مندرجات کا رخ کریں

"محمود شلتوت" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 39: سطر 39:
بعض  کے مطابق ، اس فتوی  کا اجراء محمد  تقی قمی  اور سید  حسین بروجردی کی پیروی اور کوششوں اور دار التقریب الاسلامیہ  کے قیام کا نتیجہ تھا۔ اس فتوی کے اجراء سے قبل ، سنیوں کو شیعہ فقہ پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شلتوت نے وراثت اور طلاق جیسے معاملات پر سنی فقہ پر شیعہ فقہ کی دلائل برتری اور قوت کی بنیاد پر اپنے فتوی کو جاری کرنے کے  محرکات میں سے بیان کیا ہے۔  
بعض  کے مطابق ، اس فتوی  کا اجراء محمد  تقی قمی  اور سید  حسین بروجردی کی پیروی اور کوششوں اور دار التقریب الاسلامیہ  کے قیام کا نتیجہ تھا۔ اس فتوی کے اجراء سے قبل ، سنیوں کو شیعہ فقہ پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شلتوت نے وراثت اور طلاق جیسے معاملات پر سنی فقہ پر شیعہ فقہ کی دلائل برتری اور قوت کی بنیاد پر اپنے فتوی کو جاری کرنے کے  محرکات میں سے بیان کیا ہے۔  


اس فتوی کا ایک نتیجہ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں شیعہ فقہ اور تقابلی فقہ کی تعلیم ہے۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس فتوی نے سعودی عرب میں سلفیوں کے سلوک اور پر گہرا اثر ڈالا ، جو شیعوں کے کافر سمجھتے تھے۔
اس فتوی کا ایک نتیجہ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں شیعہ فقہ اور تقابلی فقہ کی تعلیم ہے۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس فتوی نے سعودی عرب میں سلفیوں کے سلوک اور رفتار پر گہرا اثر ڈالا ، جو شیعوں کے کافر سمجھتے تھے۔


== استفتاء کا ترجمہ ==
== استفتاء کا ترجمہ ==

نسخہ بمطابق 09:39، 23 مئی 2025ء

محمود شلتوت
دوسرے نامشیخ محمود شلتوت
ذاتی معلومات
پیدائش1310 ق، 1893 ء، 1272 ش
پیدائش کی جگہمصر
وفات1383 ق، 1964 ء، 1343 ش
وفات کی جگہقاہرہ
اساتذہمحمد عبده، عبدالمجید سلیم
شاگردشیخ محمود عاشو
مذہباسلام، سنی
اثراتتفسیر قرآن کریم، مقارنة المذاهب فی الفقه ، فقه القرآن

محمود شلتوت مصر کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والےعالم دین، اسلامی اسکالر اور الازہر یونیورسٹی کا شیخ اور سربراہ تھا۔ انہوں نے 1918ء میں بین الاقوامی ڈگری حاصل کی۔ شیخ محمود کا تقرر اداروں میں استاد کے طور پر ہوا، پھر اعلیٰ شعبہ میں، پھر تخصص کے شعبوں میں استاد، پھر کالج آف شریعہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر، پھر سینئر علما کے گروپ کا رکن، پھر جامعہ الازہر کے شیخ 1958ء کے طور پر خدمات سر انجام دیں تھے۔ وہ 1946ء میں عربی لینگویج اکیڈمی کے رکن تھے اور سب سے پہلے عظیم امام کا خطاب حاصل کرنے والے اور تقریب بین المذاہب کے داعیوں میں سے تھے۔

سوانح عمری

شیخ محمود شلتوت 1893ء میں مصر کی بحیرہ گورنری میں اطیع برود مرکز سے وابستہ منیات بنی منصور میں پیدا ہوئے۔ اس نے جوانی میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ اسکندریہ انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوئے اور پھر الازہر کالجوں میں داخلہ لیا۔ انہوں نے 1918ء میں الازہر سے بین الاقوامی سند حاصل کی۔ وہ 1919ء میں اسکندریہ انسٹی ٹیوٹ میں بطور استاد مقرر ہوئے۔

