"وفاء الاحرار" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
(«'''وفاء الاحرار''' یہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس اور قابض اسرائیلی حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے اور یہ معاہدہ 18اکتوبر 2011ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا جب قابض فوج نے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیط کی حوالگی کے بدلے 1047 فلسطینی ا...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
سطر 1: سطر 1:
'''وفاء الاحرار''' یہ اسلامی مزاحمتی تحریک [[حماس]] اور قابض [[اسرائیل|اسرائیلی]] حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے اور یہ معاہدہ 18اکتوبر 2011ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا جب قابض فوج نے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیط کی حوالگی کے بدلے  1047 فلسطینی اسیروں کو رہا کیا۔ یہ معاہدہ [[مصر]] کی حکومت کی ثالثی سے ہوا۔ 25جون کو حماس کے خصوصی یونٹ نے پہلے مرحلے میں 477 فلسطینی قیدیوں کو شالیط کی قاہرہ منتقلی کے بدلے رہا کیا اور دوسرے مرحلے میں دسمبر 2011ء میں 550 دیگر قیدیوں کو رہا کیا گیا۔
'''وفاء الاحرار''' یہ اسلامی مزاحمتی تحریک [[حماس]] اور قابض [[اسرائیل|اسرائیلی]] حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے اور یہ معاہدہ 18اکتوبر 2011ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا جب قابض فوج نے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیط کی حوالگی کے بدلے  1047 فلسطینی اسیروں کو رہا کیا۔ یہ معاہدہ [[مصر]] کی حکومت کی ثالثی سے ہوا۔ 25جون کو حماس کے خصوصی یونٹ نے پہلے مرحلے میں 477 فلسطینی قیدیوں کو شالیط کی قاہرہ منتقلی کے بدلے رہا کیا اور دوسرے مرحلے میں دسمبر 2011ء میں 550 دیگر قیدیوں کو رہا کیا گیا۔
== معاہدہ کا پس منظر ==
== معاہدہ کا پس منظر ==
یہ  معاہدہ اسرائیلی قابض حکومت  کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر جب سے القسام بریگیڈز اسرائیلی فوجی کو تقریباً 5 سال تک رکھنے میں کامیاب رہے، اور گرفتاری کا عمل، وہ جگہ جہاں قیدی رکھا گیا تھا، اور مذاکراتی عمل فلسطینی علاقوں کے اندر ہوا، اور یہ پہلی بار ہوا ہے۔ معاہدہ طے پانے سے پہلے اور 2008-2009 میں [[غزہ پٹی|غزہ کی پٹی]] پر اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل  اور حماس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق فوجی کی حفاظت کی تصدیق کی گئی تھی اور حماس نے ایک ٹیپ حوالے کی تھی جس میں سپاہی شالیط کو دکھایا گیا تھا۔
یہ  معاہدہ اسرائیلی قابض حکومت  کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر جب سے القسام بریگیڈز اسرائیلی فوجی کو تقریباً 5 سال تک زندہ رکھنے میں کامیاب رہے، اور گرفتاری کا عمل، وہ جگہ جہاں قیدی رکھا گیا تھا، اور مذاکراتی عمل فلسطینی علاقوں کے اندر ہوا، اور یہ پہلی بار ہوا ہے۔ معاہدہ طے پانے سے پہلے اور 2008-2009 میں [[غزہ پٹی|غزہ کی پٹی]] پر اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل  اور حماس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق فوجی کی حفاظت کی تصدیق کی گئی تھی اور حماس نے ایک ٹیپ حوالے کی تھی جس میں سپاہی شالیط کو دکھایا گیا تھا۔


20 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں زندہ۔ اس کے بعد، معاہدے کے بارے میں بات چیت اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ فریقین اپنی حتمی شکل تک نہ پہنچ گئے، اس معاہدے میں اسرائیل سے تمام فلسطینی خواتین قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں میں طویل سزا کاٹ رہے فلسطینی رہنما بھی شامل تھے۔ فلسطینی سپیکٹرم۔ تاہم، اس معاہدے میں مروان برغوطی، عبداللہ برغوتی، حسن سلامہ، اور احمد سعادت جیسے سرکردہ رہنما شامل نہیں تھے، اس کے باوجود، بہت سے لوگوں نے اس معاہدے کو اسرائیل کی جانب سے ایک فوجی کے لیے ادا کی جانے والی سب سے بڑی قیمت سمجھا، اور یہ کہ یہ ایک سے زیادہ تھی۔
20 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں شالیط کو زندہ اسرائیلی کے حوالہ کرنا تھا۔  معاہدے کے بارے میں بات چیت اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ فریقین اپنی حتمی شکل تک نہ پہنچ گئے، اس معاہدے میں اسرائیل سے تمام فلسطینی خواتین قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں میں طویل سزا کاٹ رہے فلسطینی رہنما بھی شامل تھے۔ تاہم، اس معاہدے میں مروان برغوثي، عبداللہ برغوتی، حسن سلامہ، اور احمد سعادت جیسے سرکردہ رہنما شامل نہیں تھے، اس کے باوجود، بہت سے لوگوں نے اس معاہدے کو اسرائیل کی جانب سے ایک فوجی کے لیے ادا کی جانے والی سب سے بڑی قیمت سمجھا


