"حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 87: سطر 87:
آپ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: اس سرزمین میں ایک بادشاہ ہے جس کی طرف سے کسی پر ظلم نہيں کیا جاتا۔ وہیں چلے جاو اور وہیں رہو حتی کہ خداوند متعال تمہیں اس مصیبت سے نجات دلائے۔ قریش کو جب جب معلوم ہوا کہ نومسلم حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں تو انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں وہاں سے لوٹا دیں۔ نجاشی نے قریش کے نمائندوں کا موقف اور مسلمانوں کا جواب سننے کے بعد مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور یوں قریش کے نمائندے خالی ہاتھوں مکہ واپس آگئے
آپ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: اس سرزمین میں ایک بادشاہ ہے جس کی طرف سے کسی پر ظلم نہيں کیا جاتا۔ وہیں چلے جاو اور وہیں رہو حتی کہ خداوند متعال تمہیں اس مصیبت سے نجات دلائے۔ قریش کو جب جب معلوم ہوا کہ نومسلم حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں تو انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں وہاں سے لوٹا دیں۔ نجاشی نے قریش کے نمائندوں کا موقف اور مسلمانوں کا جواب سننے کے بعد مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور یوں قریش کے نمائندے خالی ہاتھوں مکہ واپس آگئے


یہ بھی منقول ہے کہ قریش نے ابو طالب سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس راستے سے روک دے جس پر وہ چل رہا ہے۔ ابو طالب نے ان کی باتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تو میں اس وقت تک اپنی پکار نہیں چھوڑوں گا۔ خدا اسے اس معاملے میں فتح یاب کرے یا اس طرح میری جان گنوا دے۔
یہ بھی منقول ہے کہ قریش نے [[ابوطالب]] سے کہا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اس راستے سے روک دے جس پر وہ چل رہا ہے۔ ابو طالب نے ان کی باتوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تو میں اس وقت تک اپنی پکار نہیں چھوڑوں گا۔ خدا اسے اس معاملے میں فتح یاب کرے یا اس طرح میری جان گنوا دے۔
 
== بنی ہاشم کا محاصرہ ==
== بنی ہاشم کا محاصرہ ==
مکہ میں اسلام کی ترقی اور نجاشی کی طرف سے نو مسلموں کی واپسی کی مخالفت کے بعد، قریش نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بنی ہاشم کو اقتصادی اور سماجی پابندیوں میں ڈال دیا۔ انہوں نے ایک عہد لکھا اور عہد کیا کہ ہاشم اور عبدالمطلب کے بچوں کو بیویاں نہیں دیں گے، نہ ان سے بیویاں مانگیں گے، نہ ان کو کوئی چیز بیچیں گے اور نہ ان سے کوئی چیز خریدیں گے۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں عقد لٹکایا۔ اس کے بعد بنی ہاشم نے شعب ابی یوسف میں قیام کیا جسے بعد میں شعب ابی طالب کہا گیا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص53</ref>۔
مکہ میں اسلام کی ترقی اور نجاشی کی طرف سے نو مسلموں کی واپسی کی مخالفت کے بعد، قریش نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور بنی ہاشم کو اقتصادی اور سماجی پابندیوں میں ڈال دیا۔ انہوں نے ایک عہد لکھا اور عہد کیا کہ ہاشم اور عبدالمطلب کے بچوں کو بیویاں نہیں دیں گے، نہ ان سے بیویاں مانگیں گے، نہ ان کو کوئی چیز بیچیں گے اور نہ ان سے کوئی چیز خریدیں گے۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں عقد لٹکایا۔ اس کے بعد بنی ہاشم نے شعب ابی یوسف میں قیام کیا جسے بعد میں شعب ابی طالب کہا گیا <ref>شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص53</ref>۔