مندرجات کا رخ کریں

"محمود فرشچیان" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 147: سطر 147:


=== عارضی نمایشیں===
=== عارضی نمایشیں===
محمود فرشچیان کے فن پاروں کی نمائش
==== محمود فرشچیان کے فن پاروں کی نمائش====
محمود فرشچیان کے فن پارے 1948 سے 1994 تک، 83 اجتماعی اور 51 انفرادی نمائشوں میں پیش کیے گئے، جن کی فہرست ذیل میں دی گئی ہے:
محمود فرشچیان کے فن پارے 1948 سے 1994 تک، 83 اجتماعی اور 51 انفرادی نمائشوں میں پیش کیے گئے، جن کی فہرست ذیل میں دی گئی ہے:
{{کالم کی فہرست|3}}
{{کالم کی فہرست|3}}

نسخہ بمطابق 15:07، 14 اگست 2025ء

محمود فرشچیان
پورا ناممحمود فرشچیان
دوسرے ناماستاد محمود فرشچیان
ذاتی معلومات
پیدائش1308 ش، 1930 ء، 1347 ق
یوم پیدائش4 بهمن
پیدائش کی جگہایران، اصفهان
وفات2025 ء، 1403 ش، 1446 ق
وفات کی جگہامریکا
مذہباسلام، شیعہ
اثراتفن پارے حیسے : عصر عاشورا، عصر شمس، مولانا، ققنوس، ابراهیم در گلستان، آفاق، حضرت ابراهیم، موی سپید، ضامن آهو، کوثر، به سوی نور، تزکیه، شهید، شام غریبان، معراج، توسل، نیایش، پناه (یا یتیم‌نوازی امام علی)خمسه آل طیبه۔
مناصبحضرت امام رضا (ع) کے ضریح کی ڈیزائن اور نگرانی، حضرت امام حسین (ع) کے ضریح کی ڈیزائن اور نگرانی، کربلا کے شہداء کے ضریح کی ڈیزائن، حضرت امام رضا (ع) کے مرقد کے سرداب کی ڈیزائن، سامرا میں سردابِ غیبت کے ضریح کی ڈیزائن، تہران یونیورسٹی کے فائن آرٹس فیکلٹی میں استاد، امریکہ کے شہر رتھرفورڈ، نیو جرسی میں "نور و دانش" نامی مذہبی اور ثقافتی مرکز کی تاسیس۔

محمود فرشچیان ایرانی آرٹسٹ، خطاط اور مصور تھے۔ وہ تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف فائن آرٹس کے پروفیسر تھے۔ فرشچیان شیعہ موضوعات پر مبنی فنی شاہکاروں کے تخلیق کار اور ایرانی مصوری میں ایک نئے مکتب کے بانی تھے، جنہوں نے روایتی صداقت اور جدید تکنیک کو برقرار رکھتے ہوئے مصوری کو صرف شاعری اور ادب پر انحصار سے آزاد کیا۔ ان کے کچھ فن پاروں میں عصر عاشورا، عصر شمس، مولانا، ققنوس، ابراہیم در گلستان، آفاق، حضرت ابراہیم، موی سپید، ضامن آہو، کوثر، بہ سوی نور، تزکیہ، شہید، شام غریبان، معراج، توسل، نیایش، پناہ (یا یتیم‌نوازی امام علی)، خمسہ آل‌طیبہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی سرگرمیوں میں حضرت امام رضا (علیہ السلام) اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی ضریحوں کا ڈیزائن اور نگرانی، کربلا کے شہداء کی ضریح کا ڈیزائن، حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے مزار کے مقدس سرداب، سامرا میں سرداب غیبت کی ضریح کا ڈیزائن اور امریکہ کے نیو جرسی شہر کے رٹر فروڈ میں "نور و دانش" کے مذہبی اور ثقافتی مرکز کا قیام بھی شامل ہے۔

