مندرجات کا رخ کریں

"مرتضی مطهری" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 28: سطر 28:
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے مشہد میں عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تو فلسفی، عارف اور متکلمین - اگرچہ میں ان کے نظریات سے واقف نہیں تھا - میری نظر میں دوسرے علماء اور دانشوروں اور موجدوں اور دریافت کنندگان کے مقابلے میں زیادہ گہرے اور عظیم نظر آتے تھے، صرف اس لیے کہ میں انہیں ان افکار کے میدان کے ہیرو سمجھتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں جب میری عمر 13 سے 15 سال کے درمیان تھی، مشہد کے حوزہ علمیہ کے ان تمام علماء، فضلاء اور اساتذہ کے درمیان، ایک شخص جو میری نظر میں سب سے زیادہ عظیم الشان نظر آتا تھا اور میں جس کے چہرے کو دیکھنا پسند کرتا تھا اور خواہش کرتا تھا کہ کسی دن میں اس کے درس میں بیٹھوں، مرحوم "آغا میرزا مہدی شہیدی رضوی" تھے جو اس حوزے میں فلسفہ الٰہی کے مدرس تھے۔ وہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ وہ مرحوم، ان ہی سالوں (1355 قمری) میں انتقال کر گئے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے مشہد میں عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تو فلسفی، عارف اور متکلمین - اگرچہ میں ان کے نظریات سے واقف نہیں تھا - میری نظر میں دوسرے علماء اور دانشوروں اور موجدوں اور دریافت کنندگان کے مقابلے میں زیادہ گہرے اور عظیم نظر آتے تھے، صرف اس لیے کہ میں انہیں ان افکار کے میدان کے ہیرو سمجھتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں جب میری عمر 13 سے 15 سال کے درمیان تھی، مشہد کے حوزہ علمیہ کے ان تمام علماء، فضلاء اور اساتذہ کے درمیان، ایک شخص جو میری نظر میں سب سے زیادہ عظیم الشان نظر آتا تھا اور میں جس کے چہرے کو دیکھنا پسند کرتا تھا اور خواہش کرتا تھا کہ کسی دن میں اس کے درس میں بیٹھوں، مرحوم "آغا میرزا مہدی شہیدی رضوی" تھے جو اس حوزے میں فلسفہ الٰہی کے مدرس تھے۔ وہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ وہ مرحوم، ان ہی سالوں (1355 قمری) میں انتقال کر گئے۔
قم کی جانب ہجرت کے ابتدائی سالوں میں، جب میں ابھی عربی کی ابتدائی تعلیم سے فارغ نہیں ہوا تھا، میں ان(فلسفی) افکار میں اس قدر غرق تھا کہ مجھ میں تنہائی کی شدید خواہش پیدا ہو گئی تھی۔ میں اپنے ساتھ رہنے والے ہم جماعت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا اور میں نے اوپر والے حجرے کو ایک چھوٹے سے تاریک کمرے میں تبدیل کر دیا تھا تاکہ میں صرف اپنے افکار کے ساتھ رہ سکوں۔ اس وقت میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں پڑھائی اور بحث و مباحثے سے فارغ اوقات میں کسی اور موضوع کے بارے میں سوچوں اور درحقیقت کسی اور موضوع پر غور و فکر کو اس سے پہلے کہ ان مسائل میں میری مشکلات حل ہو جائیں، بیکار اور وقت کا ضیاع سمجھتا تھا۔ میں عربی کے مقدمات یا فقہی، اصولی اور منطقی علوم کو اس لیے سیکھ رہا تھا تاکہ آہستہ آہستہ اس مسئلے میں بڑے فلسفیوں کے افکار کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہو جاؤں۔
