"علی الخنیزی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 62: سطر 62:
* اتحاد کے حصول کے لیے فرقہ وارانہ تفریق کو ختم کرنا ہوگا اور متحد کرنے والا مذہب ہی حقیقی اسلام ہے، کیونکہ اسی کے ذریعے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی قوت حاصل ہوتی ہے۔
* اتحاد کے حصول کے لیے فرقہ وارانہ تفریق کو ختم کرنا ہوگا اور متحد کرنے والا مذہب ہی حقیقی اسلام ہے، کیونکہ اسی کے ذریعے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی قوت حاصل ہوتی ہے۔
* کسی بھی تاریخی، نظریاتی یا سماجی جنون سے آزادی اور اسلامی رہنمائی کی روشنی میں انصاف اور معیشت کا راستہ اختیار کرنا۔
* کسی بھی تاریخی، نظریاتی یا سماجی جنون سے آزادی اور اسلامی رہنمائی کی روشنی میں انصاف اور معیشت کا راستہ اختیار کرنا۔
== تقریب کی کہانی ==
کیا [[مسلمان|مسلمانوں]] میں اپنے مسائل خود حل کرنے کی طاقت ہے؟
کیا [[اسلام]] میں ایسے اصول ہیں جو ملت اسلامیہ کے اتحاد کی ضمانت دیتے ہیں اور اس طرح اس کی عظمت و شان کی ضمانت دیتے ہیں؟
کیا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ تقریب  کا مطلب تمام اختلاف کو رد کرنا ہے؟ یا کیا وہ کسی ایسے اختلاف میں کوئی حرج نہیں دیکھتے جو ثبوت کی پیروی کرتا ہے اور ان اصولوں کو مدنظر رکھتا ہے جن سے کسی مسلمان کو انحراف کا حق نہیں ہے؟
کیا مصلحت آخر میں غالب رہتی ہے یا تعصب رہتا ہے؟
کیا مسلمان واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا وہ اپنے وجود میں بھی غافل رہیں گے اور معاملہ اپنے دشمنوں پر چھوڑ دیں گے جو مواقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہیں اور جمود کا شکار جنونی اور متعصب لوگ دونوں کی حیثیت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
اس طرح ان کی کمزوری بڑھ جاتی ہے اور ان کے اصولوں کے خلاف کسی بھی تحریک کو پسپا کرنے سے ان کی عاجزی آتی ہے، جس سے انہیں تباہ و برباد کرنا آسان ہو جاتا ہے؟
یہ سوالات ہر اس شخص کے ذہن میں تھے جو اصلاح کا سوچتا تھا اور ہر اس شخص کے ذہن پر تھا جو دین و ملت کی خدمت کے لیے کام کرنا چاہتا تھا۔
ضروری تھا کہ اس کا جواب کسی ایسے تجربے کے ذریعے دیا جائے جس سے راستہ روشن ہو جائے اور مسلمانوں کی اصل حالت کھل جائے۔
تقریب کا سوچ اور فکر اس میدان میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا!
اگر یہ تجربہ ناکام ہو جاتا تو ان سوالوں کا جواب واضح ہوتا۔ اگر چہ اس کی ناکامی محض ایک خیال کا نقصان ہی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک فیصلہ ہے کہ ہم اپنے مسائل سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں، اور یہ کہ ہم شعور اور پختگی کی سطح پر نہیں پہنچے ہیں، بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے۔ یہاں تک کہ ہم میں سے سب سے زیادہ منصفانہ لوگ، کہ ہم اسلام کے پیغام کو لے جانے کے قابل نہیں ہیں، جو امن کے حصول اور تمام انسانیت کے لئے امن کی ضمانت دیتا ہے!

