یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب میں ایک عرب اور ایشیائی اور ایک مسلم ملک ہے۔ اس ملک کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور عمان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔ یمن کا دار الحکومت صنعاء ہے اور عربی اس کی قومی زبان ہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے بیشتر عربی بولتے ہیں۔ یمن کے لوگوں نے بغیر کسی جنگ کے پیغمبر اسلام اور امام علی علیہ السلام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اسلام قبول کر لیا۔ یمنی مسلمانوں نے واقعہ سقیفہ کے بعد شیعیت کو مضبوط کرنے اور عثمان بن عفان کے قتل کے بعد امام علی علیہ السلام کو خلافت کے لیے بلانے میں کردار ادا کیا۔ یمن کے لوگ معاویہ کے شدید ترین مخالفین میں سے تھے۔ کربلا کی جنگ میں یمن کے کچھ مسلمان امام حسین علیہ السلام کے دفاع میں پیش پیش تھے۔ موجودہ یمن کا دار الحکومت "صنعاء"ہے۔ یمن کو عرب تمدن کا سب سے قدیم اور متمدن خطہ قرار دیا جاتا ہے۔

جغرافیا

یمن، جزیرۃ العرب کا جنوبی وشرقی حصہ ہے اور عربستان میں اس سے زیادہ زرخیز، شاداب اور آباد کوئی خطہ نہیں تھا [1]۔ یہ عرب کا ایک قدیم اور اہم خطہ ہے اور یہ سرزمین عرب میں شروع سےہی ایک خاص مقام کا حامل رہا ہے۔ قبل از مسیح دور میں اس کا نام سبا اور اس کا دار الحکومت " مآرب " تھا۔ یہ نام کئی صدیوں تک رائج رہا لیکن پھر اس کا نام " یمن " پڑگیا۔ عہدِنبوی ﷺ اور اس کے بعد سے آج تک اس کا نام یمن ہی ہے [2]۔ یہ نجد سے شروع ہو کر جنوب کی طرف بحر ہند اور مغرب میں بحر احمر (Red Sea) کی طرف پھیلا ہواہے۔ مشرق کی طرف اس کی سرحد حضرموت، الشحر (Al-Shahr)اور عمان سے ملتی ہے جبکہ یاقوت حموی نے اصمعی کے حوالہ سے جزیرہ نما عرب کو چار(4) حصوں میں تقسیم کیا [3]۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اصمعی نے کہا: جزیرہ عرب چار اقسام پر ہے یعنی یمن، نجد، حجاز اور غور نیز یہی تہامہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک ان میں عمان اور بحرین پہلے جزیرہ عرب سے علیحدہ تھے اور اسی وجہ سے یاقوت حموی کی طرح سمہودی بھی جزیرۃ العرب کے ذکر میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ سمہودی لکھتے ہی اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک ان میں عمان اور بحرین پہلے جزیرہ عرب سے علیحدہ تھے اور اسی وجہ سے یاقوت حموی کی طرح سمہودی بھی جزیرۃ العرب کے ذکر میں اس کا ذکر نہیں کرتے۔ سمہودی لکھتے ہیں: اس جزیرہ (عرب) میں چار مقام شامل ہیں، یمن، نجد، حجاز اور غور جسے تہامہ کہتے ہیں [4]۔ عرب مؤرخین اور تاریخ دانوں کے مطابق پورے جزیرہ نمائے عرب میں تہذیب وتمدن اور علوم وفنون میں کوئی خطہ اس کا مقابل نہیں تھا۔ قدیم تاریخوں میں اسے الیمن السعیدۃ یعنی خوش وخرم یمن یا زرخیز عرب بھی کہا جاتا رہا ہے [5]۔