انہوں نے 1919ء کے انقلاب میں اپنے قلم، زبان اور دلیری سے حصہ لیا۔ شیخ محمد مصطفی مراغی نے ان کے علم کی وسعت کی وجہ سے انھیں اعلیٰ محکمے میں منتقل کر دیا۔ محمود شلتوت نے الازہر کی اصلاحی تحریک کی حمایت کی، انہیں بطور وکیل اپنے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور پھر 1935ء میں الازہر واپس آ گئے۔

تعلیم

شیخ محمد شلتوت ١٨٩٣ء میں علم وتمدن کی سرزمین مصر کے ایک مذہبی، علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا اور ماں کی آغوش تربیت میں پروان چڑھتے رہے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی اور اعلی تعلیم کیلئے ”اسکندریہ یونیورسٹی” میں داخل ہوئے۔ ١٢ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے اور ١٩١٨ء میں ممتاز حیثیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور ١٩١٩ء میں ممتاز حیثیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور ١٩١٩ء سے ١٩٣٨ء تک تک یہیں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔

١٩٣٩ء میں مصر کی معروف درسگاہ اور عالم اسلام کے عظیم اسلامی مرکز یعنی ”جامعة الازھر” کے سرپرست علامہ شیخ مصطفی مراغی نے آپ کو ”جامعة الازھر” میں پڑھانے کی پیشکش کی جسے آپ نے خوشی سے قبول کر لیا اور پھر ١٩٥٨ء میں علامہ مراغی کی وفات کے بعد آپ کو اس مایہ ناز درسگاہ کے سرپرست کے طور پر منتخب کیا گیا۔

تاریخی فتوی

مذہب جعفریہ کی پیروی کی جا سکتی ہے۔ جامعہ الازہر مصر کے بزرگ عالم دین شیخ محمود شلتوت نے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی اور فقہ حنبلی کے ساتھ فقہ جعفریہ پر عمل کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شیعت اپنے کردار، اقدار اور عالمی سیاسی دینی قائدین کے عنوان سے اعلٰی حیثیت کا حامل مکتب ہے، جبکہ استعماری ایجنٹوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان شیعہ، سنی اختلافات کو ہوا دی جائے۔ لہٰذا بعض لوگ جنکی مذہب شیعہ اور اہل سنت میں کوئی حیثیت ہی نہیں مناظرہ کیلئے ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں[1]۔

اس فتوی کی وجہ سنی فقہ سے شیعہ فقہ کا ادلہ محکم اور قوی ہونا بیان کیا گیا۔ یہ 17 ربیع الاول ۱۳۷۸ق کو فتوی شیعہ امامیہ ، شیعہ زیدیہ اور چار سنی مذاہب کے نمائندوں کی موجودگی میں ، امام صادق (ع) کی ولادت کے دن جاری کیا گیا تھا۔ اس فتوی کا ایک نتیجہ الازہر یونیورسٹی میں شیعہ فقہ اور فقہ مقارن کی تدریس اور تعلیم تھا۔

اس فتوی کا شیعوں پر کفر کا فتوی لگانے والے افراد پر گہرا اثر پڑا۔ شیخ شلتوت کے فتوی کو کچھ سنی علماء جیسے اخوان المسلمین کے سربراہ محمد اَلغزالی اور الازہر کے سابق صدر کے سربراہ محمد الفحام نے سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ کچھ علماء ، جیسے عبداللطیف السُّبکی و ابوالوفاء کریستانی نے اس پر تنقید کی۔ یوسف القرضاوی ، سنی عالم دین اور شلتوت کی کچھ کتابوں کے جمع کرنے والے ، نے اس فتویے کے اجراء سے انکار کیا۔

فتوی کی اہمیت

شیخ شلتوت کا فتوی امامیہ اور زیدیہ شیعہ فقہ سے تمام مسلمانوں کی تقلید کے جواز سوال کے جواب میں تھا ۔ اس فتوی کو الازہر مصر کے سربراہ اور دارالتّقریب بینَ المذاهبِ الاسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک شیخ محمود شلتوت، جو حنفی مذہب کا فقیہ تھا، جاری کیا گیا۔ یہ فتوی شیعہ امامیہ، شیعہ زیدی اور چار سنی مذاہب کے نمائندوں کی موجودگی میں امام صادق (ع) کی ولادت کے دن جاری کیا گیا تھا۔