نسخہ بمطابق 23:28، 30 اپريل 2024ء

علی الخنیزیسعودی عرب کی عظیم شخصیات میں سے ایک، قطیف کے علاقے میں علمی نشاۃ ثانیہ کے بانی، اسلامی مصلح اور تفریب بین المذاہب الاسلامی کے حامی اور داعیوں میں ایک تھے۔

پیدائش

شیخ علی ابو الحسن بن حسن بن مہدی بن کاظم بن علی الخنیزی سنہ 1291 ہجری میں قطیف میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

انہوں نے مقدماتی تعلیم محمد علي النهّاش، عبد اللہ آل نصر اللَّه،منصور الجشّي اور محمّد علي آل عبد الجبّار سے حاصل کیا۔ 1314 ہجری میں حوزہ علمیہ نجف الاشرف عراق کا رخ کیا اور اس حوزہ ڈگری حاصل کی۔ آپ نے درس خارج کے مختلف کلاسوں میں شرکت کی اور نجف اشرف کےا نامور مجتہدین اور اساتذہ سے کسب فیض کیا اور اجتہاد کے درجہ پر پنہچ گئے۔ اس حوزہ سے مختلف دینی علوم حاصل کرنے کے بعد 1329 ہجری میں وطن واپس آئے اور درس و تدریس، قضاوت اور تبلیغ دین میں مشغول ہوگئے۔

اسلامی اتحاد کے بارے میں ان کے نظریہ کی خصوصیات

ان کے نظریہ کی خصوصیات یہ ہیں: گفتگو اور مکالمہ مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کا صحیح طریقہ ہے، اور یہ دوسرے کو پہچاننے اور ایک ساتھ رہنے کا طریقہ بھی ہے۔ مکالمے کی دعوت میں الدعوة الإسلامية إلى وحدة أهل السنّة والإمامية نامی کتاب ہے، جو شیخ عبداللہ بن علی القصيمی کی کتاب الصراع بين الإسلام والوثنية (اسلام اور کافریت کے درمیان تنازعہ) پر ایک ہنگامہ خیز مسئلہ میں خاموش تنقید ہے، اور اس طرح کتاب المناظرات جو اسلامی فرقوں کے درمیان کچھ متنازعہ مسائل سے متعلق ہے، اسلامی رہنمائی کی روشنی اور پرسکون بحث جس کا مقصد صرف سچائی کو حاصل کرنا ہے۔

اس بارے میں المجمع العلمي العربی کے رکن شیخ سلیمان ظاہر کہتے ہیں: ان کی بہت سی تحریریں اس کی عکاسی کرتی ہیں: عظیم علم، روشن خیال اور دور اندیشی اور اچھے اخلاق پر مبنی ہے اگر آپ استدلال کرتے ہیں تو یہ بہترین طریقہ سے استدلال کرتے ہیں اور کسی کے نظریہ کو رد کرتے ہیں تو مخالفین کو مضبوط ثبوت اور واضح ثبوت کے ساتھ جواب دیتے ہیں اور اس کا اصل مقصد حق کو باطل کی غلامی سے آزاد کرنا ہے، اور اس کا مقصد حق کو باطل کی غلامی سے آزاد کرنا ہے، اور اس کی ہر بات میں اس کا آخری ہدف ہے۔ اور ان کی زندگی کے دوران جن کتابوں کا تدوین کیا گیا وہ خالصتاً اسلامی ہم آہنگی کے لیے ہے، اور اسلام کے لیے خطرے کے دور میں کلمہ توحید کے ارد گرد مسلمانون کو یکجا کرنا ہے۔

اتحاد کے حصول کے لیے سب سے پہلے فرقہ وارانہ سوچ کو ختم کرنا ضروری ہے اس حوالہ سے آپ فرماتے ہیں:" فرقہ وارانہ سوچ کو ختم کیے بغیر کوئی نظم، اجتماع، اتحاد برقرار نہیں ہوگا اور نہ کوئی شیعہ رہے گا نہ کوئی سنی اور نہ کوئی معتزلہ اور نہ کوئی اشعریہ۔ اس طرح، اس معاہدے کا منتظم، جس کی مالا بکھری ہوئی ہے، اور اس ٹوٹے ہوئے اتحاد کو جوڑنے والا، اس معاہدے کو بڑھانے والا، دین اسلام ہے: لا إله إلّا الله محمّد رسول اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد خدا کے رسول ہیں. اس وقت قوی اور مضبوط رابطہ حاصل ہو گا۔ اسلام کا باطن پاک ہے، اس کی ہوا کو میٹھا کیا جاتا ہے، اس کے پہلوؤں کو پاک کیا جاتا ہے، اور جو روح اس کے اندر اس کے زمانے اور خلفاء کے دور میں تھی وہ اس کی طرف لوٹ آتی ہے۔

