"ہفتہ وحدت" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 53: | سطر 53: | ||
[[fa:هفته وحدت ]] | [[fa:هفته وحدت ]] | ||
[[زمرہ: عالمی اسمبلی برائے تقریب مذاهب اسلامی]] | [[زمرہ: [[عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی|عالمی اسمبلی برائے تقریب مذاهب اسلامی]]]] | ||
نسخہ بمطابق 21:45، 5 ستمبر 2025ء

ہفتہ وحدت 12 ربیع الاول کو شروع ہو کر 17 ربیع الاول کو ختم ہوتا ہے۔ ان ایام کو انقلاب اسلامی ایران کے آغاز سے ہی ہفتہ وحدت کا نام دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو سنی بھائیوں کے یہاں پیغمبر اکرم کی یوم ولادت کی مشہور ہے۔ اور 17 ربیع الاول شیعوں میں مشہور روایت کے مطابق آنحضرت کا یوم ولادت ہے۔ ان دو دنوں کو جوڑتے ہوئے ، انقلاب کے آغاز سے ہی، ایران کے عوام اور ملک کے حکام نے اس دن کو ہفتہ وحدت کا نام دیا ہے اور اسے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا ذریعہ اور علامت قرار دیا ہے ۔ اس مضمون میں ہم رہبر انقلاب اسلامی ایران سید علی خامنہ ای کے نقطہ نظر سے ہفتہ وحدت کا جائزہ لیں گے [1]۔
مضبوط قلعہ بنانے کی تیاری
اسلامی جمہوریہ نے دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ آئیے 12 سے 17 ربیع الاول تک اتحاد کےلئےکوشش کریں۔ ایک روایت کے مطابق،12 ربیع الاول کا دن پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت کا دن ہے جو زیادہ تر اہل سنت کے یہاں مشہور ہے اور بعض شیعہ بھی اسے قبول کرتے ہیں، ۔ ایک روایت بھی 17 ربیع الاول سے متعلق ہے جس کی تصدیق زیادہ تر شیعہ اور بعض اہل سنت کرتے ہیں۔ تاہم بارہویں اور سترہویں کے درمیان جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے، عالم اسلام کے اتحاد پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ وہ مضبوط قلعہ اور باندھ کہ اگر بن جائے تو کوئی طاقت اسلامی ممالک اور قوموں کی ثروت پر قبضہ نہیں کر سکتی [2]۔
تاریخ
اسلامی نظام کے قیام سے پہلے، ہمارے دینی بھائی، اسلامی تحریک کے بزرگان ، اس زمانے میں انقلابی جدوجہد کرنے والی اہم شخصیات- جب اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ کے وجود میں آنے کی کوئی خبر نہیں تھی ، شیعہ سنی اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ میں خود ان دنوں بلوچستان میں جلاوطن تھا۔
اس وقت سے لے کر اب تک، ہمارا بلوچستان کے مختلف شہروں ایران شہر، چابہار، سراوان اور زاہدان کے سنی حنفی علماء کے ساتھ دوسری، قربت اور رابطہ ہے اور اس کے لئے خدا کا شکر ہے۔ مجھے وہاں جلاوطن کر دیا گیا، حکام ہمیں کوئی کام نہیں کرنے دینا چاہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم نے سب کو دعوت دی کہ ملےکر میں شیعہ اور سنی اتحاد کے لیے کوشش کرنی چاہے کیوںکہ ہفتہ وحدت اہل سنت یہاں نزدیک 12 ربیع الاول کو اوروںش یعہیہاںزدیک 17 ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو ایک ساتھ منانے کی بات اسی دن ہمارے ذہن میں آئی اور ہم اسے ایرانشہر میں نافذ کیا۔ یعنی ہم نے 12 سے 17 تاریخ تک جشن منایا [3]
قرآن و سنت کی بنیاد پر اتحاد
ہفتہ وحدت میں ہمارا پیغام اور اتحاد کے پیغام کے طور پر یہ ہے کہ مسلمان آئیں اور متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے سے دشمنی نہ کریں۔ محور کتاب خدا اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی شریعت ہو۔ یہ کوئی برا لفظ نہیں ہے۔ یہ لفظ ایک ایسا لفظ ہے جسے ہر غیر جانبدار اور منصفانہ ذہن قبول کرے گا [4].
