مندرجات کا رخ کریں

"محمد البرادعی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 151: سطر 151:
استعفیٰ کے بعد وہ مصر چھوڑ کر ویانا (آسٹریا) واپس چلے گئے، جہاں وہ پہلے اقوامِ متحدہ میں طویل عرصے تک مقیم رہے تھے۔
استعفیٰ کے بعد وہ مصر چھوڑ کر ویانا (آسٹریا) واپس چلے گئے، جہاں وہ پہلے اقوامِ متحدہ میں طویل عرصے تک مقیم رہے تھے۔
ان پر بعد ازاں "عہدے سے غداری"کے الزام میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا، لیکن عدالت نے  اکتوبر 2013ء میں مقدمہ ختم کر دیا۔
ان پر بعد ازاں "عہدے سے غداری"کے الزام میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا، لیکن عدالت نے  اکتوبر 2013ء میں مقدمہ ختم کر دیا۔
== سیاسی سرگرمیاں ==
گزشتہ چند برسوں میں محمد البرادعی نے مصر کی سیاسی زندگی میں مختلف کردار ادا کیے ہیں، اور 25 جنوری کے انقلاب اور حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کا نام مصر میں پہلے سے کہیں زیادہ مشہور ہوا۔
اتوار کو "العالم" نیوز نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق، مصری حکومت  نے اعلان کیا ہے کہ "محمد البرادعی"، جو "قومی نجات محاذ" کے کوآرڈینیٹر ہیں، عبوری دور کے لیے وزارتِ عظمیٰ کے سب سے نمایاں امیدوار ہیں، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں ہوا۔
== تعلیم ==
== تعلیم ==
محمد البرادعی نے 1962 میں قاہرہ یونیورسٹی سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے جنیوا میں "HEI" یعنی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اور 1974 میں نیویارک یونیورسٹی کے لاء کالج سے بین الاقوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔
محمد البرادعی نے 1962 میں قاہرہ یونیورسٹی سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے جنیوا میں "HEI" یعنی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اور 1974 میں نیویارک یونیورسٹی کے لاء کالج سے بین الاقوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔

نسخہ بمطابق 14:27، 2 نومبر 2025ء

محمد البرادعی(پیدائش:17 جون 1942ء) مصر کے نوبل امن انعام یافتہ اور عالمی شہرت یافتہ شخصیت، ایک مصری سفارت کار، بین الاقوامی منتظم اور سیاست دان ہیں جن کا نظریاتی رجحان لبرل جمہوریت کی طرف ہے۔ آپ نے 2005ء میں نوبل امن انعام حاصل کیا، اُس وقت جب آپ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ البرادعی نیشنل ایسوسی ایشن فار چینج(National Association for Change) کے بانی بھی ہیں۔ فی الوقت وہ مصر کی حزبِ الدستور (الدستور پارٹی) کے اعزازی صدر ہیں۔ یہ جماعت، اپنی تعریف کے مطابق، اُن تمام مصری سیاسی قوتوں کو متحد کرنے کا ہدف رکھتی ہے جو آزادیِ عامہ، جمہوری اقدار اور سول ریاست کے اصولوں پر یقین رکھتی ہیں، تاکہ انقلابِ 25 جنوری 2011ء کے مقاصد اور اصولوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ 5 دسمبر 2012ء سے وہ جَبھۃ الانقاذ الوطنی (National Salvation Front) کے سربراہ ہیں، جو مختلف مصری حزبِ مخالف جماعتوں کا ایک اتحاد تھا جس نے اُس وقت کے صدر محمد مرسی کے آئینی فیصلوں کی مخالفت کی۔2013ء میں مصر میں ہونے والی فوجی مداخلت کے بعد — جسے بعض حلقے "انقلاب" اور بعض "فوجی قبضہ" قرار دیتے ہیں — البرادعی اُن نمایاں امیدواروں میں سے ایک تھے جن کا نام وزیرِاعظم کے طور پر لیا جا رہا تھا۔ بالآخر، 9 جولائی 2013ء کو، عبوری صدر عدلی منصور نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے انہیں نائبِ صدر برائے بین الاقوامی تعلقات مقرر کیا۔ البرادعی نے جرمن جریدے Der Spiegel کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فوج کی مداخلت "فوجی بغاوت" نہیں بلکہ "عوامی مطالبے کا جواب" تھی۔ اُن کے الفاظ میں: "اگر محمد مرسی کو معزول نہ کیا جاتا تو مصر ایک فاشسٹ ریاست بن جاتا۔" انہوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ فوج دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی تھی، اور **اخوان المسلمون** کو تشدد اور عدم استحکام کے لیے اُن کے "تحریکی بیانات" کے باعث ذمہ دار قرار دیا۔ 14 اگست 2013ء کو، حکومت کی جانب سے محمد مرسی کے حامی دھرنوں کی جبری تطہیر (رابعة العدویة و النهضة) کے بعد، البرادعی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ سیاسی اختلافات کا حل صرف پُرامن ذرائع سے ممکن ہے۔

