اعتکاف

ویکی‌وحدت سے
اعتکاف.jpg

اعتکاف رمضان مبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اہم عمل اعتکاف بھی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔

اعتکاف کا معنی

اعتکاف کا معنی لغت میں ٹھہرنا ، جمے رہنا اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے، شرعی اعتکاف بھی اسی معنی میں ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص طریقے پر مسجد میں ٹھہرنا ۔

اعتکاف کی حکمت

اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگاکے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے، اس کو دھیان میں رکھے، اس کی تسبیح و تہلیل و تقدیس میں مشغول رہے، اس کے حضور توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے۔

اللہ کی رضا اور قرب چاہے اور اسی حال میں اس کے دن گزریں اور اس کی راتیں بسر ہوں ، ظاہر ہے اس کام کےلئے رمضان المبارک اور خاص کر اس کے آخری عشرہ سے بہتر اور کون سا وقت ہوسکتا ہے۔ اسی لئے اعتکاف کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا ۔

اعتکاف کا حکم

اعتکاف کی مشروعیت قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُود [1]۔ اور ہم ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو تاکیدکی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں۔

نیزروزے کے احکام کے ضمن میں فرمایا: وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ [2] اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ متعدد حدیثیں اس سلسلے میں وارد ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ ‏و آلہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا [3]۔

حتی کہ امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ بڑا عجیب معاملہ ہے کہ مسلمانوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ دیا ہے حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا۔ حتی کہ اپنی عمر عزیز کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔ البتہ جس سال آپ کا انتقال ہو اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ [4]۔

غیر رمضان میں اعتکاف

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف رمضان کا اعتکاف ثابت ہے، بغیر کسی عذر کے آپ نے غیر رمضان میں اعتکاف نہیں کیاہے ، لیکن ایک بار عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا ، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو [5]۔ اس لئے غیر رمضان میں بھی اعتکاف مستحب اور سنت ہے، البتہ رمضان اور خصوصا رمضان کے آخری عشرہ میں اس کی تاکید ہے ۔

اعتکاف کی مدت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رمضان میں کم از کم ایک عشرے کا اعتکاف کیا، اس لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے لیکن اگر کسی کے حالات ساتھ نہ دیتے ہوں تو وہ سات دن ، پانچ دن یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف کرے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں صحابہ نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا : من کا منکم منحر یا فلینحر ما فی السبع الاواخر " ۔ جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے " [6]۔

نیز عبد اللہ بن انیس الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں صحرا میں رہائش پذیر ہوں اور الحمد للہ وہاں نماز کا اہتمام کرتا ہوں [البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ شب قدر کے حصول کے لئے اعتکاف کروں تو ] آپ مجھے کسی ایسی رات کے بارے میں بتلائیے جس رات اس مسجد میں آکر عبادت کروں [ اعتکاف کروں ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیئس کی شب کو آجانا ۔

راوی حدیث محمد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن انیس کے بیٹے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور کسی بھی غیر ضروری کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلتے ، یہاں تک کہ جب صبح کی نماز پڑھ لتیے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر موجود پاتے اور اس پر سوار ہوکر پھر صحرا میں چلے جاتے۔ [7]۔

اعتکاف کی شرطیں

  • عاقل ہو: مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
  • تمیز ہو : غیر ممیز بچوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
  • مسجد میں ہو : مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہ ہوگا ، یہ حکم مرد و عورت دونوں کیلئے ہے۔
  • طہارت : حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔
  • شوہر کی اجازت : بغیر شوہر کی اجازت کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔
  • روزہ : بہت سے علماء کے نزدیک بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔

اعتکاف کا وقت

اعتکاف کے لئے ضروری ہے جس دن کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے اس دن کی رات آنے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے مثلا اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے ، البتہ اپنے معتکف یعنی جائے اقامت میں اکیسویں کی صبح کو داخل ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کردیتی جس میں آپ صبح کی نماز کے بعد داخل ہوتے [8]۔

