"جیش العدل" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 15: سطر 15:


لیویز اہلکار نے مزید بتایا کہ میزائل حملوں کے سبب علاقے میں شدید خوف و حراس پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مکین اپنے گھروں میں خوف کے مارے محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو رات گئے اپنے گھروں سے نکل مکانی کرچکے ہیں <ref>غالب نہاد، فضائی حدود کی ایرانی خلاف ورزی اور جیش العدل، ماجرا کیا ہے؟،[https://wenews.pk/news/122031/ wenews.pk]</ref>۔
لیویز اہلکار نے مزید بتایا کہ میزائل حملوں کے سبب علاقے میں شدید خوف و حراس پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مکین اپنے گھروں میں خوف کے مارے محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو رات گئے اپنے گھروں سے نکل مکانی کرچکے ہیں <ref>غالب نہاد، فضائی حدود کی ایرانی خلاف ورزی اور جیش العدل، ماجرا کیا ہے؟،[https://wenews.pk/news/122031/ wenews.pk]</ref>۔
== ایران کے جيش العدل تنظيم پر حملوں کے محرکات اور حکومت پاکستان کی مذمت کے تناظر میں  کچھ گزارشات ==
ایران نے جيش العدل نامی سعودي فنڈڈ تکفیری دہشت گرد گروہ کے پاکستان میں موجود خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس پر پاکستان نے سرکاری طور پر شدید الفاظ میں مذمت کی ہے
جس کے بعد کچھ عناصر سیخ پا نظر آتے ہیں اور اسے پاکستان کی خودمختاری  پر حملہ قرار دے رہے ہیں
تو اول تو عرض ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ یہ حملے پاکستانی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر کئے گئے ہوں
کیونکہ حالیہ چند دنوں سے ایران و پاکستان کے اعلی عہدیداروں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے.
دوم یاد رکھیں کہ یہ ہر حکومت کی میڈیا پالیسی ہوتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات پر بظاہر مذمت کرتی ہے
ورنہ یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک نے اپنے اندر دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے. اگرچہ تلخ حقیقت یہی ہے۔
تیسری بات بفرض محال اگر پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر یا پاکستان کی عدم رضا مندی کے ساتھ یہ قدم اٹھایا گیا ہے
تو یہ سوال حکومت پاکستان سے ہونا چاہئے کہ کیونکر ایک آزاد اور خودمختار ملک کے اندر ایسی دہشتگرد تنظیم کے ٹھکانے موجود ہیں
جو سال ہا سال سے ہمسایہ ملک میں جا کر آئے دن نہتے افراد کا خون بہا کر دوبارہ ہمارے ملک میں آکے پناہ گزین ہو جاتے ہیں
آپ ایران کی جگہ پاکستان کو رکھ لیں کیا ہمارے ساتھ ایسا ہو تو ہمارا کیا رد عمل ہوگا
اور پھر یہ چند دنوں کی بات نہیں سالہا سال یہ سلسلہ چل رہا ہے جہاں ایک طرف سینکڑوں ایرانی پولیس اور فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہیں بڑی تعداد میں عام نہتے شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے
یاد رہے حالیہ [[کرمان میں دہشت گردانہ حملہ|کرمان]] میں ہونے بم حملوں سے لیکر چند روز قبل ایرانی پولیس آفیسرز کے قتل کے تانے بانے بھی اسی تنظیم سے ملتے ہیں.
ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم مسلے کو يا تو شیعہ سنی بنکے دیکھتے ہیں یا پھر وطن دوستی کے تناظر میں دیکھتے ہیں
جبکہ اگر وطن دوستی کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو یہ عناصر نہ فقط ایران بلکہ ملک عزیز پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں اور ہر پاکستانی محب وطن شہری کو اپنے سیکیورٹی اداروں کے سامنے یہ آواز اٹھانی چاہیئے کہ ان دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرکے انکی جڑوں کو ملک عزیز پاکستان سے کاٹ پھینکنا چاہیے
تاکہ آیندہ کسی اور ملک کو اس قسم کی کارروائیوں کا موقع نہ مل سکے
== ایران نے پاکستان میں موجود جیش العدل گروہ پر کیوں حملہ کیا ؟ جیش العدل کون ہیں ؟ جیش العدل نے ایران میں کیا کیا؟ ==
جیش العدل ایران کے جنوب مشرق میں اور خاص طور پر صوبہ سیستان و بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں میں سے ایک کا نام ہے، اس کی بہت سی قوتیں اپنی جنگی طاقت کو منظم کرنے اور بڑھانے کے لیے پاکستان میں سرگرم ہیں۔ یہ گروہ ایران مخالف اور سیستان و بلوچستان کی ایران سے علیحدگی کیلئے سرگرم ہے۔ اس دہشت گرد گروہ نے ایران میں کئی دہشت گرد اور خودکش کارروائیاں کی ہیں اور درجنوں ایرانی فوجی اور سویلین فورسز کے جوانوں کو شہید کیا ہے۔
جیش العدل دہشت گرد گروہ نے 2017 کو پاسداران انقلاب اسلامی کے سرحدی محافظ دستوں کو لے جانے والی بسوں میں سے ایک کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں درجنوں فوجی اہلکار شہید اور زخمی ہوئے۔
== گروپ کمانڈ ==
اس گروہ کا سرغنہ رسول الدین فاروقی اہل راسک میں سے ہے۔
وہ عبدالمالک ریگی کی قیادت میں جنداللہ دہشت گرد گروہ کی سابقہ  افواج میں سے ایک ہے، جس نے اس دہشت گرد گروہ کے خاتمے کے بعد جیش العدل دہشت گرد گروہ کو فعال کیا۔
== تنظیم ==
جیش العدل دہشت گرد گروہ کی تین معروف عسکری شاخیں ہیں: "عبدالمالک ملا زادہ" ملٹری گروپ، "شیخ ضیائی" ملٹری گروپ، اور "مولوی نعمت اللہ توحیدی" ملٹری گروپ۔
ان تینوں گروپوں کے ساتھ ساتھ "زبیر سمائل زاہی" انفارمیشن برانچ بھی فعال ہے۔
زبیر سمائل زاہی "نعمت اللہ توحیدی" گروپ کا کمانڈر تھا، جو ایک فوجی آپریشن کے دوران مارا گیا
== اس گروہ کی کچھ دہشت گردانہ کارروائیاں ==
جیش العدل دہشت گرد گروہ نے 2010 میں شہریار میں انقلاب اسلامی کے درجنوں سپاہیوں کی شہادت کا دعویٰ کیا تھا۔ اسی سال اس گروہ نے ایک بار پھر پاسداران انقلاب اسلامی کے 10 اہلکاروں کی شہادت کا دعویٰ کیا۔
3 نومبر 2013 کو اس دہشت گرد گروہ کے ارکان نے سراوان کے علاقے میں سرحدی گشت پر اچانک حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایرانی سرحدی پولیس کے 14 اہلکار شہید اور 7 زخمی ہوگئے۔ حملے کے بعد حملہ آور ایران پاکستان سرحد عبور کر کے پاکستان میں چھپ گئے۔
اپنے سرکاری بلاگ پر شائع ہونے والے بیان میں، انہوں نے اس کارروائی کی وجہ "ایرانی بلوچ نوجوانوں کے دفاع" اور [[شام]] کی خانہ جنگی میں ایران کی مداخلت کو بھی بتایا۔
اس واقعے کے بعد ایران کی عدلیہ نے ایک بے مثال اقدام کرتے ہوئے اس گروہ کے 16 افراد کو پھانسی دے دی۔
نجا بارڈر پولیس کے سربراہ سردار حسین ذوالفقاری نے اس کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "ان مجرموں کو اس دن پھانسی نہیں دی جانی تھی، ان کی سزا پہلے ہی جاری اور منظور ہو چکی تھی، لیکن عدالتی نظام نے سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا تاکہ ان مجرموں کو پھانسی دی جائے۔
ان کے ساتھ اسلامی سلوک کیا جا سکتا ہے۔" سراوان میں دہشت گردی کے واقعے کے رونما ہونے کے ساتھ ہی، اہلکار اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ دوسرے مقاصد کا تعاقب کر رہے تھے، اور اس کے نتیجے میں، انہوں نے رفعت کو چھوڑ دیا۔"
== ایرانی سرحدی محافظوں کا اغوا ==
جیش العدل دہشت گرد گروپ نے فروری 2013 میں ایران پاکستان سرحد کے قریب سے پانچ ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا کیا تھا اور کچھ عرصے بعد ان کی ایک تصویر شائع کی تھی۔
بعد ازاں سرحدی محافظوں میں سے ایک کی شہادت اور چار دیگر سرحدی محافظوں کی شہادت کے حوالے سے جیش العدل کی دھمکیوں کی رپورٹ شائع کی گئی۔
