"سید روح اللہ موسوی خمینی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 295: سطر 295:
آج ایرانی قوم کا کہ جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شیدائی اور ان کو دل و جان سے چاہنے والی ہے، سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پیش نظر رکھے ۔ رہبر کبیر انقلاب کی شخصیت، جس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، ان کی تعلیمات، بیانات اور ہدایات کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کافی فاصلہ طے کرنا ہے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس عظیم ملکوتی انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی ہمارے لئے ناشناختہ ہیں۔ ہم نزدیک سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو دیکھا کرتے تھے لیکن اتنی جلدی اس بزرگ شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بزرگ و گرانقدر انسان کی شخصیت اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ہمارے لئے بھی، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، اتنی جلدی ان کی شخصیت کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن اس بزرگ شخصیت کے بیانات ہمارے لئے سبق آموز ہیں اور یہ بیش بہا خزانہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر سے ہم اس عظيم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ادراک کرسکتے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ ان تعلیمات کو چند جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت اور ہر مرحلے میں ان کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایران کے تعلق سے جو صورت حال ہے اور اقوام عالم کے نزدیک ایرانی قوم کو جو پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے پیش نظر، ہمارے ہر دلعزیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم اس اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھیں جو مشیت الہی سے ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ آج ایرانی قوم کے درمیان انقلاب کے ابتدائی دس برسوں کی بہ نسبت زیادہ اتحاد ہے اور یہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ملکوتی شخصیت کی برکات کی بنا پر ہے <ref>زنجان ، نہاوند اور کاشمر کے علماء و حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-6</ref>۔
آج ایرانی قوم کا کہ جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شیدائی اور ان کو دل و جان سے چاہنے والی ہے، سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پیش نظر رکھے ۔ رہبر کبیر انقلاب کی شخصیت، جس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، ان کی تعلیمات، بیانات اور ہدایات کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کافی فاصلہ طے کرنا ہے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس عظیم ملکوتی انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی ہمارے لئے ناشناختہ ہیں۔ ہم نزدیک سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو دیکھا کرتے تھے لیکن اتنی جلدی اس بزرگ شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بزرگ و گرانقدر انسان کی شخصیت اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ہمارے لئے بھی، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، اتنی جلدی ان کی شخصیت کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن اس بزرگ شخصیت کے بیانات ہمارے لئے سبق آموز ہیں اور یہ بیش بہا خزانہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر سے ہم اس عظيم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ادراک کرسکتے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ ان تعلیمات کو چند جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت اور ہر مرحلے میں ان کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایران کے تعلق