سوانح حیات

محمود فرشچیان 24 جنوری 1930 ءکو اصفہان میں پیدا ہوئے۔ 1945 ءمیں، استاد فرشچیان اصفہان کے فائن آرٹس اسکول میں داخل ہوئے، جس کے اس وقت کے ڈائریکٹر کمال الملک کے ایک شاندار شاگرد استاد عیسیٰ بہادری تھے۔ اس اسکول میں، انہوں نے پینٹنگ، منی ایچر، اور اصفہان کی تاریخی عمارتوں کی ٹائلوں کے ڈیزائن کا مطالعہ کیا اور پینٹنگ کے رنگوں اور اوزاروں سے واقفیت حاصل کی۔ انہوں نے 1950 ءمیں اسکول سے اپنا ہائی ڈپلومہ حاصل کیا۔

فن کی دنیا میں داخله

بچپن سے ہی فرشچیان کا فن کی دنیا میں داخلہ ہو گیا تھا، جب ان کے والد نے مصوری کے تئیں ان کا شوق دیکھا، تو انہیں اصفہان کے ایک ماہر مصور استاد حاجی میرزا آقا امامی کی ورکشاپ میں لے گئے۔ امامی، جو روایتی مصوری میں بہت زیادہ مہارت رکھتے تھے، اس کم عمر شاگرد کو بڑی محبت اور توجہ کے ساتھ فن کے بنیادی اصول سکھاتے اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے۔ فرشچیان نے امامی کی صحبت میں مصوری سیکھنے میں دل لگایا اور اس فن سے خوشی اور اطمینان کا احساس کیا۔

یورپ کا سفر

ابتدائی تعلیم مکمل ہونے کے بعد فرشچیان نے ۱۹۵۳ ءمیں عالمی فن پاروں کا مطالعہ کرنے کے لیے یورپ کا سفر کیا۔ انہوں نے تقریباً سات سال (اگرچہ کچھ ذرائع دو سال بتاتے ہیں) تک برٹش میوزیم، پیرس کی نیشنل لائبریری، نیویارک کے میٹروپولیٹن میوزیم اور واشنگٹن کی فریئر گیلری جیسے معروف عجائب گھروں کا دورہ کیا۔ اس سفر میں یورپی کلاسیکی مصوری کی تکنیک سیکھنا بھی شامل تھا، جس نے انہیں ایرانی روایتی معیارات کے ساتھ ان تکنیکوں کو ملا کر ایرانی مصوری میں ایک نیا انداز اور فن کی دنیا ایک نیا مکتب قائم کرنے میں مدد دی۔

ایران واپسی

استاد فرشچیان ایران واپس آنے کے بعد تہران کی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف فائن آرٹس میں ملازم ہوگئے اور پھر انہوں نے نیشنل آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر اور تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف فائن آرٹس میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مجید مہرگان، فرہاد رستم‌پور اور مجید صادق‌زادہ جیسے بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔

مصوری کی دنیا میں نئے باب کی تاسیس

فرشچیان ایرانی مصوری میں ایک نئے مکتب کے بانی ہیں جنہوں نے روایتی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے جدید تکنیکوں کو متعارف کرایا اور مصوری کو صرف شاعری اور ادب پر انحصار سے آزاد کیا۔ ان کے اسلوب کی خصوصیات میں ہموار اور خم دار لکیریں، نفیس ترکیبیں، روشن اور بہتے ہوئے رنگ، اور گول جگہ شامل ہیں جو عرفانی اسرار کو منتقل کرتی ہیں۔ ان کے کام اکثر صوفیانہ ادب (جیسے مولانا اور حافظ کی شاعری)، شیعہ مذہبی عقائد، قرآن اور مقدس متون سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی پینٹنگز میں گھوڑے (آزادی اور برتری کی علامت) اور فرشتے (آسمانی دنیا کی علامت) جیسی علامتیں نمایاں ہیں۔