اگر ہم کہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی کو ایک ساتھ ہونا چاہیے تو اس کا مطلب ہے کہ شیعہ شیعہ ہی رہے گا۔ عمر ایک ہی عمر رہتی ہے۔ ہم نے سنی علماء سے کب کہا کہ اتحاد سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم شیعہ ہو جاؤ؟! ہم نے ایسی بات نہیں کہی۔ جو بھی شیعہ بننا چاہتا ہے اسے سائنس اور علمی بحثوں کے ذریعے شیعہ بننا چاہیے۔ وہ خود بھی جانے اور اپنا کام کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ اپنا مذہب بدل لیں۔ ہم کہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی کو ہمیشہ عقلی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اسلامی انقلاب کے دوران ہمارے ملک میں دیکھا گیا، خدا کا شکر ہے۔ دشمن کو ان اختلافات کا فائدہ نہ اٹھانے دیں۔ ہفتہ وحدت کا جشن اسی کے لیے ہے [5]۔
ہفتہ وحدت کے دوران اسلامی جمہوریہ کی دعوت شیعوں یا سنیوں کے لیے نہیں ہے کہ وہ اپنا مذہب ترک کرکے دوسرے مذہب کو اختیار کریں۔ اسلامی جمہوریہ کی دعوت اسلامی مذاہب کے درمیان مشترکات کو اجاگر کرنا اور دشمنان اسلام کی طرف سے بنائی گئی دیواروں اور دشمنیوں اور رنجشوں کو ہٹانا ہے۔ اہل بیت کی تعلیم کے میدان میں آئیں اور سنیں اور دیکھیں [6].
ہفتہ وحدت ایک مناسب نام ہے۔ الحمد للہ، ایرانی قوم کے افراد کے درمیان، ہر طبقے کے لوگوں کے درمیان، ہر طرح، رسم و رواج اور جس حد تک وہ ہیں اور جس کام میں وہ مصروف ہیں، اتحاد ہے۔ ہماری قوم کے افراد نفاق کی سازشوں اور بیجوں کے باوجود متحد ہیں اور ایک سمت میں بڑھ رہے ہیں: اسلام کی طرف۔ قرآن کی سمت میں؛ مذہب کی حکمرانی کی سمت میں؛ شیعہ اور سنی اور مختلف نسلوں کے درمیان فرق کئے بغیر (فارسی، عرب، ترک، ترکمان، بلوچ، کرد وغیرہ)؛ ایک متحد قوم۔ درحقیقت ایرانی قوم اسلام کی بدولت ایک مثال ہے۔
یہ مسلم ممالک میں ایک کامیاب نمونہ ہے۔ خدا آپ سے راضی ہو، اہل ایران، دین کی دعوت اور آپ کے بزرگ امام کی دعوت پر آپ کے ایماندارانہ جواب پر۔ آپ کو یہ رکھنا چاہئے۔ وہی قیمتی اتحاد، جس کی بدولت آپ بہت سی فتوحات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، دشمن فضا میں چھپے ہوئے ہیں۔ آپ کو ہوشیار رہنا چاہیے اور اختلاف پیدا نہ ہونے دیں۔ جہاں اختلاف کا بہانہ ہو اور دشمن اختلاف کا بہانہ بنا سکے وہاں زیادہ احتیاط کریں۔ مذہب اور مسلکی اختلافات کے معاملے میں جسے دشمنوں نے صدیوں سے گالیاں دی ہیں، انہیں زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ شیعہ اور سنی دونوں کو ہوشیار رہنا چاہیے [7].
ہفتۂ وحدت؛ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کا سنہرا موقع
ہفتۂ وحدت اسلامی تقویم کے اہم مواقع میں سے ہے جو پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یہ ہفتہ مختلف مسالک کے مسلمانوں کے درمیان مشترکہ اقدار پر زور دینے اور امتِ اسلامیہ میں اتحاد و ہم آہنگی کو تقویت دینے کا ایک موقع ہے۔ اس مضمون میں ہم ہفتۂ وحدت کی تاریخ، فلسفہ اور آج کی دنیا میں اس کی اہمیت کا جائزہ لیں گے۔ [8]۔
ہفتۂ وحدت اسلامی تقویم کے اہم مواقع میں سے ہے جو پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یہ ہفتہ مختلف مسالک کے مسلمانوں کے درمیان مشترکہ اقدار پر زور دینے اور امتِ اسلامیہ میں اتحاد و ہم آہنگی کو تقویت دینے کا ایک موقع ہے۔ اس مضمون میں ہم ہفتۂ وحدت کی تاریخ، فلسفہ اور آج کی دنیا میں اس کی اہمیت کا جائزہ لیں گے۔
ہفتۂ وحدت کی تاریخ
ہفتۂ وحدت سن ۱۳۶۰ ہجری شمسی میں امام خمینیؒ نے بنیاد رکھی۔ اس نام گذاری کی وجہ یہ تھی کہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی صحیح تاریخ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل سنت ۱۲ ربیع الاول کو ولادت کا دن مانتے ہیں جبکہ شیعہ ۱۷ ربیع الاول کو۔ امام خمینیؒ نے مسلمانوں کے درمیان قربت اور بھائی چارہ قائم کرنے کی غرض سے ان دونوں تاریخوں کے درمیانی ایام کو "ہفتۂ وحدت" قرار دیا تاکہ مسلمان چھوٹے اختلافات پر نہیں بلکہ مشترکہ اسلامی اصولوں اور اقدار پر توجہ دیں۔
فلسفہ اور اہمیت
