"اخوان المسلمین شام" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 31: سطر 31:
شام کی  اس اسلامی تحریک نے  تاکید کی تھی که  امام خمینی کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب نے  مسلمانوں کے درمیان وحدت  کا بهترین نمونه پیش کیا جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نهیں ملتی۔
شام کی  اس اسلامی تحریک نے  تاکید کی تھی که  امام خمینی کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب نے  مسلمانوں کے درمیان وحدت  کا بهترین نمونه پیش کیا جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نهیں ملتی۔
اخوان المسلمین شام  نے پهلی بار اپنے لئےانقلاب کا لفظ استعمال کیا اور اپنے نشریات میں "شام کے اسلامی انقلاب" جیسی عبارتوں  کا استعمال  ان کا ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر هونے  کی دلیل هے۔  
اخوان المسلمین شام  نے پهلی بار اپنے لئےانقلاب کا لفظ استعمال کیا اور اپنے نشریات میں "شام کے اسلامی انقلاب" جیسی عبارتوں  کا استعمال  ان کا ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر هونے  کی دلیل هے۔  
<ref>[https://www.sid.ir/paper/126851/fa بازتاب انقلاب اسلامی بر جنبش اخوان المسلمین سوریه] (شام کے  اخوان المسلمین تنظیم پر انقلاب اسلامی کے اثرات)- www.sid.ir (زبان فارسی)- درج شده به تاریخ  1391- اخذ شده به تاریخ 20 اپریل 2024ء-</ref>
<ref>[https://www.sid.ir/paper/126851/fa بازتاب انقلاب اسلامی بر جنبش اخوان المسلمین سوریه] (شام کے  اخوان المسلمین تنظیم پر انقلاب اسلامی کے اثرات)- www.sid.ir (زبان فارسی)- درج شده به تاریخ: 1391- اخذ شده به تاریخ: 20 اپریل 2024ء-</ref>