سرگرمیاں

  • حضرت امام رضا (ع) کے ضریح کی ڈیزائن اور نگرانی
  • حضرت امام حسین (ع) کے ضریح کی ڈیزائن اور نگرانی
  • کربلا کے شہداء کے ضریح کی ڈیزائن
  • حضرت امام رضا (ع) کے مرقد کے سرداب کی ڈیزائن
  • سامرا میں سردابِ غیبت کے ضریح کی ڈیزائن
  • تہران یونیورسٹی کے فائن آرٹس فیکلٹی میں استاد
  • امریکہ کے شہر رتھرفورڈ، نیو جرسی میں "نور و دانش" نامی مذہبی اور ثقافتی مرکز کی بنیاد رکھی۔

ان کے فنی اور ہنری شاہکار

محمود فرشچیان کے فن پاروں کی صحیح تعداد واضح نہیں ہے، لیکن ان کے منتخب کاموں کی پانچ جلدیں اب تک شائع ہو چکی ہیں۔ آخری جلد میں ۱۵۰ کام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے چھوٹے کاموں پر مشتمل ایک کتاب میں ۱۲۰ کام ہیں۔ ۵۰ پینٹنگز اور ڈرائنگز سعدآباد میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں، اور ۱۵ پینٹنگز امام رضا (علیہ السلام) کے مزار کے میوزیم کو عطیہ کی گئی ہیں۔ ان کے کچھ کام یہ ہیں:

  1. شمس اور مولانا – ۲۰۰۷ء
  2. ققنوس – ۱۹۹۸ء
  3. گلستان میں ابراہیم – ۱۹۹۷ء
  4. افق – ۱۹۹۵ء
  5. حضرت ابراہیم – ۱۹۹۴ء
  6. سفید بال – ۱۹۹۲ء
  7. روشنی کی طرف – ۱۹۹۰ء
  8. تزکیہ – ۱۹۸۹ء
  9. خوشی کی مہک – ۱۹۸۸ء
  10. مدد – ۱۹۸۸ء
  11. کمین گاه – ۱۹۸۷ء
  12. شہید – ۱۹۷۹ء
  13. آدم کو مٹی سے گوندھا گیا – ۱۹۴۸ء
  14. غریبوں کی شام – ۲۰۱۵ء
  15. امام رضا علیه السلام کے حرم کو اهدا کئے گئے آثار
  16. معراج - ۱۳۹۳ ش؛
  17. پرچمدار حق - ۱۳۹۰ ش؛
  18. ضامن آهو - ۱۳۸۹ ش؛
  19. کوثر - ۱۳۸۹ ش؛
  20. امتحان سخت - ۱۳۸۹ ش؛
  21. عشق کا هدیه - ۱۳۸۲ ش؛
  22. توسل - ۱۳۸۰ ش؛
  23. اولین پیام - ۱۳۷۹ ش؛
  24. نیایش - ۱۳۷۶ - ۱۳۷۷ ش؛
  25. یا رب - ۱۳۷۴ ش؛
  26. پناه (یا یتیم‌نوازی امام علی) - ۱۳۷۱ ش؛
  27. خمسه آل‌طیبه - ۱۳۶۹ش؛
  28. عصر عاشورا - ۱۳۶۹ ش؛
  29. پنجمین روز آفرینش - ۱۳۶۹ش؛

کتابیں

محمود فرشچیان نے مصوری، تذہیب اور معروف اسلامی و فارسی ادبی کاموں جیسے حافظ کی غزلیں اور امام علی (علیہ‌السلام) کے مالک اشتر کو لکھے گئے خط کی ڈیزائننگ میں حصہ لینے کے علاوہ، اپنے منتخب کاموں کو بھی شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ، فرشچیان کے بارے میں بھی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ نیچے ان میں سے کچھ کا ذکر کیا گیا ہے:

  1. رباعیات خیام - نقاشی - ۱۳۹۳ ش؛
  2. غزلیات حافظ - تذهیب - ۱۳۹۳ ش؛
  3. فال حافظ - نقاشی - ۱۳۹۲ ش؛
  4. دیوان حافظ - نقاشی - ۱۳۹۲ ش؛
  5. منتخبی از غزلیات شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی - تذهیب - ۱۳۹۲ ش؛
  6. سخنان حضرت امیرالمومنین علی (علیه‌السلام): گزیده نهج‌البلاغه - تذهیب؛
  7. رباعی‌های خیام - طراحی - ۱۳۹۱ ش؛
  8. فرمان‌نامه حضرت امیرالمومنین (علیه‌السلام) به مالک اشتر - تذهیب - ۱۳۹۱ ش؛
  9. زندگی و آثار هنری حاج میرزا آقا امامی - مقدمه - ۱۳۹۰ ش؛
  10. گزینه زیباترین سخنان خواجه عبدالله انصاری - نقاشی - ۱۳۸۸ ش؛
  11. داستان‌های شاهنامه فارسی - نقاشی - ۱۳۸۸ ش؛
  12. دعای ندبه - نقاشی - ۱۳۸۷ ش؛
  13. حدیث نگار - نقاشی - ۱۳۸۶ ش؛
  14. حیات محبوب - نقاشی - ۱۳۸۶ ش؛
  15. دیوان شعر باباطاهر عریان - خطاطی - ۱۳۷۹ ش.

منتخب آثار

نیایش نور - ۱۳۹۳ ش؛

  • عکاسی و نقاشی - ۱۳۹۳ ش؛
  • نقاشی‌های برگزیده - ۱۳۹۰ ش؛
  • برگزیده آثار نقاشی محمود فرشچیان - ۱۳۸۶ ش؛
  • نقاشی‌های برگزیده - ۱۳۸۶ ش.
  • ان کے بارے میں لکهی گئی کتابیں
  • بال سیمرغ: استاد محمود فرشچیان سے گفتگو - ۱۳۸۹ ش؛
  • چهره‌های ماندگار: استاد محمود فرشچیان - ۱۳۸۴ ش.

فن پاروں کی نمائش

محمود فرشچیان کے بہت سے فن پارے دنیا بھر کے مستقل نمائشوں میں رکھے گئے ہیں، اور ان کی عارضی نمائشیں بھی منعقد ہو چکی ہیں۔ ان میں سے مستقل نمائشیں کچھ یہ ہیں:

مستقل نمائشیں

  1. ایران کا قومی عجائب گھر
  2. تہران کا عصری آرٹ میوزیم
  3. ملکہ الزبتھ میوزیم
  4. ملکہ جولیانا میوزیم
  5. پرنس آغا خان میوزیم
  6. لائیڈن جانسن میوزیم - امریکہ
  7. جنرل ارنسٹو گیزل میوزیم - اٹلی
  8. شہزادہ اکی ہیتو میوزیم - جاپان
  9. جوسیپ سارگات میوزیم - اٹلی
  10. لال بہادر شاستری میوزیم - ہندوستان
  11. سینیٹر ولیم فل برائٹ میوزیم
  12. پروفیسر آرتھر پوپ میوزیم
  13. پروفیسر حسین صادقی میوزیم - سوئٹزرلینڈ
  14. غسان شاکر میوزیم
  15. استنبول آرٹ میوزیم - ترکی
  16. لاہور میوزیم - پاکستان
  17. میڈیسن کمپنی میوزیم - واشنگٹن ڈی سی
  18. باب گچی میوزیم - نیویارک
  19. بورو کلیکشن - نیو جرسی
  20. پینز کلیکشن - نیو جرسی
  21. فاکس ورتھ گیلری نیویارک
  22. تہران کا عصری آرٹ میوزیم
  23. فائن آرٹس مینی ایچر گیلری
  24. شکاگو کا سائنس اور صنعت میوزیم
  25. مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن ڈی سی
  26. ایران اور امریکہ سوسائٹی - تہران
  27. نیشنل کونسل آف آرٹس - کراچی
  28. راولپنڈی کلچرل اینڈ آرٹ انسٹی ٹیوٹ
  29. کوروش گیلری - پیرس
  30. الجزائر کا فائن آرٹس میوزیم
  31. تہران یونیورسٹی
  32. فرہنگ ہال - تہران
  33. یورپی فائن آرٹس گیلری - ویانا
  34. مولر آرٹ گیلری - میونخ
  35. باربرینی پلازہ - روم
  36. میوزک گیلری - میلان
  37. گلستان پیلس میوزیم - تہران
  38. چہل ستون پیلس میوزیم - اصفہان