ہفتۂ وحدت مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق کو ختم کرنے کی علامت ہے۔ اس ہفتے کا بنیادی فلسفہ اسلام کی تعلیمات میں موجود بھائی چارے، ہم آہنگی اور اتحاد کو اجاگر کرنا ہے۔ اس پر زور دیا جاتا ہے کہ فقہی اور مذہبی اختلافات کے باوجود مسلمان بنیادی عقائد جیسے توحید، نبوت اور معاد میں ایک ہیں۔
امام خمینیؒ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ داخلی و خارجی خطرات کے مقابلے میں مسلمانوں کا اتحاد نہایت ضروری ہے۔ وہ ہفتۂ وحدت کو سامراجی سازشوں اور ان دشمنوں کے خلاف ایک عملی قدم سمجھتے تھے جو ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہفتۂ وحدت کے مثبت اثرات
اسلامی یکجہتی کا فروغ: یہ ہفتہ مسلمانوں کو اختلافات کے بجائے مشترکہ اقدار پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس سے امتِ مسلمہ میں اتحاد مضبوط ہوتا ہے اور وہ مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بنتے ہیں۔ فرقہ واریت اور اندھی تقلید میں کمی: اس ہفتے میں منعقدہ مشترکہ تقریبات اور پروگرام مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو وسیع نظر سے دیکھنے اور اندھے تعصب سے بچنے میں مدد دیتے ہیں۔ امن و آشتی کا پیغام: ہفتۂ وحدت کا ایک اہم پیغام مسلمانوں اور مختلف قوموں کے درمیان امن، دوستی اور آشتی کا فروغ ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے اور مسلمانوں کو آپس میں متحد ہونا چاہیے۔
پروگرام اور تقریبات
اس ہفتے کے دوران اسلامی ممالک میں مختلف تقریبات اور اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان میں دینی خطبات، سیمینار، کانفرنسیں اور جشنِ میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شامل ہیں۔ ان پروگراموں کا مقصد اسلامی وحدت کے مفاہیم کو واضح کرنا اور مسلمانوں کو تعاون اور یکجہتی کی جانب ترغیب دلانا ہے۔
آج کی دنیا میں وحدت کا کردار
آج امتِ مسلمہ پہلے سے زیادہ مختلف چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے—مذہبی اختلافات سے لے کر سیاسی اور اقتصادی دباؤ تک۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ہفتۂ وحدت اسلام کے مشترکہ اصولوں پر زور دینے اور ان عناصر کے خلاف جدوجہد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
نتیجہ
ہفتۂ وحدت مسلمانوں کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کو فروغ دینے کا ایک قیمتی موقع ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ مذہبی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود مسلمان اسلام کے بنیادی عقائد اور اقدار میں ایک ہیں اور مشترکہ خطرات کے مقابلے میں انہیں متحد ہونا چاہیے۔ ہفتۂ وحدت کا انعقاد نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے لیے امن و دوستی کا پیغام لے کر آتا ہے[9]۔
حوالہ جات
- ↑ یوم ولادت حضرت رسول اعظم 12/25/1387 پر عہدیداروں کے ایک گروپ کے اجلاس میں بیانات
- ↑ ہفتہ وحدت کے پہلے دن، 11/7/1369 کو آزاد لوگوں اور مختلف طبقوں کے لوگوں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ ایک میٹنگ میں بیانات
- ↑ سیستان، خراسان اور مازندران کے علماء، ائمہ جمعہ اور اہل سنت حوزہ کے ایک گروپ کے اجلاس میں بیانات، 5/10/1368۔
- ↑ دبیانات در دیدار با جمع کثیرى از اقشار مختلف مردم شهرهاى شاهرود، خلخال، بیرجند، قیدار، خمسه، تیران و چالوس، روحانیون و معاونان دفاتر عقیدتى، سیاسى نیروى زمینى ارتش و جمعى از شیعیان استان سرحدّ پاکستان، 19/7/1368
- ↑ بیانات در دیدار با گروه کثیرى از آزادگان و اقشار مختلف مردم، در اولین روز از هفته وحدت، 11/7/1369
- ↑ بیانات در اجتماع بزرگ زائران و مجاوران حرم مطهر رضوى، 1/1/1387
- ↑ بیانات در دیدار کارگزاران نظام، بهمناسبت سالروز ولادت رسول اکرم9 و امام جعفر صادق7، 24/6/1371
- ↑ تحریر: مولانا سید کاشف رضوی زیدپوری
- ↑ ہفتۂ وحدت؛ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کا سنہرا موقع- شائع شدہ از:5 اگست 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اگست 2025ء
[[زمرہ: عالمی اسمبلی برائے تقریب مذاهب اسلامی]]