سے جو صورت حال ہے اور اقوام عالم کے نزدیک ایرانی قوم کو جو پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے پیش نظر، ہمارے ہر دلعزیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم اس اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھیں جو مشیت الہی سے ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ آج ایرانی قوم کے درمیان انقلاب کے ابتدائی دس برسوں کی بہ نسبت زیادہ اتحاد ہے اور یہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ملکوتی شخصیت کی برکات کی بنا پر ہے <ref>زنجان ، نہاوند اور کاشمر کے علماء و حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-6</ref>۔
چارجون کی تلخ یادوں کے ساتھ یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مرحوم امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اگر چہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کی زندہ جاوید تعلیمات و افکار و وصیت ہمارے پاس ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کوئی بھی طاقت اس نعمت کو سلب کرپائے گی اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂ ایران کو اس کے بانی و معلم سے جدا کرپائے گي۔
چارجون کی تلخ یادوں کے ساتھ یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مرحوم امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اگر چہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کی زندہ جاوید تعلیمات و افکار و وصیت ہمارے پاس ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کوئی بھی طاقت اس نعمت کو سلب کرپائے گی اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂ ایران کو اس کے بانی و معلم سے جدا کرپائے گي۔
== امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے وابستہ کچھ یادیں ==
خدا جانتا ہے کہ ان دس سالوں کے دوران، اس دن کے خیال سے دل ہمیشہ لرز اٹھتا تھا۔ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بنا دنیا کا رنگ کیا ہوگا۔ اسی لئے ہم نے کئی بار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا تھا: ہماری خدا سے اہم دعا یہی تھی کہ مجھے آپ سے پہلے اس دنیا سے اٹھالے۔ جب امام خمینی کی طبیعت بگڑ رہی تھی میں نے آئین پر نظر ثانی کرنے والی کاؤنسل کے کچھ اراکین کو بلایا اور کہا کہ امام کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں نظر ثانی کے کام میں تھوڑی تیزی لانی چاہئے اور اس کے مکمل ہونے کی خوش خبری امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو اسپتال میں دینی چاہئے تا کہ انہیں اطمینان حاصل ہوجائے۔ واقعا اس ممکنہ لمحے کے تصور سے میرا دل لرزتا تھا۔ شاید اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد یہ خبر پہنچی کہ یہ نعمت الہی اور گوہر نایاب ہم سے چھن گيا ہے <ref>فوج کے اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-6-7</ref>۔
قوم کے روح رواں امام خمینی کی رحلت اور قوم سے آپ کی جدائي کےبارے میں کچھ کہنا بڑا سخت اور دشوار کام ہےـ ہم تو یتیم ہو گئے۔ دس سال قبل جب آپ کو دل کا دورہ پڑا آّپ کے چاہنے والے افراد جن میں سے بڑی تعداد جام شہادت نوش کرنے کے بعد اس وقت ملکوت اعلی کی زینت بنی ہوئي ہے، پروانہ وار قم پہنچے۔ آپ کو تہران لایا گیا اور دل کے اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ایک ایک پل بڑی مشکل سے گزرتا تھا، ایک انجانا خوف ہر آن ستاتا۔ بارگاہ پروردگار میں ہم سب کی ایک ہی دعا اور التجا تھی کہ خدایا بشریت کی رگوں میں زندگی بھر دینے والے اس پاکیزہ دل کو شفا بخش دے۔ ہماری قوم کی دعا سن لے۔ اپنے عزیز قائد کی جدائي کا تصور ہمارے لئے جان لیوا تھا ہمیں ایسا لگتا تھا کہ گویا دنیا اندھیری ہو جائے گي۔ آج ہمارے سامنے یہی دشوار پل ہے ہم پر مصیبت عظمی ٹوٹ پڑی ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی کوئي مصییبت ہو سکتی ہے ـ