عارضی نمایشیں

محمود فرشچیان کے فن پاروں کی نمائش

محمود فرشچیان کے فن پارے 1948 سے 1994 تک، 83 اجتماعی اور 51 انفرادی نمائشوں میں پیش کیے گئے، جن کی فہرست ذیل میں دی گئی ہے:

  1. تہران
  2. شیراز
  3. اصفہان
  4. لندن
  5. پیرس
  6. نیویارک
  7. واشنگٹن
  8. شکاگو
  9. ڈیٹرائٹ
  10. لاس اینجلس
  11. سینٹ لوئس
  12. بوسٹن
  13. فلوریڈا
  14. اٹلانٹا
  15. ہوائی
  16. برلن
  17. برسلز
  18. پراگ
  19. روم
  20. ہیمبرگ
  21. ٹوکیو
  22. ہسپانیہ
  23. جنیوا
  24. سوئٹزرلینڈ
  25. بحرین
  26. کویت
  27. دوبئی
  28. ابوظبی
  29. بیروت

ایوارڈز اور اعزازات

  • ملٹری آرٹ کا گولڈ میڈل - ایران – 1952ء
  • بین الاقوامی آرٹ فیسٹیول کا گولڈ میڈل - بیلجیم – 1958ء
  • وزارت ثقافت و فنون کا پہلا انعام - ایران – 1973ء
  • اکیڈمی آف آرٹ اینڈ ورک کا گولڈ میڈل - اٹلی – 1981ء
  • یونیورسٹی آف آرٹس سے میرٹ ڈپلومہ - اٹلی – 1982ء
  • یورپی اکیڈمی کا اکیڈمک ڈپلومہ - اٹلی – 1983ء
  • یورپی گولڈن مجسمہ برائے فن - اٹلی – 1984ء
  • گولڈن پام آرٹ کا تمغہ - اٹلی – 1984ء
  • آسکر کا گولڈن مجسمہ - اٹلی – 1985ء
  • آرٹ میں فرسٹ کلاس میڈل – 1993ء
  • 21 ویں صدی کے دانشوروں کی فہرست میں فرشچیان کا نام شامل – 2000ء
  • پہلے دور میں پائیدار شخصیت کا اعزاز – 2001ء

وفات

محمود فرشچیان کا انتقال 8 اگست 2025 ءکو 95 سال کی عمر میں نیو جرسی، USA میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔

تعزیتی پیغامات

صدرِ ایران کا پیغامِ تعزیت

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم "انا لله و انا الیہ راجعون" [سورۃ البقرہ، آیت 156] استاد محمود فرشچیان، جو مصوری کے ایک ممتاز اور نامور ایرانی فنکار تھے، کی وفات باعثِ افسوس اور غم ہے۔ فنِ ایران کی یہ یادگار شخصیت، اپنے شاندار اور لازوال فن پاروں کے ذریعے، نہ صرف ایرانی مصوری کی عظمت اور وقار کی وارث تھی، بلکہ اپنی بے مثال اختراعات اور ذوق کے ساتھ اس قدیم فن میں ایک نئی روح بھی پھونکی اور عالمی سطح پر ایران کا نام روشن کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استاد فرشچیان کا نام اور ان کے شاندار فن پارے جیسے کہ "عصر عاشورا"، "کوثر" اور "ضامنِ آہو" اس سرزمین کی تاریخِ ثقافت اور فن میں ایک چمکتے ہوئے نگینے کی طرح ہمیشہ باقی رہیں گے۔ یہ وہ فن پارے ہیں جو اسلامی ایران کی ثقافت اور شیعہ تاریخ کے عشق، ایمان اور شان کا مکمل آئینہ تھے۔ امید ہے کہ فنکاروں اور ثقافت کے نامور افراد کی کوششوں سے فرشچیان کا قابلِ فخر اور قیمتی مکتب قائم رہے گا اور اس درخشاں راستے پر جو اس بے مثال ایرانی فنکار کے مومنانہ ذوق سے بچھا، لائق پیروی کرنے والے اور باوقار شاگرد بھی نظر آئیں گے۔ میں اس تلخ سانحے پر ان کے معزز خاندان، ملک کی فنکارانہ برادری اور ایران کی ثقافت و فن سے محبت کرنے والوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس مرحوم استاد کے لیے رحمت و مغفرت اور پسماندگان کے لیے صبر و شکیبائی کی دعا کرتا ہوں۔

