"علی عبد الرازق" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 24: سطر 24:
دین اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے، یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے انسان کو آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے طریقے بھی سکھاتا ہے، عیسائیت کی طرح اسلام '''کلیسا'''  اور '''ریاست''' کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا، بقول ڈاکٹرمحمود احمدغازی کے:"اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناں چہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کم زورپڑتاہے تو حکومت بھی کم زورپڑجاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہو تی ہے تودین بھی کم زورپڑجاتاہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔“ <ref>محاضراتِ شریعت :ص287</ref>۔
دین اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے، یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے انسان کو آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے طریقے بھی سکھاتا ہے، عیسائیت کی طرح اسلام '''کلیسا'''  اور '''ریاست''' کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا، بقول ڈاکٹرمحمود احمدغازی کے:"اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناں چہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کم زورپڑتاہے تو حکومت بھی کم زورپڑجاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہو تی ہے تودین بھی کم زورپڑجاتاہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔“ <ref>محاضراتِ شریعت :ص287</ref>۔
== کتاب کا محتوا ==
== کتاب کا محتوا ==
زیر تبصرہ کتاب" اسلام اور اصول حکومت"مصر کے معروف عالم دین شیخ علی عبد الرازق کی عربی تصنیف"الاسلام اصول الحکم "کا اردو ترجمہ ہے۔ترجمہ محترم راجا محمد فخر ماجد نے کیا ہے۔ مولف نے اس کتاب میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصول وتصورات بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوران کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔
مولف نے اس کتاب میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصول وتصورات بیان فرمائے ہیں۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ایک ایسے موضوع پر لکھی گئی تھی جو مسلمانان عالم کے نزدیک صدیوں تک ناقابل تردید رہا اور جسے امر خداوندی سمجھا گیا، اہس سے بیشتر کسی مسلمان مصنف نے خلافت کے وجود پر اعتراض نہ کیا تھا اور نہ کسی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ خلافت کا منصب سرے سے ختم کر دینا چاہے۔ حالانکہ اس کا اعتراف اکثر مصنفین کو تھا کہ خلافت کا مقصد وہ نہیں رہا جو خلفائے راشدین کے مد نظرتھا، خلافت کی ضرورت اور اس سے محبت کا اندازہ س بات سے بخوبی ہوسکتا ہے جب 3مارچ 1924ء کو مصطفی کمال اتاترک نے بنو عثمان کی خلافت کا خاتمہ کرکے جمہوریہ ترکی کی بنا ڈالی تو ہر طرف سے مسلمانوں نے اس اقدام کی شدید مخالف کی، دنیا بھر کے مسلمان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اب خود اسلام کی عمارت متزلزل ہوجائے گی۔
ہندوستان متحدہ کے مسلمان بھی اتاترک کی مخالفت میں کسی سےس پیچھے نہ رہے اور '''تحریک خلافت'''ان کے انہیں جذبات کا اظہار تھا ہر مسلمان کی یہ خواہش تھی کہ خلافت کا احیاء کیا جائے اور اگر یہ ادارہ مٹ گیا تو مسلمانوں کی جمعیت پریشان ہوجائے گی اور اسلام کا استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ شریف حسین شاہ نے حجاز میں کچھ دیر کے لیے خلافت کا منصب سنبھالنے پر آمادہ ہو گئے لیکن جلدی ہی دست بردار بھی ہوگئے۔ ان کے بعد مصر میں فواد اول نے علماء اسلام کی ایک کانفرنس بلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ خلافت کا احیاء کیا جائے۔
 
مصر کے مفتی اعظم شیخ علی نے شیخ علی کی کتاب کے جواب میں ایک کتاب '''حقیقۂ الاسلام و اصول الحکم'''کے نام سے 1926ء میں لکھی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ خلافت اسلام کا رکن اول ہے اور اس کے مخالے اسلام کے مخالف ہیں، شیخ علی کے مخالفوں میں مفتی محمد عبدہ کے شاگرد شیخ رشید رضا بھی شامل ہیں جو خلافت کے حامی تھے شیخ رشید رضا کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت ایک ایسا ادارہ ہے جس سے منکر مسلمان نہیں ہوسکتے، ترکی میں خلافت کے خاتمے پر رشید رضا نے خلافت کے احیاء کے لیے پوری جد و جہد کی اور جب مملکت نجد و حجاز میں وہابی خاندان برسر اقتدار آیا تو رشید رضا کو بھی ایک نئی امید پیدا ہوچلی کہ شاید اب خلافت کی تجدید ہوجائے لیکن بد قسمتی سے شاہ ابن سعود نے اس منصب کی ذمہ داری اٹھانے کی ہامی نہ بھری۔
== اسلام اور اصول حکومت ==
 
== علمی آثار ==
== علمی آثار ==
* الإسلام وأصول الحكم
* الإسلام وأصول الحكم