کسی بھی تعصب سے آزادی، خواہ وہ تاریخی ہو، سماجی ہو یا عقیدتی۔ انہوں اپنی کتاب روضة المسائل في إثبات أصول الدين میں کہتے ہیں:" کوئی بھی گروہ خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، میں نے اس سے ہٹ دھرمی، عناد اور تعصب کے بندھن کو ہٹا دیا ہے اور اس سے باپ دادا کے نظریے کا لبادہ اتار دیا ہے، اس لیے مجھے امید ہے۔ جو لوگ اس کا سامنا کریں گے وہ اسے عدل اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں گے نہ کہ تعصب تکبر سے اور نہ ہی اسلاف اور اسلاف کے نظریے سے۔

اساتذہ

  • شيخ ہادی ہمدانی،
  • شيخ محمد طه نجف،
  • سيد أبو تراب عبد العلی خوانساری،
  • شيخ فتح اللَّه اصفهانی،
  • شيخ الشريعة،
  • شيخ محمّد كاظم خراسانی.

شاگرد

  • شيخ علی الجشی،
  • شيخ محمد علی الجشی،
  • شيخ منصور آل سيف.

اتحاد کے بارے ان کی کتاب

ان کی 949صفحات پر مشتمل ایک کتاب تھی جس کو دو جلدوں میں دار الفکر نے بیروت سے 1376ھ/1956ء میں شائع کیا تھا، جس میں وحدت اسلامی کے ان کے نظریہ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ کتاب کے پہلے صفحہ پر انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا وسیلہ ہے جو نفرت انگیز فرقہ واریت اور اس کی منہدم بنیادوں کو تباہ کرتا ہے اور اتحاد اور ہم آہنگی کی دعوت دیتا ہے، ایک ایسی دعوت جس کی نمائندگی آیت کریمہ میں کی گئی ہے:"دْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ"۔

یہ کتاب شیخ الخنیزی کے تالیفات میں سے آخری تالیف ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد ان کا جلد ہی انتقال ہو گیا، گویا یہ ان کی امت اور قوم کے لیے آخری وصیت ہے۔ جن لوگوں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا، جن میں محققین جیسے کہ آیت اللہ سید مرتضیٰ عسکری اور دیگران شامل ہیں، ان کی رائے تھی کہ یہ کتاب اختلافی مسائل پر مکالمے اور بحث و مباحثہ کی مضبوط ترین کتابوں میں سے ایک ہے اور اس میں مصنف نے اپنے مدعی کو بیان دلیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

شیخ محمد جواد مغنیہ نے اس کتاب پر تقریظ لکھتے ہوئے کہتے ہیں:" ہمیں اس میں سچائی، سکون، خلوص، عدل و انصاف اور دوسری خوبیاں ملتی ہیں، جو ایک قابل عالم اور بڑے محنتی شخص سے ظاہر ہوتی ہیں۔

وفات

سنہ 1363 ہجری میں قطیف میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔

علمی آثار

  • روضة المسائل فی إثبات أُصول الدين بالدلائل،
  • قبسة العجلان فی معنى‏ الكفر والإيمان،
  • مقدمة فی أُصول الدين،
  • دلائل الأحكام فی شرح شرائع الإسلام،
  • المناظرات الكمالية،
  • صراع الحقّ،
  • الخلسة من الزمن في التسامح في أدلّة السنن،
  • المنهج فی الحجّ والعمرة،
  • طريق النجاة،
  • الرسالة الشكّية،
  • لسان الصدق،
  • الرضاعية،
  • رسالة فی عدّة الحامل المتوفّى‏ عنها زوجها.
  • الدعوة الإسلامية إلى وحدة أهل السنّة والإمامية

