"مسلمانوں کے ہاتھوں اندلس کی فتح" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 84: | سطر 84: | ||
اگر ہم اس دور کے ٹیکنالوجی کا ذِکر کریں تو ان میں کاغز سازیPaper Industry، ٹیکسٹائل انجینئرینگ Textile Engineering، حرکی تونائی سے پن چکیاں اور پون چکیاں بنانا, کیمیکل ٹیکنالوجی و اسلحہ سازی جیسے علوم ید طولا رکھتے تھے. مسجد قرطبہ اور قصر الزہراء اس دور کے انجنرینگ و فن تعمیر کی جیتا جاگتا ثبوت ہے. | اگر ہم اس دور کے ٹیکنالوجی کا ذِکر کریں تو ان میں کاغز سازیPaper Industry، ٹیکسٹائل انجینئرینگ Textile Engineering، حرکی تونائی سے پن چکیاں اور پون چکیاں بنانا, کیمیکل ٹیکنالوجی و اسلحہ سازی جیسے علوم ید طولا رکھتے تھے. مسجد قرطبہ اور قصر الزہراء اس دور کے انجنرینگ و فن تعمیر کی جیتا جاگتا ثبوت ہے. | ||
سپین میں مسلمانوں کا اقتدار 712 سے 1492ء تک یعنی 780 سال تک قائم رہا۔ | سپین میں مسلمانوں کا اقتدار 712 سے 1492ء تک یعنی 780 سال تک قائم رہا۔ | ||
== علمی شخصیات == | |||
اندلس میں مختلف علمی اور تہذیبی شعبوں کے نامور ماہرین شمس الدین قرطبی (مفسر) الزہراوی (سرجن)، ابن باجہ، ابن عربی اور ابن رشد (مفکر ) یحیی ابن السمینہ۔ الزرقالی اور البطروجی (ماہرینِ فلکیات) ابن خلدون ( تاریخ دان اور ماہر عمرانیات) ابن الہیثم (طبیب) جیسی شخصیات شامل ہیں۔ | |||
جدید دور اور بالخصوص جدید یورپ کے فکری اور تہذیبی ارتقا میں اندلس (مسلم اسپین) کی علمی تخلیقات کا اہم حصہ ہے یورپ میں 14 ویں صدی میں شروع ہونی والی نشاتہ الثانیہ کی اہم تحریک کی بنیاد مسلم اسپین کا علمی اور تہذیبی ورثہ بنا۔ اہل مغرب جدید مغربی فلسفہ کے ضمن میں اندلس کے ابن رشد اور فلسفہ تاریخ اور عمرانیات میں ابن خلدون کی خدمات اور اہمیت کے معترف ہیں<ref>[https://www.humsub.com.pk/552716/anwar-jalal-70/ اندلس کی تاریخ اور اہمیت]- شائع شدہ از: 13 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 اپریل 2025ء</ref>۔ | |||
== موجودہ اندلس == | == موجودہ اندلس == | ||
حیرت ہے اتنے طویل عرصے تک حکمرانی کے باوجود سپین میں آج ایک بھی مقامی مسلمان نہیں پایا جاتا، اگرچہ سپین کی طرزمعاشرت کے ہر انگ پر اسلام کا رنگ اور اثر صدیاں گذرنے کے بعد بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ سپینی زبان کی لغت اور بول چال میں عربی الفاظ جلوہ گر ہیں۔ سپین کے سازوآواز میں عربی دھن صاف محسوس ہوجاتی ہے۔ اسکی ثقافت پرمغرب سے زیادہ عرب رنگ غالب ہے۔ | حیرت ہے اتنے طویل عرصے تک حکمرانی کے باوجود سپین میں آج ایک بھی مقامی مسلمان نہیں پایا جاتا، اگرچہ سپین کی طرزمعاشرت کے ہر انگ پر اسلام کا رنگ اور اثر صدیاں گذرنے کے بعد بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ سپینی زبان کی لغت اور بول چال میں عربی الفاظ جلوہ گر ہیں۔ سپین کے سازوآواز میں عربی دھن صاف محسوس ہوجاتی ہے۔ اسکی ثقافت پرمغرب سے زیادہ عرب رنگ غالب ہے۔ | ||
نسخہ بمطابق 11:45، 24 اپريل 2025ء