== بشار الاسد کی حکومت اور اخوان المسلمین کا رد عمل==
1996ء کے بعد  اور  "علی صدرالدین البیانونی" کے اخوان کے سربراہ کے طور پر منتخب ہونے کے بعد، حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں بشار الاسد برسراقتدار آنے کے بعد اخوان کے سینکڑوں ارکان کو رہا کر دیا گیا۔ تاہم اخوان کے اور بھی مطالبات تھے، جیسے کہ اخوان کے تمام قیدیوں کی رہائی، جلاوطنوں کی واپسی، اور اخوان کی سرگرمیوں پر سے پابندی اٹھانا، جو پورے نہیں ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ جب بشار الاسد برسر اقتدار  آئے تو ملک میں سیاسی اصلاحات  کے حصول کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا۔ مئی 2001ء میں، اخوان نے شام میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے اپنے نام نہاد "قومی معاہدے" کے منصوبے کی نقاب کشائی کی اور اسے اگست 2002ء میں لندن میں ہونے والی کانفرنس میں پیش کیا۔ اگرچہ اس دستاویز کا،  حزب اختلاف کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا لیکن شامی حکومت کو یہ پسند نہیں آیا۔
2006ء میں، اخوان کے رہنماؤں نے "پرامن طریقے سے" حکومت کا تختہ الٹنے اور ایک سول اور جمہوری نظام قائم کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سال اخوان نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والے نائب صدر  عبدالحلیم خدام کی حمایت سے نیشنل لبریشن فرنٹ (جبہة الخلاص الوطنی) تشکیل دیا۔ دوسری طرف ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے سے اخوان کو مزید حمایت کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع ملا۔
2010ء میں استنبول میں اخوان کی جنرل کونسل نے "محمد ریاض الشافقہ" کے انتخاب کے بعد ترک حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کے لیے کہا اور یہاں تک کہ یہ تجویز بھی دی کہ اگر اخوان کو شام واپس جانے کی اجازت دی جائے تو وہ  پارٹی  کا نام بھی تبدیل کرنے کے لئے تیار هیں۔ 2011ء میں شام میں  بدامنی کے آغاز کے ساتھ، اخوان  نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ پچھلی دہائیوں کے طرز عمل میں تبدیلی آئی ہے اور ان صورت حال کے بارے میں پر امن رویه اختیار کریں گے  لیکن بعد میں انهوں نے قدامت پسند موقف اپنا یا  اور اپریل کے آخر تک کسی سرکاری  بیان کا اظہار نہیں کیا۔ . تاہم، اسلامی بیداری (عرب بہار) کی پیش رفت اور اخوان کی عالمی تحریک کے عروج نے شامی اخوان المسلمین کو مہم میں شامل کیا۔ اخوان، جو سمجھتا تھا کہ یہ کھیل کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے، اب نہ صرف پابندی کی منسوخی پر راضی نهیں بلکہ وہ نظام کے مکمل خاتمے  کا خوهاں هے۔
اکتوبر 2011ء میں محمد الشفقه کی کوششوں سے اخوان نے شام کی قومی کونسل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تاکہ مصر اور تیونس کی طرح عالمی برادری کے سامنے اخوان کا ایک طاقتور اور سیاسی امیج پیش کیا جا سکے۔ مارچ 2012 میں اخوان کی طرف سے پیش کردہ "معاہدہ  عہد و میثاق "  کے دستاویز میں، مستقبل کے شامی نظام کا خاکہ اس طرح تیار کیا گیا تھا: "ایک سول، جدید، جمہوری اور تکثیری ریاست۔"
شام کی رائے عامہ، حزب اختلاف کی تحریکوں اور مسلح گروہوں میں اخوان کے اثر و رسوخ اور حقیقی پوزیشن کا تعین کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں تک کہ قومی اپوزیشن اتحاد کی سرکاری ویب سائٹ  میں اخوان المسلمون کا نام ذیلی گروپوں  میں بھی  نہیں ملتا۔ میدان میں ہونے والی پیش رفت میں ہمیں کوئی ایسا گروہ نہیں ملے گا جو کہے کہ یہ اخوان کی عسکری شاخ ہے، جب کہ یہ بات سب پر واضح ہے کہ ان میں سے بہت سے گروہ یا تو اخوان کے افکار سے متاثر تھے یا پھر  اخوان کے ساتھ رابطے میں تھے  اور ان کے حلقوں میں حاضر تھے۔
<ref>[https://carnegie-mec.org/syriaincrisis/?fa=48396 جماعةالإخوان المسلمين في سورية] (شام کی اخوان المسلمین تنظیم)-carnegie-mec.org (زبان عربی)- تاریخ اخذ شده به تاریخ:  23 اپریل 2024ء-</ref>
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}

نسخہ بمطابق 22:12، 22 اپريل 2024ء

اخوان المسلمین شام
اخوان المسلمین سوریه.png
قیام کی تاریخ1949 ء، 1327 ش، 1367 ق
بانی پارٹیمحمد ریاض الشقفه
پارٹی رہنما
  • اسلام مخالف عناصر سے مقابله
  • محمد فاروق طیفور
  • محمد حاتم الطبشی
  • علی صدرالدین البیانونی
  • محمود یونس الشریبنی
  • جلال‌الدین ابراهیم سعده
مقاصد و مبانی
  • اسلام مخالف عناصر سے مقابله
  • سماجی اور سیاسی امور میں اسلامی احکام کا نفاذ

اخوان المسلمین شام ایک اسلام پسند سنی تنظیم هے- جو مصر کی بین الاقوامی تنظیم اخوان المسلمین کا شاخ هے ۔ یه تنظیم شام کے سیاسی اور ثقافتی حالات پر گهری نظر رکھتی هے اور تنظیمی ڈھانچه اور نظم کے اعتبار سے ایک منظم تنظیم هے ۔ شام پر مسلط سیاسی نظام کے مخالف هونے کے باوجود اس تنظیم نے شام کے تمام سیاسی اور معاشرتی امور پر گهرا اثر چھوڑا هے . اس تنظیم پر پابندی اور اهم ممبران اور راهنماوں کی جلاوطنی کے با وجود شام میں هونے والی خانه جنگی کے ایک سال بعد اس نے شام کی قومی اسمبلی کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا هے ۔ اخوان المسلمین کے ممبران همیشه شام کی حکومت کے بڑےبڑے عهدوں پر فائز رهے هیں۔ [1]