ابتدائی زندگی

محمد البرادعی کی پیدائش إبیار نامی قصبے میں ہوئی جو صوبہ الغربیہ (محافظہ الغربیة) میں واقع ہے۔ ان کے والد، مصطفی البرادعی، ایک ممتاز وکیل اور نقابت المحامین (بار ایسوسی ایشن) کے سابق سربراہ تھے۔ انہوں نے 1962ء میں جامعہ القاہرہ سے قانون میں لیسانس (LL.B) کی ڈگری حاصل کی۔

ان کی اہلیہ عايدہ الکاشف ہیں، جو ویانا انٹرنیشنل اسکول میں ابتدائی تعلیم کی معلمہ ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں — بیٹی: لیلیٰ (پیشہ ور وکیل) اور بیٹا: مصطفیٰ (ایک نجی ٹی وی چینل کے اسٹوڈیو ڈائریکٹر)۔ دونوں طویل عرصے تک لندن میں مقیم رہے، تاہم 2009ء میں اپنے والدین کے ساتھ مصر واپس آگئے۔

علمی و پیشہ ورانہ پس منظر

محمد البرادعی نے 1964ء میں مصر کی وزارتِ خارجہ میں شمولیت اختیار کی، جہاں انہیں بین الاقوامی تنظیموں کے شعبے میں تعینات کیا گیا۔ اسی دوران انہوں نے اقوامِ متحدہ کے مصر کے مستقل مشنز میں نیویارک اور جنیوامیں اپنی خدمات انجام دیں۔

دس سالہ سفارتی خدمات کے بعد، انہوں نے معاہدۂ کیمپ ڈیوڈ (1978) کے چند شقوں پر اختلافِ رائے کے باعث وزارتِ خارجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ بعد ازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ روانہ ہوئے اور 1974ء میں یونیورسٹی آف نیویارک سے قانونِ بین الاقوام (Ph.D. in International Law) میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

اسی سال (1974ء) وطن واپسی پر انہیں وزیرِ خارجہ اسماعیل فہمی کا معاون مقرر کیا گیا۔ 1980ء میں وہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تربیت و تحقیق (UNITAR) میں پروگرامِ قانونِ بین الاقوام کے سربراہ بنے۔ 1981ء سے 1987ء تک انہوں نے یونیورسٹی آف نیویارک اسکول آف لا میں بین الاقوامی قانون کے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر تدریسی فرائض انجام دیے۔

البرادعی کو بین الاقوامی تنظیموں، امن و ترقی کے طریقۂ کار، ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور ایٹمی توانائی کے پُرامن استعمالات کے موضوعات پر وسیع تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے ان موضوعات پر متعدد **کتب، مضامین اور تحقیقی مقالے تصنیف کیے ہیں اور وہ انٹرنیشنل لا ایسوسی ایشن، امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا سمیت کئی پیشہ ورانہ انجمنوں کے رکن ہیں۔

ایجنسی میں شمولیت اور ترقی

محمد البرادعی نے 1984ء میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (International Atomic Energy Agency – IAEA) میں شمولیت اختیار کی۔ ابتدائی طور پر انہوں نے مشیرِ قانونی کے طور پر خدمات انجام دیں، بعد ازاں 1993ء میں انہیں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل برائے خارجہ تعلقات مقرر کیا گیا۔

1 دسمبر 1997ء کو وہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل منتخب ہوئے، سوئیڈن کے سفارتکار ہانس بلیکس کے جانشین کے طور پر۔ انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوا، جس میں انہیں 34 میں سے 33 ووٹ حاصل ہوئے۔

بعد ازاں انہیں دو بار مزید اس عہدے پر دوبارہ منتخب کیا گیا —

  • 2001ء میں دوسری مدت کے لیے
  • 2005ء میں تیسری مدت کے لیے

ان کی قیادت میں ایجنسی نے دنیا بھر میں ایٹمی عدم پھیلاؤ (Non-Proliferation)، توانائی کے پُرامن استعمال اور تحفظِ تابکاریکے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا۔

