"حدیث" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 77: | سطر 77: | ||
(۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) ضعیف۔ | (۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) ضعیف۔ | ||
== صحیح حدیث == | == صحیح حدیث == | ||
(صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف | (صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہو: | ||
(1) حضرت عیسی ابن مریم کا دوبارہ دنیا میں آنا۔ | |||
(۲) حضور پر ذاتی حیثیت سے جادو کے چند اثرات کا ہو جانا۔ | |||
(3) دجال سے متعلق ۔ | |||
(4)عذاب قبر سے متعلق اخبار (احادیث) اور ان جیسی باتیں قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں تو یہ دراصل ان کی کم علمی اور جہالت یہ وہ روایات ہیں جنہیں تحقیق کے بعد محمد ثین نے صحیح کہا ہے۔ یہ قرآن کے خلاف نہیں بلکہ ان منکرین کی خود ساختہ شرح قرآن اور مفہوم کتاب اللہ کے الٹ ہے۔ | |||
== حدیث حسن == | |||
اس کی تعریف میں اختلاف ہے اس کی دو قسمیں ہیں ابن صلاح نے حسن حدیث کی تعریف یوں بیان کی ہے۔ (1) وہ حدیث جس کے کسی ایک راوی کی اہلیت اور حالات کا پوری طرح علم نہ ہو لیکن اتنا ضرور معلوم ہو کہ فاسق اور کثیر الخطا نہیں تھا اور نہ اس پر جھوٹ کا الزام ہو۔ وہ حدیث جس کا راوی صدق و امانت میں مشہور ہولیکن قوت حفظ اور ملکہ اخذ میں اس کا مرتبہ صحیح حدیث کے راویوں سے فروتر محدثین تک ہو۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق، دیندار، پر ہیز گار اور خوب یاد رکھنے والے لوگوں نے اسے ہر زمانہ میں برابر روایت کیا ہو اور اس میں چھپا ہوا عیب نہ ہو اور نہ ہی معتبر لوگوں نے اُس روایت کی مخالفت کی ہو۔ حدیث بخاری اور حدیث مسلم میں زیادہ تر انہی الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ | |||
== حدیث ضعیف == | |||
وہ حدیث جس کے راوی معتبر نہ ہوں اور جو مشکوک کبھی سمجھتی جاتی ہو۔ یہ حدیث کی تیسری قسم ہے اس کا اطلاق اس حدیث پر ہوتا ہے جس کے متن یا سند میں کوئی صعف پایا جائے اور جس میں صحیح یا حسن کی صفات موجود نہ ہوں جس کے راوی معتبر نہ ہوں اور جو مشکوک سمجھی جاتی ہو۔ | |||
== ضعیف حدیث == | |||
ضعیف حدیث سے نہ کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہے اور نہ اس سے حلال وحرام ثابت ہوتا ہے اس پر عمل کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے ضعیف حدیث کی کتب کتاب الضعفا ابن حیان ابن حبان کتاب المراسل ، کتاب العلل۔ | |||
== ضعیف حدیث کی اقسام == | |||
{{کالم کی فہرست|3}} | |||
* مرسل | |||
* منقطع | |||
* منکر | |||
* متروک | |||
* شاذ | |||
* معلل | |||
* مدرج | |||
* مقلوب | |||
* مفطرب | |||
* مفحف | |||
{{اختتام}} | |||
== متفق علیہ حدیث == | |||
وہ حدیث ہے جس کو امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتب میں نقل کیا ہو۔ | |||
== حدیث مرسل == | |||