وحدت اسلامی کے حوالے سے ان کا نظریہ

اسلامی اتحاد کے بارے میں شیخ الخنازی کا طریقہ کار درج ذیل نکات میں بیان کیا گیا ہے:

  • دوسروں کے ساتھ رواداری، خواہ آپ ان سے متفق نہ ہوں۔
  • مکالمہ اور گفتگو، مسائل کو حل کرنے کا صحیح طریقہ ہے، اور یہ دوسرے کو پہچاننے اور ساتھ رہنے کا طریقہ ہے۔
  • جہاں بھی جائے دلیل کے ساتھ جانا، جہاں ٹھہر جائے دلیل اور برہان پر قائم رہنا، مضبوط دلیل پر قائم رہنا، اور مصلحت، جذبات یا عصبیت پر بھروسہ نہ کرنا۔
  • اتحاد کے حصول کے لیے فرقہ وارانہ تفریق کو ختم کرنا ہوگا اور متحد کرنے والا مذہب ہی حقیقی اسلام ہے، کیونکہ اسی کے ذریعے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی قوت حاصل ہوتی ہے۔
  • کسی بھی تاریخی، نظریاتی یا سماجی جنون سے آزادی اور اسلامی رہنمائی کی روشنی میں انصاف اور معیشت کا راستہ اختیار کرنا۔

تقریب کی کہانی

کیا مسلمانوں میں اپنے مسائل خود حل کرنے کی طاقت ہے؟ کیا اسلام میں ایسے اصول ہیں جو ملت اسلامیہ کے اتحاد کی ضمانت دیتے ہیں اور اس طرح اس کی عظمت و شان کی ضمانت دیتے ہیں؟ کیا مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ تقریب کا مطلب تمام اختلاف کو رد کرنا ہے؟ یا کیا وہ کسی ایسے اختلاف میں کوئی حرج نہیں دیکھتے جو ثبوت کی پیروی کرتا ہے اور ان اصولوں کو مدنظر رکھتا ہے جن سے کسی مسلمان کو انحراف کا حق نہیں ہے؟ کیا مصلحت آخر میں غالب رہتی ہے یا تعصب رہتا ہے؟

کیا مسلمان واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا وہ اپنے وجود میں بھی غافل رہیں گے اور معاملہ اپنے دشمنوں پر چھوڑ دیں گے جو مواقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہیں اور جمود کا شکار جنونی اور متعصب لوگ دونوں کی حیثیت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس طرح ان کی کمزوری بڑھ جاتی ہے اور ان کے اصولوں کے خلاف کسی بھی تحریک کو پسپا کرنے سے ان کی عاجزی آتی ہے، جس سے انہیں تباہ و برباد کرنا آسان ہو جاتا ہے؟ یہ سوالات ہر اس شخص کے ذہن میں تھے جو اصلاح کا سوچتا تھا اور ہر اس شخص کے ذہن پر تھا جو دین و ملت کی خدمت کے لیے کام کرنا چاہتا تھا۔ ضروری تھا کہ اس کا جواب کسی ایسے تجربے کے ذریعے دیا جائے جس سے راستہ روشن ہو جائے اور مسلمانوں کی اصل حالت کھل جائے۔ تقریب کا سوچ اور فکر اس میدان میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا! اگر یہ تجربہ ناکام ہو جاتا تو ان سوالوں کا جواب واضح ہوتا۔ اگر چہ اس کی ناکامی محض ایک خیال کا نقصان ہی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک فیصلہ ہے کہ ہم اپنے مسائل سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں، اور یہ کہ ہم شعور اور پختگی کی سطح پر نہیں پہنچے ہیں، بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے۔ یہاں تک کہ ہم میں سے سب سے زیادہ منصفانہ لوگ، کہ ہم اسلام کے پیغام کو لے جانے کے قابل نہیں ہیں، جو امن کے حصول اور تمام انسانیت کے لئے امن کی ضمانت دیتا ہے!