مندرجات کا رخ کریں

"محمد علی رجائی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 30: سطر 30:
== سیاسی عہدے ==
== سیاسی عہدے ==
راجائی کے سیاسی پروگرام آئینی قانون کی ایک شکل پر مبنی تھے جس میں اسلام کے لیے استحقاق کا مقام شامل تھا۔ اس نے اصرار کیا کہ ریاست کو کنٹرول کرنے والوں کو مسلمان ہونا چاہیے، ولایت فقیہ پر زور دیا اور یہ ضروری سمجھا کہ حکومت اسلامی انقلابی گارڈ اور اسلامی انقلابی عدالت جیسے اداروں کے ساتھ تعاون کرے۔ وہ لوگوں کی آزادی کا احترام کرتے تھے کیونکہ اس نے اسلامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور اپنے دور میں ایک مستقل حکومت بنانے کی کوشش کی۔
راجائی کے سیاسی پروگرام آئینی قانون کی ایک شکل پر مبنی تھے جس میں اسلام کے لیے استحقاق کا مقام شامل تھا۔ اس نے اصرار کیا کہ ریاست کو کنٹرول کرنے والوں کو مسلمان ہونا چاہیے، ولایت فقیہ پر زور دیا اور یہ ضروری سمجھا کہ حکومت اسلامی انقلابی گارڈ اور اسلامی انقلابی عدالت جیسے اداروں کے ساتھ تعاون کرے۔ وہ لوگوں کی آزادی کا احترام کرتے تھے کیونکہ اس نے اسلامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور اپنے دور میں ایک مستقل حکومت بنانے کی کوشش کی۔
== وزیر کے ساتھ مذاق! ==
جس زمانے میں زاہدی صاحب تہران کے تربیتی امور کی ذمے داری کو سنبھالے ہوئے تھے، البرز کے سیکنڈری اسکول میں ایک بڑا سیمینار منعقد ہوا اور اس کے ساتھ ہی تربیتی امور کے ارکان کی کوششوں سے ایک عظیم الشان نمائش بھی منعقد ہوئی جس میں صوبہ تہران میں تربیتی امور سے متعلق ہونے والے کاموں اور چیزوں کی نمائش لگائی گئی۔
اس نمائش کی افتتاحیہ تقریب کی ذمے داری جناب خوش صحبتان کے حوالے تھی۔ اس تقریب میں (وزیر اعظم) جناب رجائی اور (نائب وزیر) جناب باہنر تشریف لائے تھے اور نمائش میں موجود ہر ایک اسٹال پر گئے تھے، جن میں سے ایک اسٹال منطقہ نمبر (۲۰) (شہر رے) کے تعلیم و تربیت کے امور کا تھا۔ اس اسٹال پر اس علاقے کے ہونہار طالبعلموں کے دلچسپ اور دیکھنے سے تعلق رکھنے والے کاموں کو پیش کیا گیا تھا جو کہ لائق ستائش تھے۔ الیکڑانک اور اسلحے سے متعلق چیزیں دیدنی تھیں۔
ٹیکنیکل اسکول کے ایک بچے نے بچوں کے کھیلنے والی پستول کہ جسے کمر پہ باندھا جاسکتا تھا، بنائی تھی، جس میں j-3 کی گولی ڈلتی تھی۔ جب رجائی صاحب اس بچے کے پاس پہنچے کہ جس نے یہ پستول بنائی تھی  تو کچھ دیر ٹھہرے اور اس ہنرمند بچے نے اس پستول کے مختلف حصوں کے بارے میں بتانا شروع کیا اور ساری وضاحت دینے کے بعد آخر میں کچھ کہے بغیر ا س اسلحے کو اوپر کی طرف اٹھایا اور گھوڑے کو کھینچا اور کہا: "اور ۔۔۔ اس طرح سے گولی چلتی ہے" اور مشق کیلئے پہلے سے موجود کارتوس پھٹ گیا اور ایک خوفناک آواز سے پوری نمائشگاہ لرز اٹھی۔
ہم سب لوگ وزیر محترم کی سلامتی کیلئے فکرمند تھے۔ ان کے محافظ اور اطراف میں موجود لوگ اس واقعے کی وجہ سے حواس باختہ ہوچکے تھے۔ رجائی صاحب ہمیشہ کی طرح سے محکم طریقے سے کھڑے، مسکرا رہے تھے اور کہنے لگے: "جیتے رہو، بچوں!" اس کے بعد اس بچے سے ہاتھ ملا کر، الوداع کرکے دوسرے اسٹال کی طرف بڑھ گئے۔ میں نے اس بچے سے کہا:  "یہ کیا کیا تھا تم نے!؟ ہمیں بتایا کیوں نہیں کہ اس اسلحے میں کارتوس تھا!؟ اس نے بہت ہی آرام سے کہا: "میں اپنے وزیر محترم کے ساتھ مذاق کرنا چاہتا تھا۔"