مسلمانوں کے ہاتھوں اندلس کی فتح اندلس شمالی افریقہ کے بالکل سامنے یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر ایک حسین و جمیل جزیرہ نما ہے۔ آج کل اس میں پرتگال اور سپین دو ممالک واقع ہیں۔ کسی زمانے میں یہ ملک مغربی دنیا کے عظیم ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی فتح سے پہلے یہاں کی حکومت سلطنت روم کی ہمسر تھی۔ مسلمانوں کے دور میں یہ پورے یورپ کے لیے روشنی کا مینار تھا۔ فتح سندھ کی طرح اس حسین و جمیل خطہ زمین کو بھی ولید بن عبدالملک کے زمانے میں فتح کیا گیا۔ اس فتح کا سہرا طارق بن زیاد اور موسٰی بن نصیر کے سر ہے۔
تاریخ
بر اعظم یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر موجود جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) جو "کوہستانِ پیرینیز" (Pyrenees) کی وجہ سے باقی برِاعظم سے کافی حد تک کٹا ہوا ہے اور آج کل ہسپانیہ (Spain) اور پرتگال(Portugal) نامی دو ممالک پر مشتمل ہے، مسلمانوں نے اُس پر تقریباً 800 برس تک حکومت کی۔ اسلامی تاریخ میں اس ملک کو "اندلس" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اندلس جو کبھی اپنی وسعت میں پھیلتا ہوا موجودہ ہسپانیہ اور پرتگال کے ساتھ ساتھ فرانس کے جنوبی علاقوں اربونہ (Narbonne)، بربنیان (Perpignan)، قرقشونہ (Carcassonne) اور تولوشہ (Toulouse) وغیرہ تک جا پہنچا تھا، دورِ زوال میں اُس کی حدُود جنوب مشرقی سمت میں سکڑتے ہوئے محض "غرناطہ" (Granada) تک محدُود ہو گئیں۔
تاریخ اندلس جہاں ہمیں عروج و زوال کی ہوش رُبا داستان سناتی ہے وہاں قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں کے عظیم کارہائے نمایاں سے بھی نقاب اُلٹتی نظر آتی ہے اور اِس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بنیادوں میں دراصل قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں ہی کا ہاتھ ہے اور اِسلامی ہسپانیہ کے سائنس دان بغداد کے مسلمان سائنسدانوں سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔
ہسپانیہ میں سائنسی علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے ذکر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اَحوال اُس کی فتح اور اَدوارِ حکومت کے حوالے سے بھی بیان کر دیے جائیں تاکہ قارئین کو اُس کا پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو۔
فتح اندلس
ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت (705ء تا 715ء) میں موسیٰ بن نصیر کو شمالی افریقہ کی گورنری تفوِیض ہوئی۔ اُس دور میں ہسپانیہ کی سیاسی و معاشی حالت اِنتہائی اَبتر تھی۔ عیش کوش ’گاتھ‘ حکمرانوں نے غریب رعایا کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ عیش و عشرت کے دِلدادہ بدمست اُمراء اور پادریوں نے عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا۔ یہودیوں کی حالت سب سے بری تھی۔
انہیں کوئی دَم سکھ کا سانس نہیں لینے دیا جاتا تھا۔ ظلم و بربریت کے اُس نظام سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی سوچی اور وہاں سے فرار ہو کر موسیٰ بن نصیر کے زیرِ اِنتظام شمالی افریقہ میں پناہ لینا شروع کر دی جہاں اِسلامی نظامِ حکومت کے باعث لوگ پُرامن زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب معاملہ حد سے بڑھا اور مہاجرین بڑی تعداد میں سمندر پار کرکے افریقہ آنے لگے تو موسیٰ نے ہسپانیہ کی مظلوم رِعایا کو بدمست حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنایا۔
