"محمد البرادعی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 24: | سطر 24: | ||
البرادعی نے عمر موسیٰ اور حمدین صباحی کے ساتھ مل کر **قومی نجات محاذ** (جبهه نجات ملی) کے قیام اور قیادت میں بھی حصہ لیا، جس نے 30 جون 2013 کے مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا — وہی مظاہرے جن کے نتیجے میں محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ | البرادعی نے عمر موسیٰ اور حمدین صباحی کے ساتھ مل کر **قومی نجات محاذ** (جبهه نجات ملی) کے قیام اور قیادت میں بھی حصہ لیا، جس نے 30 جون 2013 کے مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا — وہی مظاہرے جن کے نتیجے میں محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ | ||
مصری صدارت کے میڈیا مشیر احمد المسلمانی کے مطابق، البرادعی عبوری حکومت کے وزیرِاعظم کے لیے سب سے نمایاں امیدوار ہیں، تاہم اس عہدے کے لیے کچھ دیگر نام بھی زیرِ غور ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو بھی مدِنظر رکھا جا رہا ہے[https://fa.alalam.ir/news/1492382/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D8%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%D8%B3%D8%AA%D8%9F محمد البرادعی کیست؟]-شائع شدہ از: 16 تیر 1392ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر | مصری صدارت کے میڈیا مشیر احمد المسلمانی کے مطابق، البرادعی عبوری حکومت کے وزیرِاعظم کے لیے سب سے نمایاں امیدوار ہیں، تاہم اس عہدے کے لیے کچھ دیگر نام بھی زیرِ غور ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو بھی مدِنظر رکھا جا رہا ہے<ref>[https://fa.alalam.ir/news/1492382/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D8%AF%D8%B9%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%D8%B3%D8%AA%D8%9F محمد البرادعی کیست؟]-شائع شدہ از: 16 تیر 1392ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2025ء</ref>۔ | ||
== غزہ میں نسل کشی، اسرائیل کے خلاف کاروائی نہ ہونا عرب ممالک کی بزدلی ہے == | == غزہ میں نسل کشی، اسرائیل کے خلاف کاروائی نہ ہونا عرب ممالک کی بزدلی ہے == | ||
نسخہ بمطابق 16:23، 1 نومبر 2025ء
محمد البرادعی(پیدائش:17 جون 1942ء) مصر کے نوبل امن انعام یافتہ اور عالمی شہرت یافتہ شخصیت ہیں۔ وہ ساتھ میں سیاست دان اور قانون دان بھی ہیں۔\
زندگی نامہ
محمد مصطفی البرادعی 17 جون 1942 کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مصطفی البرادعی پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور مصری بار ایسوسی ایشن کے رکن بھی تھے۔
سیاسی سرگرمیاں
گزشتہ چند برسوں میں محمد البرادعی نے مصر کی سیاسی زندگی میں مختلف کردار ادا کیے ہیں، اور 25 جنوری کے انقلاب اور حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کا نام مصر میں پہلے سے کہیں زیادہ مشہور ہوا۔ اتوار کو "العالم" نیوز نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق، مصری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ "محمد البرادعی"، جو "قومی نجات محاذ" کے کوآرڈینیٹر ہیں، عبوری دور کے لیے وزارتِ عظمیٰ کے سب سے نمایاں امیدوار ہیں، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں ہوا۔
تعلیم
محمد البرادعی نے 1962 میں قاہرہ یونیورسٹی سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے جنیوا میں "HEI" یعنی انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اور 1974 میں نیویارک یونیورسٹی کے لاء کالج سے بین الاقوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔
سفارتی کیریئر
ان کا سفارتی کیریئر 1964 میں مصر کی وزارتِ خارجہ سے شروع ہوا، جہاں وہ مصر کے مستقل مشنز کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے نیویارک اور جنیوا دفاتر میں سیاسی، قانونی اور اسلحہ کنٹرول کے امور پر کام کرتے رہے۔ 1974 سے 1978 تک وہ وزارتِ خارجہ میں خصوصی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ 1980 میں وہ اقوامِ متحدہ کے تربیتی و تحقیقی ادارے میں بین الاقوامی قانون کے پروگرام کے سینیئر عہدیدار کے طور پر کام کرنے لگے۔