قم کی جانب ہجرت کے ابتدائی سالوں میں، جب میں ابھی عربی کی ابتدائی تعلیم سے فارغ نہیں ہوا تھا، میں ان(فلسفی) افکار میں اس قدر غرق تھا کہ مجھ میں تنہائی کی شدید خواہش پیدا ہو گئی تھی۔ میں اپنے ساتھ رہنے والے ہم جماعت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا اور میں نے اوپر والے حجرے کو ایک چھوٹے سے تاریک کمرے میں تبدیل کر دیا تھا تاکہ میں صرف اپنے افکار کے ساتھ رہ سکوں۔ اس وقت میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں پڑھائی اور بحث و مباحثے سے فارغ اوقات میں کسی اور موضوع کے بارے میں سوچوں اور درحقیقت کسی اور موضوع پر غور و فکر کو اس سے پہلے کہ ان مسائل میں میری مشکلات حل ہو جائیں، بیکار اور وقت کا ضیاع سمجھتا تھا۔ میں عربی کے مقدمات یا فقہی، اصولی اور منطقی علوم کو اس لیے سیکھ رہا تھا تاکہ آہستہ آہستہ اس مسئلے میں بڑے فلسفیوں کے افکار کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہو جاؤں۔
== استاتذه==
== اساتذه==
شیخ مرتضیٰ نے مشہد  حوزہ علمیہ میں تقریباً چار سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد، 1315 شمسی سال میں  حوزه علمیه قم کی طرف سفر کیا۔ ان کی تعلیمی زندگی کے بہترین ایام قم  کے علمی حوزے  میں پندرہ سال قیام اور اس دور کے عظیم اساتذہ سے فیض حاصل کرنے میں گزرے۔ ان ایام میں وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے نمایاں شاگردوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے "مرحوم آیت اللہ بروجردی کے فوائد اور خدمات" کے عنوان سے ایک مضمون میں کہا ہے: "اس بندے نے قم میں اپنے قیام کے آٹھ سالوں کے دوران، جو ان کی (آیت اللہ بروجردی کی) شہر میں آمد کے ابتدائی سال تھاا، ان کے دروس سے فائدہ اٹھایا اور چونکہ میں ان کے فقاہت کے طریقے پر یقین رکھتا ہوں، اس لیے میرا عقیدہ ہے کہ اس کی پیروی اور تکمیل ہونی چاہیے"۔ انہوں نے بارہ سال تک حضرت امام خمینی کے علمی اور اخلاقی محضر سے استفادہ کیا۔ ان کا امام کے ساتھ رشتہ شاگرد اور استاد کے رشتے سے کہیں بڑھ کر تھا اور امام خمینی استاد مطہری کے حجرے میں آتے جاتے تھے۔ انہوں نے امام خمینی کے محضر میں تعلیم کے دور کو اس طرح بیان کیا ہے:  قم ہجرت کرنے کے بعد، میں نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کو ایک دوسری شخصیت میں پایا۔ میں ہمیشہ مرحوم آغا میرزا مہدی کو کچھ اور خصوصیات کے علاوہ اس شخصیت میں دیکھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ میری پیاسی روح اس شخصیت کے صاف چشمے سے سیراب ہو جائے گی۔ اگرچہ قم ہجرت کے آغاز میں، میں ابھی "مقدمات" سے فارغ نہیں ہوا تھا اور "معقولات" میں داخل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، لیکن ہر جمعرات اور جمعہ کو میرے محبوب شخصیت کا اخلاقی درس دیا جاتا تھا اور حقیقت میں وہ معارف اور سیر و سلوک کا درس تھا نہ کہ خشک علمی  مفہوم میں اخلاق کا، جو مجھے سرشار کر دیتا تھا۔ بغیر کسی مبالغہ اور مبالغہ آرائی کے، اس درس نے مجھے اس قدر مسرور کر دیا کہ میں اگلے ہفتے پیر اور منگل تک خود کو اس سے شدید متاثر پاتا تھا۔ میری فکری اور روحانی شخصیت کا ایک اہم حصہ اس درس میں - اور پھر ان دوسرے دروس میں جو میں نے بارہ سال کے دوران اس الٰہی استاد سے حاصل کیے - تشکیل پایا اور میں ہمیشہ خود کو ان کا ممنون سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا۔  حقیقت میں وه عظیم استاد  [امام خمینی تھے۔
شیخ مرتضیٰ نے مشہد  حوزہ علمیہ میں تقریباً چار سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد، 1315 شمسی سال میں  حوزه علمیه قم کی طرف سفر کیا۔ ان کی تعلیمی زندگی کے بہترین ایام قم  کے علمی حوزے  میں پندرہ سال قیام اور اس دور کے عظیم اساتذہ سے فیض حاصل کرنے میں گزرے۔ ان ایام میں وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے نمایاں شاگردوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے "مرحوم آیت اللہ بروجردی کے فوائد اور خدمات" کے عنوان سے ایک مضمون میں کہا ہے: "اس بندے نے قم میں اپنے قیام کے آٹھ سالوں کے دوران، جو ان کی (آیت اللہ بروجردی کی) شہر میں آمد کے ابتدائی سال تھاا، ان کے دروس سے فائدہ اٹھایا اور چونکہ میں ان کے فقاہت کے طریقے پر یقین رکھتا ہوں، اس لیے میرا عقیدہ ہے کہ اس کی پیروی اور تکمیل ہونی چاہیے"۔ انہوں نے بارہ سال تک حضرت امام خمینی کے علمی اور اخلاقی محضر سے استفادہ کیا۔ ان کا امام کے ساتھ رشتہ شاگرد اور استاد کے رشتے سے کہیں بڑھ کر تھا اور امام خمینی استاد مطہری کے حجرے میں آتے جاتے تھے۔ انہوں نے امام خمینی کے محضر میں تعلیم کے دور کو اس طرح بیان کیا ہے:  قم ہجرت کرنے کے بعد، میں نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کو ایک دوسری شخصیت میں پایا۔ میں ہمیشہ مرحوم آغا میرزا مہدی کو کچھ اور خصوصیات کے علاوہ اس شخصیت میں دیکھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ میری پیاسی روح اس شخصیت کے صاف چشمے سے سیراب ہو جائے گی۔ اگرچہ قم ہجرت کے آغاز میں، میں ابھی "مقدمات" سے فارغ نہیں ہوا تھا اور "معقولات" میں داخل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، لیکن ہر جمعرات اور جمعہ کو میرے محبوب شخصیت کا اخلاقی درس دیا جاتا تھا اور حقیقت میں وہ معارف اور سیر و سلوک کا درس تھا نہ کہ خشک علمی  مفہوم میں اخلاق کا، جو مجھے سرشار کر دیتا تھا۔ بغیر کسی مبالغہ اور مبالغہ آرائی کے، اس درس نے مجھے اس قدر مسرور کر دیا کہ میں اگلے ہفتے پیر اور منگل تک خود کو اس سے شدید متاثر پاتا تھا۔ میری فکری اور روحانی شخصیت کا ایک اہم حصہ اس درس میں - اور پھر ان دوسرے دروس میں جو میں نے بارہ سال کے دوران اس الٰہی استاد سے حاصل کیے - تشکیل پایا اور میں ہمیشہ خود کو ان کا ممنون سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا۔  حقیقت میں وه عظیم استاد  [امام خمینی تھے۔
