"ابن حسن جارچوی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م Saeedi نے صفحہ ابن حسن جارچوی کو مسودہ:ابن حسن جارچوی کی جانب منتقل کیا |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| سطر 1: | سطر 1: | ||
'''ابن حسن جارچوی''' | '''ابن حسن جارچوی'''(پیدائش: 21 اپریل، 1904ء - وفات: 16 جولائی، 1973ء) [[پاکستان]] سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز [[شیعہ|شعیہ]] عالم دین، شعیت پر متعدد کتب کے مصنف، ماہر تعلیم، تحریک پاکستان کے کارکن اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔ | ||
== نسب نامہ == | |||
سید ابن حسن جارچوی ابن سید مہدی حسن ابن سید شفاعت علی ابن سید تراب علی ابن سید ببر علی ابن سید ہدایت علی ابن سید قیام الدین ابن سید حسام الدین ابن سید ناصر خورد ابن سید بھکاری شاہ ابن سید تاج الدین ابن سید ناصر کلاں ابن سید خان میر ابن سید علی سبزواری ابن سید علاء الدین ابن سید محمد ابن سید جلال بحقی ابن سید علی نوری ابن سید محمد مولائی ابن سید محمد اکبر مودودی ابن سید شاہ علی ابن سید شاہ محمد علی نقی ابن سید شاہ محمد نقی کربلائی ابن سید ابو محمد حسن ابن سید شاہ حسن روشن چراغ ابن [[علی بن موسی|امام علی الرضا علیہ السلام]] | |||
== سوانح عمری == | |||
ابن حسن جارچوی 21 مارچ 1904ء کو جارچہ، ضلع بلند شہر، اتر پردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ پانچ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، چنانچہ ان کی پرورش ان کے نانا نے کی۔ | |||
== تعلیم == | |||
انہوں نے رام پور اورینٹل کالج سے مولوی فاضل اور منشی فاضل، میرٹھ سے انٹرنس، لاہور سے ایف اے، بی اے، ایم اے اور ایم او ایل اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کی سند حاصل کی۔ 1931ء سے 1938ء تک وہ جامعہ ملیہ کالج دہلی میں استاد رہے۔ 1938ء میں محمود آباد آ گئے جہاں وہ راجہ صاحب محمود آباد کے اتالیق رہے۔ 1948ء سے 1951ء تک شیعہ ڈگری کالج لکھنؤ کے پرنسپل رہے۔ | |||
== پاکستان منتقلی == | |||
وہ یکم اکتوبر 1951ء کو پاکستان منتقل ہو گئے۔ | |||
تحریک پاکستان کے دوران وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے۔ وہ ان دو افراد میں سے ایک تھے جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے کرپس مشن کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا تھا کہ اس مشن کو تخلیقِ پاکستان کا دینی پس منظر سمجھا سکیں۔ علامہ جارچوی نے پاکستان آنے کے بعداہلِ خانہ، اکابرین ، دوستوں اور مولانا محسن علی عمرانی کے مشورے سے عملی سیاست کا سلسلہ بھی جاری رکھا، تحریر و تقریر سے بھی منسلک رہے اور درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ | |||
وہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تھیالوجی کے پہلے استاد تھے اور یہ شعبہ انہی کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ کے نام سے ایک ادارہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے زمین بھی حاصل کرلی گئی تھی مگر عمر نے وفا نہ کی۔ | |||
ابن حسن جارچوی نے متعدد کتابیں بھی یادگار چھوڑیں جن میں فلسفۂ آلِ محمد، شہیدِ نینوا، بصیرت افروز مجالس، علی کاطرز جہانبانی، جدید ذاکری اور مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے زوال رومۃ الکبریٰ کے حصہ اسلام کو بھی اردو میں منتقل کیا تھا جو شائع ہو چکا ہے۔ | |||
== تصانیف == | |||
* جدید ذاکری | |||
* علی کاطرز جہانبانی | |||
* فلسفۂ آلِ محمد | |||
* شہیدِ نینوا | |||
* مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد | |||
* بصیرت افروز مجالس | |||
* زوال رومۃ الکبریٰ (حصہ اسلام کا اردو ترجمہ) | |||
== وفات == | |||
علامہ ابن حسن جارچوی 16 جولائی، 1973ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ کے احاطے میں سپردِ خاک ہیں۔ | |||
