مندرجات کا رخ کریں

"مسلمانوں کے ہاتھوں اندلس کی فتح" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 4: سطر 4:
| واقعہ کا نام = فتح اندلس
| واقعہ کا نام = فتح اندلس
| واقعہ کی تاریخ = 726ء
| واقعہ کی تاریخ = 726ء
| واقعہ کا دن =  
| واقعہ کا دن = 19 جولائی
| واقعہ کا مقام = {{hlist |آئبیریا(جدید دور کا سپین اور پرتگال)}}
| واقعہ کا مقام = {{hlist |آئبیریا(جدید دور کا سپین اور پرتگال)}}
| عوامل = وہاں کے لوگوں کی آزادی
| عوامل = وہاں کے لوگوں کی آزادی
سطر 10: سطر 10:
| نتائج = {{hlist| مملکتِ مغربی گوتھ کا خاتمہ|اسلامی ریاست کے تہ میں آئبیرین ممالک کا داخلہ}}
| نتائج = {{hlist| مملکتِ مغربی گوتھ کا خاتمہ|اسلامی ریاست کے تہ میں آئبیرین ممالک کا داخلہ}}
}}
}}


'''مسلمانوں کے ہاتھوں اندلس کی فتح'''
'''مسلمانوں کے ہاتھوں اندلس کی فتح'''
سطر 34: سطر 33:
طارق کا سامنا وہاں ہسپانیہ کے حکمران "راڈرک" کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :
طارق کا سامنا وہاں ہسپانیہ کے حکمران "راڈرک" کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :


أیها النّاسُ! أین المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و لیس لکم و اﷲِ إلا الصّدق و الصبر۔[2]
أیها النّاسُ! أین المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و لیس لکم و اﷲِ إلا الصّدق و الصبر <ref>دولةُ الاسلام فی الاندلس، ج1،ص 46</ref>۔


اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمھارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن اور بخدا تمھارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمھارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن اور بخدا تمھارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
شریف اِدریسی نے اپنی کتاب "نُزھۃُ المشتاق" میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل  طارق نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔
چنانچہ مسلمان فوج بے جگری سے لڑی اور 19جولائی 711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں  [[ اسلام|عالم اسلام]] خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں ہسپانیہ کے عوام نے یومِ نجات منایا۔ اس کے بعد اکتوبر 711ء میں اِسلامی اندلس کا نامور شہر قرطبہ (Cordoba) ’مغیث رومی‘ کے ہاتھوں فتح ہوا اور دُوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے تیزی سے فتح ہوتے چلے گئے۔


شریف اِدریسی نے اپنی کتاب ’’نُزھۃُ المشتاق‘‘ میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل ’طارق‘ نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔ چنانچہ مسلمان فوج بے جگری سے لڑی اور 19جولائی 711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالمِ اِسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں ہسپانیہ کے عوام نے یومِ نجات منایا۔ اس کے بعد اکتوبر 711ء میں اِسلامی اندلس کا نامور شہر قرطبہ (Cordoba) ’مغیث رومی‘ کے ہاتھوں فتح ہوا اور دُوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے تیزی سے فتح ہوتے چلے گئے۔ بعد اَزاں جون 712ء میں ’موسیٰ بن نصیر‘ نے خود 18,000 فوج لے کر اندلس کی طرف پیش قدمی کی اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) اور ’ماردہ‘ (Merida) کو فتح کیا۔ دونوں اِسلامی لشکر ’طلیطلہ‘ (Tledo) کے مقام پر آن ملے جو پہلے ہی کسی مزاحمت کے بغیر فتح ہو چکا تھا۔
بعد اَزاں جون 712ء میں ’موسیٰ بن نصیر‘ نے خود 18,000 فوج لے کر اندلس کی طرف پیش قدمی کی اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) اور ’ماردہ‘ (Merida) کو فتح کیا۔ دونوں اِسلامی لشکر ’طلیطلہ‘ (Tledo) کے مقام پر آن ملے جو پہلے ہی کسی مزاحمت کے بغیر فتح ہو چکا تھا۔
اسلامی  لشکر جن شہروں کو فتح کرتا وہاں کے مفلوک الحال مقامی باشندے خصوصاً یہودی، مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیتے۔ عوامی پزیرائی کچھ اِس قدر بڑھی کہ مسلمان تھوڑے سے وقت میں پورا ہسپانیہ فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔


اِسلامی لشکر جن شہروں کو فتح کرتا وہاں کے مفلوک الحال مقامی باشندے خصوصاً یہودی، مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیتے۔ عوامی پزیرائی کچھ اِس قدر بڑھی کہ مسلمان تھوڑے سے وقت میں پورا ہسپانیہ فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ طارق بن زیاد کی فتوحات میں سے آخری فتح ’خلیج بسکونیہ‘ (Bay of Biscay) پر واقع شہر ’خیخون‘ (Gijon) کی تھی، جس کے بعد فتوحات کا سلسلہ روک کر ملکی اِنتظام و اِنصرام کی طرف توجہ دی گئی۔[3]
طارق بن زیاد کی فتوحات میں سے آخری فتح ’خلیج بسکونیہ‘ (Bay of Biscay) پر واقع شہر ’خیخون‘ (Gijon) کی تھی، جس کے بعد فتوحات کا سلسلہ روک کر ملکی اِنتظام و اِنصرام کی طرف توجہ دی گئی۔