پارلیمنٹ کے سپیکر کا تعزیتی پیغام

بسم الله الرّحمن الرّحیم إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [قرآن – سورت البقرہ: 156] ممتاز فنکار، دیرپا شخصیت اور ایران کی مینی ایچر پینٹنگ کے نمایاں استاد اور مذہبی و روایتی فن پاروں کے خالق استاد محمود فرشچیان کے انتقال پر گہرا افسوس اور دکھ ہے۔ استاد فرشچیان معاصر ایرانی ثقافت اور فن کے بے مثال، مشہور اور ممتاز مفاخر میں سے تھے، وہ ایک اختراعی اور بااثر مینی ایچر پینٹنگ فنکار اور مذہبی و روایتی موضوعات پر مبنی قابل قدر کاموں کے خالق تھے۔ انہوں نے برسوں کی لگن اور محنت کے ساتھ، محبت، خلوص اور دلی عقیدت کے ساتھ، ایرانی مینی ایچر پینٹنگ کے روایتی اسکول اور اصولوں کو نئے انداز اور اسلوب کے ساتھ ملا کر اور ادب اور تاریخی واقعات سے فائدہ اٹھا کر، خالص فن اور شاہکار تخلیق کیے جو عوام اور خاص لوگوں کے لیے دلکش بنے اور سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کی فنکارانہ تخلیقات ہمیشہ ایرانی فن کی علامت اور نشانی کے طور پر مشہور اور عالمی سطح پر پھیلتی رہیں، جنہوں نے فن کے نقطہ نظر سے ایک نئی کھڑکی کھولی جس کا اس ملک کے فنکارانہ نقطہ نظر، علم اور مہارت کو بہتر بنانے پر بہت بڑا اثر تھا۔ استاد کے کاموں نے دنیا بھر کے مشہور میوزیمز، ملکی اور مذہبی مراکز، بشمول آستان قدس رضوی (علیہ السلام) کے حرم کے میوزیم کو زینت بخشی ہے۔ 'ضامن آهو'، 'غدیر خم'، 'عصر عاشورا'، 'شام غریبان'، 'توسل' اور 'معراج' جیسے مینی ایچر پینٹنگ کے شاہکاروں اور حضرت علی ابن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) اور حضرت ابا عبداللہ حسین (علیہ السلام) کے ضریحوں کے ڈیزائنر اور نگران کرنے والی شخصیت کی کمی، جو روحانیت، تخلیقی صلاحیت اور فنکارانہ جوہر سے بھرپور تھی، بلا شبہ ناقابل تلافی ہے اور ایرانی اور اسلامی فن کے لیے ایک تلخ اور افسوسناک نقصان کا باعث بنے گی۔ اس غمگین سانحے پر ایرانی عوام، اسلام کی فنکارانہ برادری اور ان کے قابل قدر خاندان کو تعزیت پیش کرتے ہوئے، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس قابل احترام استاد کی روح کو جو اربعین حسینی کے دنوں میں آسمان کی طرف عروج کر گئے، اولیاء اللہ کے ساتھ ہمنشینی اور بلند درجات عطا فرمائے، اور ان کے لواحقین اور دوستوں کو صبر و استقامت عطا کرے۔