دوسری شخصیت جن کی علمی اور معنوی شخصیت نے شیخ مرتضیٰ  از حد متاثر کیا وه حضرت علامہ طباطبائی (رح) تھے۔ اگرچہ استاد کی رسمی تعلیم کی مدت علامہ کے پاس تقریباً تین سال تھی، لیکن ان کا رشتہ مرحوم علامہ کے ساتھ ان کی شہادت تک قائم رہا اور وہ اس عظیم استاد کے محضر سے فیض حاصل کرتے رہے۔ ان کی جانب سے "حضرت استادنا الاکرم علامہ طباطبائی روحی فداہ" کی تعبیر ان کے مرحوم علامہ کے درمیان احترام اور محبت کی علامت ہے۔ وہ اس استاد کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں: "1329 میں، حضرت استاد، علامہ کبیر آقای طباطبائی روحی فداہ کے درس میں شرکت کی، جو کچھ سال پہلے قم آئے تھے اور زیادہ معروف نہیں تھے، اور ان سے بو علی کی فلسفہ سیکھی اور ایک  خصوصی درس  میں بھی شرکت کی جو انہوں نے فلسفہ مادی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا تھا۔ کتاب "اصول فلسفہ و روش رئالیسم"۔۔۔ کی  اسی بابرکت مجلس میں بنیاد رکھی گئی۔"
دوسری شخصیت جن کی علمی اور معنوی شخصیت نے شیخ مرتضیٰ  از حد متاثر کیا وه حضرت علامہ طباطبائی (رح) تھے۔ اگرچہ استاد کی رسمی تعلیم کی مدت علامہ کے پاس تقریباً تین سال تھی، لیکن ان کا رشتہ مرحوم علامہ کے ساتھ ان کی شہادت تک قائم رہا اور وہ اس عظیم استاد کے محضر سے فیض حاصل کرتے رہے۔ ان کی جانب سے "حضرت استادنا الاکرم علامہ طباطبائی روحی فداہ" کی تعبیر ان کے مرحوم علامہ کے درمیان احترام اور محبت کی علامت ہے۔ وہ اس استاد کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں: "1329 میں، حضرت استاد، علامہ کبیر آقای طباطبائی روحی فداہ کے درس میں شرکت کی، جو کچھ سال پہلے قم آئے تھے اور زیادہ معروف نہیں تھے، اور ان سے بو علی کی فلسفہ سیکھی اور ایک  خصوصی درس  میں بھی شرکت کی جو انہوں نے فلسفہ مادی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا تھا۔ کتاب "اصول فلسفہ و روش رئالیسم"۔۔۔ کی  اسی بابرکت مجلس میں بنیاد رکھی گئی۔"
شهید مطهری علامه طباطبائی کے بارے میں لکھتےهیں: "علامہ طباطبائی، خدا ان پر رحم کرے، یہ بہت بہت بڑے اور قیمتی انسان تھے۔۔۔  آپ ایسی شخصیت هیں  کہ سو سال بعد بھی لوگوں کو بیٹھ کر ان کے کاموں کا تجزیہ و تحلیل کرنا پڑے گا اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا پڑے گا۔۔۔ میں برس ہا برس اس عظیم انسان کے بابرکت محضر سے فیض یاب ہوا ہوں اور ابھی بھی ہوں۔ ان کی کتاب "تفسیر المیزان" ان بہترین تفسیروں میں سے ایک ہے جو قرآن مجید کے لیے لکھی گئی ہیں۔۔۔ میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ یہ بہترین تفسیر ہے جو شیعہ اور سنی کے درمیان صدر اسلام سے آج تک لکھی گئی ہے۔ بہت بہت عظیم اور جلیل القدر انسان تھے۔۔"
شهید مطهری علامه طباطبائی کے بارے میں لکھتےهیں: "علامہ طباطبائی، خدا ان پر رحم کرے، یہ بہت بہت بڑے اور قیمتی انسان تھے۔۔۔  آپ ایسی شخصیت هیں  کہ سو سال بعد بھی لوگوں کو بیٹھ کر ان کے کاموں کا تجزیہ و تحلیل کرنا پڑے گا اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا پڑے گا۔۔۔ میں برس ہا برس اس عظیم انسان کے بابرکت محضر سے فیض یاب ہوا ہوں اور ابھی بھی ہوں۔ ان کی کتاب "تفسیر المیزان" ان بہترین تفسیروں میں سے ایک ہے جو قرآن مجید کے لیے لکھی گئی ہیں۔۔۔ میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ یہ بہترین تفسیر ہے جو شیعہ اور سنی کے درمیان صدر اسلام سے آج تک لکھی گئی ہے۔ بہت بہت عظیم اور جلیل القدر انسان تھے۔۔"
