مندرجات کا رخ کریں

"حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 49: سطر 49:
وصال شریف آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا تقریباً 25سال حُضور پُرنور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمکی شریکِ حیات رہیں۔ آپ رضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت)کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جَنَّتُ الْمَعْلٰی میں مدفون ہیں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمآپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نماز ِجنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی(یعنی شرعاً اس کا آغاز نہ ہوا تھا) ،بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی، آپ کی وفات پر رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم بہت غمگین ہوئے۔<ref>مدارج النبوت،ج 2، ص465</ref>۔ جس سال آپ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن(غم کا سال)‘‘قرار دیا
وصال شریف آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا تقریباً 25سال حُضور پُرنور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمکی شریکِ حیات رہیں۔ آپ رضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت)کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جَنَّتُ الْمَعْلٰی میں مدفون ہیں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمآپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نماز ِجنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی(یعنی شرعاً اس کا آغاز نہ ہوا تھا) ،بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی، آپ کی وفات پر رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم بہت غمگین ہوئے۔<ref>مدارج النبوت،ج 2، ص465</ref>۔ جس سال آپ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن(غم کا سال)‘‘قرار دیا
<ref>[https://www.dawateislami.net/magazine/ur/tazkirah-e-salehat/hazrat-sayyidatuna-khadija-tul-kubra Umm ul Momineen Hazrat Sayyidatuna khadija tul kubra بلال سعید عطاری مدنی]-اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔</ref>۔
<ref>[https://www.dawateislami.net/magazine/ur/tazkirah-e-salehat/hazrat-sayyidatuna-khadija-tul-kubra Umm ul Momineen Hazrat Sayyidatuna khadija tul kubra بلال سعید عطاری مدنی]-اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔</ref>۔
== سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا ۔۔۔اسلام کی خاتون اوّل ==
‎آپ کا نام خدیجہؓ تھا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے خدیجہؓ  بنت خُویلد بن اسد بن عبدالعزٰی بن قصی بن کلاب ، آپؓ کا نسب چوتھی پشت میں حضور خاتم النبیینﷺ کے ساتھ مل جاتا ہے، آپؓ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو اسد سے تھا ، قبیلہ بنو اسد اپنی شرافت ایمانداری اور کاروباری معاملات کی وجہ سے لوگوں کی نگاہ میں قابل عزت واحترام تھا۔
‎ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا بچپن سے ہی نہایت نیک تھیں اور مزاجاً شریف الطبع خاتون تھیں۔مکارمِ اخلاق کا پیکر جمیل تھیں رحم دلی ،غریب پروری اور سخاوت آپؓ کی امتیازی خصوصیات تھیں، یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں آپ رضی اللہ تعالی عنھا طاہرہ یعنی پاکدامن کے لقب سے مشہور تھیں، مالدار گھرانے میں پرورش پانے کیوجہ سے دولت و ثروت بھی خوب تھی ، علاوہ ازیں حسنِ صورت اور حسنِ سیرت میں بھی اپنی ہم عصر خواتین میں ممتاز تھیں، آپؓ انتہائی دانا اور سمجھدار خاتون تھیں ۔
‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد محترم خویلد بن اسد اعلیٰ درجے کے تاجر تھے ، جب بڑھاپے کی دہلیز  تک پہنچے تو انہوں نے اپنا سارا کاروبار اپنی بیٹی اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے سپرد کر دیا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنھا حجازِ مقدس میں سب سے زیادہ مالدار خاتون شمار ہوتی تھیں، آپ رضی اللہ تعالی عنھا کی تجارت کا سامان عرب سے باہر ملکِ شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا ۔۔۔بعض محدثین نے لکھا ہے کہ اکیلا اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سامانِ تجارت مکہ مکرمہ کے سارے تجارتی قافلوں کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔
‎جب آپ رضی اللہ تعالی عنھاکےکانوں تک نبی کریمﷺ کی امانت وصداقت کا چرچا پہنچا تو آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے نبی کریم ﷺ سے سامان تجارت لیکر ملکِ شام جانے کی درخواست کی جسے آپ ﷺ نے قبول فرمایا۔
‎اس دوران سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰؓ نے اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ وہ آپ ﷺ کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرے ۔ اللہ تعالی نےاس تجارتی سفر میں بےحد برکت دی اورنفع پہلےسےبھی دو گُنا ہوا، چونکہ میسرہ دورانِ سفر قریب سےآپ ﷺ کے حسنِ اخلاق معصومانہ سیرت کاتجربہ اورمعاملہ فہی کا مشاہدہ کر چکا تھا،اسلئے اس نےبرملا اسکا اظہار کرتےہوئےسیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کو بتایاکہ آپﷺ نہایت معاملہ فہم،تجربہ کار ،خوش اخلاق،دیانت دار،امانت دار،شریف النفس اورمدبرانسان ہیں۔آپ ﷺنےواپس پہنچ کرتجارتی معاملات کاعمدہ حساب پیش کیاجس سے سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہابہت متاثر ہوئیں۔۔۔
پنجاب سے ہنر مند افرادی قوت بیرون ملک بھیجنے کا پلان،وزیراعلیٰ مریم نوازکی زیر صدارت اہم اجلاس، اہم فیصلے
سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰؓ کی ‎پہلی شادی ابو ہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی جبکہ ابو ہالہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی ، کچھ عرصہ بعد وہ بھی چل بسے تو دنیاوی معاملات سے دل برداشتہ ہو کر زیادہ وقت حرم کعبہ میں گزارتیں ، جس کے باعث آپؓ کے مزاج مبارک میں تقدس و شرافت مزید بڑھ گئی۔۔۔ قریش کے نامور اور صاحبِ ثروت سرداروں نےآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیغام نکاح بھجوایا لیکن اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سب کو یکسر انکار کردیا مگر حضور نبی کریمﷺ  کے حسنِ اخلاق اور زبان کی سچائی کی وجہ سےآپ  ﷺ کے ساتھ نکاح کرنے کی خود خواہش فرمائی۔ چنانچہ نفیسہ بنت اُمیہ بیان کرتی ہیں جب حضور نبی کریم ﷺ سفرِ شام سے واپس تشریف لائے تو  اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے آپﷺ کی خدمت میں نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ۔۔۔اسی طرح طبقات الکبریٰ میں روایت ہے کہ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی بہن سے کہا کہ جاؤ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر میری طرف سے نکاح کا پیغام پیش کریں۔۔۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے  چچا جناب ابوطالب سے اس کا ذکر فرمایا۔۔۔ اُنہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ، جس پر حضور نبی کریمﷺ نے اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا ۔۔۔
‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے چچاعمرو بن اسد  کےمشورے سےپانچ سو درہم مہر مقرر ہوا۔ بوقت نکاح آنحضرت ﷺ کی عمرِ مبارک پچیس(25)سال جبکہ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمرِ مبارک چالیس (40) سال تھی۔ آپ ﷺ کا یہ پہلا نکاح تھا جو اعلانِ نبوت سے تقریباً پندرہ سال پہلے ہوا ۔اس مبارک نکاح سے‎ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اتنی خوشی ہوئی کہ انہوں نے اپنے تمام غلام آزاد کر دیئے تاکہ یہ شادی انکے لئے یادگار بن جائےاور وہ ساری زندگی مسرت و راحت اور دعائیں دیتے ہوئے گزاریں۔
‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سرکار دوعالمﷺ کے قرب کی دولت سرمدی پا کر اپنی ساری دولت آپﷺ کے قدموں پہ نچھاور کرتے ہوئے عرض کی، میرے آقاﷺ! آپﷺ اس دولت کے مالک ہیں، جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں، میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ۔۔۔چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ یہی مال ودولت بعثت نبویﷺ کے بعد نصرتِ اسلام کا سبب بنی اور حضور نبی کریمﷺ معاشی فکر سے آزاد ہو کر دعوتِ دین کا فریضہ کما حقہُ نبھاتے رہے۔
‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب حضور نبی کریم ﷺ کی لسانِ طیبہ سے غارِ حرا میں پیش آنے والے احوال سنے تو آپﷺکو تسلی دی اور عرض کیا یارسول اللہﷺ  ! اللہ کی قسم اللہ تعالی آپﷺ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔۔ آپﷺ تو صلہ رحمی کرنے والے، کمزوروں کا بوجھ اٹھانے والے، محتاجوں کیلئے کمانے والے، مہمان نوازی کرنے والے اور راہِ حق میں مصائب سہنے والے ہیں۔
‎حضور نبی کریم ﷺ کی محبوب رفیقہِ حیات اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسلام قبول کرنے کے بعد بصد دل وجان اپنے آپؓ کو اور اپنی تمام دولت کو اسلام کے مشن کے فروغ کیلئے وقف فرمایا اور ہر ابتلاء وآزمائش میں آپ ﷺ کا ساتھ دیا ،خوشی وغمی کےلمحات میں آپﷺ کےشانہ بشانہ رہیں،مصائب وآلام کی کھٹن ساعتوں میں نہ صرف خود ثابت قدم رہیں بلکہ حضور نبی کریم ﷺ کی دلجوئی بھی کرتی رہیں۔ فراخی و تنگی ہر حال میں صابر و وشاکر رہیں ۔ آپؓ عزم و ہمت، جرات وشجاعت ، صبر واستقامت کا کوہِ گراں تھیں۔ ‎ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ خوش نصیب ترین خاتون ہیں جنہیں حضور نبی کریم ﷺ کیساتھ تنِ تنہا طویل رفاقت کا عرصہ جو پچیس سال پر محیط ہے۔ گزارنے کا موقع نصیب ہوا، آپؓ کی تمام تر زندگی انتہائی پُرمسرت اور خوشگوار تھی۔
‎اُم المؤمنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے حضور نبی کریم ﷺ کیساتھ ازدواجی زندگی اتنی سلیقہ شعاری و دانشمندی اور محبت و مودت کیساتھ گزاری کہ حضور نبی کریمﷺ انکی رحلت کے بعد بھی اکثر وبیشتر گزرے ہوئے لمحات کو یاد فرماتے اور سیدہ طیبہ طاھرہ رضی اللہ عنھا کےاوصاف و کمالات بیان فرماتےتو بقیہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن جذباتِ رشک سےمملو ہو جاتیں۔‎اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں حضور نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا پر،حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں۔
سیہون میں دوران امتحان مسلح افراد کی فائرنگ،بھگڈر مچ گئی
‎حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہےکہ جبرائیل علیہ السلام حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہﷺ ! خدیجہ(رضی اللہ تعالی عنھا)ایک برتن لیکر آ رہی ہیں جس میں سالن اورکھاناہے،جب وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں تو آپﷺ اُنہیں اللہ تعالی کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہیں اور انہیں جنت میں خاص موتیوں سے تیار کردہ محل کی خوشخبری دیں ۔
‎اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ جب کبھی حضور نبی کریم ﷺ کوئی جانور  ذبح فرماتے تو اس کا گوشت بڑے اہتمام کے ساتھ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کی سہیلیوں کے گھروں میں پہنچاتےاور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گھر میں گوشت پکا ہو اور آپ ﷺ نے اسے تناول فرمانے سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کو یاد نہ کیا ہو ۔