== مذہب شیعہ کا انتخاب کرنا == | |||
بانی البصیرہ [[سید ثاقب اکبر|سید ثاقب اکبر مرحوم]] نے متعدد بار مجھے بتایا کہ کہ [[سید صفدرحسین نجفی|علامہ سید صفدر حسین نجفی رح]] نے ان سے پوچھا کہ کہ کس کتاب سے متاثر ہو کر آپ نے مذہب [[شیعہ]] اثناء عشری کی طرف آئے تو انہوں نے جواب دیا کہ علامہ ابنِ حسن جارچوی رح کی کتاب " فلسفہ آل محمد" نے متاثر کیا۔ علامہ موصوف نے کہا کہ آپ نے درست کتاب کا انتخاب کیا۔ جب میں نے وحدت امت کے حوالے سے مطالعہ شروع کیا تو اکثر نے بتایا کہ علامہ ابنِ حسن جارچوی رح کے افکار کو پڑہیں۔ | بانی البصیرہ [[سید ثاقب اکبر|سید ثاقب اکبر مرحوم]] نے متعدد بار مجھے بتایا کہ کہ [[سید صفدرحسین نجفی|علامہ سید صفدر حسین نجفی رح]] نے ان سے پوچھا کہ کہ کس کتاب سے متاثر ہو کر آپ نے مذہب [[شیعہ]] اثناء عشری کی طرف آئے تو انہوں نے جواب دیا کہ علامہ ابنِ حسن جارچوی رح کی کتاب " فلسفہ آل محمد" نے متاثر کیا۔ علامہ موصوف نے کہا کہ آپ نے درست کتاب کا انتخاب کیا۔ جب میں نے وحدت امت کے حوالے سے مطالعہ شروع کیا تو اکثر نے بتایا کہ علامہ ابنِ حسن جارچوی رح کے افکار کو پڑہیں۔ | ||
نسخہ بمطابق 12:03، 6 دسمبر 2025ء
ابن حسن جارچوی(پیدائش: 21 اپریل، 1904ء - وفات: 16 جولائی، 1973ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شعیہ عالم دین، شعیت پر متعدد کتب کے مصنف، ماہر تعلیم، تحریک پاکستان کے کارکن اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔
نسب نامہ
سید ابن حسن جارچوی ابن سید مہدی حسن ابن سید شفاعت علی ابن سید تراب علی ابن سید ببر علی ابن سید ہدایت علی ابن سید قیام الدین ابن سید حسام الدین ابن سید ناصر خورد ابن سید بھکاری شاہ ابن سید تاج الدین ابن سید ناصر کلاں ابن سید خان میر ابن سید علی سبزواری ابن سید علاء الدین ابن سید محمد ابن سید جلال بحقی ابن سید علی نوری ابن سید محمد مولائی ابن سید محمد اکبر مودودی ابن سید شاہ علی ابن سید شاہ محمد علی نقی ابن سید شاہ محمد نقی کربلائی ابن سید ابو محمد حسن ابن سید شاہ حسن روشن چراغ ابن امام علی الرضا علیہ السلام
سوانح عمری
ابن حسن جارچوی 21 مارچ 1904ء کو جارچہ، ضلع بلند شہر، اتر پردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ پانچ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، چنانچہ ان کی پرورش ان کے نانا نے کی۔
تعلیم
انہوں نے رام پور اورینٹل کالج سے مولوی فاضل اور منشی فاضل، میرٹھ سے انٹرنس، لاہور سے ایف اے، بی اے، ایم اے اور ایم او ایل اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کی سند حاصل کی۔ 1931ء سے 1938ء تک وہ جامعہ ملیہ کالج دہلی میں استاد رہے۔ 1938ء میں محمود آباد آ گئے جہاں وہ راجہ صاحب محمود آباد کے اتالیق رہے۔ 1948ء سے 1951ء تک شیعہ ڈگری کالج لکھنؤ کے پرنسپل رہے۔
پاکستان منتقلی
وہ یکم اکتوبر 1951ء کو پاکستان منتقل ہو گئے۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے۔ وہ ان دو افراد میں سے ایک تھے جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے کرپس مشن کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا تھا کہ اس مشن کو تخلیقِ پاکستان کا دینی پس منظر سمجھا سکیں۔ علامہ جارچوی نے پاکستان آنے کے بعداہلِ خانہ، اکابرین ، دوستوں اور مولانا محسن علی عمرانی کے مشورے سے عملی سیاست کا سلسلہ بھی جاری رکھا، تحریر و تقریر سے بھی منسلک رہے اور درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔
وہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تھیالوجی کے پہلے استاد تھے اور یہ شعبہ انہی کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ کے نام سے ایک ادارہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے زمین بھی حاصل کرلی گئی تھی مگر عمر نے وفا نہ کی۔
