"گلگت بلتستان" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 30: | سطر 30: | ||
=== 3- اسکردو === | === 3- اسکردو === | ||
سکردو گلگت بلتستان کا ایک اہم شہر اور ضلع ہے۔ سکردو شہر سلسلہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات میں شنگریلا، سدپارہ جھیل اور کت پناہ جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح سکردو کا رخ کرتے ہیں۔ سکردو میں بسنے والے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں جو تبتی زبان کی ایک شاخ ہے جبکہ سکردو کے لوگ انتہائی ملنسار، خوش مزاج، پر امن اور مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔ | سکردو گلگت بلتستان کا ایک اہم شہر اور ضلع ہے۔ سکردو شہر سلسلہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات میں شنگریلا، سدپارہ جھیل اور کت پناہ جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح سکردو کا رخ کرتے ہیں۔ سکردو میں بسنے والے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں جو تبتی زبان کی ایک شاخ ہے جبکہ سکردو کے لوگ انتہائی ملنسار، خوش مزاج، پر امن اور مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔ | ||
[[فائل: سکردو.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
=== 4- سدپارہ جھیل === | === 4- سدپارہ جھیل === | ||
نسخہ بمطابق 17:55، 10 اکتوبر 2025ء
گلگت شمالی علاقہ جات دور دارز اور دنیا کے بلندترین علاقوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے زمانہ قدیم میں دنیا سے اوجھل رہے۔ یہ خطہ اپنے جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے ایسے حصے میں واقع ہے، جو انتہائی اہم ہے۔ زمانہ عتیق میں وسط ایشیاء اور چین کو دنیا سے ملانے والا یہ واحد راستہ تھا۔ آزادی سے پہلے یہ علاقے دنیا کی تین بڑی سلطنتوں، چین، روس، اور ہندوستان کے مابین بحیثیت بفر سٹیٹ (Buffer State) واقع تھے۔ انگریزوں کی جب کشمیر کے بارے میں ڈوگروں سے سودے بازے ہو گئی تو گلگت بلتستان کے علاقے ڈوگروں کی تحویل میں چلے گئے، لیکن یہاں کی ریاستیں بدستور یہاں کے میروں اور راجوں کے قبضے میں رہیں۔ 1935ء میں ان علاقوں کی سرحدوں کی حفاظت کے تناظر میں انگزیوں ںے گلگت بلتستان کو 60 سالہ لیز پر ڈوگروں سے حاصل کر لیا اور یہاں پر مقامی جوانوں پر مشتمل ایک ملیشیا فوج گلگت سکاؤٹسکے نام سے بنا ڈالی، جس نے یکم نومبر 1947ء کو یہاں علم بغاوت بغاوت بلند کرتے ہوئے ڈوگروں کی غلامی کا طوق اتار پھینکا [1]۔ مہاراجہ کی فوج متعین بونجی کے سکستھ کشمیر انفنٹری کے کیپٹن حسن خان (بعد میں ریٹائرڈ کرنل) نے گلگت کی آزادی کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے بجائے گلگت بلتستان کو ایک الگ شیعہ ریاست بنانے کی کوشش کی تھی، جس کے لیے اس نے باقاعدہ ایک عبوری کیبنٹ بھی تشکیل دی تھی۔
مذہبی صورتحال
یہ علاقے اپنے حدود اربعہ کے لحاظ سے سنی فرقہ سے تعلق رکھنے والی آبادیوں میں گھرے ہوئے ہیں، جو کچھ یوں ہے کہ گلگت سے پاکستان کی جانب اگر باہر نکلیں تو گلگت کے مضافاتی گاؤں سکوار کے بعد سنی علاقہ شروع ہوجاتا ہے، جبکہ دوسری جانب بلتستان کے لوگ بے شک شیعہ ہیں، لیکن بلتستان اس پار کشمیر بھی سنیوں کا علاقہ ہے۔ علاوہ از این تیسری طرف ضلع غذر میں بھی زیادہ آبادی اسماعیلی اور سنی فرقوں کی ہے، شیعہ تعداد میں کم ہیں، جبکہ ضلع غذر کی سرحدوں کی ایک طرف چترال میں بھی اسماعیلی اور سنی ہی آباد ہیں اور دوسری جانب روس واقع ہے۔ بلاشک کہ گلگت کی چوتھی جانب ریاست نگر شیعوں کی ہے، لیکن اس کے سامنے ریاست ہنزہ کی آبادی اسماعیلی ہے، جہاں ان کے مقابلے میں شیعہ انتہائی قلیل ہے، جبکہ ان دونوں ریاستوں اک سرحدیں ہیں۔