ہسپانیہ پر باقاعدہ حملے سے قبل دُشمن کی فوجی طاقت کے صحیح اندازے کے لیے موسیٰ نے اپنے ایک قابل غلام "طریف" کی کمان میں جولائی 710ء میں 100 سواروں اور 400 پیادوں کا دستہ روانہ کیا، جس نے ہسپانیہ کے جنوبی ساحل پر پڑاؤ کیا، جسے آج تک اُس کی یاد میں "طریفہ" کہا جاتا ہے۔ آس پاس کے علاقوں پر کامیاب یلغار کے بعد طریف نے موسیٰ کو اِطلاع دی کہ فضاء سازگار ہے، اگر حملہ کیا جائے تو جلد ہی عوام کو ظالم حکمرانوں کے پنجۂ تسلط سے نجات دِلائی جا سکتی ہے۔
موسی بن نصیر نے اگلے ہی سال 711ء بمطابق 92ھ معروف بربر جرنیل "طارق بن زیاد" کو 7,000 فوج کے ساتھ ہسپانیہ پر لشکر کشی کے لیے روانہ کیا۔ افریقہ اور یورپ کے درمیان میں واقع 13 کلومیٹر چوڑائی پر مشتمل آبنائے کو عبور کرنے کے بعد اِسلامی لشکر نے ہسپانیہ کے ساحل پر جبل الطارق (Gibraltar) کے مقام پر پڑاؤ کیا۔ طارق کا سامنا وہاں ہسپانیہ کے حکمران "راڈرک" کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :
أیها النّاسُ! أین المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و لیس لکم و اﷲِ إلا الصّدق و الصبر [1]۔
اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمھارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن اور بخدا تمھارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ شریف اِدریسی نے اپنی کتاب "نُزھۃُ المشتاق" میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل طارق نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔
چنانچہ مسلمان فوج بے جگری سے لڑی اور 19جولائی 711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالم اسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں ہسپانیہ کے عوام نے یومِ نجات منایا۔ اس کے بعد اکتوبر 711ء میں اِسلامی اندلس کا نامور شہر قرطبہ (Cordoba) ’مغیث رومی‘ کے ہاتھوں فتح ہوا اور دُوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے تیزی سے فتح ہوتے چلے گئے۔
بعد اَزاں جون 712ء میں ’موسیٰ بن نصیر‘ نے خود 18,000 فوج لے کر اندلس کی طرف پیش قدمی کی اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) اور ’ماردہ‘ (Merida) کو فتح کیا۔ دونوں اِسلامی لشکر ’طلیطلہ‘ (Tledo) کے مقام پر آن ملے جو پہلے ہی کسی مزاحمت کے بغیر فتح ہو چکا تھا۔ اسلامی لشکر جن شہروں کو فتح کرتا وہاں کے مفلوک الحال مقامی باشندے خصوصاً یہودی، مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیتے۔ عوامی پزیرائی کچھ اِس قدر بڑھی کہ مسلمان تھوڑے سے وقت میں پورا ہسپانیہ فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
طارق بن زیاد کی فتوحات میں سے آخری فتح ’خلیج بسکونیہ‘ (Bay of Biscay) پر واقع شہر ’خیخون‘ (Gijon) کی تھی، جس کے بعد فتوحات کا سلسلہ روک کر ملکی اِنتظام و اِنصرام کی طرف توجہ دی گئی۔
