"عید قربان" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 14: سطر 14:
# نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں <ref>سنن ترمذی حدیث نمبر 773</ref>۔
# نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں <ref>سنن ترمذی حدیث نمبر 773</ref>۔
== قربانی کی سنت تاریخ کے آئینے میں ==
== قربانی کی سنت تاریخ کے آئینے میں ==
حضرت ابراہیم خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی پر مامور ہوئے اور عید قربان کے دن آپ نے خدا کے حکم کی بجا آوری کی خاطر اسماعیل کو سرزمین منا میں قربانی کیلئے لے گئے۔ جب منا میں جمرہ اول کے مقام پر پہنچا تو شیطان ان کے سامنے ظاہر ہوا اور حضرت ابراہیم کو ورغلانے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم نے سات پتھر مار کر اسے بھگایا اسی طرح جمرہ دوم اور سوم کے مقام پر یہ عمل تکرار ہوا یوں حضرت ابراہیم کا یہ عمل حج کے اعمال میں شامل ہوا اور آج ہر جاجی پر واجب ہے کہ حج کے دوران اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے شیطان کو کنکریاں ماریں۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 10:22، 25 جون 2023ء

عید قربان.jpg

عید قربان یا عید الاضحی (10 ذوالحجہ) مسلمانوں کی بڑی عیدوں میں سے ہے۔ احادیث کے مطابق اس دن خدا کی طرف سے حضرت ابراہيم خلیل اللہ کیلئے اسماعيل ذبیح اللہ کی قربانی پیش کرنے کا حکم ہوا۔ حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو قربان گاہ کی طرف لے گیا اور قربانی کی قصد سے جب اس کی گردن پر چھری پھیرنا چاہا تو خدا نے جبرئيل کے ساتھ ایک مینڈھے کو بھیجا اور حضرت ابراہیم نے اسماعیل کے بدلے اس کی قربانی دی۔ اس دن سے آج تک اس واقعے کی یاد میں ادیان ابراہیمی کو ماننے والے قربانی کی اس سنت پر عمل کرتے ہیں اور بیت اللہ الحرام کی زیارت یعنی حج پر مشرف ہونے والے حاجیوں پر منا میں معین شرایط کے ساتھ قربانی دینا واجب ہے اور یہ حج کے اعمال میں سے ایک واجب عمل ہے۔ عید کے دن اور رات کو احادیث میں بہت سارے اعمال وارد ہوئی ہیں جن میں عید کی رات کو شب بیداری کرنا دعا و مناجات اور نماز میں مشغول رہنے کی بہت زیادہ فضیلت ذکر ہوئی ہے۔ جبکہ عید فطر کی طرح اس دن بھی روزہ رکھنا حرام ہے۔ تقریبا تمام اسلامی ممالک میں عید قربان کے دن سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے اور مسلمان اس دن جشن مناتے ہیں۔

مناسک حج میں اس دن کے مخصوص اعمال

عید کے دن حاجی صبح سرزمین منا میں چلے جاتے ہیں اور اس دن درج ذیل اعمال انجام دیتے ہیں:

  • رمی جمرات
  • قربانی
  • حلق و تقصیر [1]

اہل سنت کے الفاظ میں عیدالاضحی

عید الاضحی کو دس ذی الحجہ کے دن منایا جاتا ہے اور یہ دونوں عیدوں میں افضل عید ہے اور حج کے مکمل ہونے کے بعد آتی ہے۔ جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تو اللہ تعالٰی انہیں معاف کر دیتا ہے۔ اس لیے حج کی تکمیل یوم عرفہ میں وقوف عرفہ پر ہوتی ہے جو حج کاایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالٰی ہر شخص کوآگ سے آزادی دیتے ہیں عرفات میں وقوف کرنے والے اور دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی آزادی ملتی ہے۔

  1. یہ دن اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے بہترین دن ہے : حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالٰی نے زاد المعاد میں کہتے ہیں : اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے افضل اور بہتر دن یوم النحر ( عیدالاضحی ) کا دن ہے اوروہ حج اکبروالا دن ہے۔ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : یقینا یوم النحر اللہ تعالٰی کے ہاں بہترین دن ہے ) [2]
  2. یہ حج اکبر والا دن ہے :عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حج کے دوران میں جوانہوں نے کیا تھایوم النحر( عید الاضحی ) والے دن جمرات کے درمیان میں کھڑے ہوکرفرمانے لگے یہ حج اکبر والا دن ہے۔ [3]
  3. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں [4]۔

قربانی کی سنت تاریخ کے آئینے میں

حضرت ابراہیم خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی پر مامور ہوئے اور عید قربان کے دن آپ نے خدا کے حکم کی بجا آوری کی خاطر اسماعیل کو سرزمین منا میں قربانی کیلئے لے گئے۔ جب منا میں جمرہ اول کے مقام پر پہنچا تو شیطان ان کے سامنے ظاہر ہوا اور حضرت ابراہیم کو ورغلانے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم نے سات پتھر مار کر اسے بھگایا اسی طرح جمرہ دوم اور سوم کے مقام پر یہ عمل تکرار ہوا یوں حضرت ابراہیم کا یہ عمل حج کے اعمال میں شامل ہوا اور آج ہر جاجی پر واجب ہے کہ حج کے دوران اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے شیطان کو کنکریاں ماریں۔

حوالہ جات

  1. عطائی اصفہانی، علی،اسرار حج، ص ۱۲۶-۱۲۳
  2. سنن ابوداؤد حدیث نمبر 1765
  3. صحیح بخاری حدیث نمبر 1742
  4. سنن ترمذی حدیث نمبر 773