وجہ تسمیہ

یمن کی وجہ تسمیہ سے متعلق بھی کئی اقوال منقول ہیں۔ مختلف روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یمن کے کئی نام تھے جو مختلف زمانوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر رکھے گئے تھے۔ مؤرخین نے اس نام کی ایک وجہ تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ بنو قحطان چونکہ کعبہ کے دائیں جانب آباد ہوئے تھے اسی لیے ان کے خطے کا نام یمن پڑ گیا تھا۔ ابن سعداس حوالہ سے لکھتے ہیں: یقطن بن عابر کی اولاد دیارِ یمن میں آباد ہوئی اور اسی وجہ سے اس کا نام یمن پڑا کیونکہ اس قوم نے اس طرف تیامن (دائیں جانب کا سفر)کیا تھا[6]۔ بنو قحطان (بنویقطن بن عابر) مکہ سے دائیں جانب سفر کرکے یمن آئے تھے اور یہاں آباد ہوئے تھے اس لیے اس علاقے کو یمن کہاجانے لگا [7]۔ یمین عربی زبان میں دائیں طرف کو کہتے ہیں اور دائیں سمت مبارک خیال کی جاتی ہے۔ جب مکّہ مکّرمہ میں آبادی زیادہ ہوگئی اور عرب یہاں سے ہجرت کرنے لگے تو جو لوگ اس سمت گئے یعنی بیت اﷲ شریف کے دائیں جانب تو اس دائیں جانب کا نا م یمن پڑگیا اور اسی طرح بائیں جانب کا نام شام پڑ گیا۔ اس حوالے سے یاقوت حموی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:

ابن عباس نے فرمايا كہ عرب اس جزیرہ نما کی مختلف سمتوں میں بکھر گئے پھر جو دائیں طرف گئے ان کے رخ کی مناسبت سے اس علاقے کا نام یمن رکھ دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب مکّہ میں لوگوں کی کثرت ہوگئی اور وہاں مزید گنجائش نہ رہی تو دائیں طرف والے یمن کی طرف آباد ہوگئے اور یہ ارضِ مکّہ کے انتہائی دائیں جانب ہے لہٰذا اس کا یہ نام پڑا۔ حلبی یہی قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یمن کو یمن اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ کعبہ کے دائیں جانب ہے [8]۔ اسی مناسبت سے بیت اﷲ شریف کے ایک رکن کا نام بھی رکن یمانی ہے جو کہ یمن کی نسبت کی وجہ سے ہے [9]۔ یمن کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ یعرب بن قحطان کا ایک نام ایمن بھی تھا اور حضرت ہود نے اپنے اس پوتے کو اس لقب سے ملقب فرمایا تھااور اسی وجہ سے اس کے ہجرت کرنے کے بعد اس کے مقام سکونت کو یمن کہا گیا۔ حلبی یمن کی یہ وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اور اسی یعرب کوایمن بھی کہاگیا کیونکہ نبی اللہ ہود نے ان سےفرمایا: میرے بیٹے تم میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ برکت والے ہو اور یمن میں آنےکی بناپروہ یمن کہلایانیز یہی پہلا آدمی ہے جس نے اشعار اور رجز کہے۔

رجز شاعری کی ايك قسم ہے جو جنگوں ميں پڑهی جاتی ہے [10]۔ اور اس کا مقصد سپاہیوں کو جنگ پر ابھارناہوتا ہےنیز ابن ہشام کی تحقیق سے اس قول کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ السُہیلی نے ابن ہشام کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یعرب کا نام اصل میں یمن تھا اور چونکہ یہی اس کو آباد کرنے والے تھے لہٰذا اس کا نام یمن پڑگیا۔ اس حوالہ سے سہیلی لکھتے ہیں ابن ہشام کہتے ہیں کہ یعرب بن قحطان کا نام یمن ہے کیونکہ حضرت ہود نے اس سے فرمایا تھا تو ازروئے نفس میری تمام اولاد سے بابرکت ہے [11]۔ یمن کے دیگر نام بھی کتب تاریخ میں منقول ہوئے ہیں۔ مورخین یمن کویمنِ خضراء کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں کیونکہ اس شہر میں کھیت و کھلیان اور باغات کی کثرت تھی۔ اس حوالہ سے یاقوت الحموی لکھتے ہیں: اسے یمن الخضراء اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں درختوں، پھلوں اور فصلوں کی بہتات ہے۔ سید محمود شکری یمن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں [12]۔