اعتکاف کس مسجد میں

اعتکاف ہر مسجد میں کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس میں جماعت کا اہتمام ہوتا ہو ، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ [9]۔ اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالی نے مسجد کو عام رکھا ہے، کسی خاص قسم کی مسجد سے مقید نہیں کیا ہے ، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والے کے لئے سنت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مریض کی زیارت کو جائے نہ جنازے میں شریک ہو ، نہ عورت سے صحبت کرے اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے اور نہ ہی کسی غیر ضروری کام کے لئے باہر نکلے ، اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں ہے اور اعتکاف اسی مسجد میں کیا جائے گا جس میں جماعت کا اہتما ہو [10]۔

اعتکاف کے منافی کام

  • ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا ۔
  • عورت سے صحبت کرنا ۔
  • عورت سے بشہوت مباشرت کرنا ۔
  • قصدا منی خارج کرنا۔
  • ہر وہ کام جو شرع کی نظر میں منع ہے وہ اعتکاف کے بھی منافی ہے ، جیسے جھوٹ ، غیبت وغیرہ ۔
  • ہر وہ کام جو عبادت کے منافی ہے ، جیسے خرید و فروخت میں مشغولیت ، بلاوجہ کی گپ شپ ، یہ بھی حالت اعتکاف کے منافی ہے ، ان امور سے اعتکاف باطل تو نہیں ہوتا البتہ اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔
  • بعض وہ عبادتیں جو فرض عین نہیں ہیں جیسے مریض کی زیارت ، نماز جنازہ اور دفن وغیرہ کے لئے بھی نکلنا جائز نہیں ہے ، البتہ راستہ چلتے کسی مریض کی خیریت پوچھ لینا جائے ہے ۔
  • ہر وہ کام جو انسان کی فطری ضرورت ہے جیسے قضائے حاجت ، کھانا پینا ، نہانا ، اگر کوئی مددگار نہیں ہے تو کھانے کی چیزیں باہر سے خریدنا وغیرہ کے لئے مسجد سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ان تمام امور سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ، اسی طرح عورت کو حیض و نفاس کا خون آجائے تو اعتکاف باطل ہوجائے گا ، نیز اسلام سے ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اعتکاف کی نیت توڑ دے تو یہ بھی اعتکاف کے بطلان کا موجب ہے۔

اعتکاف کی حالت میں جائز کام

مسجد میں کھانا پینا ۔ اچھے کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا ۔ ناخن تراشنا اور حجامت بنوانا ۔ اگر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جارہی ہے تو اس میں شریک ہونا ۔ کسی مریض کا گھر مسجد سے لگ کر ہے تو مسجد میں رہ کر بیمار پرسی کرنا ۔ بالوں میں تیل کنگھی کرنا ، بلکہ عورت بھی اپنے شوہر کے بالوں میں کنگھی کرسکتی ہے خواہ اس کے لئے اعتکاف کرنے والے کو اپنا سر باہر کرنا پڑے ۔ اپنے اہل خانہ سے بات کرنا اور بعض گھریلو مسائل پر گفتگو کرنا۔ بغیر شہوت کے اپنی بیوی کو چھونا ۔ خرید و فروخت سے متعلق بعض ضروری ہدایات دینا ۔ زیارت کرنے والوں سے خیر خیریت پوچھنا ، البتہ دیر تک گپ شپ میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے [11]۔

حواله جات

  1. بقرةآیہ125
  2. بقرة آیہ187
  3. صحیح البخاری :2026 ، الاعتکاف- صحیح مسلم : 1172 ، الصیام
  4. صحیح بخاری : 2044، الاعتکاف – صحیح ابن خزیمہ : 2221 – سنن ابو داود :2466 ، الاعتکاف
  5. صحیح بخاری : 2032،ا لاعتکاف – صحیح مسلم :1656، الایمان ، بروایت ابن عمر
  6. صحیح ابن خزیمہ :2222 ، الصوم
  7. صحیح ابن خزیمہ : 2200، الصیام
  8. صحیح بخاری :2033، الاعتکاف – سنن ابو داود : 2464، الصوم
  9. بقرة آیہ187
  10. سنن ابو داود : 2473، الصیام
  11. صحیح بخاری : 2038 ، الاعتکاف