آپ سب نے دیکھا کہ آپ کے امام (رہ) وصیت نامے کے آخر میں ایسے معاملات کی جانب اشارہ کیا گیا جن پر امام اس سے قبل خاموش تھے ۔ بنی صدر کے زمانے میں جب میں امام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ فرماتے تھے کہ وہ میرے حوالے سے جو کچھ کہتا ہے وہ غلط ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ لہذا جو بات بھی ہوتی آپ اس پر فورا مشتعل اور آشفتہ نہیں ہوتے اور اس کا فوری جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ یہ متانت، بردباری، حلم، نفس پر قابو اور وسیع القلبی کی اعلی مثال ہے۔ جس میں بھی یہ صفات ہونگی وہ عظیم انسان ہوگا۔ ساتھ ہی اگر امام (خمینی رح) میں روحانیت ، خدا سے رابطہ، رضائے الہی کے لیے اقدام، تقویٰ، ذمہ داریوں کی ادائیگی جیسی اہم صفات نہ ہوتیں تو انقلاب کامیاب ہوتا اور نہ ہی آپ لوگ اس طرح ان کے گرویدہ ہوتے، وہ نہ تو دنیا میں ایسی ہلچل مچا سکتے تھے اور نہ ہی دشمن کے رعب و دبدے اور دھمکیوں کے سامنے پہاڑ کی مانند سینہ سپر ہوسکتے تھے ۔
اسی حوالے سے ایک واقعہ میرے ذہن میں محفوظ ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ سن 1986 کے اختتام سے چند دن قبل امام(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ کے فرزند رشید جناب احمد خمینی بھی تشریف فرما تھے کسی امام معصوم کا یوم ولادت نزدیک تھا ہم نے امام سے درخواست کی کہ حسینیہ جماران میں لوگوں سے ملاقات فرمائیں۔ امام(خمینی رہ) نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ میں ملاقات نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد میرا مشہد جانا ہوگیا، اچانک امام(خمینی رہ) کو دل کی کوئي تکلیف پیدا ہوئی جناب اخمد خمینی نے جن کا قوم پر بڑا احسان ہے اور جنہوں نے امام خمینی رہ کی بڑی خدمت کی ہے، فوری طور پر ضروری طبی وسائل مہیا کئے۔
جب ھسپتال میں امام(رہ) کی خدمت میں حاضرہوا تو عرض کی، کتنا اچھا ہو ا جو آپ نے اس رات عوام سے ملاقات پر ہمارے اصرار کو قبول نہیں فرمایا ورنہ اگر لوگوں کےساتھ ملاقات کی خبر جار ی ہوجاتی اور لوگ آپ سے ملاقات کے لیے آجاتے اور اس وقت آپ اس حالت میں لوگوں سے ملاقات نہ کر پاتے تو اس کا دنیا میں منفی انداز میں پرو پیگنڈا کیا جاتا۔ آپ نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ۔ انہوں نے میری بات کے جواب میں فرمایا: جہاں تک میں سمجھا ہوں ، ایسا لگتا ہے کہ انقلاب کےآغاز سے اب تک ایک غیبی ہاتھ ہے جو تمام کاموں میں ہماری رہنمائی اور پشتپناہی کررہا ہے۔
عوام اور شہداء کے خاندانوں کے جذبات اور محاذ جنگ پر مجاہدین کا خلوص امام(رہ) کی حالت دگرگوں کئے دیتا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ امام(رہ) کو ، مجالس اور ذکر مصائب سید الشہدا کے علاوہ، روتے دیکھا ہے ۔ جب بھی عوام کے ایثار و قربانی کی بات امام(رہ) کے سامنے ہوتی آپ کی حالت منقلب ہوجاتی۔ مثال کے طور پر جب تہران کی نماز جمعہ کے دوران ، محاذ جنگ کی امداد کے لیے بچوں کی دی ہوئی غلقوں کو توڑا گیا تھا اور پیسوں کا ڈھیر لگ گیا، امام خمینی (رہ) اسپتال میں تھے آپ ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے، میں ان کے پاس تھا، مجھ سے فرمایا : تم نے دیکھا ان بچوں نے کیا کردکھایا! اور میں نے دیکھا کہ اس لمحے آپ آبدیدہ ہوگئے اور رونے لگے۔
انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8
آپ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ذکرخدا اور نمازو دعا میں مصروف رہے۔ حضرت امام خمینی(رہ) کے فرزند الحاج احمد خمینی کہا کرتے تھے: امام( خمینی رہ) اپنی حیات کے آخر دن دوپہر تک بستر پر لیٹے مسلسل نماز پڑھ رہے تھے۔ کافی دیر گزر گئی تو آپ نے پوچھا نمازظھر کا وقت ہوگیا ہے؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ تب آپ نے ظہر اور عصر کی نماز،نوافل کے ساتھ پڑھنا شروع کی۔ نماز ختم کرنے کے بعد آپ تعقیبات میں مشغول ہوگئے اور کوما کی حالت میں جانے تک مسلسل سبحان اللہ والحمد للٌہ ولا الہ الا اللہ اللہ اکبر کہتے رہے ۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے ۔ ہم اگر اپنے رہبر سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں ان کے کاموں اور کردار پر توجہ دینا چاہیے اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے <ref>انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8</ref>۔
