"اسرائیل" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 28: | سطر 28: | ||
اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔ | اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔ | ||
== قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات == | == قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات == | ||
انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظرئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمیگر جنگ سے نبرغ آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی تو اسی وقت ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہوئے ہے کیونکا یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرت علاقے میں قائم حزب اللہ میلیشیا جو ایک عسکری تنظیم ہے۔ یہ بھی مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار | انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظرئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمیگر جنگ سے نبرغ آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی تو اسی وقت ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہوئے ہے کیونکا یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرت علاقے میں قائم حزب اللہ میلیشیا جو ایک عسکری تنظیم ہے۔ یہ بھی مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار ہے <ref>محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص77-87</ref>۔ | ||
== امریکی اسرائیلی تعلقات == | |||
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟ | |||
== سیاسی حمایت == | |||
امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔ | |||
== فوجی حمایت == | |||
اسرائیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت پر پابندی کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز میں کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔ | |||
== معاشی تعاون == 1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل نے پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف اشکال میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔ | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == |
نسخہ بمطابق 15:55، 10 نومبر 2023ء
تاریخی پس منظر
لفظ اسرائیل کا مفہوم
تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو بنی اسرائیل یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔
ارض موعود
بائبل کے مطابق خداوند نے ارض اسرائیل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ارض موعود کہا جاتا ہے۔
ارض اسرائیل کا محل وقوع
تناکا یعنی عبرانی بائبل میں ارض اسرائیل کی حدود کے حوالے سے متعدد بیانات ملتے ہیں، تاہم ان کے مطابق ارض اسرائیل مصر کے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر محیط ہے۔ گویا اس میں موجودہ دور کی ریاست اسرائیل غربی کنارہ، غزہ کی پٹی، شام اور لبنان شامل ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما سیناء کو بھی ارض اسرائیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مصر سے بنی اسرائیل کی ملک بدری اسی راستے سے ہوئی تھی۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق دریائے اردن کی مشرقی جانب علاقہ بھی، جس میں بیشتر اردن شامل ہے، ارض اسرائیل کا حصہ ہے۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق خداوند نے مصر سے نکلتے والے بنی اسرائیل کو ارض کنعان عطا کردی تھی [1]۔
ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل
29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرائیل کو مدینات یسرایئل کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں دولۂ الاسرائیل کہتے ہیں۔
ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت فرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس منظروں کی حامل ہے۔
ایلیاہ اور اسرائیل
یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ گزين ہوئے جہیں آج اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عبرانی میں ایلیاہ کہا جاتا ہے۔ ایلیاہ کی دوسری وجہ موشے ہیس کے سوشلسٹ صہیونی نظریات تھے۔ یہودیوں نے عثمانی حکومت کے کارپردازوں اور عرب زمینداروں سے اراضی خرید لی اور بستیاں بساکر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جس کے بعد مقامی عربوں کے ساتھ ان کی کشیدگی بھی رونما ہوئی۔
صہیونیت کی ابتداء