مشہور مقامات

یمن کے قدیم و مشہور مقامات میں معین، مارب، ظفار، شیبان، اوزال، براقش، فشق، خولان، قرن شبوہ، عمران اورصنعاء وغیرہ شامل تھے جن میں سے اب اکثر مقامات ویران یا دریائے ریگ میں غرق ہوچکے ہیں تاہم بعض موجود بھی ہیں لیکن ان کے قدیم نام متروک ہو چکے ہیں۔ ملک کی کثرت آبادی اورشادابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خطہ کئی ایک صوبوں میں منقسم تھا جنہیں اہل عرب مخلاف الیمن کہتے تھے۔ مورخ یعقوبی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے چوراسی(84) صوبے بتائے ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں: طمو، عیان، طمام، ھمل، قدم، خیوان، سنعان، ریحان، جرش، صعدۃ، ھوزن، حیران، مارب، زبید، ربع، بنی محید، حضر موت، الحلقین، عنس۔ نیز یعقوبی ساحلی علاقوں کے نام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اور سواحل میں سے عدن ہے اور یہ صنعاء، المندب، غلافقۃ، الحردۃ، الشرجۃ، عثر، الحمضۃ، السرین اور جدہ كاساحل ہے [13]۔

یمن میں کئی ایک مشہور شہر اور مقامات تھے لیکن ان میں چار (4)مقامات بطور خاص تاریخ میں مذکور ہیں جن میں صنعاء، حضر موت، بلاد الاحقاف اورنجران شامل ہیں۔ ان کی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے۔

صنعاء

صنعاء یمن کا سب سے مشہو ر شہر تھاجویمن کے قلب اور بحر احمر کے سواحل پر عرب کے جنوبی اور مغربی گوشہ میں واقع ہے۔ یہ سطح سمند رسےاکیس سو چھیانوے(2196)میٹر بلند ہے اور یمن کا قدیم ترین شہر ہے حتی کہ اس کے متعلق مؤرخین کا بیان ہے کہ اس شہر کو سام بن نوح نے آباد کیا تھانیز صنعاء شہر کے کئی قدیم نام تھے جن کی تفصیل درج ذیل ہے: بعض مؤرخین نے صنعاء کی تعمیر کو سام بن نوح کی طرف منسوب کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ یہی وہ پہلا شہر تھا جو یمن میں بنایاگیا۔۔ ۔ ہماری معلومات کے مطابق صنعاء کا نام پہلی مرتبہ اس کتبہ میں وارد ہوا ہے جس کا زمانہ سبا اور ذی ریدان کے بادشاہ شاہ شرح یحضب کی طرف لوٹتا ہے اور اس میں اس شہر کو صنعو کے نام سے یاد کیاگیا ہے [14]۔

وجہ تسمیہ

صنعاء جویمن کا دارالخلافہ ہے اس کا قدیمی نام ازال تھا جو بعد میں صنعاء پڑگیا۔ اس حوالہ سے سید محمود شکری لکھتے ہیں: قدیم زمانہ میں اسے ازال نام سے موسوم کیا جاتا تھا [15]۔ ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ یہ شہر ازال یا اوال کے نام سے بھی پہچاناجاتا ہے، یہ بظاہرانہوں نے اہل کتاب علماء جیسے کعب الاحبار اور وہب بن منبہ کےذریعہ تورات میں وارد لفظ ازال سےاخذ کیا ہے [16]۔ صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے مؤرخین کے دو اقوال ملتے ہیں۔ مؤرخین نے اس حوالہ سے پہلا قول یہ نقل کیا ہے کہ یہ قدیم یمنی بادشاہ صنعاء کے نام پر رکھا گیا تھا جس کا نسب یاقوت حموی اس طرح نقل کرتے ہیں:

صنعاء بن ازال بن یقطن بن عامر بن شالخ بن ارفخشد نے سب سے پہلے اسےبنایاپھر یہ اس کےبیٹے کےنام سےموسوم ہوا کیونکہ اس نے اسے اپنی ملکیت میں لیاتھااوربعد میں اس کانام اس پرغالب آگیا