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے آخری کڑی یعنی صحابی مفقود ہو۔ | |||
== حدیث منقطع == | |||
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے کوئی راوی چھوٹ جائے۔ | |||
== حدیث معضل == | |||
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے دو یا دو سے زائد راوی غائب ہوں یا کسی تبع تابعی نے حدیث بیان کی ہو مگر تابعی اور صحابی دونوں کا ذکر نہ کیا ہو۔ حدیث معضل کو حدیث ضعیف بھی کہتے ہیں جس کے دو راوی برابر ساقط ہوں۔ | |||
== حدیث منکر == | |||
وہ حدیث ہے جس کا راوی اپنی روایت میں منفرد ہو اور اس کے اندر عدالت اور ضبط دونوں صفات موجود ہوں۔ | |||
== حدیث مضطرب == | |||
اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی روایات اپنے متن اور سند میں باہم مختلف ہوں۔ وہ تصانیف جو بخاری سے قبل یا ان کے زمانہ میں یا اُن کے بعد تصنیف ہوئیں ان میں صحیح حسن ، ضعیف، معروف ، غریب، منکر خطا ثواب ہر قسم کی احادیث شامل ہیں ۔ | |||
== احادیث سے سے متعلق علوم == | |||
علماء حدیث نے تحفظ حدیث کے لئے جو ذرائع اختیار کیے اور جو علوم مدون کئے اُن کی تعداد پیٹھ (65) تک بیان کی گئی ہے۔ | |||
== علم اسماء الرجال == | |||
یہ علم حدیث کے راویوں کے حالات سے بحث کرتا ہے گویا تمام حدیث کے راویوں کی مفصل تاریخ ، حالات ، پیدائش، وفات ، اساتذہ کی تفصیل ماہرین علم حدیث کے فیصلے درج ہیں یہ علم بہت ہی وسیع مفید اور دلچستپ ہے۔ محدثین نے تابعین اور تبع تابعین کے بعد راویوں کے حالات اُن کے ضبط واتقان وعدالت، امانت و دیانت، اخلاق و عادات اور معمولات و معاملات سے تعلق رکھنے والے اوصاف کو پوری چھان بین کے بعد قلم بند کیا۔ جن لوگوں نے یہ جلیل القدر کام سرانجام دیا انہیں رجال جرح و تعدیل کہا جاتا ہے ( نوٹ جرح سے مراد کسی رادی میں کسی خامی و خرابی کی نشاندہی کرنا اور تعدیل کے معنی ہیں عادل اور ثقہ قرار دینا ۔ جرح و تعدیل کے اس فن کو دفن جرح وتعدیل‘ یا علم اسماء الرجال کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ علم الحدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے۔ جس میں اُن لوگوں کے حالات قلم بند کئے گئے ہیں جنہوں نے احادیث و آثار کوبلواسطہ یا بلا واسطہ نقل کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک لاکھ انسانوں کی تاریخ تیار کی گئی جس میں صرف وطن اور ولادت ، وفات کا وقت یا عام حالات زندگی بتانے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس میں امانت و خیانت اور صدق و کذب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان ایک لاکھ انسانوں میں صحابہ کرام کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے ۔ اسماء الرجال کی ایک جامع کتاب ابن خلکان نے ۶۸۱ ھ میں تصانیف کی ہے جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے یہ سب کتابیں عربی میں ہیں۔ | |||
== راوی == | |||
