محمد سعید رمضان البوطی

ویکی‌وحدت سے
محمد سعید رمضان البوطی
سعید رمضان.jpg
پورا ناممحمد سعید رمضان البوتین
دوسرے نامالبوطی
ذاتی معلومات
پیدائش1929 ء، 1307 ش، 1347 ق
پیدائش کی جگہترکی
وفات2013 ء، 1391 ش، 1433 ق
یوم وفات9 جمادی الثانی
وفات کی جگہشام
اساتذہشیخ حسن حبنکه
مذہباسلام، سنی
اثراتمن روائع القرآن، سلفیه بدعت یا مذهب
مناصب
  • دمشق یونیورسٹی کے صدر اور لیکچرار

محمد سعید رمضان البوطی جو کہ عصر حاضر کے اشعری اور شافعی علماء میں سے ایک ہیں، انہوں نے 1965 میں مصر کی جامعہ الازہر سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل می۔ اور پھر یونیورسٹی میں تقابلی فقہ، اسلامی علوم، اصول فقہ، اسلامی عقائد، اور سیرت نبوی جیسے کورسز پڑھانےلگے۔ آپ ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے جہاں وہ کچھ عرصے کے بعد دمشق یونیورسٹی کے صدر بننے کے قابل ہو گئے۔ تدریس ، انتظامی امور اور میڈیا کی سرگرمیوں نے انہیں علمی کام کرنے سے نہیں روکا، انہوں نے تقریباً 60 کتابیں لکھی ہیں۔

محمد سعید رمضان البوطی کی زندگی

محمد سعید رمضان البوطی جو کہ عصر حاضر کے اشعری اور شافعی علماء میں سے ہیں، 1348ھ (1929ء) میں ترکی کے مغربی اناطولیہ میں واقع گاؤں جالیکا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، ملا رمضان البوطی، اس علاقے کے کرد علماء میں سے ایک تھے، اس لیے جب اتاترک کے دور حکومت میں ترکی میں سیکولر پالیسیاں مقبول ہوئیں، محمد سعید 1934 میں اپنے خاندان کے ساتھ دمشق ہجرت کر گئے۔ دمشق میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر ریاضی، تفسیر، منطق، کلام، اصول اور فقہ کے علوم سیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ البوطی علمی مدارج طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے کہ 1956 میں وہ مصر کی جامعہ الازہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ شروع میں ان کے والد کا ماننا تھا کہ پیسہ کمانے کے لیے کسی بھی مذہبی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے، اس لیے محمد سعید نے تعلیمی داخلہ کے امتحان میں اس وقت تک حصہ نہیں لیا جب تک کہ ان کے والد کی رائے تبدیل نہیں ہوئی اور وہ ایک شرعی استاد کے طور پر تعلیم کے شعبے میں ملازم ہو گئے۔ 1965میں، محمد سعید نے مصر کی الازہر یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی میں تقابلی فقہ، اسلامی علوم، اصول فقہ، اسلامی عقائد، سیرت نبوی جیسے کورسز پڑھانا شروع کیا۔ کچھ عرصے کے بعد آپ دمشق یونیورسٹی کے صدر بن گئے [1]۔ تدریس ،انتظامی امور اور میڈیا سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے خود کو علمی میدان میں تصنیف کے لیے وقف کر دیا اور تقریباً 60 کتابیں اپنے پیچھے چھوڑیں۔

علمی آثار

محمد سعید رمضان البوطی نے تقریبا 60 کتابیں لکھی ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:

  • الحکم العطائیه؛
  • الاسلام و العصر؛
  • اوربه من التقنیه الی الروحانیه؛
  • کبری الیقینیات الکونیه؛
  • الله ام الانسان؛
  • مع روائع القرآن؛
  • تجزیه التربیه الاسلامیه؛
  • هذه مشکلاتهم؛
  • هذه مشکلاتنا؛
  • من الفکر و القلب؛
  • علی طریق العوده الی الاسلام؛
  • دفاع عن الاسلام و التاریخ؛
  • فی سبیل الله و الحق؛
  • الجهاد فی الاسلام؛
  • السلفیه مرحله زمنیه مبارکه لا مذهب اسلامی؛
  • اللامذهبیه اخطر بدعه تهدد الشریعه الاسلامیه؛
  • «نصیحه لاخواتنا علماء نجد» پر ایک مقدمہ

مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت

البوطی کا ایک اہم ترین عقیدہ، جو ان کے کاموں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، مسلمان حکمران کے خلاف جنگ کی ممانعت ہے۔ اس طرح ان کی رائے کے مطابق جب تک اسلامی معاشرے کا حاکم جو جائز طریقے سے برسراقتدار آئے، [2]۔صریح اور کھلے کفر کا شکار نہ ہو، اس کے خلاف بغاوت نہیں کرسکتے ۔ [3]۔ کیونکہ بہت سی روایات میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بعنوان مثال خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا گیا ہے: «مَن کره من امیره، شیئا فلیصبر، فانه من خرج علی السلطان شبرا فمات، مات میته جاهلیه» [4]۔ البوطی کے نظریہ کے مخاطب تکفیری ہیں جو کہ معمولی بہانے کے ساتھ خطے کے مسلمان حکمرانوں کو کافر سمجھتے ہیں او ان کے خلاف جنگ کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اسلامی معاشروں کے حکمرانوں کے پیروکاروں اور حامیوں کی تکفیر اور قتل

دوسرے لفظوں میں البوطی نے یوں بیان کیا ہے: جب اسلامی معاشروں کے حکمران کافر نہ ہوں، ان کے خلاف بغاوت حرام ہے، لہٰذا یہ کہا جائے: پہلی صورت میں ایسے حکمرانوں کی تکفیر اور اعوان و انصار کا قتل بھی حرام ہیں. جیسا کہ بہت سے شواہد اس دعوے پر دلالت کرتے ہیں، مثلاً: حاطب بن ابی بلعہ (جو مشرکین قریش کے سب سے مشہور حامیوں میں سے تھے) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سےواضح ہوجاتا ہے کہ جو شخص مشرکین کے حامیوں میں سے بھی ہو اسے تکفیر اور قتل نہیں کرسکتے [5]۔

امریکہ اور مغرب اور مسلم خطوں کی تقسیم

محمد سعید البوطی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ بعض اعلیٰ امریکی حکام کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلامی ممالک کی تقسیم میں مسلمانوں کے تسلط کا حل دیکھا ہے، مزید کہا: اس لیے حکمرانوں کے درمیان اختلافات اور اسلامی ممالک اور ان ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں اختلافات سے سب سے زیادہ استعمار اور مغرب کو فائدہ ہوتا ہے [6]۔

اہل بیت کی قبروں کی زیارت کے حوالے سے وہابیوں کی تنقید

محمد سعید البوطی نے اپنی کتاب «نصیحه لاخواننا علماء نجد» [7]۔ کے شروع میں لکھی گئی تفسیر میں ان ممانعتوں پر سخت اعتراض کیا ہے جو وہابیوں نے بقیع کی قبروں کی زیارت اور اولیاء الہی کے باقی ماندہ اشیاء سے تبرک کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امت سلف کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک کی ہیں [8]۔

وہابی اور عالم اسلام کا تفرقہ

البوطی کے مطابق، وہابیوں کی طرف سے اختیار کیا جانے والا طریقہ اسلامی دنیا میں تفرقہ پیدا کر دے گا۔ یقیناً محمد سعید رمضان البوطی کے نقطہ نظر سے وہابیوں کا مقابلہ کرنے کا حل یہ ہے کہ وہابی علماء کو ایک علمی فورم میں جمع کیا جائے اور دقیق معیارات کے مطابق ان سے علمی گفتگو کی جائے [9]۔

اختلاف کرنے والے اور بدعتی

یہ بتاتے ہوئے کہ اسلام میں بھی علمی اختلاف ایک عام مسئلہ رہا ہے، البوطی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب کسی علمی مسئلہ میں اختلاف ہو تو ہمیں کسی مجتہد کو گمراہ، دین سے باہر، بدعتی، فاسق کہنے اور سلف صالح کے راستے منحرف قرار دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ [10]۔ البتہ وہابی ایسے ہی رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ صرف وہابی ہی صحیح ہیں اور صرف وہی ہیں جو سلف کی رائے پر عمل کرتے ہیں اور اسلام کو سمجھنے اور اس کے نفاذ میں سلف کے طریقے کا اظہار کرتے ہیں۔