بعض کے مطابق ، اس فتوی کا اجراء محمد تقی قمی اور سید حسین بروجردی کی پیروی اور کوششوں اور دار التقریب الاسلامیہ کے قیام کا نتیجہ تھا۔ اس فتوی کے اجراء سے قبل ، سنیوں کو شیعہ فقہ پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شلتوت نے وراثت اور طلاق جیسے معاملات پر سنی فقہ پر شیعہ فقہ کی دلائل برتری اور قوت کی بنیاد پر اپنے فتوی کو جاری کرنے کے محرکات میں سے بیان کیا ہے۔

اس فتوی کا ایک نتیجہ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں شیعہ فقہ اور تقابلی فقہ کی تعلیم ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس فتوی نے سعودی عرب میں سلفیوں کے سلوک اور رفتار پر گہرا اثر ڈالا ، جو شیعوں کے کافر سمجھتے تھے۔

استفتاء کا ترجمہ

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اس کی عبادت اور لین دین صحیح ہونے کے لیے، اسے مشہور چار مذاہب میں سے ایک پر عمل کرنا چاہئے ، اور ان میں شیعہ امامیہ اور زیدیہ مذہب نہیں ہے۔ کیا آپ کلی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں اور شیعہ امامیہ کی تقلید کی اجازت نہیں دیتے ہیں؟

شیخ محمود شلتوت کے استفتاء میں بیان کیا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تکالیف دینی اور شرعی کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے لئے سنی مذہبی مذہب کی تقلید کی جانی چاہئے ، اور یہ کہ شیعہ امامیہ اور زیدیہ مذہب ان مذاہب میں شامل نہیں ہے۔ سائل شیخ محمود شلتوت کے مذاہب جیسے شیعہ امامیہ اور زیدیہ کی تقلید کے بارے میں ان کا نظریہ جاننا چا ہے۔

استفتاء اور سوال کے جواب میں ، شیخ شلتوت کا کہنا ہے کہ اسلام کسی خاص مذہب کی پیروی کو واجب قرار نہیں دیتا ہے اور یہ کہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی مذاہب کی تقلید کرسکتا ہے جو صحیح ہو۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دوسرے سنی مذاہب کی طرح بارہ شیعہ مذاہب کی بھی تقلید جائز ہے اور یہ کہ مسلمان کو کچھ مذاہب میں تعصب سے پرہیز کرنا چاہئے۔

شلتوت نے استفتاء اور فتوی کا متن لکھا اور آرکائیو کے لئے التقریب بین المذاہب الاسلامیہ کے ایڈیٹر ، محمد تقی قمی کو بھیجا۔ اس متن کی تختی کو شیخ شلتوت کے دستخط کے ساتھ محمد تقی قمی نے ہادی میلانی کا سپرد کیا گیا اور اسے آستان قدس رضوی میں رکھا گیا ہے۔

فتوی کا رد عمل

رد عمل\n\nفتووا کی رہائی کے بعد اس کی تصدیق یا اسے مسترد کرنے کے لئے رد عمل کیا گیا تھا:\n\nفتووا کی تصدیق میں رد عمل\n\n• قریب کی اسمبلی کے سربراہ محمد العاباہی نے شیعہ فقہ کے ثبوت کی تصدیق میں ایک مضمون لکھ کر فتویوا کی حمایت کی۔\n\n• محمد الیرقویوی نے \ فتوی کے فتوی کی سمت میں رد عمل\n\n• الازہار میں فتویوا اور شیخ حنبالی کے سربراہ شیخ عبد الطیف الساباکی نے ایک مضبوط مضمون میں شیعوں اور سنیوں کے مابین قریب ہونے پر حملہ کیا ، اور اسے یکطرفہ اور صرف سنیوں کے ذریعہ قرار دیا۔\n\n• یوسف القوروری نے عام طور پر اس فتویے کے اجراء سے انکار کیا۔ اس فتووا کی وجہ شیلوٹ کی کتابوں میں ہے۔ اس کے برعکس ، محمد ہاسن ، کسی وجہ سے ، کسی وجہ سے ، جیسے شیلوٹ کے فتویوا کے مرحوم فتویوا کے ساتھ ساتھ نخشی نیٹ ورک میں مصری مفتی کے \

دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ کا قیام

شیخ محمود شلتوت کے زمانے میں جامعہ الازہر ہی میں"دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ" قائم ہوا تھا۔ جس کی تنظیم نو کے بعد اب اس کا مرکز تہران ہے۔ اس تنظیم میں اہل سنت کے چار فقہی مکاتب کے علاوہ شیعہ امامیہ اور زیدیہ کے نمائندے اُسی زمانے سے موجود الازہر الشریف کی اس عظیم اور قابل تقلید روش کے برعکس ایسے درباری ملا بھی ہیں جو اپنے حکمرانوں کی خواہش پر دوسرے مسلمانوں کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔

ایسے فتوے اسلام دشمنوں اور بالخصوص صہیونیوں کی ہی خوشنودی کا باعث بنتے ہیں۔ ان ملاﺅں کے لیے شیخ الازہر ڈاکٹر سید احمد طیب کا عظیم کردار سبق آموز ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے کسی طور پر دیانت داری اور خدا خوفی پر مبنی نہیں ہو سکتے۔ ہیں۔

شیخ محمود شلتوت نے بھی ایک تاریخی فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں فقہ جعفریہ پر عمل کرنے کو بھی دیگر فقہوں پر عمل کی طرح سے مجزی اور کافی قرار دیا تھا۔ الازہر الشریف کی اس عظیم اور قابل تقلید روش کے برعکس ایسے درباری ملا بھی ہیں جو اپنے حکمرانوں کی خواہش پر دوسرے مسلمانوں کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ ایسے فتوے اسلام دشمنوں اور بالخصوص صہیونیوں کی ہی خوشنودی کا باعث بنتے ہیں۔

ان ملاﺅں کے لیے شیخ الازہر ڈاکٹر سید احمد طیب کا عظیم کردار سبق آموز ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے کسی طور پر دیانت داری اور خدا خوفی پر مبنی نہیں ہو سکتے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی گفتگو کا اختتام مذکورہ انگریز صحافی لیزلی ہیز لٹن (Leslie Hazelton) ہی کی ایک بات پر کریں جو تکفیری ملاﺅں کے لیے اپنے اندر عبرت کا سامان رکھتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں:

"مغرب میں کسی کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو چیز اسلام کی دونوں شاخوں کو متحد کرتی ہے اس طاقت سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے جو انھیں تقسیم کرتی ہے اور یہ کہ سب مسلمانوں کی اکثریت ابھی بھی اتحاد کے اس نظریہ کو عزیز جانتی ہے۔ جس کا پرچار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کیا تھا، یہ نظریہ جتنی گہرائی میں ٹوٹا ہے، اس سے زیادہ گہرائی سے قائم و دائم ہے"[2]۔

آثار

  • فقہ القرآن والسنة۔
  • مقارنة المذاهب.
  • القرآن والقتال.
  • ويسألونك.

ترجمے

شیخ محمود شلتوت نے کئی کتابیں بھی لکھیں جن کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا:

  • القرآن والمرأة.
  • تنظيم العلاقات الدولية الإسلامية.
  • الإسلام والوجود الدولي للمسلمين.
  • تنظيم الاسرة.
  • منہج القرآن في بنا المجتمع.
  • رسالة المسؤولية المدنية والجنائية في الشريعة الإسلامية.
  • رسالة الأزهر.
  • إلى القرآن الكريم.
  • الإسلام عقيدة وشريعة.
  • من توجيهات الإسلام.
  • الفتاوى.
  • تفسير القرآن الكريم (الأجزاء العشرة الأولى)

وفات

شیخ محمود کا انتقال جمعہ کی رات (اسراء و معراج کی رات) کی شام قاہرہ میں ہوا اور 1383ھ مطابق رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ دسمبر 1963ء کو آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔

حوالہ جات

  1. مذہب جعفریہ کی پیروی کی جا سکتی ہے – جامعہ الازہر شیخ محمود شلتوت- شائع شدہ از: 16 اکتوبر 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 مئی 2025ء
  2. شیخ الازہر کا چونکا دینے والا انکشاف- شائع شدہ از: 19 جولائی 2011ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22مئی 2025ء