حضور پاک حدیث کی کتاب لکھنے والے تک جن جن لوگوں نے حدیث بیان کی ہو اُس کو راوی کہا جاتا ہے امام بخاری وغیرہ نے حدیث کے ساتھ اُس کے راویوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ | |||
== محدث == | |||
(م - ح- دت ) تین لفظ میں اسلامی اصطلاح میں محدث حدیث بیان کرنے والے کو کہتے ہیں ۔ اُردو لغت میں محدث (م - حد درث) علم حدیث کا جاننے والا فقیہ۔ | |||
== لفظ محد ثین == | |||
حدیثیں جمع کرنے والوں یا حدیثوں کو نقل کرنے والوں کو محدثین کہتے ہیں یا حدیثیں بیان کرنے والوں کو بھی محدثین کہتے ہیں۔ یا جو شخص ” علوم حدیث میں ماہرانہ بصیرت رکھتا ہوا اسے محدث کہتے ہیں اور محدث کی جمع محدثین ہے۔ | |||
== اثر == | |||
صحابہ کے قول اور فعل کو اثر کہا جاتا ہے اس کی جمع آثار ہے۔ کسی چیز کے بقیہ اور نشان کو کہتے ہیں نقل کو اثر سے تعبیر کیا جاتا ہے جس بات میں تم بحث کر رہے ہو سننے والے نقل کرنے والے کی نگاہ میں برابر ہے صحابہ کرام اور تابعین سے جو مسائل معقول نہیں انہیں آثار کہا جاتا ہے اصطلاحاً حضور کے ارشادات پر بھی اثر بولا جاتا ہے۔ | |||
== اسناد == | |||
صحابہ کرام کے عہد میں کسی روایت کی توثیق کا قاعدہ یہ تھا کہ راوی سے شہادت طلب کی جاتی تھی۔ تابعین کے عہد میں صرف شہادت کافی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس لئے اسناد کا سلسلہ قائم کیا گیا یعنی جب بھی کوئی راوی روایت بیان کرتا تھا تو اُسے بتانا پڑتا تھا کہ اس نے وہ روایت کس سے سنی ہے اور اس روایت کا سلسلہ صحابہ تک پہنچ جاتا تھا اور پھر اُس روایت کا سلسلہ ثقہ راویوں کے ذریعہ حضور تک پہنچتا تھا جب طرح طرح کے فرقے پیدا ہو گئے تو عقائد باطلہ کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع ہونا شروع ہوئیں تو سند حدیث کی روایت کے لئے ایک لازمی اور اہم شرط قرار دے دی گئی ۔ حدیث کے راویوں کے سلسلہ کو سند کہتے ہیں۔ عظیم محدت این مبارک کہتے ہیں جو شخص دین کو بغیر اسناد کے حاصل کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھے اسناد کے بغیر حدیث کی کوئی وقعت نہیں ۔ (۱) اسناد بیان کرنا (۲) نسب بیان کرنا (۳) اعراب لگانا ۔ سند اور روایت کا علم اللہ کا وہ انعام ہے جس کے ساتھ اُمت محمدیہ کو خاص کیا گیا ہے۔ اور اسے درایت کا زینہ و وسیلہ بنایا سند کے ذریعے ضیعف کی سیدھی اور ٹیڑھی بات کی شناخت ہوتی ہے۔ احادیث نبویہ خواہ قولی ہو یا فعلی یا تقریری دو حصوں میں منقسم ہے۔ (۱) وہ جس میں مولف کتاب مثلاً بخاری و مسلم سے لے کر حضور تک راویان حدیث کے نام مذکور ہوتے ہیں اس کو اسناد کہتے ہیں۔ (۲) دوسرا حصہ جس میں حضور کا ارشاد گرامی مذکور ہوتا ہے اس کو متن حدیث کہتے ہیں صحابہ کرام نے براہ راست حضور سے حدیثیں سنی تھیں اس لئے صحابہ میں اسناد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ آگے چل کر راویان حدیث اور حضور کے درمیان واسطے بڑھے تو اسناد کی ضرورت پڑی ۔ | |||
== متن == | |||
حدیث کی عبارت کو متن کہتے ہیں۔ | |||
== غریب == | |||