ابن حسن جارچوی نے متعدد کتابیں بھی یادگار چھوڑیں جن میں فلسفۂ آلِ محمد، شہیدِ نینوا، بصیرت افروز مجالس، علی کاطرز جہانبانی، جدید ذاکری اور مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے زوال رومۃ الکبریٰ کے حصہ اسلام کو بھی اردو میں منتقل کیا تھا جو شائع ہو چکا ہے۔
تصانیف
- جدید ذاکری
- علی کاطرز جہانبانی
- فلسفۂ آلِ محمد
- شہیدِ نینوا
- مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد
- بصیرت افروز مجالس
- زوال رومۃ الکبریٰ (حصہ اسلام کا اردو ترجمہ)
وفات
علامہ ابن حسن جارچوی 16 جولائی، 1973ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ کے احاطے میں سپردِ خاک ہیں۔
مذہب شیعہ کا انتخاب کرنا
بانی البصیرہ سید ثاقب اکبر مرحوم نے متعدد بار مجھے بتایا کہ کہ علامہ سید صفدر حسین نجفی رح نے ان سے پوچھا کہ کہ کس کتاب سے متاثر ہو کر آپ نے مذہب شیعہ اثناء عشری کی طرف آئے تو انہوں نے جواب دیا کہ علامہ ابنِ حسن جارچوی رح کی کتاب " فلسفہ آل محمد" نے متاثر کیا۔ علامہ موصوف نے کہا کہ آپ نے درست کتاب کا انتخاب کیا۔ جب میں نے وحدت امت کے حوالے سے مطالعہ شروع کیا تو اکثر نے بتایا کہ علامہ ابنِ حسن جارچوی رح کے افکار کو پڑہیں۔
1968ء میں مشہور صحافی مجیب الرحمٰن شامی نے علامہ ابن حسن جارچوی رح کا انٹرویو کیا جو اخبار جہاں میں شائع ہوا بعد میں ہفت روزہ رضا کار لاہور اور ماہنامہ پیام اسلام آباد میں شائع ہوا ۔ اس انٹرویو میں آپ نے مسلمانوں کے مسائل کا حل " لا شرقیہ لا غربیہ" میں قرار دیا۔ حضرت امام خمینی رح نے اسے 1979ء میں عملی کر دکھایا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی میں شامل تھے اور یوپی سے لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ لیاقت علی خان اور عبد الرب نشتر کی قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں تدفین میں بنیادی کردار ادا کیا جب کہ انتظامیہ انکاری تھی کہ اسے قبرستان نہیں بنانا۔ ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ تمام جماعتوں نے آپ کے گھر پر اجلاس کیا اور پریس کانفرنس بھی کی جس میں میں مولانا مودودی رح نمایاں تھے۔ آپ نے ہی محترمہ فاطمہ جناح کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
مفسر قرآن ڈاکٹر حسن رضوی جو آپ کے شاگرد ہیں نے بتایا کہ لوگوں نے آپ کو قائل کیا کہ وہ ایوب خان سے کہیں کہ وہ ایک پلاٹ الاٹ کر دے تاکہ وہاں پر علمی کام کیے جا سکیں جب کہ آپ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ جب صدر پاکستان کے پرائیویٹ سیکرٹری کو بتایا کہ علامہ ابنِ حسن جارچوی رح ملنا چاہ رہے ہیں تو فوراً وقت دیا گیا اور کہا سرکاری گاڑی انہیں لینے آئے گی ۔
علامہ رح نے کہا وہ ییلو کیب ٹیکسی میں ہی آئیں گے ۔ جب ایوب خان سے ملے تو کافی دیر باتیں کرتے رہے اور پلاٹ کی الاٹمنٹ کا ذکر بھی نہیں کیا۔ ساتھ آئے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ جارچوی صاحب تو اس کام کے لیے آئے ہیں۔ ایوب خان نے فوراً کہا کہ کہاں ہے درخواست ؟ ہو درخواست پر منظوری دے دی۔ اس زمین پر آئی آر سی کا ادارہ قائم کیا جو عائشہ منزل اور ابن حسن جارچوی روڈ کے سنگم پر ہے اور یہیں آپ آسودہ خاک ہیں۔
علامہ ابن حسن جارچوی رح کے آثار کے حوالے سے چند تجاویز ہیں۔ 1- آپ کے تمام آثار کو جمع کر کے ایک مجموعہ کی صورت میں شائع کیا جائے۔ 2- ایک ویب سائٹ بنائی جائے جس میں قلمی کام و تصاویر محفوظ کی جائیں۔ 3- ہر سال آپ کی برسی کے موقع پر ایک علمی سیمنار منعقد کیا جائے۔ 4- کم از کم اس کتاب کو خرید کر پڑھا جائے۔ 5- مواد کی جمع آوری کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے بھی کوشش کی جائے۔ وہ قومیں ختم ہو جاتی ہیں جو اپنے محسنین کو بھول جائیں