‎حضور نبی کریم ﷺ کے دل میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کی یاد کس درجہ سمائی ہوئی تھی؟ اسکا انداز آپ اس حدیث مبارکہ کو پڑھ کر کیجیئے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کی بہن ہالہ بنت خویلد جن کی آواز سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے کافی مشابہ تھی وہ ایک دن حضور نبی کریمﷺ سے ملاقات کیلئے مدینہ (طیبہ) آئیں اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی ،اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ انکی آواز سنتے ہی حضور نبی کریم ﷺ کو بے اختیار سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی یاد آگئی اور انکی زندگی کا زمانہ آنکھوں میں پھر گیا، ایک عجیب کیفیت آپ ﷺ پر طاری ہو گئی۔۔ وہ اندر آئیں تو انہیں دیکھ کر آپ ﷺ بے ساختہ فرمانے لگے اوہ خدایا ! یہ تو ہالہ ہیں ( ایک لمحہ کیلئے میں یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنھا)آگئیں۔
‎ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا روایت فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم ﷺ شدت سے اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یاد فرمارہے تھے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ اس سُرخ رخساروں والی بڑھیا کو آج تک نہیں بھولے حالانکہ انہیں وفات پائے ایک زمانہ ہو چکا ہے اور اللہ تعالی نے ان سے کہیں بہتر بیوی( اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ ﷺ کو عطا کی ہے ۔(‎میاں بیوی کے درمیان یہ نازو ادا اور لاڈ کی بات ہے جیسے سیدہ طیبہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا ہی کہہ سکتی تھیں)۔۔۔آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کو جواب دیتے ارشاد فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا! اس دنیا میں خدیجہ ( رضی اللہ تعالی عنھا) کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا ،اعلانِ نبوت کے بعد جب دنیائےِ کفر وشرک میری نبوت و رسالت کا انکار کر رہی تھی تو (سیدہ)خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنھا) ہی وہ واحد ہستی تھی جو مجھ پر ایمان لائیں۔۔۔ یہ خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنھا) ہی تھیں جس نے اپنے مال سے میری مدد کی اور فریضئہ نبوت و رسالت کی ‎بجا آوری میں میری تائید و حمایت کی ۔۔۔پھر فرمایا یہ خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنھا) ہی تھیں جنہیں اللہ تعالی نے میری اولاد کیلئے منتخب فرمایا ۔(ایک بیٹے ابراھیم جو آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنھا  کے بطن مبارکہ سے تھا انکے سوا باقی تمام اولاد قاسم طاہر طیبؓ، زینبؓ، رقیہؓ ،اُم کلثومؓ اور سیدہ  فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنھن اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے بطن مبارک سے متولد ہوئیں)۔۔۔
‎ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا بیان فرماتی ہیں کہ ایک روز ایک معمر خاتون ہمارے گھر آئیں ۔ حضور نبی کریمﷺ انکی طرف متوجہ ہوئے اور دیر تک کمال التفات اور محبت وشفقت سے محوِ گفتگو رہے ، آپ ﷺ نے ان کی اور انکے گھر والوں کی خیریت دریافت فرمائی اور پوچھا کہ ہم جب مکہ سے ہجرت کرکےمدینہ چلےآئےتو آپ لوگ کن کن حالات سےگزرے اورکیا کیاواقعات پیش آئے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا بیان فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنی اپنائیت اور چاہت کے مطابق اس سے سوالات پوچھتے رہے۔۔۔ مجھے اس بڑھیا پر رشک آنے لگا " جب وہ معمر خاتون چلی گئیں تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ وہ بڑھیا کون تھیں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ خدیجہ ( رضی اللہ تعالی عنھا )کی سہیلی تھیں۔۔۔ جب ہم مکہ میں رہا کرتے تھے وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔۔۔ خدیجہ ( رضی اللہ تعالی عنھا) اس سے بہت محبت کرتی تھیں ۔۔۔
امریکی قونصل جنرل کرسٹن ہاکنز کا جعفر ایکسپریس کے واقعے پر افسوس کا اظہار، سیکرٹری داخلہ پنجاب سے ملاقات
‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا پچیس (25) سال تک آپ  ﷺ کی جانثار ، اطاعت گزار اور وفا شعار زوجہ مطہرہ بن کر اس دنیا میں حیات رہیں اور ہجرت سے تین سال قبل چونسٹھ(64) سال کی عمر مبارک پا کر ماہ رمضان کی دس تاریخ کو مکہ معظمہ میں رحلت فرمائی گئیں۔
‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کی حیات طیبہ خواتین اسلام کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے ۔۔۔‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے اسوہ طیبہ پر عمل پیرا ہو کر خواتین اسلام دارین کی فوز و فلاح پا سکتیں ہیں۔۔۔ ‎اللہ تعالی میری ماؤں بہنوں بیٹیوں کو اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے اُسوہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں
== وفات کے بعد یاد ==
== وفات کے بعد یاد ==
سید ہ خدیجہ کی وفات کے بعد نبی  ان کو بہت یاد کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضور  ان کے سامنے حضرت خدیجہ ؓکو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف و توصیف فرمائی تو حضرت عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر حضرت عائشہ نے نبی  کو کہا کہ یا رسول اللہ آپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔  
سید ہ خدیجہ کی وفات کے بعد نبی  ان کو بہت یاد کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضور  ان کے سامنے حضرت خدیجہ ؓکو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف و توصیف فرمائی تو حضرت عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر حضرت عائشہ نے نبی  کو کہا کہ یا رسول اللہ آپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔  