اسی اثناء میں موسیٰ بن نصیر کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ اور طارق بن زیاد اس مہم کو یہیں چھوڑ کر دِمشق چلے آئیں۔ دو سال کی قلیل مدّت میں کم و بیش سارا ہسپانیہ فتح ہو چکا تھا، موسیٰ نے وہاں سے واپسی سے پہلے اُس کے اِنتظام حکومت کا اِہتمام کیا۔ قرطبہ (Cordoba) کو اندلس کا دار الحکومت قرار دیا، اپنے بیٹے ’عبد العزیز‘ کو وہاں کا حاکم بنایا اور خلیفہ کے حکم کے مطابق دِمشق کی طرف عازمِ سفر ہوا۔
عباسی دور میں
جب اموی دورِ خلافت کا خاتمہ ہوا اور بنو عباس نے غلبہ پانے کے بعد شاہی خاندان کے اَفراد کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا تو اموی خاندان کے چند اَفراد بمشکل جان بچا سکے۔ اُنہی بچ نکلنے والوں میں 20 سالہ نوجوان "عبدالرحمن" بھی تھا. وہ افریقہ سے گزرتا ہوا 5 سال بعد اندلس کے ساحل تک جا پہنچا، جہاں اموی دور کی شاہی اَفواج موجود تھیں۔تاریخ اُسے "عبدالرحمن الداخل" کے نام سے یاد کرتی ہے۔
اس نے اندلس پر کل 32 سال حکومت کی۔یہ وہ دور تھا جب فقہ مالکی کو ریاست میں قانون کی بنیاد کے طور پر نافذ کیا گیا۔عبدالرحمن ثانی‘(822ء) کے دور میں علوم و فنون کی ترقی کا آغاز ہوا، سائنسی علوم کی تروِیج عام ہونے لگی۔ صنعت و حرفت نے بھی بہت زیادہ ترقی کی اور تجارت دُور دراز ممالک تک پھیل گئی۔ 1010ء سے 1031ء تک 21 سالوں میں کل 9 خلفاء تخت نشین ہوئے مگر کوئی بھی حالات کے دھارے کو قابو میں نہ لاسکا۔
اموی حکومت کا خاتمہ
1013ء میں اِنتشار اِس حد تک بڑھا کہ اُس کے نتیجے میں اندلس سے اموی خلافت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا، سلطنت بہت سے حصوں میں بٹ گئی اور ہر علاقے میں مقامی سرداروں اور ملوک نے حکومت شروع کر دی. جسے تاریخ طوائف الملوک کا دور (1009ء-1031ء)کہا جاتا ہے. جب اندلس میں طوائفُ الملوکی حد سے بڑھی اور مسیحی حکومتوں کی طرف سے مسلمان ریاستوں پر حملوں کا آغاز ہوا اور اِسلامی اندلس کی سرحدیں سُکڑنا شروع ہوئیں تو ملوکُ الطوائف کو اپنے اِنجام سے خطرہ لاحق ہوا۔
ایسے میں اُنہیں ہمسایہ مسلمان ریاست شمالی افریقہ کے فرمانروا "یوسف بن تاشفین" اپنی اُمیدوں کے آخری سہارے کی صورت میں دِکھائی دیا۔یوسف بن تاشفین نے مسیحی افواج کو پسپا کر دیا. اس دور کو المرابطوں کا دور کہا جا تا ہے. اُس دَور میں اندلس کا امن اور خوشحالی ایک بارپھر عود کر آئی تاہم یہ کوئی زیادہ طویل دَور نہ تھا۔ المُرابطون کا دورِ حکومت صرف 54 سال تک قائم رہنے کے بعد 1145ء میں ختم ہو گیا۔ صدیوں پر محیط اندلس کی تاریخ میں اِس مختصر دَور کو فلاحِ عامہ کے نکتۂ نظر سے اِنتہائی اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے.
الموحدون کی حکومت
مغربِ اَقصیٰ (موجودہ مراکش) سے 1120ء میں ایک نئی اِصلاحی تحریک نے جنم لیا، جس کا بانی "محمد بن تومرت" تھا۔ مہدیت کے دعوے پر مشتمل اُس کی تبلیغ مَن گھڑت عقائد و نظریات کے باوُجود بڑی پُراثر تھی. ’محمد بن تومرت‘ کے جانشین ’عبدالمومن علی‘ کے دَور میں اُس تحریک نے اپنی سیاسی قوت میں بے پناہ اِضافہ کیا، جس کے نتیجے میں 1145ء میں المُرابطون کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا.