جس کے راوی کسی دور میں ایک ہی رہ گیا ہو۔ | |||
== مرسل == | |||
تابعی اور حضور کے درمیان صحابی کا ذکر نہ ہو۔ | |||
== منکر == | |||
اگر ضعیف راوی دوسرے ثقہ راوی کی مخالفت کرے تو ضعیف کی روایت کو منکر اور اس کے بالمقابل ثقہ کی روایت کو معروف کہتے ہیں۔ | |||
== موطا == | |||
موطا کے معنی ہیں ایسی راہ جولوگوں کے چلنے سے بن جائے ۔ امام مالک نے دستورات مدینہ سے شریعت کا ایسا علم نکالا جو زندگی کے کل معاملات پر حاوی ہو مالک نے جو تالیف کیا اُس کا نام انہوں نے موطا رکھا۔ یہ کتاب زیادہ تر صحابہ کے شرعی اقوال پر مبنی ہے موطا کے لغوی معنی ہیں سنوارا ہوا، ہموار کرده ، تحقیق شده متفق علیہ، موطا اس راستہ کو بھی کہتے ہیں جس پر لوگوں کا عام گزر ہو۔ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ نام رکھتے وقت مالک کے سامنے موطا کا کونسا مفہوم تھا۔ | |||
1۔مالک بن انس پہلے شخص تھے جنہوں نے احادیث کو ایک مجموعی اور منضبط شکل میں پیش کیا حدیث کی اس کتاب کا نام موطا ہے ۔ یہ احادیث کی کتابوں میں سب سے اول حدیث کی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ | |||
2۔ ان کے بعد امام احمد بن حنبل ۲۴۱ ہجری میں ایک اسی قسم کا مخزن احادیث کی کتاب لکھی جومسند کے نام سے مشہور ہے۔ | |||
3۔ تیسری صدی ۲۵۶ ہجری میں بخاری شریف ترتیب دی گئی ۔ | |||
4۔ اور مسلم حدیث ۲۶۱ ہجری میں ترتیب دی ان کے بعد ابوداؤد۔ ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ کے مجموعے کو تیسری صدی ہجری میں ترتیب دی گئی۔ | |||
== اصحاب سنن == | |||
صحاح ستہ کی چار کتابوں کے مرتبین امام نسائی ، امام تر ندی، امام ابوداؤد، امام ابن ماجہ کو اصحاب سنن کہتے ہیں۔ ان حدیثوں کے مجموعوں میں صرف ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن کا تعلق احکام سے ہے اس لئے ان کو سنن کا نام دیا گیا ہے۔ |
نسخہ بمطابق 10:47، 7 فروری 2024ء
اسلامی شریعت کا پورا علم ہم کو بڑے ذرائع قرآن اور حدیث سے حاصل ہوتا ہے۔
حدیث کے لغوی معنی
بات چیت، نئی چیز،بیان، ذکر، قصہ، کہانی، تاریخ یا سند ہے۔
حدیث کا لغوی مفہوم
(۱) حدیث کا لفظ قدیم کی ضد ہے اور اس کا مصدر "حدث" ہے جس کا اطلاق نئے عوارض پر ہوتا ہے " رجل حدث" کے معنی جوان آدمی ہے نئی چیز اور نئی بات کو حدیث کہتے ہیں حادثہ کو اسی لئے یہ نام دیا گیا ہے کہ وہ وقوع کے اعتبار سے نیا ہوتا ہے۔
(۲) حدیث کا لفظ بات چیت اور گفتگو کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس کی جمع صحیح مذہب کے مطابق احادیث ہے۔
(۳) دنیا کے عجائبات اور خلاف امید واقعات، حکایات اور قصوں کو بھی احادیث فرمایا گیا ہے۔
حدیث کی تعریف