نسخہ بمطابق 15:57، 12 مارچ 2025ء

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری علیہا السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا سارا مال و دولت اسلام پر قربان کردیا۔ مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: ام المؤمنین حضرت خدیجہ کبری علیہا السلام جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ اور اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون تھیں، بعثت کے دس سال رمضان المبارک کی دسویں تاریخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

سوانح عمری

حضرت خدیجہ علیھا السلام مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد خُوَیلد بن اسد اور والدہ فاطمہ بنت زائده تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی ایک نمایاں اور باوقار خاتون تھیں، جنہوں نے کم عمری میں ہی تجارت کا آغاز کیا۔ ان کی دور اندیشی، ذہانت اور معاملہ فہمی کی وجہ سے انہیں "عقلمند خاتون" اور "قریش کی عظیم خاتون" کے القابات دیے گئے۔

حضرت خدیجہ الکبری کے القاب

حضرت خدیجہ علیھا السلام کے معروف القاب طاہرہ، سیدہ نساء القریش، ام المؤمنین، مرضیہ، مبارکہ، ام الیتامی، صدیقہ اور زکیہ ہیں۔ آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد،والِدہ کا نام فاطمہ ہے [1]۔ آپ کی کنیت اُمُّ الْقَاسِم، اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں حضرت خدیجہ علیہا السلام کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تجارت کے ذریعے تعارف ہوا اور وہ آپ (ص) کی امانت داری اور اخلاق سے بے حد متاثر ہوئیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نکاح کی پیشکش کی، اور دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی اور حضرت ابوطالب (ع) کا خطبہ عقد

خدیجہ مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے حضرت محمد کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ کو شادی کا پیغام بھجوایا۔

سب سے پہلے حُضُورپُرنورصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے عقدِنکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون ام المؤمنین حضرت سیدتُنا خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہیں،، آپ کی ولادت عامُ الفیل سے 15سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ عقدِ نکاح نبیِّ کرِیم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے کردارو عمل سے مُتاثِر ہو کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پیغامِ نکاح بھیجا جسے حُضُورِ انور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قبول فرمایا ، یوں یہ بابرکت نکاح آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمکے سفرِ شام سے واپسی کے2ماہ 25دن بعد منعقد ہوا۔ [2]۔ جس کو نبی نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ نبی صرف پچیس سال کے تھے۔ سیدہ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی کی ساری کی ساری اولاد سیدہ خدیجہ سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جوکہ ماریہ قبطیہ سے تھے جوکہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبی کوبطورہدیہ پیش کی گئی تھیں۔


اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر مبارک 40 برس تھی [3]۔ رب عزوجل کا سلام ایک بار جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رَسولَ اللہ! صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا برتن لارہی ہیں جس میں کھانا اورپانی ہے جب وہ آجائیں توانہیں ان کے رب کا اور میراسلام کہہ دیں اوریہ بھی خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بناہے جس میں نہ کوئی شور ہو گااور نہ کوئی تکلیف۔ [4]۔

آنحضرت (ص) اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کا خطبہ عقد حضرت ابوطالب (ع) نے پڑھا۔ معروف دیوبندی عالم دین علامہ یوسف بنوری لکھتے ہیں: حضرت حمزہ رشتہ لے کر حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد کے پاس تشریف لائے، رشتہ طے پانے کے بعد ابو طالب نے خطبۂ نکاح پڑھا، اور مہر کی ادائیگی کی ذمہ داری خود اپنے سر لی۔ بعض روایات میں ابوطالب کا یہ خطبۂ نکاح درج ذیل الفاظ میں موجود ہے:

﴿الحمد لله الذي جعلنا من ذرية إبراهيم، و زرع السماعيل، و جعل لنا بلدًا حرامًا، و بيتًا محجوجًا، و جعلنا الحكام على الناس، و أن محمداً بن عبد الله، ابن أخي، لايوازن به فتى من قريش إلا رجح به بركةً، وفضلاً و عدلاً و مجداً و نبلاً وإن كان في المال مقلاً، فإن المال عارية مسترجعة، و ضل زائل، وله في خديجة بنت خويلد رغبة ولها فيه مثل ذلك، و ما أردتم في ذلك فعليّ﴾"