اس دور کو موحدون کا دور کہا جا تا ہے.اُس دَور میں بندرگاہوں کی توسیع بھی عمل میں آئی اور جہاز رانی کے کارخانے قائم ہوئے۔ صنعت و حرفت کو خوب فروغ ملا اور تجارت نے بھی ترقی کی. الموحدون کے دور کے بعد کچھ عرصہ پھر سے طوائف الملوکی کا دور ایا. لیکن اس دوران اندلس کی حدُود تیزی سے سمٹنے لگیں اور بہت سی مسلم ریاستیں یکے بعد دِیگرے مسیحی مقبوضات میں شامل ہوتی چلی گئیں۔
حتیٰ کہ "خاندانِ بنو نصر" کے آغاز سے قبل اِسلامی ہسپانیہ محض 700 میل کے لگ بھگ رقبے پر مشتمل رہ گیا. جس میں غرناطہ , المریہ اور چند علاقے ہی رہگے تھے.خاندانِ بنو نصر جس نے 260 سال حکومت کی، تاریخِ اندلس میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اُس خاندان نے اِتنے طوِیل عرصے تک اپنے محدُود ریاستی وسائل کے باوُجود یورپ بھر کی اِجتماعی یلغار کو روکے رکھا۔ 1423ء میں صحیح معنوں میں ریاست کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر 2 جنوری 1492ء کے تاریخی دِن اپنے اِنجام کو جاپہنچا۔
ہسپانیہ میں سائنسی علوم کا فروغ
ہسپانیہ میں سائنسی علوم کی وسیع پیمانے پر تروِیج کا باقاعدہ آغاز "عبدالرحمٰن الناصر" کے دَور (912ء تا 961ء) میں ہوا.اُسی دور میں اندلسی سائنسدانوں نے سائنسی طریقِ کار کو فروغ دیا اور علم ہیئت (astronomy)، علم ریاضی (mathematics)، علم طب (medical science)، علم نجوم (astrology)، علم کیمیا (chemistry)، علم نباتات (botany)، علم جغرافیہ (geography) اور بے شمار صنعتی علوم و فنون اندلس کی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے.
تعلیم اس قدر عام ہوئی کہ شرحِ خواندگی سو فیصد تک جاپہنچی۔ یہ اُس دور کی بات ہے کہ جب براعظم یورپ کے تمام صلیبی ممالک جہالت کے اٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھے۔ اندلس کے دُوسرے اُموی خلیفہ حکم ثانی (961ء تا 976ء) کی لائبریری اپنے دَور میں دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی، جہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر مذہبی علوم کے علاوہ علوم عقلیہ پر مشتمل 4 لاکھ سے زیادہ کتب موجود تھیں۔
ہسپانیہ میں بہت سے سائنسی علوم و فنون پر کام ہوا، تاہم علم الطب (medical sciences)، علم الہیئت (astronomy) اور علمِ نباتات (botany) دیگر علوم کی نسبت زیادہ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اَب ہم اِن علوم میں خاص طور پر اندلسی مسلمانوں کی پیش رفت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ قاری پر تاریخِ علوم کے کچھ مزید مخفی گوشے عیاں ہو سکیں۔ ہسپانیہ میں اِسلامی طب ایشیا سے ہجرت کر کے آنے والے اَطباء کے زرِیعہ متعارَف ہوئی جو اپنے ساتھ طبی کتب کا ذخیرہ بھی لائے تھے۔
علاوہ ازیں بغداد کی تحقیقات سے مستفید ہونے کے لیے ہسپانیہ کے نوجوان حصولِ علم کے لیے افریقہ کی ہزارہا کلومیٹر طویل مسافت طے کر کے بغداد پہنچتے اور وہاں برس ہا برس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب میں مشّاق ہونے کے بعد وطن واپس لوٹتے۔ یونس الحرانی، اسحاق بن عمران، اسحاق بن سلیمان اور ابن الجزار اُس دَور میں ہسپانیہ میں طبی علوم کے اِفشاء کا باعث ہوئے۔
ہسپانیہ میں اِسلامی طب کی معروف شاخوں تشخیصِ امراض، امراض نسواں، امراضِ اطفال، امراض چشم اور سرجری پر خصوصی کام ہوا۔ بہت سے ماہر اَطباء نبض دیکھ کر مریض کی جملہ کیفیت بیان کر دیتے تھے.زہراوی نے علم الطب پر ایک ضخیم کتاب "التصریف لمن عجز عن التالیف" بھی لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے علم العلاج اور علم الدواء کے ساتھ ساتھ جراحت (surgery) پر بھی خاص روشنی ڈالی ہے۔ زہراوی نے اپنے اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کے اِستعمال کا طریقِ کار اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے، جن میں اکثر اُس نے تصویروں کی مدد سے اُن آلات کی وضاحت اور اُن کا طریقِ استعمال بیان کیا ہے.