شیخ مرتضیٰ کی روحانی اور علمی شخصیت کی تشکیل میں جن عظیم اساتذہ کا گہرا اثر تھا ان میں سے کچھ یہ ہیں: عالم ربانی مرحوم حاج میرزا علی آغا شیرازی (قدس سرہ)، آیت اللہ سید محمد محقق یزدی جو داماد کے نام سے معروف ہیں، آیت اللہ سید محمد حجت تبریزی، اور آیات عظام: سید محمد رضا گلپائیگانی، سید محمد تقی خوانساری، میرزا مہدی آشتیانی، سید شہاب الدین مرعشی نجفی، سید صدر الدین صدر۔
شیخ مرتضیٰ کی روحانی اور علمی شخصیت کی تشکیل میں جن عظیم اساتذہ کا گہرا اثر تھا ان میں سے کچھ یہ ہیں: عالم ربانی مرحوم حاج میرزا علی آغا شیرازی (قدس سرہ)، آیت اللہ سید محمد محقق یزدی جو داماد کے نام سے معروف ہیں، آیت اللہ سید محمد حجت تبریزی، اور آیات عظام: سید محمد رضا گلپائیگانی، سید محمد تقی خوانساری، میرزا مہدی آشتیانی، سید شہاب الدین مرعشی نجفی، سید صدر الدین صدر۔

نسخہ بمطابق 23:56، 1 فروری 2025ء

مرتضی مطهری
پورا ناممرتضی مطهری
دوسرے نامشهید مطهری
ذاتی معلومات
پیدائش1297 ش، 1919 ء، 1336 ق
پیدائش کی جگہایران مشهد فریمان
وفات1357 ش، 1979 ء، 1398 ق
وفات کی جگہتهران
اساتذہآیت الله محمد صدوقی، امام خمینی اور علامه طباطبائی
مذہباسلام، شیعہ
مناصبمولف، مصنف، استاد فلسفه کلام اور تفسیر قرآن اسلامی دنیا کے عظیم مفکر

شهید مرتضی مطہری (۱۳ بهمن ۱۲۹۸ کو فریمان، مشہد میں پیدا ہوئے اور ۱۱ اردیبهشت ۱۳۵۸ کو تہران میں شہید ہوئے) وه ایک مایه ناز عالم دین، اسلامی فلسفہ اور کلام کے استاد، نیز قرآن کریم کی تفسیر کے ماہر اور وحدت اسلامی کے راهنماؤں میں سے ایک تھے۔ وہ اسلامی ہیئت الموتلفہ پارٹی کے رکن اور جمہوریہ اسلامی ایران کے ممتاز نظریہ سازوں میں شمار کیے جاتے تھے۔

سوانح حیات

۱۳ بهمن ۱۲۹۸ ہجری شمسی میں، ایک ایسے خاندان میں جہاں علم اور تقویٰ کی قدر کی جاتی تھی، ایک نومولود کی ولادت ہوئی جس کا نام مرتضی رکھا گیا۔ ان کے خاندان کا ماحول ان کی شخصیت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مرتضی ، رضا سے ماخوذ هے اس کا مطلب رضایت اور خوشنودی هے۔ مرتضی نے بچپن ہی میں اپنے والدین کی خوشنودی حاصل کی اور ان کی امیدوں پر پورا اترا۔ مرتضی" نہ صرف اپنے والدین کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ اس نے اسلامی امت اور اسلامی انقلاب کے فرزانہ رہنما کی رضامندی بھی جیت لی اور آخرکار، ان کو شہادت کے ذریعے خدا کی رضایت اور خوشنودی بھی نصیب ہوئی۔

حصول علم کا شوق