علامہ یوسف بنوری نے ان لوگوں کو جواب دیا ہے جو حضرت ابوطالب (ع) کے ایمان میں شک کرتے ہیں۔ علامہ بنوری نے خطبہ نکاح کے الفاظ بھی ذکر کیے ہیں جن میں اللہ وحدہ لاشریک کا نام لیا گیا ہے۔ اس طرح کا خطبہ مسلمان اور مومن ہی پڑھ سکتا ہے۔ یہ نکاح بعثت سے 15 سال قبل ہوا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ علیھا السلام کی حیات میں کسی اور عورت سے نکاح نہیں کیا۔ حضرت خدیجہ علیھا السلام کی وفات کے بعد بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ ان کی محبت اور قربانیوں کو یاد فرماتے تھے۔

حضرت خدیجہ علیھا السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندان کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہ علیھا السلام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین بیٹے: قاسم، طیب، طاہر اور چار بیٹیاں: رقیہ، زینب، ام کلثوم اور حضرت فاطمہ علیھا السلام تھیں۔ تاہم بعض شیعہ محققین کے مطابق حضرت فاطمہ علیھا السلام ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کی حقیقی بیٹی تھیں، جبکہ باقی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منہ بولی بیٹیاں تھیں۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے چھوٹی اور واحد اولاد تھیں، جو آنحضرت کی وفات کے بعد بھی زندہ رہیں۔

اسلام کے لئے ام المؤمنین حضرت خدیجہ کی خدمات

حضرت خدیجہ علیہا السلام اپنے وقت کی سب سے مالدار خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ انہوں نے اپنی دولت کو ضرورت مندوں اور نیکی کے کاموں میں خرچ کیا۔ وہ اپنے قبیلے کے دیگر افراد کے برعکس بت پرستی سے بیزار تھیں اور ہمیشہ حق و حقیقت کی تلاش میں تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو سب سے پہلے حضرت خدیجہ علیھا السلام نے ایمان لایا اور ہر مشکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیا۔

آپ نے اپنا سارا مال و دولت اسلام کی ترویج کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر قدم پر ساتھ دیا اور شعب ابی طالب میں تین سالہ سخت بائیکاٹ اور محاصرے کے دوران اپنا سب کچھ قربان کردیا۔

انہوں نے اپنی ساری دولت اسلام کی ترویج میں خرچ کردی۔ غلاموں کی آزادی اور یتیموں اور مسکینوں کی مدد کے لیے ان کا سرمایہ استعمال ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا خدیجہ علیھا السلام کے مال نے پہنچایا۔"

حضرت خدیجہ علیہا السلام نے دین اسلام کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ ان کی محبت، ایثار اور وفاداری کو سراہا۔ ان کی وفات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے حد غمگین ہوئے اور اسی سال کو "عام الحزن" یعنی غم کا سال قرار دیا۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام کا صبر، قربانی، وفاداری اور دین اسلام کے لیے خدمات ہر مسلمان عورت کے لیے نمونہ عمل ہیں[5]۔

جود و سخا

نماز سے محبت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نمازکی فرضیت سے پہلے بھی نماز ادا فرماتی تھیں۔ [6]۔ جذبۂ قُربانی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنی ساری دولت حُضُور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے قدموں پر قربان کردی اور اپنی تمام عمر حُضُور اقدس صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی خِدمَت کرتے ہوئے گزار دی۔ [7] ۔ جود و سخا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ایک بار قحط سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کی وجہ سے حضرتِ حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا تشریف لائیں تو آپ نے انہیں 40 بکریاں اور ایک اُونٹ تحفۃً پیش کیا۔ [8]۔

خصوصیات

  1. عورتوں میں سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانےاسلام قبول کیا [9]
  2. آپ کی حَیَات میں رسولُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے کسی اور سے نِکاح نہ فرمایا۔[10]
  3. آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی تمام اولاد سِوائے حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہی سے ہوئی [11]۔

شان ام المؤمنین

شان ام المؤمنین بزبان سیّد المرسلین مکی مدنی سرکارصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمنے فرمایاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب لوگوں نے میراانکار کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللہ تعالٰی نے مجھے اولاد عطا فرمائی [12] ۔

وصال شریف آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا تقریباً 25سال حُضور پُرنور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمکی شریکِ حیات رہیں۔ آپ رضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت)کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جَنَّتُ الْمَعْلٰی میں مدفون ہیں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمآپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نماز ِجنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی(یعنی شرعاً اس کا آغاز نہ ہوا تھا) ،بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی، آپ کی وفات پر رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم بہت غمگین ہوئے۔[13]۔ جس سال آپ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن(غم کا سال)‘‘قرار دیا [14]۔

سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا ۔۔۔اسلام کی خاتون اوّل

‎آپ کا نام خدیجہؓ تھا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے خدیجہؓ بنت خُویلد بن اسد بن عبدالعزٰی بن قصی بن کلاب ، آپؓ کا نسب چوتھی پشت میں حضور خاتم النبیینﷺ کے ساتھ مل جاتا ہے، آپؓ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو اسد سے تھا ، قبیلہ بنو اسد اپنی شرافت ایمانداری اور کاروباری معاملات کی وجہ سے لوگوں کی نگاہ میں قابل عزت واحترام تھا۔ ‎ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا بچپن سے ہی نہایت نیک تھیں اور مزاجاً شریف الطبع خاتون تھیں۔مکارمِ اخلاق کا پیکر جمیل تھیں رحم دلی ،غریب پروری اور سخاوت آپؓ کی امتیازی خصوصیات تھیں، یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں آپ رضی اللہ تعالی عنھا طاہرہ یعنی پاکدامن کے لقب سے مشہور تھیں، مالدار گھرانے میں پرورش پانے کیوجہ سے دولت و ثروت بھی خوب تھی ، علاوہ ازیں حسنِ صورت اور حسنِ سیرت میں بھی اپنی ہم عصر خواتین میں ممتاز تھیں، آپؓ انتہائی دانا اور سمجھدار خاتون تھیں ۔ ‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد محترم خویلد بن اسد اعلیٰ درجے کے تاجر تھے ، جب بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچے تو انہوں نے اپنا سارا کاروبار اپنی بیٹی اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے سپرد کر دیا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنھا حجازِ مقدس میں سب سے زیادہ مالدار خاتون شمار ہوتی تھیں، آپ رضی اللہ تعالی عنھا کی تجارت کا سامان عرب سے باہر ملکِ شام اور یمن میں سال میں دو مرتبہ جاتا تھا ۔۔۔بعض محدثین نے لکھا ہے کہ اکیلا اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سامانِ تجارت مکہ مکرمہ کے سارے تجارتی قافلوں کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔ ‎جب آپ رضی اللہ تعالی عنھاکےکانوں تک نبی کریمﷺ کی امانت وصداقت کا چرچا پہنچا تو آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے نبی کریم ﷺ سے سامان تجارت لیکر ملکِ شام جانے کی درخواست کی جسے آپ ﷺ نے قبول فرمایا۔ ‎اس دوران سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰؓ نے اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ وہ آپ ﷺ کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرے ۔ اللہ تعالی نےاس تجارتی سفر میں بےحد برکت دی اورنفع پہلےسےبھی دو گُنا ہوا، چونکہ میسرہ دورانِ سفر قریب سےآپ ﷺ کے حسنِ اخلاق معصومانہ سیرت کاتجربہ اورمعاملہ فہی کا مشاہدہ کر چکا تھا،اسلئے اس نےبرملا اسکا اظہار کرتےہوئےسیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کو بتایاکہ آپﷺ نہایت معاملہ فہم،تجربہ کار ،خوش اخلاق،دیانت دار،امانت دار،شریف النفس اورمدبرانسان ہیں۔آپ ﷺنےواپس پہنچ کرتجارتی معاملات کاعمدہ حساب پیش کیاجس سے سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہابہت متاثر ہوئیں۔۔۔

پنجاب سے ہنر مند افرادی قوت بیرون ملک بھیجنے کا پلان،وزیراعلیٰ مریم نوازکی زیر صدارت اہم اجلاس، اہم فیصلے

سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰؓ کی ‎پہلی شادی ابو ہالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی جبکہ ابو ہالہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی ، کچھ عرصہ بعد وہ بھی چل بسے تو دنیاوی معاملات سے دل برداشتہ ہو کر زیادہ وقت حرم کعبہ میں گزارتیں ، جس کے باعث آپؓ کے مزاج مبارک میں تقدس و شرافت مزید بڑھ گئی۔۔۔ قریش کے نامور اور صاحبِ ثروت سرداروں نےآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیغام نکاح بھجوایا لیکن اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سب کو یکسر انکار کردیا مگر حضور نبی کریمﷺ کے حسنِ اخلاق اور زبان کی سچائی کی وجہ سےآپ ﷺ کے ساتھ نکاح کرنے کی خود خواہش فرمائی۔ چنانچہ نفیسہ بنت اُمیہ بیان کرتی ہیں جب حضور نبی کریم ﷺ سفرِ شام سے واپس تشریف لائے تو اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے آپﷺ کی خدمت میں نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ۔۔۔اسی طرح طبقات الکبریٰ میں روایت ہے کہ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی بہن سے کہا کہ جاؤ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر میری طرف سے نکاح کا پیغام پیش کریں۔۔۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا جناب ابوطالب سے اس کا ذکر فرمایا۔۔۔ اُنہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ، جس پر حضور نبی کریمﷺ نے اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا ۔۔۔ ‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے چچاعمرو بن اسد کےمشورے سےپانچ سو درہم مہر مقرر ہوا۔ بوقت نکاح آنحضرت ﷺ کی عمرِ مبارک پچیس(25)سال جبکہ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمرِ مبارک چالیس (40) سال تھی۔ آپ ﷺ کا یہ پہلا نکاح تھا جو اعلانِ نبوت سے تقریباً پندرہ سال پہلے ہوا ۔اس مبارک نکاح سے‎ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اتنی خوشی ہوئی کہ انہوں نے اپنے تمام غلام آزاد کر دیئے تاکہ یہ شادی انکے لئے یادگار بن جائےاور وہ ساری زندگی مسرت و راحت اور دعائیں دیتے ہوئے گزاریں۔ ‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سرکار دوعالمﷺ کے قرب کی دولت سرمدی پا کر اپنی ساری دولت آپﷺ کے قدموں پہ نچھاور کرتے ہوئے عرض کی، میرے آقاﷺ! آپﷺ اس دولت کے مالک ہیں، جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں، میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ۔۔۔چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ یہی مال ودولت بعثت نبویﷺ کے بعد نصرتِ اسلام کا سبب بنی اور حضور نبی کریمﷺ معاشی فکر سے آزاد ہو کر دعوتِ دین کا فریضہ کما حقہُ نبھاتے رہے۔ ‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب حضور نبی کریم ﷺ کی لسانِ طیبہ سے غارِ حرا میں پیش آنے والے احوال سنے تو آپﷺکو تسلی دی اور عرض کیا یارسول اللہﷺ  ! اللہ کی قسم اللہ تعالی آپﷺ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔۔ آپﷺ تو صلہ رحمی کرنے والے، کمزوروں کا بوجھ اٹھانے والے، محتاجوں کیلئے کمانے والے، مہمان نوازی کرنے والے اور راہِ حق میں مصائب سہنے والے ہیں۔ ‎حضور نبی کریم ﷺ کی محبوب رفیقہِ حیات اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسلام قبول کرنے کے بعد بصد دل وجان اپنے آپؓ کو اور اپنی تمام دولت کو اسلام کے مشن کے فروغ کیلئے وقف فرمایا اور ہر ابتلاء وآزمائش میں آپ ﷺ کا ساتھ دیا ،خوشی وغمی کےلمحات میں آپﷺ کےشانہ بشانہ رہیں،مصائب وآلام کی کھٹن ساعتوں میں نہ صرف خود ثابت قدم رہیں بلکہ حضور نبی کریم ﷺ کی دلجوئی بھی کرتی رہیں۔ فراخی و تنگی ہر حال میں صابر و وشاکر رہیں ۔ آپؓ عزم و ہمت، جرات وشجاعت ، صبر واستقامت کا کوہِ گراں تھیں۔ ‎ اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ خوش نصیب ترین خاتون ہیں جنہیں حضور نبی کریم ﷺ کیساتھ تنِ تنہا طویل رفاقت کا عرصہ جو پچیس سال پر محیط ہے۔ گزارنے کا موقع نصیب ہوا، آپؓ کی تمام تر زندگی انتہائی پُرمسرت اور خوشگوار تھی۔ ‎اُم المؤمنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے حضور نبی کریم ﷺ کیساتھ ازدواجی زندگی اتنی سلیقہ شعاری و دانشمندی اور محبت و مودت کیساتھ گزاری کہ حضور نبی کریمﷺ انکی رحلت کے بعد بھی اکثر وبیشتر گزرے ہوئے لمحات کو یاد فرماتے اور سیدہ طیبہ طاھرہ رضی اللہ عنھا کےاوصاف و کمالات بیان فرماتےتو بقیہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن جذباتِ رشک سےمملو ہو جاتیں۔‎اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں حضور نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا پر،حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں۔

