"جعفر بن محمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
(«جعفر بن محمد جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام سے مشہور ہیں (83-148ھ) اپنے والد امام باقر علیہ السلام کے بعد بارہ شیعوں کے چھٹے امام ہیں۔ وہ 34 سال ( 114 سے 148 ہجری ) تک شیعوں کی امامت کے انچارج رہے ، جو کہ ہشام بن عبدالملک سے لے کر اس کے بعد کے آخری پان...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
جعفر بن محمد جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام سے مشہور ہیں (83-148ھ) اپنے والد امام باقر علیہ السلام کے بعد بارہ شیعوں کے چھٹے امام ہیں۔ وہ 34 سال ( 114 سے 148 ہجری ) تک شیعوں کی امامت کے انچارج رہے ، جو کہ ہشام بن عبدالملک سے لے کر اس کے بعد کے آخری پانچ اموی خلفاء ، اور پہلے دو عباسی خلفاء کی خلافت کے برابر تھا ۔ صفح اور منصور داوانیگھی ۔ اموی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے امام صادق علیہ السلام کی سائنسی سرگرمیاں دوسرے شیعہ ائمہ کے مقابلے میں بہت زیادہ تھیں۔ طلباء اور راویوں کی تعداد 4000 لوگ اسے جانتے ہیں۔ اہل بیت علیہ السلام کی زیادہ تر روایات امام صادق علیہ السلام سے ہیں لہذا امامی شیعہ مذہب کو جعفری مذہب بھی کہا جاتا ہے ۔ امام صادق علیہ السلام سنی فقہی رہنمائوں میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ۔ ابو حنیفہ اور مالک بن انس نے ان سے روایت کی ہے۔ ابو حنیفہ اسے مسلمانوں میں سب سے زیادہ عالم سمجھتے تھے ۔ اموی حکومت کی کمزوری اور شیعوں کی درخواست کے باوجود امام صادق حکومت کے خلاف نہیں اٹھے۔ اس نے ابو مسلم خراسانی اور ابو سلمہ کی خلافت سنبھالنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ۔ امام صادق علیہ السلام اپنے چچا زید بن علی کی بغاوت کے دوران
'''جعفر بن محمد (83۔148 ھ) امام جعفر صادقؑ''' کے نام سے مشہور، شیعہ اثنا عشری کے چھٹے امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت 34 سال (114-148ھ) تھی۔ آپ کے والد ماجد امام محمد باقرؑ شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ بنی امیہ کے آخری پانچ خلفا ہشام بن عبدالملک سے آخر تک اور بنی عباس کے پہلے دو خلفا سفاح اور منصور دوانیقی آپ کے معاصر ہیں۔ آپ کے دور امامت میں بنی امیہ کے زوال اور بنی عباس کے نو ظہور اور غیر مستحکم حکومت کی وجہ سے دوسرے ائمہ کی بنسبت آپ کو زیادہ سے زیادہ علمی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔ آپ کے شاگردوں اور راویوں کی تعداد 4000 ہزار تک بتائی گئی ہیں۔ اہل بیتؑ سے منسوب اکثر احادیث آپ سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔


اس نے شرکت نہیں کی اور اس نے شیعوں کو بغاوت سے بھی روکا۔ تاہم ان کے اپنے وقت کے حکمرانوں سے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ اموی اور عباسی حکومتوں کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے اس نے تقیہ کا طریقہ اختیار کیا اور اپنے دوستوں کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیا۔
امام صادقؑ کو اہل سنت کے فقہی پیشواؤں کے یہاں بھی بڑا مقام حاصل ہے۔ ابو حنیفہ و مالک بن انس نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔ ابو حنیفہ آپؑ کو مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا عالم سمجھتے تھے۔


امام صادق علیہ السلام نے شیعوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بات چیت کرنے، ان کے شرعی سوالات کے جوابات دینے، شرعی فنڈ حاصل کرنے اور شیعوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے وکالت کی تنظیم بنائی ۔ اس تنظیم کی سرگرمی بعد کے ائمہ کے زمانے میں پھیلی اور رسول اللہ کی غیر موجودگی میں اپنے عروج پر پہنچ گئی ۔ ان کے دور میں غالیان کی سرگرمیوں میں وسعت آئی۔ اس نے گھلو کی فکر سے سختی سے نمٹا اور غالیان کو کافر اور مشرک کے طور پر متعارف کرایا ۔
بنی امیہ حکومت کے زوال اور شیعوں کی طرف سے درخواست کے باوجود آپ نے حکومت کے خلاف قیام نہیں فرمایا۔ ابو مسلم خراسانی اور ابو سلمہ کی طرف سے خلافت کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق درخواست کو بھی آپ نے رد فرمایا۔ اسی طرح اپنے چچا زید بن علی کی تحریک میں بھی آپ شریک نہیں ہوئے۔ آپ شیعوں کو بھی قیام سے پرہیز کی سفارش فرماتے تھے۔ ان سب چیزوں کے باوجود حاکمان وقت کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے آپ تقیہ کیا کرتے تھے اور شیعوں کو بھی تقیہ کی سفارش فرماتے تھے۔