[17]۔ جبکہ مؤرخین نے جو صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے دوسرا قول بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ جب اہل حبش صنعاء شہر میں وارد ہوئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ یہ شہر پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ اس حوالہ سےعبد اللہ حمیری تحریر کرتے ہیں: یمن میں ایک شہر تھا جس کا نام زمانہ قدیم میں ازال تھا۔ جب اہلِ حبشہ اس میں آئے اوراس کوپتھروں کا بناہوا دیکھاتو کہا: یہ تو صنعۃ ہے۔ ان کی زبان میں اس کا معنی قلعہ تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے اس شہر کا نام صنعاء پڑگیا تھا۔ اسی صنعاء کی سرزمین پر عربوں کی عظیم الشان سلطنتیں مثلاً معین، سبا اور حمیر قائم ہوئی تھیں اوران کے علاوہ سد مآرب یا سدعرم اسی کی وادیوں میں تعمیر ہوا تھا۔ ظفار، مآرب اور زوال یہیں کے پایہ تخت تھے اور ملکہ سبا اسی سرزمین کی حکمران تھی۔ قصر غمدان، قصر ناعط، قصر ربدہ، قصر صراوح اور قصر مدر اسی خطے میں تعمیر ہوئے تھے جن کے آثار چوتھی صدی ہجری میں ہمدانی نے بذاتِ خود مشاہدہ کیے تھے [18]۔

حضرموت اور اس کی وجہ تسمیہ

حضرموت یمن کا ایک مشہور اور قدیم شہر ہے جو ساحل بحر ہند پر واقع ہے جس کے جنوب میں الربع الخالی اور الاحقاف اور مغرب میں صنعائے یمن ہے۔ محمد بیومی اس کے محل وقوع کے بارے میں لکھتے ہیں: حضرموت یمن کی مشرقی جانب ساحل بحر عرب پر واقع ہے [19]۔ حضرموت یمن کے شہروں میں سے قدیم ترین شہر ہے۔ اس کےنام کی وضاحت کرتے ہوئے ملاعلی قاری لکھتے ہیں: (حضرموت) یمن میں ایک شہر کا نام ہے۔ یہ دو اسم ہیں جن سے ایک نام بنایا گیا ہےاورعلمیت و ترکیب کی وجہ سے یہ غیر منصرف ہے۔ حاء مہملہ، راء اور میم کے فتحہ اور ضاد معجمہ کے سکون کے ساتھ ہے۔ قاموس میں میم کے ضمہ کے ساتھ ایک شہر اور ایک قبیلہ کا نام ہے [20]۔ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ حضرموت بن قحطان اس مقام پرفروکش ہواتو یہ اسی کے نام سے موسوم ہوا۔ حضرموت کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے دوسرا قول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ عامر بن قحطان پہلا شخص تھا جو احقاف میں داخل ہوا اوراس کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ جس جنگ میں شریک ہوتا تھاکشتوں کے پشتے لگادیتا تھا۔ وہ جہاں بھی جاتا تو لوگ کہتے "حضرموت" (یعنی موت آگئی) لہذایہی اس کا لقب ٹھہرا جو اس قدر مشہور ہوگیا کہ لوگ اس خطہ زمین کو بھی حضرموت کہنے لگے جہاں اس کا قبیلہ رہتا تھا [21]۔

مرقد حضرت ہود

اس شہر کو ایک بڑی فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس شہریعنی حضرموت میں حضرت ہود کا مرقد مبارک موجود ہے جس کی زیارت کے لیے دور دور سے لوگ آیا کرتے تھے [22]۔ س حوالہ سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے بھی ایک روایت مروی ہے۔ حاکم نیشاپوری اس روایت کو یوں نقل کرتے ہیں: حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے حضرموت کے ایک آدمی سے کہا: کیا تو نے سرخ رنگ کا ریت کا ٹیلہ دیکھا ہے جس میں سرخ رنگ کی مٹی ملی ہوئی ہواور جس کے اردگرد ایسے ایسے بہت ساری بیریاں ہیں؟ اس نے کہا: خدا کی قسم! اے امیر المؤمنین ! آ پ نے تو اس شخص کی طرح تمام اوصاف بیان کردیے ہیں جس نے اس کو دیکھا ہو۔ آپ نے فرمایا: نہیں! بلکہ مجھے تو اس کے متعلق بتایاگیاہے۔ حضرمی نے کہا: اے امیر المؤمنین ! اس کا معاملہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس میں حضرت ہودکی قبر ہے [23]۔