سیہون میں دوران امتحان مسلح افراد کی فائرنگ،بھگڈر مچ گئی

‎حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہےکہ جبرائیل علیہ السلام حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہﷺ ! خدیجہ(رضی اللہ تعالی عنھا)ایک برتن لیکر آ رہی ہیں جس میں سالن اورکھاناہے،جب وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں تو آپﷺ اُنہیں اللہ تعالی کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہیں اور انہیں جنت میں خاص موتیوں سے تیار کردہ محل کی خوشخبری دیں ۔ ‎اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ جب کبھی حضور نبی کریم ﷺ کوئی جانور ذبح فرماتے تو اس کا گوشت بڑے اہتمام کے ساتھ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کی سہیلیوں کے گھروں میں پہنچاتےاور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گھر میں گوشت پکا ہو اور آپ ﷺ نے اسے تناول فرمانے سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کو یاد نہ کیا ہو ۔ ‎حضور نبی کریم ﷺ کے دل میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کی یاد کس درجہ سمائی ہوئی تھی؟ اسکا انداز آپ اس حدیث مبارکہ کو پڑھ کر کیجیئے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنھا کی بہن ہالہ بنت خویلد جن کی آواز سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے کافی مشابہ تھی وہ ایک دن حضور نبی کریمﷺ سے ملاقات کیلئے مدینہ (طیبہ) آئیں اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی ،اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ انکی آواز سنتے ہی حضور نبی کریم ﷺ کو بے اختیار سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی یاد آگئی اور انکی زندگی کا زمانہ آنکھوں میں پھر گیا، ایک عجیب کیفیت آپ ﷺ پر طاری ہو گئی۔۔ وہ اندر آئیں تو انہیں دیکھ کر آپ ﷺ بے ساختہ فرمانے لگے اوہ خدایا ! یہ تو ہالہ ہیں ( ایک لمحہ کیلئے میں یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنھا)آگئیں۔ ‎ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا روایت فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی کریم ﷺ شدت سے اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یاد فرمارہے تھے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ اس سُرخ رخساروں والی بڑھیا کو آج تک نہیں بھولے حالانکہ انہیں وفات پائے ایک زمانہ ہو چکا ہے اور اللہ تعالی نے ان سے کہیں بہتر بیوی( اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ ﷺ کو عطا کی ہے ۔(‎میاں بیوی کے درمیان یہ نازو ادا اور لاڈ کی بات ہے جیسے سیدہ طیبہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا ہی کہہ سکتی تھیں)۔۔۔آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کو جواب دیتے ارشاد فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا! اس دنیا میں خدیجہ ( رضی اللہ تعالی عنھا) کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا ،اعلانِ نبوت کے بعد جب دنیائےِ کفر وشرک میری نبوت و رسالت کا انکار کر رہی تھی تو (سیدہ)خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنھا) ہی وہ واحد ہستی تھی جو مجھ پر ایمان لائیں۔۔۔ یہ خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنھا) ہی تھیں جس نے اپنے مال سے میری مدد کی اور فریضئہ نبوت و رسالت کی ‎بجا آوری میں میری تائید و حمایت کی ۔۔۔پھر فرمایا یہ خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنھا) ہی تھیں جنہیں اللہ تعالی نے میری اولاد کیلئے منتخب فرمایا ۔(ایک بیٹے ابراھیم جو آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنھا کے بطن مبارکہ سے تھا انکے سوا باقی تمام اولاد قاسم طاہر طیبؓ، زینبؓ، رقیہؓ ،اُم کلثومؓ اور سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنھن اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے بطن مبارک سے متولد ہوئیں)۔۔۔ ‎ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا بیان فرماتی ہیں کہ ایک روز ایک معمر خاتون ہمارے گھر آئیں ۔ حضور نبی کریمﷺ انکی طرف متوجہ ہوئے اور دیر تک کمال التفات اور محبت وشفقت سے محوِ گفتگو رہے ، آپ ﷺ نے ان کی اور انکے گھر والوں کی خیریت دریافت فرمائی اور پوچھا کہ ہم جب مکہ سے ہجرت کرکےمدینہ چلےآئےتو آپ لوگ کن کن حالات سےگزرے اورکیا کیاواقعات پیش آئے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا بیان فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنی اپنائیت اور چاہت کے مطابق اس سے سوالات پوچھتے رہے۔۔۔ مجھے اس بڑھیا پر رشک آنے لگا " جب وہ معمر خاتون چلی گئیں تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ وہ بڑھیا کون تھیں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ خدیجہ ( رضی اللہ تعالی عنھا )کی سہیلی تھیں۔۔۔ جب ہم مکہ میں رہا کرتے تھے وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔۔۔ خدیجہ ( رضی اللہ تعالی عنھا) اس سے بہت محبت کرتی تھیں ۔۔۔

امریکی قونصل جنرل کرسٹن ہاکنز کا جعفر ایکسپریس کے واقعے پر افسوس کا اظہار، سیکرٹری داخلہ پنجاب سے ملاقات

‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا پچیس (25) سال تک آپ ﷺ کی جانثار ، اطاعت گزار اور وفا شعار زوجہ مطہرہ بن کر اس دنیا میں حیات رہیں اور ہجرت سے تین سال قبل چونسٹھ(64) سال کی عمر مبارک پا کر ماہ رمضان کی دس تاریخ کو مکہ معظمہ میں رحلت فرمائی گئیں۔ ‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کی حیات طیبہ خواتین اسلام کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے ۔۔۔‎اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے اسوہ طیبہ پر عمل پیرا ہو کر خواتین اسلام دارین کی فوز و فلاح پا سکتیں ہیں۔۔۔ ‎اللہ تعالی میری ماؤں بہنوں بیٹیوں کو اُمّ المومنین سیدہ خدیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالی عنھا کے اُسوہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں

وفات کے بعد یاد

سید ہ خدیجہ کی وفات کے بعد نبی ان کو بہت یاد کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضور ان کے سامنے حضرت خدیجہ ؓکو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف و توصیف فرمائی تو حضرت عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر حضرت عائشہ نے نبی کو کہا کہ یا رسول اللہ آپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔

اس کے بعد حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میری زبان سے یہ کلمات سن کر آپ کا رنگ اس طرح متغیر ہو گیا جیسے وحی کے ذریعے کسی غم انگیز خبر سے یا بندگانِ خدا پر اللہ کے عذاب کی خبر سے ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا :’’ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا[15]۔

  1. اسد الغابہ،ج 7، ص81
  2. المواہب اللدنیہ، ج1، ص101ا
  3. الطبقات الکبرٰی ،ج8، ص13
  4. بخاری،ج2، ص565، حدیث:3820
  5. ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری (ع)، رسول اکرم (ص) کی باوفا زوجہ- شائع شدہ از: 11 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔
  6. فتاویٰ رضویہ،ج 5، ص83
  7. سیرت مصطفے، ص95
  8. الطبقات الكبرٰى،ج1، ص92ملخصاً
  9. الاستیعاب،ج4، ص380
  10. مسلم، ص1016، حدیث: 6281
  11. المواہب اللدنیہ ،ج1، ص391
  12. الاصابہ،ج8، ص103 ملتقطا
  13. مدارج النبوت،ج 2، ص465
  14. Umm ul Momineen Hazrat Sayyidatuna khadija tul kubra بلال سعید عطاری مدنی-اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔
  15. سیرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ- شائع شدہ از: 17 نومبر 2026ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 مارچ 2025ء۔