انہوں نے ہمیشہ عوام اور قوموں پر ھی بھروسہ کیا۔ بیرون ملک دورے سے قبل امام (خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت ایک ایسا معاملہ درپیش تھا جس پر میں نے آپ سے کہا کہ اس معاملے پر دنیا میں ہمارے خلاف بڑا پروپیگنڈا ہورہاہے البتہ میں یہ بات ان کے علم میں لانا چاہتا تھا ورنہ مجھے بھی عالمی ہنگامہ آرائی کا کوئی خوف تھا اور نہ ہی کوئی ڈر، میں نے سارا ماجرا سنایا۔
آپ ساری دنیا کی خبروں کا بڑے قریب سے ناقدانہ جائزہ لیا کرتے تھے اور شاید عالمی خبریں دوسروں سے پہلے امام(خمینی رہ) تک پہنچ جایا کرتی تھیں ۔ امام (خمینی رہ) نے میرے جواب میں تائیدی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن قومیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اور وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ اس دورے میں ہمارے ساتھ قوموں کی حمایت ایسی کھل کر سامنے آئی کہ سب حیران رہ گئے۔ بنا بر ایں آپ اپنے دوستوں کو بھی بخوبی پہچانتے تھے اور دشمنوں کو بھی، دوستوں پر اعتماد اور بھروسہ کیا کرتے تھے۔ آپ جیسے وفادار عوام ہی امام(خمینی رہ) کے سب سے بڑے دوست تھے اور امام(خمینی رہ) بھی آپ(ایرانی قوم) کو اچھی طرح پہچانتے تھے<ref>نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس 1989-7-15</ref>۔
انقلاب اسلامی کے آغاز سے آج تک مسلسل ذمہ داریاں نبھانے کے دوران، امیرالمومنین (علیہ ‏الصّلاةوالسّلام) کا وہ جملہ ہمیشہ میرے مد نظر رہا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں اذا اشتدّ بنا الحراق التجينا برسول‏اللّہ جب جنگوں میں ہمیں دشوار ترین حالات کا سامنا ہوتا تھا تو ہم دامن رسول خدا(ص) میں پناہ لیتے تھے۔ جب امیرالمومنین (صلوات اللہ علیہ) کا یہ جملہ مجھے یاد آتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ یہ ہم پر بھی صادق آتا ہے ۔ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ مختلف مسائل اور مشکلات کے بارے میں دیگر عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے اور پھر مسئلے کو امام خمینی (رہ) کی خدمت میں لے جاتے اور وہ اپنی باریک بینی، قوت ایمانی کے ذریعے مشکل کو حل کر دیا کرتے ۔ خدا گواہ ہے ،میں نے اپنی پوری زندگی میں خدا پر اس حدتک بھروسہ اور اس سے امید رکھنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ہے ۔ وہ مشکلات اور گتھیاں بآسانی سلجھا دیتے تھے۔ آج وہ ہمارا سرپرست، مضبوط آسرا اور ہماری ڈھارس جو مشکلات میں ہماری پناہ گاہ تھا، ہمارے درمیان نہیں ہے ۔
صدر کی تقرری کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-8-3
ایک(جنگی)قیدی کی ماں نے، نہیں معلوم تبریز میں یا کہیں اور، مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا اسیر تھا ، آج خبر آئی ہے کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔ آپ امام (خمینی رہ) کی خدمت میں جائیں تو ان سے کہہ دیں کہ (میرابیٹا) آپ پر قربان، میں پریشان نہیں ہوں۔ وہ خاتون عجیب حال میں تھی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ مجمع کو ہٹاتی ہوئی آگے آ رہی ہے۔ لوگ آنے نہیں دے رہے تھے، میں نے کہا اسے آنے دیجئے، دیکھیں یہ خاتون کیا کہنا چاہتی ہے ۔ وہ آئی اور اس نے یہ بات مجھ سے کہی ۔ اس کی اس بات سے میں بہت متاثر ہوا ۔ امام(خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، پہلے تو بتانا بھول گیا، باہر آیا تو یاد آیا ، وہاں جو صاحب موجود تھے میں نے ان سے کہا کہ امام(خمینی رہ) سے کہیں کہ ایک بات رہ گئ ہے ۔ آپ (امام خمینی رہ) صحن کے دروازے پر تشریف لائے ، میں بھی وہاں گیا اور جب اس خاتون کی بات ان کو بتائی تو امام کا چہرا متغیر ہوگیا، آپ پرایسی رقت طاری ہوئي کہ مجھے پچھتاوا ہونے لگا کہ میں نے کیوں ان سے یہ بات ذکر کی۔