اِسی اثناء میں موسیٰ بن نصیر کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ اور طارق بن زیاد اس مہم کو یہیں چھوڑ کر دِمشق چلے آئیں۔ دو سال کی قلیل مدّت میں کم و بیش سارا ہسپانیہ فتح ہو چکا تھا، موسیٰ نے وہاں سے واپسی سے پہلے اُس کے اِنتظام حکومت کا اِہتمام کیا۔ قرطبہ (Cordoba) کو اندلس کا دار الحکومت قرار دیا، اپنے بیٹے ’عبد العزیز‘ کو وہاں کا حاکم بنایا اور خلیفہ کے حکم کے مطابق دِمشق کی طرف عازمِ سفر ہوا۔
اسی  اثناء میں موسیٰ بن نصیر کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ اور طارق بن زیاد اس مہم کو یہیں چھوڑ کر دِمشق چلے آئیں۔ دو سال کی قلیل مدّت میں کم و بیش سارا ہسپانیہ فتح ہو چکا تھا، موسیٰ نے وہاں سے واپسی سے پہلے اُس کے اِنتظام حکومت کا اِہتمام کیا۔ قرطبہ (Cordoba) کو اندلس کا دار الحکومت قرار دیا، اپنے بیٹے ’عبد العزیز‘ کو وہاں کا حاکم بنایا اور خلیفہ کے حکم کے مطابق دِمشق کی طرف عازمِ سفر ہوا۔

نسخہ بمطابق 11:05، 24 اپريل 2025ء

مسلمانوں کے ہاتھوں اندلس کی فتح
واقعہ کی معلومات
واقعہ کا نامفتح اندلس
واقعہ کی تاریخ726ء
واقعہ کا دن19 جولائی
واقعہ کا مقام
  • آئبیریا(جدید دور کا سپین اور پرتگال)
عواملوہاں کے لوگوں کی آزادی
نتائج
  • مملکتِ مغربی گوتھ کا خاتمہ
  • اسلامی ریاست کے تہ میں آئبیرین ممالک کا داخلہ

مسلمانوں کے ہاتھوں اندلس کی فتح اندلس شمالی افریقہ کے بالکل سامنے یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر ایک حسین و جمیل جزیرہ نما ہے۔ آج کل اس میں پرتگال اور سپین دو ممالک واقع ہیں۔ کسی زمانے میں یہ ملک مغربی دنیا کے عظیم ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی فتح سے پہلے یہاں کی حکومت سلطنت روم کی ہمسر تھی۔ مسلمانوں کے دور میں یہ پورے یورپ کے لیے روشنی کا مینار تھا۔ فتح سندھ کی طرح اس حسین و جمیل خطہ زمین کو بھی ولید بن عبدالملک کے زمانے میں فتح کیا گیا۔ اس فتح کا سہرا طارق بن زیاد اور موسٰی بن نصیر کے سر ہے۔

تاریخ

بر اعظم یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر موجود جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) جو "کوہستانِ پیرینیز" (Pyrenees) کی وجہ سے باقی برِاعظم سے کافی حد تک کٹا ہوا ہے اور آج کل ہسپانیہ (Spain) اور پرتگال(Portugal) نامی دو ممالک پر مشتمل ہے، مسلمانوں نے اُس پر تقریباً 800 برس تک حکومت کی۔ اسلامی تاریخ میں اس ملک کو "اندلس" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

اندلس جو کبھی اپنی وسعت میں پھیلتا ہوا موجودہ ہسپانیہ اور پرتگال کے ساتھ ساتھ فرانس کے جنوبی علاقوں اربونہ (Narbonne)، بربنیان (Perpignan)، قرقشونہ (Carcassonne) اور تولوشہ (Toulouse) وغیرہ تک جا پہنچا تھا، دورِ زوال میں اُس کی حدُود جنوب مشرقی سمت میں سکڑتے ہوئے محض "غرناطہ" (Granada) تک محدُود ہو گئیں۔

تاریخ اندلس جہاں ہمیں عروج و زوال کی ہوش رُبا داستان سناتی ہے وہاں قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں کے عظیم کارہائے نمایاں سے بھی نقاب اُلٹتی نظر آتی ہے اور اِس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بنیادوں میں دراصل قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں ہی کا ہاتھ ہے اور اِسلامی ہسپانیہ کے سائنس دان بغداد کے مسلمان سائنسدانوں سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔

ہسپانیہ میں سائنسی علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے ذکر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اَحوال اُس کی فتح اور اَدوارِ حکومت کے حوالے سے بھی بیان کر دیے جائیں تاکہ قارئین کو اُس کا پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو۔