سرجری میں ابو القاسم الزہراوی کا مقام تمام اندلسی اَطباء میں بڑھ کر تھا، بلکہ اگر اُسے جدید علم جراحت (surgery) کا بانی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ابو القاسم الزہراوی قرونِ وُسطیٰ کا سب سے بڑا سرجن تھا۔ بغداد میں ابوبکر الرازی کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب (clinic) کا مالک تھا۔ عبدالرحمٰن الناصر نے اپنے دورِ خلافت میں باضابطہ طور پر علومِ عقلیہ کی سرپرستی شروع کر دی، جس کے نتیجے میں سرزمینِ اندلس ایک خوشگوار اِنقلاب سے فیضیاب ہوئی۔ متلاشیانِ علم علم الطب (medical sciences) کی طرح علم الہیئت (astronomy) کے حصول کے لیے بھی بلادِ مشرق بالخصوص بغداد و دمشق کا رُخ کرنے لگے.
اندلس کا سب سے پہلا ماہرِ فلکیات جو ملک میں سائنسی علوم و فنون کے اِفشاء و اِشاعت کا باعث بنا وہ ’یحییٰ بن یحییٰ ابن السمینہ‘ تھا. اندلس میں علمِ نباتات کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے اَوائل دَور ہی میں شروع کر دیا تھا.اندلس کے نباتی نہ صرف طبی نباتات پر تحقیق کرتے بلکہ ہر قسم کے اُناج اور نقد آور فصلوں پر بھی تجربات کرتے۔ ملک کا اکثر حصہ دریاؤں اور اُن سے نکالی جانے والی نہروں سے بہتر انداز میں سیراب ہوتا تھا۔ چنانچہ پورا ملک فصلوں سے لدا رہتا، حتیٰ کہ پہاڑوں کو بھی بنجر نہیں رہنے دیا گیا۔ اکثر پہاڑی علاقوں میں انگور کی کاشت کی جاتی۔
اندلس میں اسلامی تہذیب کی اشاعت
اندلسی مسلمانوں نے یورپ کو ایک نئی تہذیب سے متعارف کروایا۔ اِسلام کی آمد سے قبل یورپ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ختم نہ ہوتے تھے، سیوریج کا گندہ پانی گلیوں اور بازاروں میں ہر سُو بکھرا رہتا تھا، عموماً لوگ مہینہ بھر نہاتے نہ تھے اور کوئی ہفتے میں ایک آدھ بار نہا لے تو اُس کے مسلمان ہونے کا شک کیا جاتا تھا.مسلمانوں نے یورپ کو ایک فکرِ تازہ سے رُوشناس کیا۔ زندگی کے نئے اَسالیب عملی طور پر اُن کے سامنے رکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہسپانیہ کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اِسلامی ہسپانیہ یورپ بھر کے لیے رشکِ فلک بنا۔
اگر ہم اس دور کے ٹیکنالوجی کا ذِکر کریں تو ان میں کاغز سازیPaper Industry، ٹیکسٹائل انجینئرینگ Textile Engineering، حرکی تونائی سے پن چکیاں اور پون چکیاں بنانا, کیمیکل ٹیکنالوجی و اسلحہ سازی جیسے علوم ید طولا رکھتے تھے. مسجد قرطبہ اور قصر الزہراء اس دور کے انجنرینگ و فن تعمیر کی جیتا جاگتا ثبوت ہے. سپین میں مسلمانوں کا اقتدار 712 سے 1492ء تک یعنی 780 سال تک قائم رہا۔
علمی شخصیات
اندلس میں مختلف علمی اور تہذیبی شعبوں کے نامور ماہرین شمس الدین قرطبی (مفسر) الزہراوی (سرجن)، ابن باجہ، ابن عربی اور ابن رشد (مفکر ) یحیی ابن السمینہ۔ الزرقالی اور البطروجی (ماہرینِ فلکیات) ابن خلدون ( تاریخ دان اور ماہر عمرانیات) ابن الہیثم (طبیب) جیسی شخصیات شامل ہیں۔