جیش العدل نے اس گروپ کے 50 قید ارکان، ایران میں قید 200 شہریوں اور 50 خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا، جنہیں جیش العدل کے مطابق شام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
== پولیس فورس کے آٹھ سرحدی محافظوں کی شہادت ==
17 اپریل 2015 کو اس دہشت گرد گروہ کے ارکان جاکیگور کے نیچے 239 سرحدی میل کے فاصلے پر ناگور کے علاقے میں پاکستان کی حدود سے ایران کی حدود میں داخل ہوئے اور آٹھ ایرانی سرحدی محافظوں کو شہید کر کے پاکستان واپس آگئے۔
== میرجاویہ بارڈر پر نو ایرانی سرحدی محافظوں کی شہادت ==
اس دہشت گرد گروہ کے ارکان نے 6 مئی 2016 بروز بدھ کو پاکستان کے اندر سے فائرنگ کر کے چاہندو گروپ (میرجاوی بارڈر رجمنٹ) کے دس ایرانی سرحدی محافظوں کو شہید کر دیا تھا جو مل 100 چوکی پر تعینات تھے۔
اور رات آٹھ بجے چوکی پر ڈیلیور کرنے والے تین کیڈر اور چھ سپاہی شہید ہو گئے۔
== ایرانی فوجی دستوں کا ایک بار پھر اغوا ==
24 اکتوبر 2017 بروز منگل اس دہشت گرد گروہ کے ارکان پاکستان کی حدود سے صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہر میرجاوہ سے 50 کلومیٹر دور "رگ ملک" سیکشن میں "لولکدان" کے علاقے میں گھس آئے اور سرحد کے چودہ مسلح ارکان کو نشانہ بنایا۔ اس علاقے میں گارڈز مارے گئے۔
دیگر کو گرفتار کر کے پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔
== 11 مارچ 2018 کو جیش العدل نے حملہ کر کے دو ایرانی سپاہیوں کو زخمی کر دیا۔ ==
اسی سال اپریل میں میرجاویہ میں ایک پولیس چوکی کے قریب ایک دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے تین ایرانی افسران اور تین دہشت گرد مارے گئے تھے۔
26 جون کو، دہشت گردوں نے میرجاوہ میں آئی آر جی سی کی ایک پوسٹ پر دوبارہ حملہ کیا، حملے میں تین دہشت گرد اور چار فوجی مارے گئے۔
16 اکتوبر کو، جیش العدل نے میرجاوہ میں دوبارہ حملہ کر کے 12 سیکورٹی اہلکاروں کو زہر دے کر اغوا کر لیا، اور پاکستان لے جایا گیا۔
5 یرغمالیوں کو 15 نومبر 2018 کو رہا کیا گیا تھا، اور 22 مارچ 2019 کو مزید چار یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ جیش العدل نے اغوا کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
دسمبر 2018 میں اس گروہ نے بندرگاہی شہر چابہار میں ایک خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں دو پولیس افسران ہلاک اور بیالیس دیگر زخمی ہوئے۔
29 جنوری 2019 کو، گروپ نے زاہدان میں ایک دوہرے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق 2 فروری 2019 کو جیش العدل نے جنوب مشرقی ایران میں بسیج نیم فوجی اڈے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
اس حملے میں ایک نیم فوجی اہلکار ہلاک اور پانچ دیگر زخمی ہوئے۔
== زاہدان کور کے عملے کی بس میں دھماکہ ==
13 فروری 2019  کو جیش العدل دہشت گرد گروہ نے خاش-زاہدان روڈ پر پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس کیمپ سے فوجیوں کو لے جانے والی بس پر دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کا استعمال کرتے ہوئے خودکش حملہ کیا۔
آئی آر جی سی کے اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 27 اور زخمیوں کی تعداد 13 ہے۔ قدس ہیڈ کوارٹر نے اس واقعے کے کچھ دیر بعد ایک نوٹس جاری کیا۔
30 جون کو ایران کے شہر زاہدان کے علاقے کورین میں اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے قافلے پر دھماکہ خیز مواد سے دھماکہ ہوا جس میں ایک فوجی زخمی ہوا۔
جیش العدل نے بعد میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
8 جولائی 2023 کو، گروپ نے زاہدان میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں دو پولیس افسران ہلاک ہوئے۔
چاروں مسلح مجرموں کی جائے وقوعہ پر ہی موت ہو گئی۔
جبکہ حال ہی میں دسمبر 2023 میں اس گروہ نے ایران کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا اور متعدد پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔
ایران نے کئ بار اس حوالے سے پاکستان سے بات کی کہ بارڈر سے اس دہشت گردی کو روکا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہ کرنے کے باعث ایران نے خود اس دہشت گرد گروہ جو ایرانی حکومتی کارندوں اور فورسس کے قتل میں ملوث ہے پر راکٹوں سے حملہ کیا۔