ایک اسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل ویانا کا شہری اور یہودی صحافی تھا 1895ء میں ایک فوجی رسم میں شرکت نے اسے انقلابی سوج دی۔ اس رسم میں ایک یہودی کیٹین الفریڈڈریفنس کو بطور سزا قتل کیا جانے والا تھا۔ مجمع نے جب بلند آواز میں کہا، اس غدارو کو مار دو تو ہرزل کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس نے صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی۔ جو صہیوں نام مقدس پہاڑ سے منسوب ہے۔ سو صحفات پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا جس کا عنوان تھا۔ یہودی ریاست صہیونیت کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس سوئزرلینڈ کے ایک کاسینو (قمار خانے) میں منعقد ہوئی جس میں ہرزل کو لیڈر منتخب کیا گیا۔ اس نے یہودی نیشنل فنڈ اور ایک بنک قائم کیا تاکہ فلسطین میں زمیںیں خریدی جاسکیں۔ سفید اور نیلے رنگ کا ایک قومی جھنٹدا بھی بنایا گیا۔ سوویت روس میں یہودیوں کے قتل عام نے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کو بڑھاوادیا اور یہی لوگ صہیونیت کے پہلے علمبردار بنے۔ [2]۔ میں اس نے پہلی عالمی صہیونی کانگرس منعقد کی۔ صہیونی تحریک کے نتیجے میں 1904ء سے 1914ء کے دوران ایلیاہ کی دوسری لہر امڈی اور تقریبا چالیس ہزار یہودی ان علاقوں میں جا بسے جنہیں آج ریاست اسرائیل کہا جاتا ہے
اسرائیل کا رقبہ
اسرائیل کا کل رقبہ 22145 مربع کلومیٹر ہے، بشمول مقبوضہ علاقوں کے۔ یہ دنیا کا 149 واں بڑا ملک ہے۔
بالفور ڈیکلریشن
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ جے بالفور نے بالفور ڈیکلریشن پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ام کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
زیر زمین یہودی گروپ
جب مقامی عربوں اور باہر سے آکر آباد ہونے والے یہودیوں میں کشیدگی بڑھی اور انگریزوں کی حمایت مین قدرے کمی آئی تو یہودیوں نے ہگاناہ کے نام سے دفاعی گروپ بنا لیا۔ بعد از اں ہگاناہ کے چند اراکین نے عسکری گروپ ارگن بنالیا۔ اس کے بعد اوراہام سٹرن نے ارگن سے الگ ہو کر ایک زیادہ انتہا پسند گروپ لیہی بنالیا، جسے عرف عام سٹرن گینگ کہا جاتا تھا۔ 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ چھڑنے میں ان گروپوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ اس کے علاوہ یورپ سے یورپ سے یہودیوں کی نقل مکانی، اسرائیلی دفاعی افواج کی تشکیل، فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء اور اسرائیل کی بہت سی موجودہ سیاسی پارٹیوں کے قیام میں بھی ان زیر زمین یہودی گروپوں نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔
ریاست اسرائیل کی تشکیل
بڑھتے ہوۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1947ء کا یو این پارٹیشن پلان منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہوتا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوربان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب نے اسے مسترد کردیا۔
ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ
14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک پہلے تل ابیب میں واقع تل ابیب میوزیم آف آرٹ میں منعقدہ واد لیومی (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔ 12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل نے دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔ اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔
قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات
انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظرئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمیگر جنگ سے نبرغ آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی تو اسی وقت ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہوئے ہے کیونکا یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرت علاقے میں قائم حزب اللہ میلیشیا جو ایک عسکری تنظیم ہے۔ یہ بھی مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار ہے [3]۔
امریکی اسرائیلی تعلقات
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟
سیاسی حمایت
امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو 1948ء میں تشکیل کے چند منٹ بعد ہی تسلیم کرلیا۔ اس وقت سے آج تک دونوں ممالک کے تعلقات چٹان کی طرج مظبوط رہے ہیں۔ امریکہ یا اسرائیل میں حکومت کوئی بھی ہو، ان تعلقات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ حالانکہ یہ تعلقات نشیب و فراز سے بھی گزرے مگر بنیادی تعلق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جو اس خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے امریکہ کے بھروسے کے قابل ہے۔ دونوں ممالک کو یقین ہے کہ عوام کی فلاح ، بہبود، عالمی امن، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی اس وقت ممکن ہے کہ جب امریکہ اسرائیل کا بھرپور ساتھ دے۔
فوجی حمایت
اسرائیل کی تشکیل کے بعد امریکہ اسرائیل کو فوجی اسلحہ کی فروخت پر پابندی کے معاہدہ کا حصہ بن گیا۔ گو کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے کئی ملین ڈالرز میں کا فوجی اسلحہ عرب ممالک کو بھی فروخت کیا مگر 1962ء تک اسرائیل کو باک ہاک اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فروخت کیے اور امریکہ کی طرف اسرائیل کو فوجی حمایت ابھی تک جاری ہے۔ == معاشی تعاون == 1951ء میں امریکہ نے پہلی بار اسرائیل کو یہودیوں کی آبادکاری کے لیے 65 ملین ڈالر کی امداد دی۔ تین سال میں 650000 آبادی کے اسرائیل نے پوری دنیا اور یورپ سے مزید 6 لاکھ یہودی آبادکار منتقل ہوئے جس کے بعد مختلف اشکال میں یہ امداد تعلقات میں بڑھنے والی گرمجوشی کے ساتھ بڑھتی رہی۔