جناب باہنر اور جناب رجائی دونوں ہی تشریف لائے تھے۔ رجائی صاحب کے بعد، جناب باہنر ہمارے اسٹال پر تشریف لائے۔ میں نے اس کھلونا اسلحے کو اس طالب علم کے ہاتھ سے لے لیا تاکہ وہی کام دوبارہ انجام نہ پائے اور میں نے اس سے کہا: " تم وعدہ کرو کہ بغیر  کارتوس کے اور فائر کیئے بغیر اپنے ہنر کو جناب باہنر کو  دکھاؤ گے۔"
== ہم جناب وزیر سے ملنا چاہتے ہیں ==
شہید رجائی جس زمانے میں وزیر تعلیم و تربیت تھے، اہم اجلاس اور ان میں ہدایات کے معاملے میں سنجیدہ تھے اور مختلف صوبوں اور شہروں کے دورے کیا کرتے تھے تاکہ حکومتی عہدیدار عوام کی مشکلات کو نزدیک سے دیکھیں اور ان سے رابطے میں رہیں۔ اسی لئے مختلف شہروں کے دوروں میں حکومتی عہدیدار بھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ ایک دن جب شہر دماوند کے دورے پر گئے۔ اجلاس کا مقام "الویری صاحب" صاحب کا گھر تھا۔ جناب وزیر اعظم طے شدہ وقت پر  اجلاس کے مقام پر پہنچ گئے  اور اجلاس کا آغاز [[قرآن|قرآنی]] آیات کی تلاوت کے ساتھ ہوا۔ اجلاس میں جب بحث و گفتگو اپنے اوج پر پہنچی تو کچھ طالبعلم جو کہ وزیر اعظم صاحب کی آمد سے مطلع ہوچکے تھے، آئے اور وزیر اعظم سے ملاقات کی درخواست کرنے لگے۔
میں نے ان سے کہا: وہ ابھی ایک اہم اجلاس میں ہیں اور ملاقات کا امکان نہیں ہے۔ لیکن وہ ملاقات کیلئے بضدّ تھے اور کہہ رہے تھے: "ہم جب تک اپنے وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کرلیں گے واپس نہیں جائیں گے۔"
ان طالبعلموں کی بہت ضدّاور منت سماجت کرنے کی وجہ سے میں اندر گیا اور مناسب موقع دیکھ کر ان بچوں کا پیغام رجائی صاحب کے کان میں کہہ دیا۔ انھوں نے کچھ سوچا اور کہا: "ٹھیک ہے (ان سے کہیں) گیاہ بجے نہر کے کنارے واقع باغ کے آخر میں میرا انتظار کریں۔"
میں نے جب بچوں کو یہ پیغام سنایا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور بلا تأخیر نہر کی جانب دوڑے۔
مجھے اس بات پہ ذرا سا بھی شک نہیں تھا کہ رجائی صاحب اپنی زبان کے پکے ہیں وہ ٹھیک گیارہ بجے اس جگہ پہنچ جائیں گے لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ اس اجلاس کے ختم ہونے سے پہلے کس طرح باہر آئیں گے۔ گیارہ بجنے میں دس منٹ پہلے انھوں نے گھڑی پر ایک نگاہ ڈالی، اس وقت نوروزی صاحب مشغول سخن تھے، خاموسی سے اٹھ کر باہر آگئے اور مقررہ مقام کیلئے چل پڑے۔ وہ طالبعلم اس وقت تک شک میں تھے کہ آیا وزیر اعظم صاحب اپنے اس اجلاس کو چھوڑ کر ان کے پاس آئیں گے یا نہیں۔ انھوں  نے اچانک رجائی صاحب کی آواز سنی کہ "بچوں ! کہاں ہو؟ میں آگیا ہوں۔"
وہاں پہنچتے ہی انھوں نے بچوں سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور بہت ہی خلوص کے ساتھ ان سے ملے۔ وہ ان بچوں سے محبت کے ساتھ اور ایک مخلص اور بے تکلف استاد کی طرح ملے اور ان کے ساتھ دوستوں کی طرح  خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔
زیادہ دیر نہیں لگی کہ ہم جب واپس آئے تو وہ اجلاس اسی طرح سے جاری تھا اور رجائی صاحب خاموشی کے ساتھ، تیزی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور کسی کی طرف دیکھے بغیر اپنی فائل کے ورقوں کو پڑھنے لگے اور اجلاس میں جاری بحث کو سننے میں<ref>[https://www.oral-history.ir/index.php?page=post&id=6673 وزیر کے ساتھ مذاق!محمد حسینی قدمی، ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی-شائع شدہ از:1جنوری 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اگست 2025ء</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 14:07، 27 اگست 2025ء