جیش العدل نے اپنے بیان میں اس بات کو تسلیم کیا کہ ہمارے اڈے پر ایرانی مزائلوں سے حملہ کیا گیا ہے اور ہیڈ کوارٹر کو تباہ کیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستانی حکومت نے اس حملے کی مذمت کی اور بیان دیا کہ اس سے دو معصوم بچے ہلاک ہو گئے ہیں، جبکہ جیش العدل اپنے بیان میں اسے اپنے اڈوں پر حملہ تسلیم کر چکا ہے <ref>بعثت خبر
17 جنوری 2024</ref>۔
== پاک ایران کشیدگی، نقصان امریکہ و بھارت کا ==
== پاک ایران کشیدگی، نقصان امریکہ و بھارت کا ==
اردو میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ بعض مبصرین کے خیال میں موجودہ حالات میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ اگر پاکستانی افق پر حالیہ دنوں پر غور و فکر کیا جائے تو اس بات میں کوئی شک موجود نہیں ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کافی سنجیدہ ہیں۔ خاص طور پر جب سے جنرل سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی ہے، دہشت گردی کو ختم کرنے کا ارادہ قوی طور پر پایا گیا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی اسی کی ہی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح آرمی چیف نے تمام علماء کو دعوت دے کر نہایت کھل کر افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں گفتگو کی اور کہا کہ پاکستان تحریک طالبان خوارج ہیں اور علماء کو باقاعدہ تنبیہ کی گئ کہ علماء ان کی پشت پناہی سے بعض آجائیں۔ اسی طرح [[الر|مولانا فضل الرحمن]] کا حالیہ دورہ افغانستان کو بھی نہایت اہمیت حاصل ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان فوج نے مولانا فضل الرحمن کے زریعے افغانستان کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب سے طالبان کی دہشت گردوں کی پشت پناہی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی مسلک دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا کا تعلق بھی مسلک دیو بند سے ہے، اس لیے ان میں آپس میں قرابت پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے جید علماء نے بھی پاکستانی ریاست کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کے جہاد کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ سب وہ اقدامات ہیں جنہیں نہایت ہی واضح طریقے سے پاکستان کے افق پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔  
اردو میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ بعض مبصرین کے خیال میں موجودہ حالات میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ اگر پاکستانی افق پر حالیہ دنوں پر غور و فکر کیا جائے تو اس بات میں کوئی شک موجود نہیں ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کافی سنجیدہ ہیں۔ خاص طور پر جب سے جنرل سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی ہے، دہشت گردی کو ختم کرنے کا ارادہ قوی طور پر پایا گیا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی اسی کی ہی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح آرمی چیف نے تمام علماء کو دعوت دے کر نہایت کھل کر افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں گفتگو کی اور کہا کہ پاکستان تحریک طالبان خوارج ہیں اور علماء کو باقاعدہ تنبیہ کی گئ کہ علماء ان کی پشت پناہی سے بعض آجائیں۔ اسی طرح [[الر|مولانا فضل الرحمن]] کا حالیہ دورہ افغانستان کو بھی نہایت اہمیت حاصل ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان فوج نے مولانا فضل الرحمن کے زریعے افغانستان کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب سے طالبان کی دہشت گردوں کی پشت پناہی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی مسلک دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا کا تعلق بھی مسلک دیو بند سے ہے، اس لیے ان میں آپس میں قرابت پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے جید علماء نے بھی پاکستانی ریاست کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کے جہاد کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ سب وہ اقدامات ہیں جنہیں نہایت ہی واضح طریقے سے پاکستان کے افق پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