تاسیس

اخوان المسلمین کے نظریات کی بنیاد ، ان طلبا ء کے توسط سے رکھی گئی جو مصر کے دارالحکومت قاهره سے- اخوان المسلمین مصر کے بانی حسن البنا کے نظر یات سے متاثر هو کر واپس شام آئے تھے . انهی طلبا میں سے ایک مصطفی سباعی تھے تاهم مصطفی سباعی نے شام کے شهر حلب میں اخوان المسلمین مصر کی پیروی کرتے هوئے سنه 1945ء کو شام پر قابض فرانسیسی استعمار سے مقابله کرنے، شام کی معیشتی صورت حا ل کو درست کرنے اور عرب دنیا کے حلفشار کو اسلام کےاحیاء کے زریعے دور کرنے کی خاطر اخوان المسلمین شام کی بنیاد رکھی ۔ السباعی اپنی تحریک کو ایک نیا انقلاب تصور کرتا تھا جس کا هدف- اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔

حقیقت میں شام کی اخوان المسلمین تنظیم کی تشکیل کا آغاز سنه 1930ء میں فرانسیسی استعمار کے خلاف هوا - سنه 1935 ء کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں اخوان المسلمین مصر کے اهداف کو مصر سے باهر فروغ دینے پر گفتگو کی گئی جس کے نتیجے میں اسلامی ممالک میں اسی نظریه سے متاثر افراد کی جدو جهد سے مختلف ناموں کی تنظیمیں وجود میں آئیں اور مصر کی اخوان المسلمین تنظیم کے سربراه حسن البنا کے نظریات سے متاثر طلبا شام کے قدیم شهروں جیسے دمشق، حمص اور حلب میں چھوٹی تنظیموں کی تشکیل میں کامیاب هوئے ۔ جب شام میں ایک منظم تنظیم کی تشکیل کے مقدمات فکری اور نظریاتی طور پر فراهم هوئے تو اخوان المسلمین کے راهنماؤں نے سنه 1944ء میں منعقده کانفرانس میں- اخوان مسلمین شام کی تشکیل کو یقینی بنائی اور اس کانفرانس میں جمعیت جوانان محمد نامی تنظیم کو اخوان المسلمین کے نام پر متحد کرنے اور مصطفی السباعی جو که جمعیت انجمن دینی کے سکریٹری جنرل تھے- اخوان المسلمین کے سرپرست اعلی کے طور پر مقرر کرنے کی بات طے هوگئی ۔ اس طرح اس تنظیم کی بنیاد وں کو نیے سرے سے تعمیر کی گئی اور تنظیمی ڈھانچے پر نظر ثانی کی گئی اور اس نے ایک فلاحی گروپ سے نکل کر ایک مکمل پارٹی کی شکل اختیار کی اور سنه 1945 ء کو با قاعده طور پر اپنی سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

اخوان المسلمین شام نے ترقی کے مراحل تیزی سے طے کی یها ں تک که جب سنه 1949 میں اخوان المسلمین مصر کے موسس حسن البنا کا قتل هوا تو اس تنظیم کے تمام ممبران اور حامیوں کی نگاه اخوا ن مسلمین شام کی طرف گئی اور مصطفی السباعی تنظیم کے سرابراه کے طورپر منتخب هونے والے امید واروں میں پهلے نمبر پر تھے۔ [2]