امام خمینی کی پہلی برسی کی مہتمم کمیٹی کے ارکان کے ساتھ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 22-5-1990
وہ اپنی ذات کےلیے کسی چیز کے خواہشمند نہیں تھے۔ الحاج احمد خمینی مرحوم جو امام(خمینی رہ) کو بہت عزیز تھے اور بارہا ہم نے امام(خمینی رہ) سے سنا کہ یہ(احمدخمینی) مجھے بہت عزیز ہیں۔ وہ امام خمینی (رہ) کی اس دس سالہ قیادت اور رہبری کے دوران ایک گھر بھی نہیں خرید سکے۔ ہم بارہا گئے اور ہم نے دیکھا ہے کہ امام(خمینی رہ) کے فرزند عزیز جناب احمد خمینی، حسینیہ (جماران میں) جہاں امام (خمینی رہ) مقیم تھے، پچھلے حصے میں واقع باغیچے کےدو تین کمروں میں رہتے تھے۔ وہ عظیم انسان اپنے لیے، دنیاوی مال ومتاع کے طالب نہیں تھے، جو تحفے تحائف انکے لیے لائے جاتے تھے وہ انہں بھی راہ خدا میں دے دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ ان کے پاس ہوتا اور جس کا بیت المال سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا وہ بھی بیت المال کی مد میں دے دیا کرتے تھے۔ یہ انسان کے زہد و تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے عزیز ترین فرزند کو دو چار لاکھ روپئے کا گھر بھی دلانے کو تیار نہیں تھے جبکہ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے پاس سے کروڑں تومان ، مختلف علاقوں کی ترقی، غریبوں اور سیلاب زدگان کی مدد میں خرچ کردیاکرتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ بہت سے معاملات میں امام(خمینی رہ) کا ذاتی سرمایہ لوگوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔ یہ سرمایہ وہ تحائف تھے جو امام(خمینی رہ) کے عقیدتمند اور چاہنے والے امام(خمینی رہ) کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔
وہ انسان جس کا عزم و ارادہ قوم کےدشمنوں کو لرزہ براندام کر دیتا تھا، جو دیوار کی طرح مستحکم اور پہاڑ کی طرح ثابت قدم تھا، جب بھی کوئي انسانی اور جذباتی مسئلہ درپیش ہوتا تو انتہائی رحمدل، مہربان انسان کامل دکھائی دیتا تھا۔ میں یہ بات پہلے بھی نقل کر چکا ہوں کہ میرے ایک سفر کے دوران ، ایک خاتوں نے مجھ سے آکر کہا تھا کہ میری جانب سے امام(خمینی رہ) سے کہہ دیجئے گا کہ میرا بیٹا جنگ میں اسیر ہوگیا تھا اور اب خبر آئی ہے کی وہ شہید ہوگیاہے۔ میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے لیکن مجھے کوئی غم نہیں، میرے لئے آپ کی سلامتی زیادہ اہم ہے۔ مجھ سے یہ بات اس خاتون نے انتہائی جذباتی انداز میں کہی تھی۔ میں جب امام(خمینی رہ) کی خدمت حاضر ہوا، امام (خمینی رہ) کھڑے تھے میں نے یہ بات ان سےکہہ دی، میں نے دیکھاکہ استقامت و وقار کا وہی کوہ گراں، اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جیسے کوئي تناور درخت توفان کے باعث ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کی روح اس خاتون کی اس بات سے شدید طور پر متاثر ہوئی تھی <ref>نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس1999-6-4</ref>۔
ایک رات، خصوصی میٹنگ کے دوران، الحاج احمد خمینی مرحوم اور دیگر دو تین افراد کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا۔ امام بھی تشریف فرما تھے۔ ہم میں سے کسی نے کہا: امام آپ روحانی مقام پر ہیں، منزل عرفان پر فائز ہیں ، ہمیں کچھ نصیحت کیجئے اور رہنمائی فرمائیے۔ اس عظیم انسان نے جو روحانیت و معنویت کی اس عظیم منزل پر فائز تھے، ایک شاگرد کے اس مختصر سے تعریفی جملے پر (البتہ ہم سب امام کے شاگرد اور ان کے بیٹوں کی مانند تھے اور وہ بھی ہمارے ساتھ باپ جیسا سلوک کیا کرتے تھے) شرمندگی اور انکساری میں ایسے ڈوب گئے کہ ہم سب کو بڑی تعجب ہوا۔ در حقیقت یہ بات کہہ کر ہم خود ہی شرمندہ ہوگئے۔
<ref>نماز جمعہ کے خطبے سے اقتباس 1999-6-</ref>۔
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:ایران]]
[[زمرہ:ایران]]