جدید دور اور بالخصوص جدید یورپ کے فکری اور تہذیبی ارتقا میں اندلس (مسلم اسپین) کی علمی تخلیقات کا اہم حصہ ہے یورپ میں 14 ویں صدی میں شروع ہونی والی نشاتہ الثانیہ کی اہم تحریک کی بنیاد مسلم اسپین کا علمی اور تہذیبی ورثہ بنا۔ اہل مغرب جدید مغربی فلسفہ کے ضمن میں اندلس کے ابن رشد اور فلسفہ تاریخ اور عمرانیات میں ابن خلدون کی خدمات اور اہمیت کے معترف ہیں[2]۔
موجودہ اندلس
حیرت ہے اتنے طویل عرصے تک حکمرانی کے باوجود سپین میں آج ایک بھی مقامی مسلمان نہیں پایا جاتا، اگرچہ سپین کی طرزمعاشرت کے ہر انگ پر اسلام کا رنگ اور اثر صدیاں گذرنے کے بعد بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ سپینی زبان کی لغت اور بول چال میں عربی الفاظ جلوہ گر ہیں۔ سپین کے سازوآواز میں عربی دھن صاف محسوس ہوجاتی ہے۔ اسکی ثقافت پرمغرب سے زیادہ عرب رنگ غالب ہے۔
سپین کی زبان میں ’اسم‘ میں سابقے عربی کے ’اَل‘ کی صورت اکثر دیکھے جاسکتے ہیں۔1492 کے بعد سے جب مسلمانوں کی سیاسی طاقت کا آخری گڑھ غرناطہ (گریناڈا) کا بھی سقوط ہوگیا تو سپین کے مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا۔ یہ تنزلی 120 سال بعد اپنے عروج پراس وقت پہنچی جب 1612 میں مسلمانوں کا آخری قافلہ سپین چھوڑ کر روانہ ہوگیا. منظم مسیحی گروہ جب بڑے پیمانے پر قتل عام کررہے تھے، بادشاہ فرڈیننڈ کی حکومت نے سپین میں مسلمانوں کو نوکریوں سے نکالنے اور انکا صفایا کرنے کیلئے اقدامات کئے۔
سب سے پہلے انتظامیہ سے عربی زبان ختم کردی گئی۔ مساجد سے منسلک سکول ختم کردئیے گئے۔ اساتذہ کے پڑھانے پر پابندی لگادی گئی اور انہیں سائنس، تاریخ، ریاضی اور فلسفہ جیسے سیکولر مضامین پڑھانے کا حکم دیاگیا۔ مذہبی تعلیم صرف تاریخ کے اسباق میں پڑھانے کی اجازت تھی جس میں اسلامی دور اقتدار کو ظالمانہ، وحشیانہ قرار دیاگیا۔ سپین کی ترقی کیلئے مسلمانوں نے کیا کیا، وہ سب غائب کردیاگیا۔
مسلمان گھروں میں تلاشی کا سلسلہ جاری رہتا، پولیس اکثر وہاں اسلحہ اور خفیہ اجلاسوں کے نام پر چھاپے مارتی۔اصل عرب مسلمانوں کو مسیحیوں کا دشمن قرار دیاگیا جنہوں نے سپین کو تباہ کیا۔ جن مسیحیوں نے اسلام قبول کرلیاتھا، ان پر دبائو ڈالا جانے لگا کہ وہ اپنے پرانے مذہب میں واپس آجائیں۔ مسلمان اور مسیحی والدین کے بچوں کو گالیوں، طعنوں اور مذاق کا نشانہ بنایاجاتا کہ وہ مسیحی ہوجائیں[3]۔
حوالہ جات
- ↑ دولةُ الاسلام فی الاندلس، ج1،ص 46
- ↑ اندلس کی تاریخ اور اہمیت- شائع شدہ از: 13 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 اپریل 2025ء
- ↑ سید علی آغا رضوی، تاریخ اندلس اور مسلمانوں کا عروج و زوال- شائع شدہ از: 31 جون 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 اپریل 2025ء