فتح اندلس

ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت (705ء تا 715ء) میں موسیٰ بن نصیر کو شمالی افریقہ کی گورنری تفوِیض ہوئی۔ اُس دور میں ہسپانیہ کی سیاسی و معاشی حالت اِنتہائی اَبتر تھی۔ عیش کوش ’گاتھ‘ حکمرانوں نے غریب رعایا کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ عیش و عشرت کے دِلدادہ بدمست اُمراء اور پادریوں نے عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا۔ یہودیوں کی حالت سب سے بری تھی۔

انہیں کوئی دَم سکھ کا سانس نہیں لینے دیا جاتا تھا۔ ظلم و بربریت کے اُس نظام سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی سوچی اور وہاں سے فرار ہو کر موسیٰ بن نصیر کے زیرِ اِنتظام شمالی افریقہ میں پناہ لینا شروع کر دی جہاں اِسلامی نظامِ حکومت کے باعث لوگ پُرامن زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب معاملہ حد سے بڑھا اور مہاجرین بڑی تعداد میں سمندر پار کرکے افریقہ آنے لگے تو موسیٰ نے ہسپانیہ کی مظلوم رِعایا کو بدمست حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنایا۔

ہسپانیہ پر باقاعدہ حملے سے قبل دُشمن کی فوجی طاقت کے صحیح اندازے کے لیے موسیٰ نے اپنے ایک قابل غلام "طریف" کی کمان میں جولائی 710ء میں 100 سواروں اور 400 پیادوں کا دستہ روانہ کیا، جس نے ہسپانیہ کے جنوبی ساحل پر پڑاؤ کیا، جسے آج تک اُس کی یاد میں "طریفہ" کہا جاتا ہے۔ آس پاس کے علاقوں پر کامیاب یلغار کے بعد طریف نے موسیٰ کو اِطلاع دی کہ فضاء سازگار ہے، اگر حملہ کیا جائے تو جلد ہی عوام کو ظالم حکمرانوں کے پنجۂ تسلط سے نجات دِلائی جا سکتی ہے۔

موسی بن نصیر نے اگلے ہی سال 711ء بمطابق 92ھ معروف بربر جرنیل "طارق بن زیاد" کو 7,000 فوج کے ساتھ ہسپانیہ پر لشکر کشی کے لیے روانہ کیا۔ افریقہ اور یورپ کے درمیان میں واقع 13 کلومیٹر چوڑائی پر مشتمل آبنائے کو عبور کرنے کے بعد اِسلامی لشکر نے ہسپانیہ کے ساحل پر جبل الطارق (Gibraltar) کے مقام پر پڑاؤ کیا۔ طارق کا سامنا وہاں ہسپانیہ کے حکمران "راڈرک" کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :

أیها النّاسُ! أین المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و لیس لکم و اﷲِ إلا الصّدق و الصبر [1]۔

اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمھارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن اور بخدا تمھارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ شریف اِدریسی نے اپنی کتاب "نُزھۃُ المشتاق" میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل طارق نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔

چنانچہ مسلمان فوج بے جگری سے لڑی اور 19جولائی 711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالم اسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں ہسپانیہ کے عوام نے یومِ نجات منایا۔ اس کے بعد اکتوبر 711ء میں اِسلامی اندلس کا نامور شہر قرطبہ (Cordoba) ’مغیث رومی‘ کے ہاتھوں فتح ہوا اور دُوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے تیزی سے فتح ہوتے چلے گئے۔

بعد اَزاں جون 712ء میں ’موسیٰ بن نصیر‘ نے خود 18,000 فوج لے کر اندلس کی طرف پیش قدمی کی اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) اور ’ماردہ‘ (Merida) کو فتح کیا۔ دونوں اِسلامی لشکر ’طلیطلہ‘ (Tledo) کے مقام پر آن ملے جو پہلے ہی کسی مزاحمت کے بغیر فتح ہو چکا تھا۔ اسلامی لشکر جن شہروں کو فتح کرتا وہاں کے مفلوک الحال مقامی باشندے خصوصاً یہودی، مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیتے۔ عوامی پزیرائی کچھ اِس قدر بڑھی کہ مسلمان تھوڑے سے وقت میں پورا ہسپانیہ فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

طارق بن زیاد کی فتوحات میں سے آخری فتح ’خلیج بسکونیہ‘ (Bay of Biscay) پر واقع شہر ’خیخون‘ (Gijon) کی تھی، جس کے بعد فتوحات کا سلسلہ روک کر ملکی اِنتظام و اِنصرام کی طرف توجہ دی گئی۔

اسی اثناء میں موسیٰ بن نصیر کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ اور طارق بن زیاد اس مہم کو یہیں چھوڑ کر دِمشق چلے آئیں۔ دو سال کی قلیل مدّت میں کم و بیش سارا ہسپانیہ فتح ہو چکا تھا، موسیٰ نے وہاں سے واپسی سے پہلے اُس کے اِنتظام حکومت کا اِہتمام کیا۔ قرطبہ (Cordoba) کو اندلس کا دار الحکومت قرار دیا، اپنے بیٹے ’عبد العزیز‘ کو وہاں کا حاکم بنایا اور خلیفہ کے حکم کے مطابق دِمشق کی طرف عازمِ سفر ہوا۔

  1. دولةُ الاسلام فی الاندلس، ج1،ص 46