عراق کا ایٹمی پروگرام اور جنگ

2003ء کی عراق جنگ سے قبل، البرادعی اور ہانس بلیکس نے اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی سربراہی کی جنہیں یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ عراق میں کسی بھی خفیہ ایٹمی یا کیمیائی سرگرمی کا پتہ لگائیں۔ 27 جنوری 2003ء کو سلامتی کونسل میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے البرادعی نے کہا: "ایٹمی توانائی ایجنسی کی ٹیم کو اب تک عراق میں کسی مشکوک جوہری سرگرمی کے شواہد نہیں ملے۔" اسی طرح ہانس بلیکس کی رپورٹ میں بھی عراق کے پاس تباہیِ عام کے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction) کے کوئی ناقابلِ تردید ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔

اس کے باوجود امریکہ اور برطانیہ نے مارچ 2003ء میں عراق پر حملہ کر دیا۔ بعد ازاں، البرادعی نے اس دن کو اپنی زندگی کا “سب سے المناک دن” قرار دیا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ جنگ "غلط معلومات" پر مبنی تھی۔ ہانس بلیکس نے بعد میں انکشاف کیا کہ اُس وقت کے امریکی نائب صدر **ڈک چینی** نے انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر انسپکٹرز امریکہ کے موقف کی تائید نہ کریں تو ان کی ساکھ "تباہ" کر دی جائے گی۔

ایران کا ایٹمی پروگرام

البرادعی کے دور میں ایران کے ایٹمی پروگرام نے بھی عالمی سیاست میں مرکزی حیثیت اختیار کی۔ امریکہ اور اسرائیل نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ایران کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہیں، جبکہ وہ عراق کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے تھے۔

البرادعی نے جواب دیا کہ ان کا مؤقف ہمیشہ قانونی شواہد اور معاہداتِ بین الاقوام پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ سیاسی دباؤ پر۔ انہوں نے بارہا زور دیا کہ ایران کے مسئلے کا حل فوجی کارروائی نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔

مئی 2007ء میں CNN کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا: "ہمیں ایسے ’نئے دیوانوں‘ کو موقع نہیں دینا چاہیے جو ایران پر بمباری کے نعرے لگا رہے ہیں۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں، بلکہ بحران کو کئی گنا بڑھا دے گی۔"

اکتوبر 2007ء میں فرانسیسی روزنامہ "Le Monde" سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: "ایران کو فوری طور پر خطرہ قرار دینا غلط ہے۔ ہمیں عراق کی طرح جلد بازی میں طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔" 2008ء میں انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اگر ایران پر فوجی حملہ کیا گیا تو وہ بطور احتجاج استعفیٰ دے دیں گے، کیونکہ ایسا اقدام "پورے خطے کو آگ میں جھونک دے گا۔"

امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کشیدگی

امریکی حکومت — بالخصوص جارج بش انتظامیہ — البرادعی کے مؤقف سے ناخوش تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ (2005ء) میں انکشاف کیا گیا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں** ان کے **فون کالز اور ای میلز کی نگرانی** کر رہی تھیں تاکہ اُن کے خلاف کوئی ایسا مواد حاصل کیا جا سکے جس سے انہیں تیسری مدت کے لیے منتخب ہونے سے روکا جا سکے۔

امریکہ نے آسٹریلیا کے سابق وزیرِ خارجہ **الیکزنڈر ڈاؤنر** کو ان کے مقابلے میں نامزد کرنے کی کوشش کی، مگر زیادہ تر ممالک نے البرادعی کی حمایت کی، جن میں **فرانس، جرمنی، چین اور روس** شامل تھے۔ آخرکار امریکہ نے 9 جون 2005ء کو اپنا اعتراض واپس لے لیا، اور البرادعی بلا مقابلہ تیسری بار منتخب ہوئے۔ اسرائیلی میڈیا (مثلاً یدیعوت آحرونوت) نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ایرانی مفادات کے قریبہیں، لیکن یہ الزامات کبھی ثابت نہیں ہو سکے۔

نوبل امن انعام 2005ء

اکتوبر 2005ء میں نوبل کمیٹی نے محمد البرادعی اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو نوبل امن انعام سے نوازا۔ یہ اعزاز انہیں "جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے اور ایٹمی توانائی کے پُرامن استعمال کے فروغ کے لیے مسلسل کوششوں" کے اعتراف میں دیا گیا۔