نوبل امن انعام
1981 سے 1987 تک انہوں نے نیویارک یونیورسٹی کے لاء کالج میں بین الاقوامی قانون کے استاد کی حیثیت سے تدریس کی۔ البرادعی 1997 میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل منتخب ہوئے، اور 2005 میں اسی ادارے میں اپنی خدمات کے دوران انہیں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔
ان کی تیسری اور آخری مدتِ صدارت نومبر 2009 تک جاری رہی۔ ان کے دور میں ایجنسی نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا، جس میں 2003 میں عراق پر امریکی حملے سے قبل کے معائنے اور ایران کے ایٹمی پروگرام پر جاری تنازعات شامل تھے۔
وہ 27 جنوری 2011 کو مصر واپس آئے اور حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کرنے والے عوام کی حمایت کی۔ اگرچہ 28 جنوری کو مبارک حکومت نے انہیں نظر بند کر دیا تھا، لیکن انہوں نے اس حکم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔
صدارتی انتخابات میں شرکت
البرادعی نے 19 مارچ 2011 کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا، لیکن دس دن بعد ان کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، جس کے بعد وہ آئینی ریفرنڈم میں شرکت نہ کر سکے۔ 14 جنوری 2012 کو انہوں نے مصر کی فوجی کونسل پر تنقید کرتے ہوئے، جسے وہ حقیقی جمہوریت قائم کرنے کے قابل نہیں سمجھتے تھے، صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
28 اپریل 2012 کو انہوں نے "الدستور" (آئین) نامی سیاسی جماعت قائم کی، جس کا مقصد مصری انقلاب کو بچانا اور اس کے مقاصد کو پورا کرنا تھا۔ البرادعی نے عمر موسیٰ اور حمدین صباحی کے ساتھ مل کر **قومی نجات محاذ** (جبهه نجات ملی) کے قیام اور قیادت میں بھی حصہ لیا، جس نے 30 جون 2013 کے مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا — وہی مظاہرے جن کے نتیجے میں محمد مرسی کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
مصری صدارت کے میڈیا مشیر احمد المسلمانی کے مطابق، البرادعی عبوری حکومت کے وزیرِاعظم کے لیے سب سے نمایاں امیدوار ہیں، تاہم اس عہدے کے لیے کچھ دیگر نام بھی زیرِ غور ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو بھی مدِنظر رکھا جا رہا ہے[1]۔
غزہ میں نسل کشی، اسرائیل کے خلاف کاروائی نہ ہونا عرب ممالک کی بزدلی ہے
عالمی جوہری ایجنسی کے سابق سربراہ نے صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں عرب ممالک کی خاموشی کو شرمناک اور بزدلی قرار دیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ محمد البرادعی نے عرب ممالک کے اسرائیل کے خلاف قانونی اقدامات سے گریز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی برادری، تنظیمیں اور ماہرین اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے، لیکن عرب حکومتیں اس معاملے میں مؤثر کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔
البرادعی نے کہا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں دائر مقدمے اور عالمی فوجداری عدالت میں جمع کرائی گئی شکایات میں زیادہ تر غیر عرب ممالک شامل ہیں، جن میں کولمبیا، میکسیکو، اسپین، ترکی، بولیویا، بنگلادیش، جیبوتی اور جنوبی افریقہ شامل ہیں، جبکہ عرب ممالک اس قانونی جدوجہد سے دور ہیں، حالانکہ اصل فریق تو وہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے خلاف کسی بھی قانونی اقدام میں شامل ہونے سے خوفزدہ ہیں[2]۔
- ↑ محمد البرادعی کیست؟-شائع شدہ از: 16 تیر 1392ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2025ء
- ↑ غزہ میں نسل کشی، اسرائیل کے خلاف کاروائی نہ ہونا عرب ممالک کی بزدلی ہے، البرادعی- شائع شدہ از: 1 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 1 نومبر 2025ء