"محمود شلتوت" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| سطر 69: | سطر 69: | ||
== وفات == | == وفات == | ||
شیخ محمود کا انتقال جمعہ کی رات (اسراء و معراج کی رات) کی شام قاہرہ میں ہوا اور 1383ھ مطابق رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ دسمبر 1963ء کو آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ | شیخ محمود کا انتقال جمعہ کی رات (اسراء و معراج کی رات) کی شام قاہرہ میں ہوا اور 1383ھ مطابق رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ دسمبر 1963ء کو آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ | ||
== حوالہ جات == | |||
{{حوالہ جات}} | |||
{{مصر}} | |||
[[زمرہ:شخصیات]] | |||
[[زمرہ:مصر]] | |||
نسخہ بمطابق 15:36، 22 مئی 2025ء
| محمود شلتوت | |
|---|---|
![]() | |
| دوسرے نام | شیخ محمود شلتوت |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1310 ق، 1893 ء، 1272 ش |
| پیدائش کی جگہ | مصر |
| وفات | 1383 ق، 1964 ء، 1343 ش |
| وفات کی جگہ | قاہرہ |
| اساتذہ | محمد عبده، عبدالمجید سلیم |
| شاگرد | شیخ محمود عاشو |
| مذہب | اسلام، سنی |
| اثرات | تفسیر قرآن کریم، مقارنة المذاهب فی الفقه ، فقه القرآن |
محمود شلتوت مصر کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والےعالم دین، اسلامی اسکالر اور الازہر یونیورسٹی کا شیخ اور سربراہ تھا۔ انہوں نے 1918ء میں بین الاقوامی ڈگری حاصل کی۔ شیخ محمود کا تقرر اداروں میں استاد کے طور پر ہوا، پھر اعلیٰ شعبہ میں، پھر تخصص کے شعبوں میں استاد، پھر کالج آف شریعہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر، پھر سینئر علما کے گروپ کا رکن، پھر جامعہ الازہر کے شیخ 1958ء کے طور پر خدمات سر انجام دیں تھے۔ وہ 1946ء میں عربی لینگویج اکیڈمی کے رکن تھے اور سب سے پہلے عظیم امام کا خطاب حاصل کرنے والے اور تقریب بین المذاہب کے داعیوں میں سے تھے۔
سوانح عمری
شیخ محمود شلتوت 1893ء میں مصر کی بحیرہ گورنری میں اطیع برود مرکز سے وابستہ منیات بنی منصور میں پیدا ہوئے۔ اس نے جوانی میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ اسکندریہ انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوئے اور پھر الازہر کالجوں میں داخلہ لیا۔ انہوں نے 1918ء میں الازہر سے بین الاقوامی سند حاصل کی۔ وہ 1919ء میں اسکندریہ انسٹی ٹیوٹ میں بطور استاد مقرر ہوئے۔
انہوں نے 1919ء کے انقلاب میں اپنے قلم، زبان اور دلیری سے حصہ لیا۔ شیخ محمد مصطفی مراغی نے ان کے علم کی وسعت کی وجہ سے انھیں اعلیٰ محکمے میں منتقل کر دیا۔ محمود شلتوت نے الازہر کی اصلاحی تحریک کی حمایت کی، انہیں بطور وکیل اپنے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور پھر 1935ء میں الازہر واپس آ گئے۔
تعلیم
شیخ محمد شلتوت ١٨٩٣ء میں علم وتمدن کی سرزمین مصر کے ایک مذہبی، علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا اور ماں کی آغوش تربیت میں پروان چڑھتے رہے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی اور اعلی تعلیم کیلئے ”اسکندریہ یونیورسٹی” میں داخل ہوئے۔ ١٢ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے اور ١٩١٨ء میں ممتاز حیثیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور ١٩١٩ء میں ممتاز حیثیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور ١٩١٩ء سے ١٩٣٨ء تک تک یہیں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
١٩٣٩ء میں مصر کی معروف درسگاہ اور عالم اسلام کے عظیم اسلامی مرکز یعنی ”جامعة الازھر” کے سرپرست علامہ شیخ مصطفی مراغی نے آپ کو ”جامعة الازھر” میں پڑھانے کی پیشکش کی جسے آپ نے خوشی سے قبول کر لیا اور پھر ١٩٥٨ء میں علامہ مراغی کی وفات کے بعد آپ کو اس مایہ ناز درسگاہ کے سرپرست کے طور پر منتخب کیا گیا۔
تاریخی فتوی