شام کی اخوان المسلمین تنظیم پر اسلامی انقلاب کے اثرات

ایران میں انقلاب اسلامی اس وقت وقوع پذیر هوا جب دنیا میں کوئی بھی- دین کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر ماننے کو تیار نهیں تھا اور صرف دو آئیڈیالوجی سوشلزم اور لبرلزم کی تحت کائنات کی تفسیر هوتی تھی اور سب لوگ تمام سیاسی ، معیشتی اور سماجی امور میں انهی دو نظریات کی پیروی کرتے تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اسلام کو سیاسی اور اجتماعی میدان میں ایک مکمل آئیڈیالوجی کے طور پر متعارف کرایا۔ کیونکه یه انقلاب اسلامی نظریات کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا لهذا اس نے دین کو- انسانی سماج کے تمام سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی امور میں موثر نظریے کے طورپر متعارف کرایا۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے نه صرف شما لی افریقا اور مشرق وسطی میں موجود اسلامی دنیا کے تمام تحریکوں اور نهضتوں میں ایک نیا شوق اور جذبه پید ا کیا اور ان کو جمود اور مایوسی سے نکال کر بلند اهداف تک پهنچنے کے لئے پر امید بنا یا بلکه مسلم ممالک میں بهت ساری موثر تحریکوں اور نهضتوں کی تاسیس کا باعث بنا۔ ایران کےاسلامی انقلاب نے شام کی اخوان المسلمین تنظیم پر غیر مستقیم طور پر اثرات چھوڑا وه اس طرح که اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اخوان المسلمین مایوسی اور نا امیدی سے نکل کر پر امید انداز میں اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو وسیع پیمانے پر سرانجام دینے کے لئے پر عزم هوئی اور خاص کر ظالم حکمرانوں سے مقابله کرنے اور استعماری طاقتوں سے جهاد کرنے کا نیا راسته اپنایا اور بعث حکومت کے خلاف ان کی کاروائیوں میں جدت اور حدت دیکھنے کو ملتی هے. اخوان المسلمین شام کے راهنماؤں نے شروع سے هی اسلامی انقلاب کی حمایت کا اعلان کیا ۔ سنه 1980ء کو النذیر نامی رسالے میں ایک بیان منتشر هوا اس میں اخوان المسلمین شام کی طرف سے کها گیا تھا که ایران کے اسلامی انقلاب اسلامی دنیا کےتمام نهضتوں کا انقلاب هے اگر چه ان نهضتوں کا مکتب فکر مختلف هی کیوں نه هو۔ اس بیان کے میں یه بھی آیا تھا که ایران کے اسلامی انقلا ب سے کسی قسم کی خیانت- تمام مسلم تحریکوں کے لئے نقصان کا باعث هے۔ کها گیا تھا که هم ایران میں امریکا کے سفارت کاروں کی گرفتاری کی حمایت کرتے هیں اور امریکا کو اسلامی انقلاب کے خلاف جنگ بند کردینی چاهئے۔۔۔ شام کی اس اسلامی تحریک نے تاکید کی تھی که امام خمینی کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کا بهترین نمونه پیش کیا جس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نهیں ملتی۔ اخوان المسلمین شام نے پهلی بار اپنے لئےانقلاب کا لفظ استعمال کیا اور اپنے نشریات میں "شام کے اسلامی انقلاب" جیسی عبارتوں کا استعمال ان کا ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر هونے کی دلیل هے۔ [3]