وادی برہوت اور بئر برہوت

حضرموت میں برہوت نامی ایک کنواں بھی تھا جس کو دنیا کا سب سے برا کنواں کہا جاتا تھا۔ اس حوالہ سے عبد الرزاق اپنی مصنف میں حضرت علیسے ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں: حضرت علیسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگوں میں خیر اور بھلائی کی دو وادیاں ہیں، ایک وادی مکّہ مکّرمہ میں اور دوسری سرزمین ہند میں جہاں حضرت آدماترےتھے، اس میں ہی یہ(عود ہندی) ہوتی ہےجو تم لگاتے ہو۔ لوگوں میں دو شر کی وادیاں ہیں، ایک وادی الاحقاف اور دوسری حضر موت میں جسے وادی برہوت کہا جاتا ہے۔ لوگوں میں سب سے اچھا اور بہترین کنواں زمزم ہے اور سب سے برا کنواں بلہوت ہے اور یہ اسی وادی برہوت میں ایک کنواں ہے جس میں کفار کی ارواح جمع کی جاتی ہیں [24]۔

نجران

نجران بھی یمن کا تاریخی اور قدیم ترین شہر ہے جو صنعاء سے تقریباً ڈھائی سو(250)کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ سید محمود شکری اس شہر کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ یمن کی سرزمین کا بہت بڑا ٹکڑا ہے جہاں نخلستان اور درخت پائے جاتے ہیں۔ یہ صنعاء کے قریب عدن اور حضر موت کے درمیان واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ یمن کے شمال سے صعدہ کے شمال تک کی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ صنعاء تقریباً دس(10)مرحلوں کے فاصلے پر ہےاور کبھی یہ بلاد ہمدان میں شامل اور بستیوں، شہروں، آبادیوں اور پانیوں(چشموں) کے درمیان واقع تھا [25]۔

وجہ تسمیہ

نجران کی وجہ تسمیہ کےبارے میں مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ نجران بن زیدان بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام پر اس علاقے کو نجران کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اس علاقہ کو آباد کیا تھا۔ اس حوالہ سے البلاذری ابن الکلبی کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: نجران بن زیدبن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کےنام سے یمن کا نجران موسوم ہوا [26]۔ اس حوالہ سے یاقوت حموی لکھتے ہیں: نجران بن زیدان بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام پر اس علاقے کو نجران کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ علاقہ آباد کیااوراس میں فروکش ہوا [27]۔ نجران پرانے زمانے میں تجارتی قافلوں کی گزرگاہ تھا ان دنوں یہ سعودی عرب کی سرحد کے اندر واقع ہےاور یہ انتہائی سرسبز وشاداب خطہ ہے۔

بلاد ِاحقاف

حضرموت کی طرح بلادِ احقاف بھی یمن کا ایک قدیم ترین شہر تھا جو حضرموت اور نجران کے مابین موجودہ ریگستان میں آباد تھا۔ اہل ِعرب ریت کے بل کھاتے ہوئے ٹیلے کو احقاف کہتے تھے [28]۔ یہ شہر اپنے دور میں خاصا مشہور اورسر سبزوشاداب شہر تھا لیکن موجودہ زمانے میں یہاں صرف ریت کے اونچے اونچے ٹیلےہی ہیں۔ یہ عہدِقدیم میں ایک بڑا شہر تھا اور اس میں بہت بڑی آبادی رہا کرتی تھی مگر اب یہاں دور دور تک کسی ذی روح کے نشان نہیں۔ اب اسے "الاحقاف" یعنی ریگستان کہتے ہیں اور یہ " الربع الخالی" نامی عرب کے سب سے بڑے ریگستان کا ایک کنارہ ہے [29]۔