گلگت کے بارے میں
گلگت بلتستان اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتا ہے۔ پاکستان کے شمال میں موجود یہ علاقہ اپنے بلند و بالا پہاڑوں، دلکش دریاوں اور خوشگوار موسموں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ بڑے بہادر اور محنت کش ہوتے ہیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنے خطے کے ساتھ آزاد کشمیر کو بھی بھارتی قبضے سے چھڑانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس خطے کی تاریخ کچھ اس طرح سے ہے۔ چینی سیاح فاہیان جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو پورے گلگت بلتستان پرپھیلی ہوئی تھی اور اس کا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا۔
پھر ساتویں صدی میں اس کے بعض حصے تبت کی شاہی حکومت میں شامل کرلئے گئے اس کے بعد نویں صدی میں یہ مختلف مقامی ریاستوں میں بٹ گئے جن میں سکردو کے مقپون اور ہنزہ کے ترخان خاندان مشہور ہیں۔ مقپون خاندان کے راجاؤں نے بلتستان سمیت لداخ، گلگت اور چترال تک کے علاقوں پر حکومت کی۔ احمد شاہ مقپون اس خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔
گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر و اقصاے تبت کا شمالی علاقہ بھی ہے۔ 1840 سے پہلے یہ علاقے مختلف ریاستوں میں بٹے ہوئے تھے۔ جن میں بلتستان گلگت شامل ہیں اس کے علاوہ ہنزہ، نگر الگ خود مختار علاقے تھے۔ ان علاقوں کو بعد ازاں جنرل زوراور سنگھ نے فتح کیا اور ریاست جموں کشمیر میں شامل کر دیا۔ بر صغیر کی تقیسم کے وقت انیس ویں صدی کے نصف میں دوسری ریاستوں کی طرح یہاں بھی آزادی کی شمع جلنے لگی کرنل مرزا حسن خان نے اپنے ساتھیوں کے ہماراہ پورے علاقے کو ڈوگرہ استبداد سے آزاد کر ڈالا۔
قیام پاکستان کے موقع پر یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر و اقصاے تبت میں شامل تھا۔ اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اس آزادی کا آغاز گلگت سے ہوا اور یکم نومبر 1947 کو گلگت پر ریاستی افواج کے مسلمان افسروں نے قبضہ کر لیا اور آزاد جمہوریہ گلگت کا اعلان کر دیا اس آزادی کے سولہ دن بعد پاکستان نے آزاد ریاست ختم کر کے ایف سی آر نافذ کر دیا۔ آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا رہا لیکن دوہزار نو میں پاکستانی حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دے دیئے۔
یہ واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں چار ملکوں سے ملتی ہیں نیز پاکستان پڑوسی ملک بھارت سے تین جنگیں 48 کی جنگ، کارگل جنگ اور سیاچین جنگ اسی خطے میں لڑا ہے جبکہ سن 71 کی جنگ میں میں اس کے کچھ سرحدی علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جس میں کئی دیہات بھارتی قبضے میں چلے گئے اس وجہ سے یہ علاقہ دفاعی طور پر ایک اہم علاقہ کی حیثیت رکھتا ہے نیز یہیں سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ 2009ء میں اس علاقے کو نیم صوبائی حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان منتخب ہوئے۔