بشار الاسد کی حکومت اور اخوان المسلمین کا رد عمل

1996ء کے بعد اور "علی صدرالدین البیانونی" کے اخوان کے سربراہ کے طور پر منتخب ہونے کے بعد، حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں بشار الاسد برسراقتدار آنے کے بعد اخوان کے سینکڑوں ارکان کو رہا کر دیا گیا۔ تاہم اخوان کے اور بھی مطالبات تھے، جیسے کہ اخوان کے تمام قیدیوں کی رہائی، جلاوطنوں کی واپسی، اور اخوان کی سرگرمیوں پر سے پابندی اٹھانا، جو پورے نہیں ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب بشار الاسد برسر اقتدار آئے تو ملک میں سیاسی اصلاحات کے حصول کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا۔ مئی 2001ء میں، اخوان نے شام میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے اپنے نام نہاد "قومی معاہدے" کے منصوبے کی نقاب کشائی کی اور اسے اگست 2002ء میں لندن میں ہونے والی کانفرنس میں پیش کیا۔ اگرچہ اس دستاویز کا، حزب اختلاف کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا لیکن شامی حکومت کو یہ پسند نہیں آیا۔ 2006ء میں، اخوان کے رہنماؤں نے "پرامن طریقے سے" حکومت کا تختہ الٹنے اور ایک سول اور جمہوری نظام قائم کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سال اخوان نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والے نائب صدر عبدالحلیم خدام کی حمایت سے نیشنل لبریشن فرنٹ (جبہة الخلاص الوطنی) تشکیل دیا۔ دوسری طرف ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے سے اخوان کو مزید حمایت کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ 2010ء میں استنبول میں اخوان کی جنرل کونسل نے "محمد ریاض الشافقہ" کے انتخاب کے بعد ترک حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کے لیے کہا اور یہاں تک کہ یہ تجویز بھی دی کہ اگر اخوان کو شام واپس جانے کی اجازت دی جائے تو وہ پارٹی کا نام بھی تبدیل کرنے کے لئے تیار هیں۔ 2011ء میں شام میں بدامنی کے آغاز کے ساتھ، اخوان نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ پچھلی دہائیوں کے طرز عمل میں تبدیلی آئی ہے اور ان صورت حال کے بارے میں پر امن رویه اختیار کریں گے لیکن بعد میں انهوں نے قدامت پسند موقف اپنا یا اور اپریل کے آخر تک کسی سرکاری بیان کا اظہار نہیں کیا۔ . تاہم، اسلامی بیداری (عرب بہار) کی پیش رفت اور اخوان کی عالمی تحریک کے عروج نے شامی اخوان المسلمین کو مہم میں شامل کیا۔ اخوان، جو سمجھتا تھا کہ یہ کھیل کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے، اب نہ صرف پابندی کی منسوخی پر راضی نهیں بلکہ وہ نظام کے مکمل خاتمے کا خوهاں هے۔ اکتوبر 2011ء میں محمد الشفقه کی کوششوں سے اخوان نے شام کی قومی کونسل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تاکہ مصر اور تیونس کی طرح عالمی برادری کے سامنے اخوان کا ایک طاقتور اور سیاسی امیج پیش کیا جا سکے۔ مارچ 2012 میں اخوان کی طرف سے پیش کردہ "معاہدہ عہد و میثاق " کے دستاویز میں، مستقبل کے شامی نظام کا خاکہ اس طرح تیار کیا گیا تھا: "ایک سول، جدید، جمہوری اور تکثیری ریاست۔" شام کی رائے عامہ، حزب اختلاف کی تحریکوں اور مسلح گروہوں میں اخوان کے اثر و رسوخ اور حقیقی پوزیشن کا تعین کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں تک کہ قومی اپوزیشن اتحاد کی سرکاری ویب سائٹ میں اخوان المسلمون کا نام ذیلی گروپوں میں بھی نہیں ملتا۔ میدان میں ہونے والی پیش رفت میں ہمیں کوئی ایسا گروہ نہیں ملے گا جو کہے کہ یہ اخوان کی عسکری شاخ ہے، جب کہ یہ بات سب پر واضح ہے کہ ان میں سے بہت سے گروہ یا تو اخوان کے افکار سے متاثر تھے یا پھر اخوان کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کے حلقوں میں حاضر تھے۔ [4]

حوالہ جات

  1. جماعةالإخوان المسلمين في سورية (شام کی اخوان المسلمین تنظیم)-carnegie-mec.org (زبان عربی)- تاریخ اخذ شده به تاریخ 17 اپریل 2024ء-
  2. تقوی، لیلا- وحید فر، سعیده ، بررسی نقش اخوان المسلمین در تحولات سیاسی سوریه ص 74تا 76۔
  3. بازتاب انقلاب اسلامی بر جنبش اخوان المسلمین سوریه (شام کے اخوان المسلمین تنظیم پر انقلاب اسلامی کے اثرات)- www.sid.ir (زبان فارسی)- درج شده به تاریخ: 1391- اخذ شده به تاریخ: 20 اپریل 2024ء-
  4. جماعةالإخوان المسلمين في سورية (شام کی اخوان المسلمین تنظیم)-carnegie-mec.org (زبان عربی)- تاریخ اخذ شده به تاریخ: 23 اپریل 2024ء-