یمن کی مشہور وادیاں

يمن ميں کئی ایک وادیاں تھیں جو یمن کی شادابی میں موثر کردار اد اکرتی تھیں۔ ان وادیوں میں وادی نجران، وادی حجر اور وادی حضرموت سر فہرست ہیں۔ وادی نجران یمن کے شمال کی طرف نجران میں بہتی تھی جس کا پانی جبل طویق کے جنوب میں الربع الخالی میں جذب ہوجاتا تھا۔ حضر موت کے جنوب میں واقع وادی حجر میں جزیرہ نمائے عرب کا واحد دریا تھا جو پورا سال بہتااور بحیرہ عرب میں گرتا لیکن اس کی لمبائی سو( 100)کلو میٹر سے زیادہ نہیں تھی۔ وادیِ حضر موت، حضرموت کے شمال مشرق میں واقع تھی جوشمال اور جنوب کی طرف سے آنے والی ندیوں سے مل کر "وادی المسیلہ"کہلاتی اور سیحوت کے قریب بحیرہ عرب میں جاگرتی۔ سیحوت یمن کے مشرقی صوبے مہرہ کا ایک شہر تھاجو بحیرہ عرب کے ساحل پر مکلا سے پانچ سو بائیس( 522)کلو میٹر اور صنعاء سے تیرہ سو اٹھارہ (1318) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھااور یہاں کشتیاں بنانے کا کام بھی ہوتا تھا [30]۔

  1. ڈاکٹر گستاؤلی بان، تمدن عرب (مترجم: سید علی بلگرامی)، مطبوعہ: الفیصل ناشران وتاجران کتب، لاہور، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص11
  2. ڈاکٹر شوقی خلیل، اٹلس سیرت نبوی ﷺ، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص31
  3. پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبیﷺ، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1415ھ، ص: 246-248
  4. ابو الحسن علی بن عبداﷲ السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰﷺ، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1419ھ، ص: 49
  5. ول دیورانت، قصۃ الحضارۃ، ج-11، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1988م، ص116
  6. ابو عبداﷲ محمد بن سعد بصری، الطبقات الکبریٰ(مترجم: علامہ عبداللہ العمادی)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص54
  7. ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-1، دار التراث العربی، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص209
  8. ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص115
  9. ابو البقاء محمد بن موسی الدَّمِیری، النجم الوہاج فی شرح المنہاج، ج-3، مطبوعۃ: دار المنہاج، جدۃ، السعودیۃ، 2004م، ص 486
  10. لویس معلوف، المنجد، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان، 1994ء، ص317
  11. ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص51
  12. ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص447
  13. احمد بن اسحاق ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی (مترجم: مولانا اختر فتح پوری)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت اندارد)، ص289
  14. الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-6، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص 221
  15. السید محمود الشکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص205
  16. الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-6، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص221
  17. ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 167-
  18. سید سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ: معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص95
  19. محمد بیومی مھران، دراسات فی تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار المعرفۃ الجامعیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص209
  20. ابو الحسن علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002م، ص 1999
  21. عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص 165
  22. زکریا بن محمد القزوینی، آثار البلاد واخبار العباد، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص 37
  23. ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج-2، حدیث: 4062، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص 615
  24. ابو بکر عبد الرزاق بن ھمام الصنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث: 9118، ج-5، مطبوعۃ: المجلس العلمی، الھند، 1403ھ، ص 115
  25. سید محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم: ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص 450
  26. احمد بن یحییٰ البلاذری، فتوح البلدان، مطبوعۃ: مکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان، 1988م، ص 74
  27. ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 266
  28. ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 266
  29. پیر محمد کرم شاہ الازہری، تفسیر ضیاء القرآن، ج-4، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1399ھ، ص: 490
  30. عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 168