چیف جسٹس کا تعزیتی پیغام

میں معروف اور پرعزم فنکار، جناب استاد محمود فرشچیان کے انتقال پر فنکاروں، ساتھیوں، دوستوں اور خصوصاً ان کے معزز خاندان سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، اور ان کے لیے اللہ کی رحمت اور مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔ استاد فرشچیان نے اپنی فنی زندگی میں شاندار فن پارے تخلیق کیے، جن میں "عصر عاشورا"، "یتیم نوازی امام علی (ع)"، "ضامن آہو" اور اس طرح کے دیگر فن پارے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے امام حسین (ع)، امام رضا (ع) اور حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) کے مقدس روضوں کی ڈیزائننگ اور تعمیر میں بھی اپنی محبت اور عقیدت کا جوہر دکھایا، اور ایک دیندار اور پرعزم فنکار کی چمک کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس عظیم شخصیت کی فنی خدمات اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قدر اور اجر و ثواب کی حامل ہیں۔

ثقافت اور اسلامی راهنمایی وزیر کا پیغام

بسم اللہ الرحمن الرحیم "إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ" (سورہ بقرہ: آیت 156) ایران کے بے مثال فن کے استاد، فنکاروں کے فخر، اور اس سرزمین کی ثقافت اور تہذیب کے درخشاں گوہروں میں سے ایک، استاد محمود فرشچیان کی وفات نے فن کی دنیا اور ایرانی قوم کے دلوں کو غمگین کر دیا ہے۔ بلا شبہ، استاد فرشچیان ایک عظیم فنکار تھے جنہوں نے ایرانی اور اسلامی فن کو باہم ملا دیا اور اپنی گہری نظر سے ایسے شاہکار تخلیق کیے جو اس سرزمین کی تاریخی اور جذباتی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کے شاہکاروں میں "ضامنِ آہو" اور "عصر عاشورا" سے لے کر امام رضا (علیہ السلام) کے مطہر روضے کے لیے عظیم ڈیزائن، اور فردوسی کی "شاہنامہ"، حافظ کے "دیوان" اور دیگر ایرانی ثقافت اور ادب کے عظیم متون کے لیے بنائے گئے شاندار اور ماہرانہ کام، یہ سب ان کے اعلیٰ فن اور اس نرم دل کی روشن نشانیاں ہیں جو ایران اور اسلام کے لیے دھڑکتا تھا۔ وہ صرف ایک ماہر مصور ہی نہیں تھے بلکہ تاریخ اور روحانیت کے درمیان ایک معمار تھے۔ ایک ایسے فنکار جن کا ہر کام مشرقی حکمت، ایرانی جمالیات اور مذہبی عقائد کی گہرائی کا ایک مرکب تھا۔ ان کے کام صرف مصوری نہیں تھے، بلکہ وہ ایک ایسی قوم کے ایمان، محبت اور شناخت کی تصویری داستان تھے جو رنگ اور لکیروں کی زبان میں ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہو گئے۔ اہل بیت اطہار اور خاص طور پر عاشورا اور امام حسین (علیہ السلام) سے استاد فرشچیان کی محبت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ حضرت سید الشہداء (علیہ السلام)، جن سے اپنی والہانہ محبت کو انہوں نے عظیم پینٹنگ "عصر عاشورا" میں اپنے عشق اور آنسوؤں کی قلم سے پینٹ کیا، ان اربعین کے ایام میں اس عظیم انسان کے شفیع اور دستگیر ہوں گے۔ میں ملک کی فنی برادری، اس عظیم استاد کے شاگردوں اور دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں، اور خاص طور پر ان کے محترم خاندان کو اس نقصان پر تعزیت پیش کرتا ہوں اور خداوند رحمن سے ان کی بلند روح کے لیے ابدی سکون اور سوگوار خاندان کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتا ہوں۔

تصویری جہلکیاں

متعلقہ تلاشیں

حوالہ جات