انعام میں دس ملین سویڈش کراؤنز (تقریباً 1.3 ملین امریکی ڈالر) شامل تھے۔ البرادعی نے اپنے حصے کی رقم مصر کے یتیم خانوں کو عطیہ کر دی، جب کہ ایجنسی نے اپنی رقم ترقی پذیر ممالک میں بارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے مختص کی۔

اپنی نوبل تقریر میں البرادعی نے کہا: "غربت اور ناانصافی وہ زرخیز زمین ہیں جہاں دہشت گردی، انتہا پسندی اور خانہ جنگی پنپتی ہے۔ عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ جوہری ہتھیار نہیں بلکہ ناامیدی ہے۔"

مصری سیاست، انقلاب اور نائبِ صدارت کا دور

وطن واپسی اور عوامی پذیرائی

19 فروری 2010ء کو ڈاکٹر محمد البرادعی طویل عرصے کے بعد قاہرہ واپس آئے۔ ایئرپورٹ پر ان کا استقبال ہزاروں نوجوانوں، سیاسی کارکنوں اور شہریوں نے کیا۔ یہ لوگ مصر میں جمہوری اصلاحات اور سیاسی تبدیلی کے خواہاں تھے۔

استقبال کے موقع پر لوگوں نے مصر کے پرچم اور ایسے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: "مرحبا بالبرادعی – أمل التغيير" (خوش آمدید البرادعی — تبدیلی کی اُمید) وطن واپسی کے فوراً بعد انہوں نے مختلف سیاسی دھڑوں اور سماجی تحریکوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، جن میں کئی آزاد اور لبرل شخصیات شامل تھیں۔ انہوں نے جامعہ الدول العربیۃ (عرب لیگ) کے اُس وقت کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ سے بھی ملاقات کی۔

البرادعی کی وطن واپسی کو سرکاری میڈیا نے تقریباً نظرانداز کیا، مگر نجی ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ فورمز پر اُن کے بیانات اور سیاسی نظریات تیزی سے پھیل گئے، جس سے ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

قومی تحریک برائے تبدیلی (الجمعیة الوطنیة للتغییر)

اسی سال، البرادعی نے الجمعیة الوطنیة للتغییر (National Association for Change) کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ تنظیم آئین میں جمہوری اصلاحات، ایمرجنسی قوانین کی منسوخی اور آزاد انتخابات کے لیے دباؤ ڈالنے کا پلیٹ فارم بنی۔

اس میں مختلف نظریات سے تعلق رکھنے والے کارکن — لبرل، سوشلسٹ، اور اخوان المسلمون کے نمائندے — شامل تھے۔ تنظیم نے آن لائن دستخطی مہم شروع کی، جس پر لاکھوں مصریوں نے دستخط کیے۔

پارلیمانی انتخابات 2010 اور انتباہ

انتخاباتِ مجلس الشعب (پارلیمنٹ) 2010ء سے قبل، البرادعی نے تمام حزبِ مخالف جماعتوں (بشمول اخوان المسلمون اور حزب الوفد) سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں، کیونکہ حکومت کی جانب سے دھاندلی متوقع تھی۔ تاہم بعض جماعتوں نے شرکت کی، مگر پہلے ہی مرحلے میں وسیع پیمانے پر جعلسازی سامنے آئی، جس کے بعد بڑی جماعتیں انتخابات سے دستبردار ہو گئیں۔ نتیجتاً حکمراں **الحزب الوطنی الديمقراطی (نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی)** نے تقریباً تمام نشستیں حاصل کر لیں۔

البرادعی نے اس صورتحال پر خبردار کرتے ہوئے کہا: "نظامِ مبارک نے عوام کے لیے تبدیلی کے تمام پُرامن راستے بند کر دیے ہیں؛ اب ملک صرف ایک دھماکہ خیز تبدیلی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔" یہ پیش گوئی محض چند ماہ بعد درست ثابت ہوئی۔

انقلابِ 25 جنوری 2011

جب 25 جنوری 2011 کو مصر میں عوامی احتجاجات شروع ہوئے، البرادعی اُس وقت ویانا میں تھے۔ انہوں نے فوری طور پر مصر واپسی کا اعلان کیا اور تحریکِ آزادی کے حق میں بیان دیتے ہوئے کہا: "یہ نوجوانوں کی بیداری ہے، اور ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔"