مذہب جعفریہ کی پیروی کی جا سکتی ہے۔ جامعہ الازہر مصر کے بزرگ عالم دین شیخ محمود شلتوت نے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی اور فقہ حنبلی کے ساتھ فقہ جعفریہ پر عمل کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شیعت اپنے کردار، اقدار اور عالمی سیاسی دینی قائدین کے عنوان سے اعلٰی حیثیت کا حامل مکتب ہے، جبکہ استعماری ایجنٹوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان شیعہ، سنی اختلافات کو ہوا دی جائے۔ لہٰذا بعض لوگ جنکی مذہب شیعہ اور اہل سنت میں کوئی حیثیت ہی نہیں مناظرہ کیلئے ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں[1]۔
دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ کا قیام
شیخ محمود شلتوت کے زمانے میں جامعہ الازہر ہی میں"دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ" قائم ہوا تھا۔ جس کی تنظیم نو کے بعد اب اس کا مرکز تہران ہے۔ اس تنظیم میں اہل سنت کے چار فقہی مکاتب کے علاوہ شیعہ امامیہ اور زیدیہ کے نمائندے اُسی زمانے سے موجود الازہر الشریف کی اس عظیم اور قابل تقلید روش کے برعکس ایسے درباری ملا بھی ہیں جو اپنے حکمرانوں کی خواہش پر دوسرے مسلمانوں کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔
ایسے فتوے اسلام دشمنوں اور بالخصوص صہیونیوں کی ہی خوشنودی کا باعث بنتے ہیں۔ ان ملاﺅں کے لیے شیخ الازہر ڈاکٹر سید احمد طیب کا عظیم کردار سبق آموز ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے کسی طور پر دیانت داری اور خدا خوفی پر مبنی نہیں ہو سکتے۔ ہیں۔
شیخ محمود شلتوت نے بھی ایک تاریخی فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں فقہ جعفریہ پر عمل کرنے کو بھی دیگر فقہوں پر عمل کی طرح سے مجزی اور کافی قرار دیا تھا۔ الازہر الشریف کی اس عظیم اور قابل تقلید روش کے برعکس ایسے درباری ملا بھی ہیں جو اپنے حکمرانوں کی خواہش پر دوسرے مسلمانوں کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ ایسے فتوے اسلام دشمنوں اور بالخصوص صہیونیوں کی ہی خوشنودی کا باعث بنتے ہیں۔
ان ملاﺅں کے لیے شیخ الازہر ڈاکٹر سید احمد طیب کا عظیم کردار سبق آموز ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے کسی طور پر دیانت داری اور خدا خوفی پر مبنی نہیں ہو سکتے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی گفتگو کا اختتام مذکورہ انگریز صحافی لیزلی ہیز لٹن (Leslie Hazelton) ہی کی ایک بات پر کریں جو تکفیری ملاﺅں کے لیے اپنے اندر عبرت کا سامان رکھتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
"مغرب میں کسی کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو چیز اسلام کی دونوں شاخوں کو متحد کرتی ہے اس طاقت سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے جو انھیں تقسیم کرتی ہے اور یہ کہ سب مسلمانوں کی اکثریت ابھی بھی اتحاد کے اس نظریہ کو عزیز جانتی ہے۔ جس کا پرچار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کیا تھا، یہ نظریہ جتنی گہرائی میں ٹوٹا ہے، اس سے زیادہ گہرائی سے قائم و دائم ہے"[2]۔
آثار
- فقہ القرآن والسنة۔
- مقارنة المذاهب.
- القرآن والقتال.
- ويسألونك.
ترجمے
شیخ محمود شلتوت نے کئی کتابیں بھی لکھیں جن کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا:
- القرآن والمرأة.
- تنظيم العلاقات الدولية الإسلامية.
- الإسلام والوجود الدولي للمسلمين.
- تنظيم الاسرة.
- منہج القرآن في بنا المجتمع.
- رسالة المسؤولية المدنية والجنائية في الشريعة الإسلامية.
- رسالة الأزهر.
- إلى القرآن الكريم.
- الإسلام عقيدة وشريعة.
- من توجيهات الإسلام.
- الفتاوى.
- تفسير القرآن الكريم (الأجزاء العشرة الأولى)
وفات
شیخ محمود کا انتقال جمعہ کی رات (اسراء و معراج کی رات) کی شام قاہرہ میں ہوا اور 1383ھ مطابق رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ دسمبر 1963ء کو آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔
حوالہ جات
- ↑ مذہب جعفریہ کی پیروی کی جا سکتی ہے – جامعہ الازہر شیخ محمود شلتوت- شائع شدہ از: 16 اکتوبر 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 مئی 2025ء
- ↑ شیخ الازہر کا چونکا دینے والا انکشاف- شائع شدہ از: 19 جولائی 2011ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22مئی 2025ء