فوجی اور سیکورٹی نقطہ نظر. القسام بریگیڈز نے شالیت کے حوالے کرنے کا عمل انتہائی احتیاط اور رازداری کے ساتھ انجام دیا، جن میں سے ایک پرائیویٹ شالیت تھی، اور اسے مصر کے کمانڈر احمد کے حوالے کر دیا گیا۔ الجابری نے القسام کے درجنوں جنگجوؤں کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اس کی حوالگی کے بعد رہائی پانے والے قیدیوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل کیا گیا تھا اور اس کے لوگ ان پر فتح کے نشانات لہرا کر ان کا استقبال کریں گے <ref>[https://felesteen.news/post/116755/%D8%B5%D9%81%D9%82%D8%A9-%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D8%B1 صفقة وفاء الأحرار](وفاء الاحرار معاہدہ)-felesteen.news(عربی زبان)-شائع شدہ از:6ستمبر 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11مئی 2024ء۔</ref>۔
فوجی اور سیکورٹی نقطہ نظر یہ سب سے بڑی کامیابی تھی۔ القسام بریگیڈز نے شالیط کے حوالے کرنے کا عمل انتہائی احتیاط اور رازداری کے ساتھ انجام دیا اور اسے مصر کے کمانڈر احمد جعبری کے حوالے کر دیا گیا۔ الجابری نے القسام کے درجنوں جنگجوؤں کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اس کی حوالگی کے بعد رہائی پانے والے قیدیوں کو [[رفح کراسنگ]] کے ذریعے غزہ میں داخل کیا گیا تھا اور اس کے لوگ ان پر فتح کے نشانات لہرا کر ان کا استقبال کیا <ref>[https://felesteen.news/post/116755/%D8%B5%D9%81%D9%82%D8%A9-%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D8%B1 صفقة وفاء الأحرار](وفاء الاحرار معاہدہ)-felesteen.news(عربی زبان)-شائع شدہ از:6ستمبر 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11مئی 2024ء۔</ref>۔

نسخہ بمطابق 20:38، 12 مئی 2024ء

وفاء الاحرار یہ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس اور قابض اسرائیلی حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے اور یہ معاہدہ 18اکتوبر 2011ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا جب قابض فوج نے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیط کی حوالگی کے بدلے 1047 فلسطینی اسیروں کو رہا کیا۔ یہ معاہدہ مصر کی حکومت کی ثالثی سے ہوا۔ 25جون کو حماس کے خصوصی یونٹ نے پہلے مرحلے میں 477 فلسطینی قیدیوں کو شالیط کی قاہرہ منتقلی کے بدلے رہا کیا اور دوسرے مرحلے میں دسمبر 2011ء میں 550 دیگر قیدیوں کو رہا کیا گیا۔

معاہدہ کا پس منظر

یہ معاہدہ اسرائیلی قابض حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر جب سے القسام بریگیڈز اسرائیلی فوجی کو تقریباً 5 سال تک زندہ رکھنے میں کامیاب رہے، اور گرفتاری کا عمل، وہ جگہ جہاں قیدی رکھا گیا تھا، اور مذاکراتی عمل فلسطینی علاقوں کے اندر ہوا، اور یہ پہلی بار ہوا ہے۔ معاہدہ طے پانے سے پہلے اور 2008-2009 میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق فوجی کی حفاظت کی تصدیق کی گئی تھی اور حماس نے ایک ٹیپ حوالے کی تھی جس میں سپاہی شالیط کو دکھایا گیا تھا۔

20 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں شالیط کو زندہ اسرائیلی کے حوالہ کرنا تھا۔ معاہدے کے بارے میں بات چیت اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ فریقین اپنی حتمی شکل تک نہ پہنچ گئے، اس معاہدے میں اسرائیل سے تمام فلسطینی خواتین قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں میں طویل سزا کاٹ رہے فلسطینی رہنما بھی شامل تھے۔ تاہم، اس معاہدے میں مروان برغوثي، عبداللہ برغوتی، حسن سلامہ، اور احمد سعادت جیسے سرکردہ رہنما شامل نہیں تھے، اس کے باوجود، بہت سے لوگوں نے اس معاہدے کو اسرائیل کی جانب سے ایک فوجی کے لیے ادا کی جانے والی سب سے بڑی قیمت سمجھا

فوجی اور سیکورٹی نقطہ نظر یہ سب سے بڑی کامیابی تھی۔ القسام بریگیڈز نے شالیط کے حوالے کرنے کا عمل انتہائی احتیاط اور رازداری کے ساتھ انجام دیا اور اسے مصر کے کمانڈر احمد جعبری کے حوالے کر دیا گیا۔ الجابری نے القسام کے درجنوں جنگجوؤں کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اس کی حوالگی کے بعد رہائی پانے والے قیدیوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل کیا گیا تھا اور اس کے لوگ ان پر فتح کے نشانات لہرا کر ان کا استقبال کیا [1]۔

  1. صفقة وفاء الأحرار(وفاء الاحرار معاہدہ)-felesteen.news(عربی زبان)-شائع شدہ از:6ستمبر 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11مئی 2024ء۔