محمد علی رجائی
ذاتی معلومات
پیدائش1934 ء، 1312 ش، 1352 ق
یوم پیدائش25 خرداد
پیدائش کی جگہقزوین
وفات1982 ء، 1360 ش، 1401 ق
وفات کی جگہوزیر اعظم کے دفتر میں
مذہباسلام، شیعہ
اثراتوزیر تعلیم، وزیر اعظم اور صدر مملکت

محمد علی رجائی (15 جون 1933ء- 30 اگست 1981ء) ابوالحسن بنی صدر کے تحت وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد 2 سے 30 اگست 1981ء تک ایران کے دوسرے صدر تھے۔ وہ 11 مارچ 1981ء سے 15 اگست 1981ء تک وزیر خارجہ بھی رہے جب وہ وزیر اعظم تھے۔ وہ 30 اگست 1981ء کو وزیر اعظم محمد جواد باہنر کے ساتھ ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

پیدائش اور خاندان

وہ 16 جون 1961ء کو قزوین میں پیدا ہوا۔ ان کے والد کا نام عبد الصمد تھا اور وہ ایک کاریگر تھا اور قزوین بازار میں پیسے کمانے میں مصروف تھا۔ اس کی پیدائش کے چار سال بعد، اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور اس کا بھائی، جو اس سے 10 سال بڑا تھا، گھر سے باہر کام کرتا تھا اور اس کی ماں کپاس صاف کرتی اور اپنی کفالت کے لیے ہیزلنٹس، اخروٹ اور بادام توڑتی تھی۔

تہران کی طرف ہجرت

محمد علی رجا‏ئی کی عمر 13 سال تھی جب اس نے ابتدائی اسکول کی چھٹی جماعت مکمل کی اور تہران چلے گئے۔ ان کا بھائی کچھ عرصہ قبل تہران منتقل ہوا تھا۔ سب سے پہلے، اس نے لوہے کی منڈی میں کام کیا اور کام کے زیادہ بوجھ کی وجہ سے، اس نے بعد میں پیڈلنگ کا رخ کیا۔ محمد علی اپنی دستکاری فروخت کرنے کے بعد تہران بازار واپس آئے اور چند کمروں میں اپرنٹس بن گئے۔

تعلیم

رجائی نے اپنی تربیت مکمل کرنے اور سارجنٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھی اور 1943ء میں گریجویشن کیا۔ وہ یونیورسٹی کا داخلہ امتحان نہیں دے سکے کیونکہ اس نے ستمبر میں گریجویشن کیا تھا۔ چنانچہ وہ بیجار چلا گیا اور ہائی اسکول میں انگریزی پڑھانا شروع کر دیا۔ تعلیمی سال کے اختتام پر وہ تہران واپس آئے اور ٹیچر ٹریننگ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور پھر یونیورسٹی چلے گئے۔ 2 سال کے بعد، اس نے ریاضی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور تعلیم میں ملازم ہو گیا۔ پہلے وہ ملایر گئے لیکن ڈائریکٹر ایجوکیشن سے اختلاف ہو گیا اور پھر خانسار جا کر پڑھانا شروع کیا اور ایک سال کامیابی سے گزارا۔ تعلیمی سال کے اختتام پر، رجائی ماسٹر ڈگری کے لیے شماریات کا مطالعہ کرنے کے لیے تہران واپس آیا اور اسی وقت کمال اسکول میں پڑھایا۔

فضائیہ

رائل ایرانی فضائیہ نے چھٹے گریڈ کی ڈگری کے ساتھ سارجنٹ کے عہدے پر نوجوانوں کو بھرتی کیا۔ راجائی نے سولہ یا سترہ سال کی عمر میں، رضاکارانہ طور پر فورس میں خدمات انجام دیں۔ اس نے ایک سارجنٹ کے طور پر تین ماہ کی تربیت گزاری تھی جو فدائیانِ اسلام گروپ کو جانتا تھا اور اس گروپ کی میٹنگز میں شرکت کرتا تھا۔