پاکستان اور چین کے درمیان تعمیر ہونے والی سی پیک کے بعد اس خطے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ پاک چین راہداری اسی خطے سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہورہی ہے۔ گلگت بلتستان کی آبادی 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971 مربع کلومیٹر ہے۔ گلگت بلتستان میں 9 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ گلگت و بلتستان تین ڈویژنز بلتستان، دیا میراور گلگت اور 14 اضلاع پر مشتمل ہے۔ بلتستان ڈویژن سکردو، شگر، کھرمنگ، روندو اور گانچھے کے اضلاع پر مشتمل ہے۔
گلگت ڈویژن گلگت، غذر، ہنزہ، یسین، اورنگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ جب کہ دیا میر ڈویژن داریل، تانگیر، استوراور دیامیر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے جبکہ دنیا کی مشکل ترین قاتل پہاڑ کے نام سے مشہور نانگا پربت بھی اسی خطے میں واقع ہے۔
گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات:
1- کے ٹو (K-2)

کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ یہ سلسلہ کوہ قراقرم، گلگت بلتستان پاکستان میں واقع ہے۔ اس کی بلندی 8611 میٹر/28251 فٹ ہے۔ اسے پہلی بار 31 جولائی 1954ء کو دو اطالوی کوہ پیماؤں لیساڈلی اور کمپانونی نے سر کیا تھا۔ کے ٹو کو ماؤنٹ گڈون آسٹن اور شاہگوری بھی کہتے ہیں۔
2- گلگت
گلگت پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم کے قریب واقع ہے۔ دریائے گلگت اس کے پاس سے گزرتا ہے۔ گلگت ایجنسی کے مشرق میں کارگل شمال میں چین شمال مغرب میں افغانستان مغرب میں چترال اور جنوب مشرق میں بلتستان کا علاقہ ہے۔ دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم گلگت کے قریب ہی ہے۔ یہاں کی زبان شینا ہے لیکن اردو عام سمجھی جاتی ہے۔ گلگت چین سے تجارت کا مرکز بھی ہے۔

کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی اور شمال کی دوسری بلند چوٹیاں سر کرنے والے یہاں آتے ہیں۔ یہاں كى خاص بات بلندو بالا پہاڑ اور یہاں کے بہتے ہوئے دریا اور سبزہ ہیں۔ گلگت شہر میں تین سے زیادہ مسالک کے لوگ آباد ہیں جن میں سنی، شیعہ، اسماعیلی مسلک اور نوربخشیہ مسلک کے لوگ شامل ہیں۔ گلگت شہر کے آس پاس سنی مسلک کی آبادی زیادہ ہے شہر گلگت صوبہ گلگت بلتستان کا دارالخلافہ ہے یہ علاقہ یکم نومبر 1947 کو ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان، پاکستان سے ملحق ہوا۔
3- اسکردو
سکردو گلگت بلتستان کا ایک اہم شہر اور ضلع ہے۔ سکردو شہر سلسلہ قراقرم کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات میں شنگریلا، سدپارہ جھیل اور کت پناہ جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ ہر سال لاکھوں ملکی وغیر ملکی سیاح سکردو کا رخ کرتے ہیں۔ سکردو میں بسنے والے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں جو تبتی زبان کی ایک شاخ ہے جبکہ سکردو کے لوگ انتہائی ملنسار، خوش مزاج، پر امن اور مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔

4- سدپارہ جھیل