حدیث کا لفظ تحدیث سے اسم ہے تحدیث کے معنی خبر دینا ہے۔ ظہور اسلام سے پہلے عرب حدیث کے لفظ کو اخبار کے معنی میں استعمال کرتے تھے مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث کے نام سے موسوم کرتے تھے ۔ اس لئے شیعہ نے اس روایت کو قائم کیا ہوا ہے اور اپنی حدیث کی کتابوں کو اخبار کہتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں حضرت محمد ﷺ کے قول و فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے اس کی جمع احادیث ہے۔ اصطلاحی معنی میں حضور کے وہ اقوال ہیں جو راویوں کے ذریعہ نسلاً بعد نسل تواتر کے ساتھ وہ عمل میں پہنچے ہیں۔ حدیث کے معنی اسلامی اصطلاح میں حضور کی وہ باتیں ہیں جن کو حضور نے قرآن کو سمجھانے کے لئے ہائی ہیں۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ نماز پڑھ مگر قرآن میں وقت کے متعلق نہیں لکھا کہ کسی وقت سے کسی وقت تک اور کس وقت کتنی رکعت پڑھنی چاہیے رکوع کے ہیے رکوع کیسے کرنا چاہیے اور سجدہ کیسے کرنا چاہیے۔ اور اس نماز میں کیا پڑھنا چاہیے یہ سب قرآن میں بیان نہیں ہوا ہے یہ سب باتیں حضور نے بتائی ہیں اور یہ سب باتیں حدیث سے ملتی ہیں۔
حدیث کی قسمیں
حدیث کی دو قسمیں ہیں ایک الہی جسے قدسی کہتے ہیں اور دوسری نبوی ، قدسی حدیث میں حضور اپنے پروردگار سے روایت کرتے ہیں۔ حدیث قدسی اور دیگر احادیث میں نمایاں فرق یہ ہے کہ اس میں ( قال اللہ تعالی ) " اللہ تعالیٰ نے فرمایا" کے الفاظ ہوتے ہیں ویسے دیگر الہامات ربانی کی طرح یہ بھی ایک الہام ہوتا ہے ۔ حضور بسا اوقات کچھ چیزیں اللہ کی طرف منسوب کر کے فرمایا کرتے تھے مگر قرآن میں وہ موجود نہیں اس طرح کی احادیث کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے۔
قولی
جو حضور نے اپنی زبان سے فرمایا ہو اُس کو حدیث قولی کہتے ہیں۔ صحاح ستہ کی اکثر احادیث حضور کے اقوال ہیں مثلاً حضور کا یہ فرمان " جیسے مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو اس طرح نماز پڑھو قولی حدیث کو اثبات احکام کے لحاظ سے اولین مقام حاصل ہے۔
فعلی
جو حضور نے اپنے ہاتھ سے یا کسی اور طریقے سے کسی کام کو کیا ہو اُس کو حدیث فعلی کہتے ہیں مثلاً حضور نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی کھائیوں میں تر کر کے پھنسا ئیں اور کھائیاں تڑکیں آواز آئی یہ حدیث فعلی ہے۔ نماز، وضو، اعتکاف اور دیگر افعال یہ سنت اور حجت ہیں۔
تقریری
کوئی کام یا بات جو حضور کے سامنے واقعہ ہوا ہو اور حضور نے اُس کام کو دیکھا اور حضور نہ بولےنہ انہوں نے اُس کام کو غلط کہا اور نہ صحیح کہا اس پر اعتراض نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جائز اور درست ہے ورنہ حضور خاموش نہ رہتے۔ صحابی کے کسی فعل پر حضور کا خاموش رہنا محدثین کی اصطلاح میں " تقریر کہلاتا ہے یہ حدیث کی تیسری قسم ہے جسے حدیث تقریری کہتے ہیں۔
سنت
