"قرآن" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 39: | سطر 39: | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
[[زمرہ:قرآن]] | [[زمرہ:قرآن]] | ||
[[fa:قرآن]] |
نسخہ بمطابق 06:01، 1 جنوری 2023ء
قرآن مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے اور تمام سنی اور شیعہ اسے قبول کرتے ہیں۔ اس کتاب کو پیغمبر اسلام کا اہم ترین معجزہ کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک 30 ابواب اور 114 ابواب پر مشتمل ہے۔
یہ آسمانی کتاب پیغمبر اسلام (ص) پر دو صورتوں میں نازل ہوئی: نزولِ مکروہ اور تدریجی نزول۔
قرآن کا نزول
قرآن خدا کا کلام اور مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے نازل ہوئی۔ مسلمان قرآن کے مواد اور الفاظ کو خدا کا نازل کردہ سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن ایک معجزہ ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آخری آسمانی کتاب کی نشانی ہے۔ اس کتاب نے اپنے معجزہ پر زور دیا ہے اور اس کے معجزہ کی وجہ یہ سمجھی ہے کہ کوئی اس کے برابر نہیں آ سکتا۔ [1]
قرآن کی پہلی آیات سب سے پہلے پیغمبر اسلام پر غار حرا میں نازل ہوئیں جو کوہ نور میں واقع ہے۔ مشہور قول یہ ہے کہ اس کی آیات وحی کے فرشتے کے ذریعے اور براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں۔ زیادہ تر مسلمانوں کا خیال ہے کہ قرآن بتدریج نازل ہوا ہے۔ لیکن بعض کا خیال ہے کہ آیات کے بتدریج نزول کے علاوہ جو کچھ ایک سال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونا تھا وہ بھی شب قدر میں ایک جگہ آپ پر نازل ہوا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن کی آیات جانوروں کی کھالوں، کھجور کی لکڑی، کاغذ اور کپڑے پر بکھری ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے قرآن کی آیات اور ابواب کو جمع کیا۔ لیکن بہت سے نسخے مرتب کیے گئے جو سورتوں اور قرات کی ترتیب میں مختلف تھے۔ عثمان کے حکم سے قرآن کا ایک نسخہ تیار کیا گیا اور باقی موجود نسخوں کو تباہ کر دیا گیا۔ شیعہ اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے اس نسخہ کو صحیح اور مکمل سمجھتے ہیں۔
قرآن، فرقان، الکتاب اور مصحف قرآن کے مشہور ناموں میں سے ہیں۔ قرآن مجید میں 114 ابواب اور 6000 سے زیادہ آیات ہیں اور اسے 30 حصوں اور 120 گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قرآن میں توحید، قیامت، پیغمبر اسلام (ص) کی مہمات، انبیاء کرام کے قصے، اسلام کے مذہبی طریقوں، اخلاقی فضائل و برائیوں اور شرک و نفاق کے خلاف جنگ جیسے موضوعات کو بیان کیا گیا ہے۔ ذکر کیا.
چوتھی قمری صدی تک، قرآن کی مختلف تلاوتیں مسلمانوں میں مقبول تھیں۔ مسلمانوں میں اس کے مختلف نسخوں کا وجود، عربی رسم الخط کا قدیم ہونا، مختلف لہجوں کا وجود اور تلاوت کرنے والوں کی ترجیحات قراء ت میں فرق کے اسباب میں سے ہیں۔ اس صدی میں قراء ت میں سے سات قراء ت کا انتخاب کیا گیا۔ مسلمانوں میں قرآن کی سب سے عام تلاوت حفص کی روایت کے ساتھ عاصم کی تلاوت ہے۔
قرآن کا پہلا مکمل ترجمہ فارسی میں چوتھی صدی میں اور لاطینی زبان میں چھٹی صدی (12 ویں) میں لکھا گیا۔ یہ کتاب پہلی بار اٹلی میں 950ھ (1543ء) میں شائع ہوئی۔ اسے پہلی بار مسلمانوں نے 1200 ہجری میں روس کے سینٹ پیٹرزبرگ میں چھاپا۔ ایران پہلا مسلم ملک تھا جس نے 1243 ہجری اور 1248 ہجری میں قرآن کی طباعت کی۔ قرآن جو آج عثمان طہٰ کے نام سے جانا جاتا ہے مصری ایڈیشن پر مبنی ہے۔
قرآن مسلمانوں میں بہت سے علوم کا سرچشمہ بن گیا ہے۔ قرآن کی تفسیر اور علوم جیسے قرآن کی تاریخ، قرآن کے الفاظ کی سائنس، عربوں کی سائنس اور قرآن کے بیانات، قرآن کے قصے اور معجزات قرآن کے ان علوم میں سے ہیں۔
مسلمانوں کی رسومات اور فن میں قرآن کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ختم قرآن، قرآن پہننا اور نکاح کی تقریب میں قرآن کی تلاوت ان میں شامل ہے۔ قرآن کا سب سے بڑا مظہر فن، خطاطی، گل کاری، بائنڈنگ، ادب اور فن تعمیر میں رہا ہے۔
قرآن کا مقام
قرآن مسلمانوں کی فکر کا سب سے اہم ماخذ ہے اور اسلامی فکر کے دیگر ذرائع جیسے حدیث و سنت کا معیار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیگر اسلامی ذرائع سے موصول ہونے والی تعلیمات اگر قرآن کی تعلیمات سے متصادم ہوں تو درست نہیں۔
پیغمبر اسلام اور شیعہ ائمہ کی روایات کی بنیاد پر احادیث کو قرآن کے سامنے پیش کیا جائے اور اگر وہ اس سے متفق نہ ہوں تو انہیں باطل اور جعلی قرار دیا جائے۔ مثال کے طور پر پیغمبر اسلام سے منقول ہے: اگر مجھ سے آپ سے کوئی بات روایت کی گئی ہے، اگر وہ قرآن کے موافق ہو تو میں نے اسے کہا، اور اگر اس کے خلاف ہو تو میں نے نہیں کہا۔
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ جھوٹ ہے۔
قرآن کی ساخت
قرآن مجید میں 114 ابواب اور تقریباً چھ ہزار آیات ہیں۔ اس کی آیات کی صحیح تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے امام علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ قرآن میں 6236 آیات ہیں قرآن 30 حصوں اور 120 جماعتوں میں تقسیم ہے۔ [2]
ناقابل خرابی
تحریف اس معنی میں کہ اس پر اکثر بحث کی جاتی ہے، یعنی قرآن میں کسی لفظ یا الفاظ کا اضافہ کرنا یا اس میں سے کسی لفظ یا الفاظ کو حذف کرنا۔ ابوالقاسم خوئی نے لکھا ہے: مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ پہلے معنی میں تحریف قرآن میں نہیں ہوئی۔ البتہ قرآن سے کسی لفظ یا الفاظ کو حذف کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ ان کے مطابق شیعہ علماء میں مقبول رائے یہ ہے کہ اس معنی میں بھی قرآن میں تحریف نہیں کی گئی ہے۔ [3]