سیاسی عہدے

راجائی کے سیاسی پروگرام آئینی قانون کی ایک شکل پر مبنی تھے جس میں اسلام کے لیے استحقاق کا مقام شامل تھا۔ اس نے اصرار کیا کہ ریاست کو کنٹرول کرنے والوں کو مسلمان ہونا چاہیے، ولایت فقیہ پر زور دیا اور یہ ضروری سمجھا کہ حکومت اسلامی انقلابی گارڈ اور اسلامی انقلابی عدالت جیسے اداروں کے ساتھ تعاون کرے۔ وہ لوگوں کی آزادی کا احترام کرتے تھے کیونکہ اس نے اسلامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور اپنے دور میں ایک مستقل حکومت بنانے کی کوشش کی۔

وزیر کے ساتھ مذاق!

جس زمانے میں زاہدی صاحب تہران کے تربیتی امور کی ذمے داری کو سنبھالے ہوئے تھے، البرز کے سیکنڈری اسکول میں ایک بڑا سیمینار منعقد ہوا اور اس کے ساتھ ہی تربیتی امور کے ارکان کی کوششوں سے ایک عظیم الشان نمائش بھی منعقد ہوئی جس میں صوبہ تہران میں تربیتی امور سے متعلق ہونے والے کاموں اور چیزوں کی نمائش لگائی گئی۔

اس نمائش کی افتتاحیہ تقریب کی ذمے داری جناب خوش صحبتان کے حوالے تھی۔ اس تقریب میں (وزیر اعظم) جناب رجائی اور (نائب وزیر) جناب باہنر تشریف لائے تھے اور نمائش میں موجود ہر ایک اسٹال پر گئے تھے، جن میں سے ایک اسٹال منطقہ نمبر (۲۰) (شہر رے) کے تعلیم و تربیت کے امور کا تھا۔ اس اسٹال پر اس علاقے کے ہونہار طالبعلموں کے دلچسپ اور دیکھنے سے تعلق رکھنے والے کاموں کو پیش کیا گیا تھا جو کہ لائق ستائش تھے۔ الیکڑانک اور اسلحے سے متعلق چیزیں دیدنی تھیں۔

ٹیکنیکل اسکول کے ایک بچے نے بچوں کے کھیلنے والی پستول کہ جسے کمر پہ باندھا جاسکتا تھا، بنائی تھی، جس میں j-3 کی گولی ڈلتی تھی۔ جب رجائی صاحب اس بچے کے پاس پہنچے کہ جس نے یہ پستول بنائی تھی تو کچھ دیر ٹھہرے اور اس ہنرمند بچے نے اس پستول کے مختلف حصوں کے بارے میں بتانا شروع کیا اور ساری وضاحت دینے کے بعد آخر میں کچھ کہے بغیر ا س اسلحے کو اوپر کی طرف اٹھایا اور گھوڑے کو کھینچا اور کہا: "اور ۔۔۔ اس طرح سے گولی چلتی ہے" اور مشق کیلئے پہلے سے موجود کارتوس پھٹ گیا اور ایک خوفناک آواز سے پوری نمائشگاہ لرز اٹھی۔

ہم سب لوگ وزیر محترم کی سلامتی کیلئے فکرمند تھے۔ ان کے محافظ اور اطراف میں موجود لوگ اس واقعے کی وجہ سے حواس باختہ ہوچکے تھے۔ رجائی صاحب ہمیشہ کی طرح سے محکم طریقے سے کھڑے، مسکرا رہے تھے اور کہنے لگے: "جیتے رہو، بچوں!" اس کے بعد اس بچے سے ہاتھ ملا کر، الوداع کرکے دوسرے اسٹال کی طرف بڑھ گئے۔ میں نے اس بچے سے کہا: "یہ کیا کیا تھا تم نے!؟ ہمیں بتایا کیوں نہیں کہ اس اسلحے میں کارتوس تھا!؟ اس نے بہت ہی آرام سے کہا: "میں اپنے وزیر محترم کے ساتھ مذاق کرنا چاہتا تھا۔"