انہوں نے "جمعة الغضب (جمعۃ الغضب)" کے دن مظاہرین کے درمیان شرکت کی، اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے ان پر کیمیائی پانی کا اسپرے بھی کیا گیا۔ وہ تحریک کے ایک اخلاقی و فکری رہنما کے طور پر سمجھے جانے لگے، حالانکہ وہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں تھے۔

صدارتی انتخابات 2012 اور دستبرداری

نومبر 2009ء سے ہی ان کے ممکنہ صدارتی امیدوار بننے کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر **آزادانہ اور شفاف انتخابات** کی تحریری ضمانت دی جائے تو وہ اپنی امیدواری پر غور کریں گے۔

تاہم 14 جنوری 2012ء کو انہوں نے یہ کہہ کر اپنی نامزدگی واپس لے لی کہ "ملک ایک ایسے عبوری مرحلے میں ہے جہاں جمہوریت کے بنیادی اصول غائب ہیں، اور فیصلے غیر شفاف انداز میں کیے جا رہے ہیں۔"

حزب الدستور

28 اپریل 2012ء کو البرادعی نے حزب الدستور کے قیام کا اعلان کیا۔ پارٹی کا منشور آزادی، شہری ریاست، مساوات، اور انقلابِ 25 جنوری کے اصولوں کے تحفظ پر مبنی تھا۔

بعد ازاں انہوں نے جَبھۃ الإنقاذ الوطنی (National Salvation Front) تشکیل دی — جو مختلف سیکولر، لبرل، اور بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد تھا۔ یہ اتحاد اُس وقت کے صدر محمد مرسی کے آئینی اعلامیے (نومبر 2012ء) کے خلاف تھا، جس کے ذریعے مرسی نے اپنے فیصلوں کو عدالتی نظرِ ثانی سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ البرادعی نے مرسی پر جمہوریت کے خلاف اقدام اور اقتدار پر قبضے کا الزام لگایا، اور عوام کو احتجاج کی دعوت دی۔

30 جون 2013ء اور مرسی کی برطرفی

30 جون 2013ء کو ملک گیر احتجاجات کے بعد، فوج نے صدر محمد مرسی کو 3 جولائی کو معزول کر دیا۔ یہ اقدام ایک متنازع واقعہ تھا — کچھ لوگ اسے "عوامی انقلاب" کہتے ہیں، جبکہ دیگر اسے "فوجی مداخلت" سمجھتے ہیں۔

البرادعی اُس وقت فوج اور اپوزیشن کے درمیان اہم مذاکراتی ثالث تھے۔ خبر رساں ادارہ Reuters نے انہیں "سیاسی اپوزیشن کے نمائندہ مذاکرات کار" قرار دیا۔ فوجی روڈ میپ کے تحت، **عدلی منصور** کو عبوری صدر مقرر کیا گیا، اور البرادعی کو **نائبِ صدر برائے بین الاقوامی تعلقات** بنایا گیا (14 جولائی 2013ء)۔

استعفیٰ اور ملک سے روانگی

14 اگست 2013ء کو، جب سکیورٹی فورسز نے رابعة العدویة اور النهضة کے دھرنوں کو طاقت کے ذریعے ختم کیا — جس میں 500 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے — البرادعی نے فوری طور پر استعفیٰ دے دیا۔ اپنے استعفیٰ نامے میں انہوں نے لکھا:

"میں ہمیشہ پُرامن حل پر یقین رکھتا ہوں۔ متبادل راستے موجود تھے جو قومی مصالحت کی جانب لے جا سکتے تھے۔ لیکن جب طاقت استعمال کی گئی، میں مزید اس پالیسی کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ میں خدا، اپنے ضمیر، اور قوم کے سامنے کسی ایک بے گناہ خون کے قطرے کا جواب دہ نہیں بن سکتا۔"

استعفیٰ کے بعد وہ مصر چھوڑ کر ویانا (آسٹریا) واپس چلے گئے، جہاں وہ پہلے اقوامِ متحدہ میں طویل عرصے تک مقیم رہے تھے۔ ان پر بعد ازاں "عہدے سے غداری"کے الزام میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا، لیکن عدالت نے اکتوبر 2013ء میں مقدمہ ختم کر دیا۔

تعلیم

محمد البرادعی نے 1962 میں قاہرہ یونیورسٹی سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے جنیوا میں "HEI" یعنی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اور 1974 میں نیویارک یونیورسٹی کے لاء کالج سے بین الاقوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔

سفارتی کیریئر

ان کا سفارتی کیریئر 1964 میں مصر کی وزارتِ خارجہ سے شروع ہوا، جہاں وہ مصر کے مستقل مشنز کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے نیویارک اور جنیوا دفاتر میں سیاسی، قانونی اور اسلحہ کنٹرول کے امور پر کام کرتے رہے۔ 1974 سے 1978 تک وہ وزارتِ خارجہ میں خصوصی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ 1980 میں وہ اقوامِ متحدہ کے تربیتی و تحقیقی ادارے میں بین الاقوامی قانون کے پروگرام کے سینیئر عہدیدار کے طور پر کام کرنے لگے۔

نوبل امن انعام

1981 سے 1987 تک انہوں نے نیویارک یونیورسٹی کے لاء کالج میں بین الاقوامی قانون کے استاد کی حیثیت سے تدریس کی۔ البرادعی 1997 میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل منتخب ہوئے، اور 2005 میں اسی ادارے میں اپنی خدمات کے دوران انہیں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔

ان کی تیسری اور آخری مدتِ صدارت نومبر 2009 تک جاری رہی۔ ان کے دور میں ایجنسی نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا، جس میں 2003 میں عراق پر امریکی حملے سے قبل کے معائنے اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر جاری تنازعات شامل تھے۔

وہ 27 جنوری 2011 کو مصر واپس آئے اور حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام کی حمایت کی۔ اگرچہ 28 جنوری کو مبارک حکومت نے انہیں نظر بند کر دیا تھا، لیکن انہوں نے اس حکم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔

صدارتی انتخابات میں شرکت

البرادعی نے 19 مارچ 2011 کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا، لیکن دس دن بعد ان کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، جس کے بعد وہ آئینی ریفرنڈم میں شرکت نہ کر سکے۔ 14 جنوری 2012 کو انہوں نے مصر کی فوجی کونسل پر تنقید کرتے ہوئے، جسے وہ حقیقی جمہوریت قائم کرنے کے قابل نہیں سمجھتے تھے، صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

28 اپریل 2012 کو انہوں نے "الدستور" (آئین) نامی سیاسی جماعت قائم کی، جس کا مقصد مصری انقلاب کو بچانا اور اس کے مقاصد کو پورا کرنا تھا۔ البرادعی نے عمر موسیٰ اور حمدین صباحی کے ساتھ مل کر **قومی نجات محاذ** (جبهه نجات ملی) کے قیام اور قیادت میں بھی حصہ لیا، جس نے 30 جون 2013 کے مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا — وہی مظاہرے جن کے نتیجے میں محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔

مصری صدارت کے میڈیا مشیر احمد المسلمانی کے مطابق، البرادعی عبوری حکومت کے وزیرِاعظم کے لیے سب سے نمایاں امیدوار ہیں، تاہم اس عہدے کے لیے کچھ دیگر نام بھی زیرِ غور ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو بھی مدِنظر رکھا جا رہا ہے[1]۔

غزہ میں نسل کشی، اسرائیل کے خلاف کاروائی نہ ہونا عرب ممالک کی بزدلی ہے

عالمی جوہری ایجنسی کے سابق سربراہ نے صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں عرب ممالک کی خاموشی کو شرمناک اور بزدلی قرار دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ محمد البرادعی نے عرب ممالک کے اسرائیل کے خلاف قانونی اقدامات سے گریز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی برادری، تنظیمیں اور ماہرین اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے، لیکن عرب حکومتیں اس معاملے میں مؤثر کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔

البرادعی نے کہا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں دائر مقدمے اور عالمی فوجداری عدالت میں جمع کرائی گئی شکایات میں زیادہ تر غیر عرب ممالک شامل ہیں، جن میں کولمبیا، میکسیکو، اسپین، ترکی، بولیویا، بنگلادیش، جیبوتی اور جنوبی افریقہ شامل ہیں، جبکہ عرب ممالک اس قانونی جدوجہد سے دور ہیں، حالانکہ اصل فریق تو وہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے خلاف کسی بھی قانونی اقدام میں شامل ہونے سے خوفزدہ ہیں[2]۔

  1. محمد البرادعی کیست؟-شائع شدہ از: 16 تیر 1392ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2025ء
  2. غزہ میں نسل کشی، اسرائیل کے خلاف کاروائی نہ ہونا عرب ممالک کی بزدلی ہے، البرادعی- شائع شدہ از: 1 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2025ء