مرتضیٰ بچپن کے زمانے میں فریمان گاؤں (جو اب ایک شہر بن چکا ہے اور مشہد سے 75 کلومیٹر دور واقع ہے) میں ایک مکتب خانے میں گئے اور قرآن کریم اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مکتب خانے جانے کے شوق کی وجہ سے - تقریباً 5 سال کی عمر میں - ایک چاندنی رات میں، صبح کے قریب، یہ سوچ کر کہ صبح ہو گئی ہے، انہوں نے اپنی کاپی اور کتاب اٹھائی اور مکتب خانے کی طرف روانہ ہوئے۔ چونکہ مکتب خانہ بند تھا، وہ دروازے کے پیچھے بیٹھ گئے اور سو گئے۔ صبح سویرے، ان کے والدین نے ان کی جگہ خالی دیکھی، ان کی تلاش کی اور آخر کار انہیں مکتب خانے کے دروازے کے پیچھے سوتے ہوئے پایا۔ تقریبا ً بارہ سال کی عمر میں مرتضیٰ میں علوم دینی سیکھنے کا شوق اور جذبہ مزید بڑھتا ہوا نظر آیا۔ پہلوی حکومت کے جابرانہ دور میں، مذہبی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ ایک مشکل کام تھا۔ وہ زمانہ تھا جب علماء اور روحانیوں پر سخت حالات اور مشکلات سب کے سامنے تھیں۔ اس کم سن بچے میں علم حاصل کرنے کی خاص صلاحیت نے ارد گرد کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہر ایک اپنی پسند کے مطابق اس کے تعلیم کی راہ کا تعین کریں۔ دوسری جانب ان کے والد محترم شیخ محمد حسین مطہری۔ جو خود علم و تقویٰ کے حامل تھے، نے اپنے بیٹے کی تعلیم کی رہنمائی اپنے ہاتھوں میں لی اور کچھ رشتہ داروں اور عزیزوں کی خواہش کے برخلاف، ان کے لئے دینی تعلیم حاصل کرنے کی راہ ہموار کی۔

علمی سرگرمیوں کا آغاز

تیرہ سال کی عمر میں آپ مشہد کے مقدس دینی مرکز (حوزہ علمیہ) تشریف لے گئے اور دینی علوم کی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ اس دور میں استاد مطہری کی زندگی کا ایک حساس موڑ آیا جو ان کی علمی اور روحانی زندگی کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریات کی زندگی میں بھی بہت اہم ثابت ہوا۔ گویا آپ عربی ادب، فقہی، اصولی اور منطقی علوم کو صرف اس لیے سیکھ رہے تھے تاکہ وہ آپ کو بڑے فلسفیوں کی باتوں کا جائزہ لینے کے لیے تیار کر سکیں۔ اسی لیے اس دور سے ہی فلسفی، عارف اور متکلمین صرف اس وجہ سے ان کی نظر میں بڑے تھے کہ وہ انہیں ان افکار کے میدان کے ہیرو سمجھتے تھے۔ چنانچہ مرحوم آغا میرزا مہدی شہیدی رضوی، جو مشہد کے حوزے میں فلسفہ الٰہی کے مدرس تھے، ان تمام علماء اور مدرسین کے درمیان واحد شخص تھے جنہوں نے شیخ مرتضیٰ کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور ان کا دل جیت لیا۔ ان احساسات کو ہم ان کی اپنی زبانی سنتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "جہاں تک میں اپنی روحانی تبدیلیوں کو یاد کرتا ہوں، تیرہ سال کی عمر سے ہی یہ فکر مجھ میں پیدا ہو گئی تھی اور خدا سے متعلق مسائل کے بارے میں ایک عجیب حساسیت پیدا ہو گئی تھی۔ سوالات، یقیناً اس دور کے فکری سطح کے مطابق، ایک کے بعد ایک میرے ذہن پر حملہ آور ہو رہے تھے۔" مجھے یاد ہے کہ جب میں نے مشہد میں عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تو فلسفی، عارف اور متکلمین - اگرچہ میں ان کے نظریات سے واقف نہیں تھا - میری نظر میں دوسرے علماء اور دانشوروں اور موجدوں اور دریافت کنندگان کے مقابلے میں زیادہ گہرے اور عظیم نظر آتے تھے، صرف اس لیے کہ میں انہیں ان افکار کے میدان کے ہیرو سمجھتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں جب میری عمر 13 سے 15 سال کے درمیان تھی، مشہد کے حوزہ علمیہ کے ان تمام علماء، فضلاء اور اساتذہ کے درمیان، ایک شخص جو میری نظر میں سب سے زیادہ عظیم الشان نظر آتا تھا اور میں جس کے چہرے کو دیکھنا پسند کرتا تھا اور خواہش کرتا تھا کہ کسی دن میں اس کے درس میں بیٹھوں، مرحوم "آغا میرزا مہدی شہیدی رضوی" تھے جو اس حوزے میں فلسفہ الٰہی کے مدرس تھے۔ وہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ وہ مرحوم، ان ہی سالوں (1355 قمری) میں انتقال کر گئے۔ قم کی جانب ہجرت کے ابتدائی سالوں میں، جب میں ابھی عربی کی ابتدائی تعلیم سے فارغ نہیں ہوا تھا، میں ان(فلسفی) افکار میں اس قدر غرق تھا کہ مجھ میں تنہائی کی شدید خواہش پیدا ہو گئی تھی۔ میں اپنے ساتھ رہنے والے ہم جماعت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا اور میں نے اوپر والے حجرے کو ایک چھوٹے سے تاریک کمرے میں تبدیل کر دیا تھا تاکہ میں صرف اپنے افکار کے ساتھ رہ سکوں۔ اس وقت میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں پڑھائی اور بحث و مباحثے سے فارغ اوقات میں کسی اور موضوع کے بارے میں سوچوں اور درحقیقت کسی اور موضوع پر غور و فکر کو اس سے پہلے کہ ان مسائل میں میری مشکلات حل ہو جائیں، بیکار اور وقت کا ضیاع سمجھتا تھا۔ میں عربی کے مقدمات یا فقہی، اصولی اور منطقی علوم کو اس لیے سیکھ رہا تھا تاکہ آہستہ آہستہ اس مسئلے میں بڑے فلسفیوں کے افکار کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہو جاؤں۔

اساتذه

شیخ مرتضیٰ نے مشہد حوزہ علمیہ میں تقریباً چار سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد، 1315 شمسی سال میں حوزه علمیه قم کی طرف سفر کیا۔ ان کی تعلیمی زندگی کے بہترین ایام قم کے علمی حوزے میں پندرہ سال قیام اور اس دور کے عظیم اساتذہ سے فیض حاصل کرنے میں گزرے۔ ان ایام میں وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے نمایاں شاگردوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے "مرحوم آیت اللہ بروجردی کے فوائد اور خدمات" کے عنوان سے ایک مضمون میں کہا ہے: "اس بندے نے قم میں اپنے قیام کے آٹھ سالوں کے دوران، جو ان کی (آیت اللہ بروجردی کی) شہر میں آمد کے ابتدائی سال تھاا، ان کے دروس سے فائدہ اٹھایا اور چونکہ میں ان کے فقاہت کے طریقے پر یقین رکھتا ہوں، اس لیے میرا عقیدہ ہے کہ اس کی پیروی اور تکمیل ہونی چاہیے"۔ انہوں نے بارہ سال تک حضرت امام خمینی کے علمی اور اخلاقی محضر سے استفادہ کیا۔ ان کا امام کے ساتھ رشتہ شاگرد اور استاد کے رشتے سے کہیں بڑھ کر تھا اور امام خمینی استاد مطہری کے حجرے میں آتے جاتے تھے۔ انہوں نے امام خمینی کے محضر میں تعلیم کے دور کو اس طرح بیان کیا ہے: قم ہجرت کرنے کے بعد، میں نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کو ایک دوسری شخصیت میں پایا۔ میں ہمیشہ مرحوم آغا میرزا مہدی کو کچھ اور خصوصیات کے علاوہ اس شخصیت میں دیکھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ میری پیاسی روح اس شخصیت کے صاف چشمے سے سیراب ہو جائے گی۔ اگرچہ قم ہجرت کے آغاز میں، میں ابھی "مقدمات" سے فارغ نہیں ہوا تھا اور "معقولات" میں داخل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، لیکن ہر جمعرات اور جمعہ کو میرے محبوب شخصیت کا اخلاقی درس دیا جاتا تھا اور حقیقت میں وہ معارف اور سیر و سلوک کا درس تھا نہ کہ خشک علمی مفہوم میں اخلاق کا، جو مجھے سرشار کر دیتا تھا۔ بغیر کسی مبالغہ اور مبالغہ آرائی کے، اس درس نے مجھے اس قدر مسرور کر دیا کہ میں اگلے ہفتے پیر اور منگل تک خود کو اس سے شدید متاثر پاتا تھا۔ میری فکری اور روحانی شخصیت کا ایک اہم حصہ اس درس میں - اور پھر ان دوسرے دروس میں جو میں نے بارہ سال کے دوران اس الٰہی استاد سے حاصل کیے - تشکیل پایا اور میں ہمیشہ خود کو ان کا ممنون سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا۔ حقیقت میں وه عظیم استاد [امام خمینی تھے۔ دوسری شخصیت جن کی علمی اور معنوی شخصیت نے شیخ مرتضیٰ از حد متاثر کیا وه حضرت علامہ طباطبائی (رح) تھے۔ اگرچہ استاد کی رسمی تعلیم کی مدت علامہ کے پاس تقریباً تین سال تھی، لیکن ان کا رشتہ مرحوم علامہ کے ساتھ ان کی شہادت تک قائم رہا اور وہ اس عظیم استاد کے محضر سے فیض حاصل کرتے رہے۔ ان کی جانب سے "حضرت استادنا الاکرم علامہ طباطبائی روحی فداہ" کی تعبیر ان کے مرحوم علامہ کے درمیان احترام اور محبت کی علامت ہے۔ وہ اس استاد کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں: "1329 میں، حضرت استاد، علامہ کبیر آقای طباطبائی روحی فداہ کے درس میں شرکت کی، جو کچھ سال پہلے قم آئے تھے اور زیادہ معروف نہیں تھے، اور ان سے بو علی کی فلسفہ سیکھی اور ایک خصوصی درس میں بھی شرکت کی جو انہوں نے فلسفہ مادی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا تھا۔ کتاب "اصول فلسفہ و روش رئالیسم"۔۔۔ کی اسی بابرکت مجلس میں بنیاد رکھی گئی۔" شهید مطهری علامه طباطبائی کے بارے میں لکھتےهیں: "علامہ طباطبائی، خدا ان پر رحم کرے، یہ بہت بہت بڑے اور قیمتی انسان تھے۔۔۔ آپ ایسی شخصیت هیں کہ سو سال بعد بھی لوگوں کو بیٹھ کر ان کے کاموں کا تجزیہ و تحلیل کرنا پڑے گا اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا پڑے گا۔۔۔ میں برس ہا برس اس عظیم انسان کے بابرکت محضر سے فیض یاب ہوا ہوں اور ابھی بھی ہوں۔ ان کی کتاب "تفسیر المیزان" ان بہترین تفسیروں میں سے ایک ہے جو قرآن مجید کے لیے لکھی گئی ہیں۔۔۔ میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ یہ بہترین تفسیر ہے جو شیعہ اور سنی کے درمیان صدر اسلام سے آج تک لکھی گئی ہے۔ بہت بہت عظیم اور جلیل القدر انسان تھے۔۔" شیخ مرتضیٰ کی روحانی اور علمی شخصیت کی تشکیل میں جن عظیم اساتذہ کا گہرا اثر تھا ان میں سے کچھ یہ ہیں: عالم ربانی مرحوم حاج میرزا علی آغا شیرازی (قدس سرہ)، آیت اللہ سید محمد محقق یزدی جو داماد کے نام سے معروف ہیں، آیت اللہ سید محمد حجت تبریزی، اور آیات عظام: سید محمد رضا گلپائیگانی، سید محمد تقی خوانساری، میرزا مہدی آشتیانی، سید شہاب الدین مرعشی نجفی، سید صدر الدین صدر۔