مسلمانوں کی تکفیر

محمد سعید البوطی کے نظریہ کے مطابق، ایک مسلمان جو اہل قبلہ ہے اور اس کےاعتقادات اور دل میں قائم ایمان کے ستونوں کو چھوٹے یا بڑے گناہ کے ارتکاب پر تکفیر کرنا جائز نہیں ہے ۔ نیز ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: چونکہ ایمان کی حقیقت ایک پوشیدہ امر ہے جس کے بارے میں دوسرے نہیں جانتے، اس لیے ہر مسلمان کے ساتھ اس کی ظاہری شکل یعنی اسلام ہی کے ساتھ سلوک کرنا واجب ہے [11]۔

اسلامی معاشرے کے اتحاد کی اہمیت

البوطی کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے معاملات کو متحد کرنا، اور ان سب کو ہدایت اور ترقی کے محور پر اکٹھا کرنا، دین کے اہم ترین مقاصد اور بنیادوں میں سے ایک ہے [12]۔

وہابیت کو سلفیت کہنا

البوطی نے دعویٰ کیا ہے کہ سلفیہ لفظ ابتدائی طور پر محمد عبده، جمال‌الدین اسدآبادی، رشیدرضا و عبدالرحمن کواکبی جیسے افراد کے توسط سے مصر میں استعمال ہوا ہے ۔ یقیناً آج کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت یہ نعرہ کوئی مذہب نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف ایک دعوت تھی۔ یہاں تک کہ وہابیوں نے اپنے مذہب کو سلفی کہا کیونکہ وہ اپنے مذہب کو وہابیت کہنا پسند نہیں کرتے تھے [13]۔

لا مذہبیت کے مذموم رجحان کے خلاف جنگ

ان دنوں جب بعض لوگ کسی بھی طرح سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مذاہب اربعہ کی تقلید نہیں کرنی چاہیے، محمد سعید رمضان البوطی نے، جو اس طرز فکر کے سخت مخالف تھے، نے «اللامذهبیه اخطر بدعه تهدد الشریعه الاسلامیه» کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور اس میں کافی ادلہ کا سہارا لیتے ہوئے مذاہب اربعہ کی تقلید کی مشروعیت کو ثابت کیا۔

محمد سعید رمضان البوطی کی شہادت

بالآخر 9 جمادی الثانی 1434ھ بروز جمعرات شام کو شیخ محمد سعید رمضان البوطی دمشق کے شہر المزرعہ کی مسجد الایمان میں درس دیتے ہوئے بم دھماکے سے شہید ہو گئے [14]۔

حوالہ جات

  1. افتخاری، اصغر، مبانی نظری و عملی اندیشه سیاسی محمد سعید رمضان البوطی، چاپ شده در پژوهش علوم سیاسی شماره ۴، بهار و تابستان ۸۶، صفحه ۱۰۵ تا ۱۳۷
  2. از نگاه اهل سنت و البته البوطی، حکومت حاکمی مشروعیت دارد که از یکی از این ۳ راه به حکومت برسد: «۱: بیعت اهل حل و عقد با وی؛ ۲: انتخاب توسط حاکم قبلی؛ ۳: استیلاء و غلبه؛» البوطی، محمد سعید، الجهاد فی الاسلام، ص۱۴۸، دارالفکر المعاصر بیروت- دارالفکر دمشق، چاپ اول، ۱۴۱۴ه‌ق
  3. البوطی، محمد سعید، الجهاد فی الاسلام، ص۱۴۷، دارالفکر المعاصر بیروت- دارالفکر دمشق، چاپ اول، ۱۴۱۴ه‌ق
  4. ایضا، ص۱۵۱.
  5. همان، ص۱۵۹ و ۱۶۰.
  6. ایضا، ‌ ص۱۷۸.
  7. یوسف بن السید هاشم الزفاعی کی کتاب
  8. مقدمه نصیحه لاخواننا علماء نجد، ص۸ و ۱۱
  9. ایضا، ص۱۱ و۱۲
  10. البوطی، محمد سعید، السلفیه مرحله زمنیه مبارکه لا مذهب اسلامی، ص۲۰ و ۲۱، دارالفکر المعاصر بیروت – دارالفکر دمشق، چاپ چهاردهم، ۱۴۳۱ه‌ق
  11. ایضا، ص۱۰۵
  12. ایضا، ص۱۰۲
  13. ایضا، ص۲۳۶
  14. مجله سراج منیر، شماره۲۱