بعض منابع میں منقول ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے حکومت کے بلانے کی وجہ سےآپ نے عراق کا سفر کیا اور کربلا ، نجف اور کوفہ گئے ۔ اس نے امام علی (ع) کی قبر جو اس وقت تک چھپی ہوئی تھی اپنے ساتھیوں کو دکھائی۔ بعض شیعہ علماء کا خیال ہے کہ امام صادق علیہ السلام کو منصور داوانغی کے حکم سے زہر دینے کے نتیجے میں شہید کیا گیا تھا ۔
امام صادقؑ نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ زیادہ رابطے میں رہنے، درپیش شرعی سوالات کا جواب دینے، وجوہات شرعیہ کے دریافت اور اپنے پیروکاروں کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے وکالتی نظام تشکیل دیا۔ اس نظام میں آپ کے بعد آنے والے اماموں کے دور میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ غیبت صغرا کے دور میں یہ نظام اپنے عروج پر جا پہنچا۔ آپ کے دور میں غالیوں کی فعالیتوں میں شدت آئی۔ آپ نے ان کے خلاف نہایت سخت اقدامات انجام دیئے اور انہیں کافر اور مشرک قرار دیا۔
شیعہ روایت کے ذرائع کے مطابق، اس نے امام کاظم علیہ السلام کو اپنے بعد امام کے طور پر اپنے اصحاب سے متعارف کرایا ۔ لیکن اپنی جان بچانے کے لیے اس نے منصور خلیفہ عباسی سمیت پانچ افراد کو اپنا ایگزیکیٹر کے طور پر متعارف کرایا۔ امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد شیعوں میں مختلف فرقے قائم ہوئے جن میں اسماعیلیہ ، الفتحیہ اور نووسیہ شامل ہیں۔
 
بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ کو حکومت وقت کے حکم پر عراق بلایا گیا جس دوران آپ کربلا، نجف اور کوفہ بھی تشریف لے گئے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ بعض شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ آپؑ منصور دوانیقی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوئے۔ شیعہ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے متعارف کرایا تھا، لیکن امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر آپ نے عباسی خلیفہ منصور دوانیقی سمیت پانچ افراد کو اپنا وصی مقرر کیا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد شیعوں میں مختلف فرقے وجود میں آگئے جن میں اسماعیلیہ، فَطَحیہ اور ناووسیہ شامل ہیں۔

نسخہ بمطابق 09:59، 25 فروری 2023ء

جعفر بن محمد (83۔148 ھ) امام جعفر صادقؑ کے نام سے مشہور، شیعہ اثنا عشری کے چھٹے امام ہیں۔ آپ کی مدت امامت 34 سال (114-148ھ) تھی۔ آپ کے والد ماجد امام محمد باقرؑ شیعوں کے پانچویں امام ہیں۔ بنی امیہ کے آخری پانچ خلفا ہشام بن عبدالملک سے آخر تک اور بنی عباس کے پہلے دو خلفا سفاح اور منصور دوانیقی آپ کے معاصر ہیں۔ آپ کے دور امامت میں بنی امیہ کے زوال اور بنی عباس کے نو ظہور اور غیر مستحکم حکومت کی وجہ سے دوسرے ائمہ کی بنسبت آپ کو زیادہ سے زیادہ علمی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔ آپ کے شاگردوں اور راویوں کی تعداد 4000 ہزار تک بتائی گئی ہیں۔ اہل بیتؑ سے منسوب اکثر احادیث آپ سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

امام صادقؑ کو اہل سنت کے فقہی پیشواؤں کے یہاں بھی بڑا مقام حاصل ہے۔ ابو حنیفہ و مالک بن انس نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔ ابو حنیفہ آپؑ کو مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا عالم سمجھتے تھے۔

بنی امیہ حکومت کے زوال اور شیعوں کی طرف سے درخواست کے باوجود آپ نے حکومت کے خلاف قیام نہیں فرمایا۔ ابو مسلم خراسانی اور ابو سلمہ کی طرف سے خلافت کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق درخواست کو بھی آپ نے رد فرمایا۔ اسی طرح اپنے چچا زید بن علی کی تحریک میں بھی آپ شریک نہیں ہوئے۔ آپ شیعوں کو بھی قیام سے پرہیز کی سفارش فرماتے تھے۔ ان سب چیزوں کے باوجود حاکمان وقت کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے آپ تقیہ کیا کرتے تھے اور شیعوں کو بھی تقیہ کی سفارش فرماتے تھے۔

امام صادقؑ نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ زیادہ رابطے میں رہنے، درپیش شرعی سوالات کا جواب دینے، وجوہات شرعیہ کے دریافت اور اپنے پیروکاروں کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے وکالتی نظام تشکیل دیا۔ اس نظام میں آپ کے بعد آنے والے اماموں کے دور میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ غیبت صغرا کے دور میں یہ نظام اپنے عروج پر جا پہنچا۔ آپ کے دور میں غالیوں کی فعالیتوں میں شدت آئی۔ آپ نے ان کے خلاف نہایت سخت اقدامات انجام دیئے اور انہیں کافر اور مشرک قرار دیا۔

بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ کو حکومت وقت کے حکم پر عراق بلایا گیا جس دوران آپ کربلا، نجف اور کوفہ بھی تشریف لے گئے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ بعض شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ آپؑ منصور دوانیقی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوئے۔ شیعہ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے متعارف کرایا تھا، لیکن امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر آپ نے عباسی خلیفہ منصور دوانیقی سمیت پانچ افراد کو اپنا وصی مقرر کیا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد شیعوں میں مختلف فرقے وجود میں آگئے جن میں اسماعیلیہ، فَطَحیہ اور ناووسیہ شامل ہیں۔