سدپارہ جھیل سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی سکردو شہر سے کچھ دور پر واقع ہے۔ یہ خوبصورت جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے اور اس کے دو تین سمت سنگلاخ چٹانیں ہیں۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف پڑتی ہے اور جب گرمیوں کے آغاز میں یہ برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو نہ صرف ان کا بلکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دیوسائی نیشنل پارک سے نکلنے والے قدرتی ندی نالوں کا پانی بھی بہتا ہوا اس میں جا گرتا ہے یہ تمام مناظر آنکھوں کیلئے صحت افزا احساس لے کر آتے ہیں۔
5- کچورہ جھیل
یہ جھیل 8200 فٹ چوڑی ہے۔ اس جھیل کو بلتی زبان میں فروق ژھو کہتے ہے۔ موسم گرما میں ملکی و غیر ملکی لوگ اس جگہ کو دیکھنے آتے ہیں اور خوب لطف اُٹھاتے ہیں۔
6- شگر
شگر پاکستان کے شمالی علاقہ جات بلتستان میں واقع ایک نہایت وسیع اور خوبصورت وادی ہے۔ یہ بلتستان ڈویژن کے کسی بھی ضلع سے رقبہ اور آبادی دونوں لحاظ سے بڑا علاقہ ہے۔ شگر کی آبادی لمسہ نامی گاوں سے شروع ہوتی ہے، یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر شگر خاص آتا ہے جو پورے ضلع کا ہیڈ کوارٹر کہلاتا ہے۔ شگر خاص دریائے باشہ اور دریائے برالدو کا سنگم ہے۔ شگر خاص سے برالدو نالے کی جانب جانے والی سڑک برالدو نالے کے آخری گاوں تستے پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ شگر خاص سے تستے کے بیچ میں یونین کونسل چھورکاہ، الچوڑی اور داسو واقع ہیں۔ یہ ایریا شگر کی داہنی جانب واقع ہے، جس کے اختتام پر دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی واقع کے ٹو کے علاوہ گشہ بروم 1، گشہ بروم 2، ٹرانگ اینڈ ٹاور جیسی چوٹیاں بھی برالدو ایریا میں دنیا بھر سے کوہ پیماوں اور سیاحوں کو کھینچ لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
7-دیوسائی نیشنل پارک
گلگت بلتستان میں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی میں بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000 فٹ بلند ہے۔
7- بلتورو گلیشیر
بلتورو گلیشیر قطبین کے بعد سب سے لمبا گلیشیر ہے جو پاکستان کے صوبے گلگت بلتستان کے علاقے بلتستان میں واقع ہے اس کی لمبائی 62 کلومیٹر تک ہے جہاں مشہور زمانہ کے ٹو پہاڑ بھی واقع ہے اسی گلیشیر سے برالدو دریاء نکلتا ہے جو بعد میں دریاۓ سندھ میں جا گرتا ہے۔ اس گلیشیر تک رسائی سکردو شہر سے ہی کی جا سکتی ہے۔
8- بیافو گلیشیر
بیافو گلیشیرقراقرم کے پہاڑوں میں واقع 63 کلومیٹر لمبا گلیشیر بلتستان ڈویژن میں واقع ہے۔ یہ آگے جاکر ہسپر گلیشیر سے جاملتا ہے جو ہنزہ میں واقع ہے بلتورو کے بعد یہ تیسرا بڑا گلیشیر ہے۔ یہ علاقہ مارخور ، برفانی چیتا اوربھورے ریچھ کے لیے مشہور ہے۔
9- قلعہ التیت
قلعہ التیت گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں بالائی کریم آباد پر واقع ایک قدیم قلعہ ہے۔ یہ اصل میں ریاست ہنزہ کے آبائی حکمرانوں کا گھر تھا جن کے نام کے ساتھ میر لگتا تھا اگرچہ تین صدیوں کے بعد وہ کسی قریبی چھوٹے قلعے بلتیت میں چلے گئے۔ التیت قلعہ اور خاص طور پر شکاری ٹاور کی تقریبا 900 سال پرانی تاریخ ہے جوکہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔
10- بلتت قلعہ
بلتت قلعہ پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع ہے اور نہایت خوبصورت سیاحتی مقام پے[2]۔
- ↑ میجر ولیم الیگزنڈر براؤن، بغاوت گلگت، مترجم، ظفر حیات پال، 2009ء،ص29
- ↑ گلگت کے بارے میں- شائع شدہ از: 10 اکتوبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 اکتوبر 2025ء