"اشرف علی تھانوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 3: سطر 3:
اور ۱۵/ رجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۳۰/ جولائی ۱۹۴۳ء میں وفات پائی۔ ان کی قبر شریف تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر، یوپی، ہند) میں ایک کنارے ان کے ذاتی باغ میں ہے <ref>[https://darulifta-deoband.com/home/ur/history-biography/8105 darulifta-deoband.com]
اور ۱۵/ رجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۳۰/ جولائی ۱۹۴۳ء میں وفات پائی۔ ان کی قبر شریف تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر، یوپی، ہند) میں ایک کنارے ان کے ذاتی باغ میں ہے <ref>[https://darulifta-deoband.com/home/ur/history-biography/8105 darulifta-deoband.com]
</ref>۔
</ref>۔
 
== تعلیم وتربیت ==
تھانوی نسباً فاروقی، مذھباً حنفی تھے اور مسلکاً سلسلہ امدادیہ صابریہ چشتیہ سے وابستہ ہوکر منصب خلافت و رشد وہدایت پر فائز ہوئے۔ آپ کا بچپن وطن میں ہی گزرا اور آپ کی تعلیم کا آغاز [[قرآن|قرآن کریم]] کی تعلیم سے ہوا۔ ابتدائی چند پارے تو کھتولی ضلع میرٹھ کے رہنے والے آخون جی سے پڑھے اس کے بعد میرٹھ کے رہنے والے حافظ حسین علی سے میرٹھ میں ہی پورا قرآن کریم حفظ کیا<ref>سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص16</ref>۔ اس کے بعد فارسی کی ابتدائی کتب بھی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھیں اس کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے لیا جہاں فارسی کی انتہائی کتب پنج رقعہ، قصائد عرفی اور سکندر نامہ وغیرہ مولانا منفعت علی دیوبندی سے پڑھ کر فارسی کی تکمیل کی اور عربی کتب مشکوۂ شریف، مختصر المعانی، نور الانوار اور ملا حسن وغیرہ سے باقاعدہ تعلیم شروع کی۔ پھر پانچ سال تک دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم حاصل کی۔ اور علوم دینیہ کی تکمیل کے لئے ایک ہزار دو سو پچانوے ہجری میں [[دارالعلوم دیوبند]] میں تشریف لے گئے اور جید علماء اور مدرسین سے فیضان علوم حاصل کرکے ایک ہزار تین سو ایک ہجری میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ گویا اُدھر چودھویں صدی کا آغاز ہورہا تھا اور اِدھر احیاء وتجدید دین مبین کے لئے یہ مجدد العصر تیار ہورہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فضل عظیم تھا کہ آپ کو مدرسہ دارالعلوم دیوبند ایسی شہرہ آفاق اور مستند درس گاہ میں تحصیل علوم اور تکمیل درسیات کا موقع نصیب ہوا جہاں خوش قسمتی سے اُس وقت بڑے منتخب اور یگانہ عصر وجامع کمالات وصفات اہل اللہ اور اساتذہ کا مجمع تھا جن کے فیوض و برکات علمی وایمانی کا آج بھی عالم اسلام معترف ہے ۔ ان میں سے اکثر حضرات حاجی امداد اللہ شاہ مہاجر مکی کے سلسلہ سے وابستہ اور بعد انکے خلفائے راشدین میں تھے  ایسے نورانی ماحول میں اور اُن حضرات کے فیض صحبت سے آپ کی باطنی صلاحیت واستعداد بھی تربیت پذیر ہوتی رہی ۔


== حوالہ جات==  
== حوالہ جات==  

نسخہ بمطابق 06:56، 7 نومبر 2023ء

پیدائش وطن اور خاندان

مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کا وطن مالوف و مقام پیدائش تھانہ بھون ضلع مظفرنگر یوپی ہندوستان تھا ۔ آپ کا یوم ولادت چہار شنبہ 5 ربیع الاول 1280 ھجری ہے۔ قصبہ میں آپ کے آباؤ اجداد کا خاندان نہایت معزز وممتاز تھا ۔ آپ کے والد منشی عبدالحق بڑے صاحب وجاھت، صاحب منصب اور صاحب جائیداد رئیس تھے اور بڑے اہل دل بزرگ بھی تھے اور آپ حکیم الامت سے معروف تھا [1]۔ اور ۱۵/ رجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۳۰/ جولائی ۱۹۴۳ء میں وفات پائی۔ ان کی قبر شریف تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر، یوپی، ہند) میں ایک کنارے ان کے ذاتی باغ میں ہے [2]۔

تعلیم وتربیت

تھانوی نسباً فاروقی، مذھباً حنفی تھے اور مسلکاً سلسلہ امدادیہ صابریہ چشتیہ سے وابستہ ہوکر منصب خلافت و رشد وہدایت پر فائز ہوئے۔ آپ کا بچپن وطن میں ہی گزرا اور آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم کی تعلیم سے ہوا۔ ابتدائی چند پارے تو کھتولی ضلع میرٹھ کے رہنے والے آخون جی سے پڑھے اس کے بعد میرٹھ کے رہنے والے حافظ حسین علی سے میرٹھ میں ہی پورا قرآن کریم حفظ کیا[3]۔ اس کے بعد فارسی کی ابتدائی کتب بھی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھیں اس کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے لیا جہاں فارسی کی انتہائی کتب پنج رقعہ، قصائد عرفی اور سکندر نامہ وغیرہ مولانا منفعت علی دیوبندی سے پڑھ کر فارسی کی تکمیل کی اور عربی کتب مشکوۂ شریف، مختصر المعانی، نور الانوار اور ملا حسن وغیرہ سے باقاعدہ تعلیم شروع کی۔ پھر پانچ سال تک دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم حاصل کی۔ اور علوم دینیہ کی تکمیل کے لئے ایک ہزار دو سو پچانوے ہجری میں دارالعلوم دیوبند میں تشریف لے گئے اور جید علماء اور مدرسین سے فیضان علوم حاصل کرکے ایک ہزار تین سو ایک ہجری میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ گویا اُدھر چودھویں صدی کا آغاز ہورہا تھا اور اِدھر احیاء وتجدید دین مبین کے لئے یہ مجدد العصر تیار ہورہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فضل عظیم تھا کہ آپ کو مدرسہ دارالعلوم دیوبند ایسی شہرہ آفاق اور مستند درس گاہ میں تحصیل علوم اور تکمیل درسیات کا موقع نصیب ہوا جہاں خوش قسمتی سے اُس وقت بڑے منتخب اور یگانہ عصر وجامع کمالات وصفات اہل اللہ اور اساتذہ کا مجمع تھا جن کے فیوض و برکات علمی وایمانی کا آج بھی عالم اسلام معترف ہے ۔ ان میں سے اکثر حضرات حاجی امداد اللہ شاہ مہاجر مکی کے سلسلہ سے وابستہ اور بعد انکے خلفائے راشدین میں تھے ایسے نورانی ماحول میں اور اُن حضرات کے فیض صحبت سے آپ کی باطنی صلاحیت واستعداد بھی تربیت پذیر ہوتی رہی ۔

حوالہ جات

  1. سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص1
  2. darulifta-deoband.com
  3. سیف الرحمن، مولانا اشرف علی تھانوی کی علمی خدمات، ص16