جناب باہنر اور جناب رجائی دونوں ہی تشریف لائے تھے۔ رجائی صاحب کے بعد، جناب باہنر ہمارے اسٹال پر تشریف لائے۔ میں نے اس کھلونا اسلحے کو اس طالب علم کے ہاتھ سے لے لیا تاکہ وہی کام دوبارہ انجام نہ پائے اور میں نے اس سے کہا: " تم وعدہ کرو کہ بغیر کارتوس کے اور فائر کیئے بغیر اپنے ہنر کو جناب باہنر کو دکھاؤ گے۔"

ہم جناب وزیر سے ملنا چاہتے ہیں

شہید رجائی جس زمانے میں وزیر تعلیم و تربیت تھے، اہم اجلاس اور ان میں ہدایات کے معاملے میں سنجیدہ تھے اور مختلف صوبوں اور شہروں کے دورے کیا کرتے تھے تاکہ حکومتی عہدیدار عوام کی مشکلات کو نزدیک سے دیکھیں اور ان سے رابطے میں رہیں۔ اسی لئے مختلف شہروں کے دوروں میں حکومتی عہدیدار بھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ ایک دن جب شہر دماوند کے دورے پر گئے۔ اجلاس کا مقام "الویری صاحب" صاحب کا گھر تھا۔ جناب وزیر اعظم طے شدہ وقت پر اجلاس کے مقام پر پہنچ گئے اور اجلاس کا آغاز قرآنی آیات کی تلاوت کے ساتھ ہوا۔ اجلاس میں جب بحث و گفتگو اپنے اوج پر پہنچی تو کچھ طالبعلم جو کہ وزیر اعظم صاحب کی آمد سے مطلع ہوچکے تھے، آئے اور وزیر اعظم سے ملاقات کی درخواست کرنے لگے۔

میں نے ان سے کہا: وہ ابھی ایک اہم اجلاس میں ہیں اور ملاقات کا امکان نہیں ہے۔ لیکن وہ ملاقات کیلئے بضدّ تھے اور کہہ رہے تھے: "ہم جب تک اپنے وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کرلیں گے واپس نہیں جائیں گے۔" ان طالبعلموں کی بہت ضدّاور منت سماجت کرنے کی وجہ سے میں اندر گیا اور مناسب موقع دیکھ کر ان بچوں کا پیغام رجائی صاحب کے کان میں کہہ دیا۔ انھوں نے کچھ سوچا اور کہا: "ٹھیک ہے (ان سے کہیں) گیاہ بجے نہر کے کنارے واقع باغ کے آخر میں میرا انتظار کریں۔"

میں نے جب بچوں کو یہ پیغام سنایا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور بلا تأخیر نہر کی جانب دوڑے۔ مجھے اس بات پہ ذرا سا بھی شک نہیں تھا کہ رجائی صاحب اپنی زبان کے پکے ہیں وہ ٹھیک گیارہ بجے اس جگہ پہنچ جائیں گے لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ اس اجلاس کے ختم ہونے سے پہلے کس طرح باہر آئیں گے۔ گیارہ بجنے میں دس منٹ پہلے انھوں نے گھڑی پر ایک نگاہ ڈالی، اس وقت نوروزی صاحب مشغول سخن تھے، خاموسی سے اٹھ کر باہر آگئے اور مقررہ مقام کیلئے چل پڑے۔ وہ طالبعلم اس وقت تک شک میں تھے کہ آیا وزیر اعظم صاحب اپنے اس اجلاس کو چھوڑ کر ان کے پاس آئیں گے یا نہیں۔ انھوں نے اچانک رجائی صاحب کی آواز سنی کہ "بچوں ! کہاں ہو؟ میں آگیا ہوں۔"

وہاں پہنچتے ہی انھوں نے بچوں سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور بہت ہی خلوص کے ساتھ ان سے ملے۔ وہ ان بچوں سے محبت کے ساتھ اور ایک مخلص اور بے تکلف استاد کی طرح ملے اور ان کے ساتھ دوستوں کی طرح خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ زیادہ دیر نہیں لگی کہ ہم جب واپس آئے تو وہ اجلاس اسی طرح سے جاری تھا اور رجائی صاحب خاموشی کے ساتھ، تیزی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور کسی کی طرف دیکھے بغیر اپنی فائل کے ورقوں کو پڑھنے لگے اور اجلاس میں جاری بحث کو سننے میں[1]۔

حوالہ جات

  1. [https://www.oral-history.ir/index.php?page=post&id=6673 وزیر کے ساتھ مذاق!محمد حسینی قدمی، ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی-شائع شدہ از:1جنوری 2016ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 27 اگست 2025ء