ بین المسلمین اتحاد کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھنے والوں کی جانب سے تحقیقی سرگرمیوں کے آغاز کی راہ ہموار کی جا سکے۔