سنت کے لغوی معنی ہیں طریقہ یا قاعدہ یا کسی کا ڈھب یا زندگی کا اسلوب ہے۔ اسلام میں سنت سے مراد حضور کی فعلی روش ہے پس وہ عملی نمونہ جو حضور نے پیش کیا اس کا نام سنت ہے ۔ سُنت . کے لفظی معنی راستہ اور طریقہ کے ہیں اسلامی اصطلاح کے مطابق سنت کے ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے سنت ادانہ کرنے میں عذاب نہیں ملتاسنت اُس کام کو کہتے ہیں جس کو رسول اللہ یا صحابہ کرام نے کیا ہو یا حکم فرمایا ہو ۔ جب بھی لفظ سنت آئے گا تو اُس کا تعلق حضور سے ہوگا ۔ اصول حدیث وفقہ کے علماء کے نزدیک حدیث و سنت" کے الفاظ ہم معنی ہیں یہ کہنا کہ سنت سے مراد حضور کا عملی طریق اور حدیث سے مراد حضور کے اقوال میں بالکل غلط اور فن سے نا واقف ہونے کی دلیل ہے ۔ سنت اور حدیث مترادف ہیں اور شرعاً یہ دونوں حجت ہیں سنت کا اطلاق زیادہ تر حضور کے اقوال وافعال اور تقریر پر کیا جاتا ہے لہٰذا یہ لفظ علمائے اصول کے نزدیک حدیث کا مترادف ہے حدیث و سنت“ کے الفاظ ہم صرف چند ایک سنتیں جو حضرت ابراہیم کی ہیں جن کو مسلمان مانتے ہیں مثلا حج کی چند رسومات اور قربانی کی عید اس کو سنت ابراہیمی بھی کہتے ہیں سنت کی قسمیں ہیں۔ سنت موکده 2۔ سنت غیر موکدہ سنت موکدہ اور سنت غیر موکدہ کا زیادہ ذکر نماز روں میں آئے گا۔
سنت موکدہ
وہ عمل ہے جس کو حضور نے کبھی نہ چھوڑا ہو اُس کو سنت موکدہ کہتے ہیں۔
سنت غیر موکدہ
اس عمل کو کہتے ہیں جس کام کو کبھی حضور نے چھوڑ دیا ہو اس کو سنت غیر موکدہ کہتے ہیں ۔ اسلامی اصطلاح میں اگر کوئی شخص سُنت و حدیث کو نہیں مانتا تو حقیقت میں وہ قرآن کے کلام الہی ہونے کا انکار کرتا ہے۔ سنتوں اور حدیثوں کی بہت کی اسلامی کتب مشہور ہیں مگر آٹھ کتابیں زیادہ مشہور ہیں:
- بخاری شریف
- مسلم شریف
- سنن ترندی شریف
- سنن ابوداؤد شریف
- سنن نسائی شریف
- موطا امام مالک
- مسند امام احمد بن حنبل
- ابن ماجہ ان کے علاوہ بھی بہت کی حدیث کی کتابیں ہیں۔
صحاح ستہ
محدثین کی اصطلاح میں صحاح ستہ حدیث کی درج ذیل چھ کتابوں کو کہتے ہیں:
- مسلم
- ترمدی
- ابوداؤد
- نسائی
- ابن ماجہ
پہلا طبقہ
جو حدیث کی کتب طبقہ اول میں اعلیٰ درجہ کی ہے وہ تواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہے طلبقہ اول کی تین احادیث کی کتب میں موطا امام مالک، صحیح بخاری ہی مسلمان میں متواتر صحیح اور حسن ہر قسم کی حدیثیں پائی جاتی ہیں۔
دوسرا طبقہ
ان حدیث کی کتب میں جو کتاب طبقہ اولی کے درجے تک نہیں پہنچتی لیکن طبقہ اولی کے قریب قریب ہیں اس طبقہ میں سنن ابوداؤد، جامع ترندی اور نسائی میں مسند احمد بن حنبل بھی تقریبا اس طبقے کی ہیں۔ متاخرین نے ان کو قبول عام کی سند دے دی ہے اور ضعیف کے باوجود ان سے کثیر علوم واحکام اخذ کئے ہیں ان میں عقائد و شریعت کے اصول و استنباط کرتے ہیں ۔
تیسرا طبقہ
وہ تصانیف جو بخاری سے قبل یا ان کے زمانہ میں یا ان کے بعد تصنیف ہوئیں ان کی تمام قسمیں ضعیف، معروف، غریب، شاذ ، منکر ، خطا ، ثواب اس میں ہر قسم کی حدیث شامل ہے ان کے اکثر راوی مستور الحال ہیں۔
چوتھا طبقہ
اس طبقہ میں وہ نا قابل اعتماد کتب شامل ہیں جو پچھلے ادوار میں افسانہ کو واعظوں، صوفیوں، مورخین اور غیر عادل اصحاب بدعت سے حدیثیں سن کر تصنیف حدیث شامل ہے ان کے اکثر راوی مستور الحال ہیں ۔ کی گئی ہیں۔ حدیث کی دو اقسام بہت مشہور ہیں: ۱- متواتر ۲- آحاد
متواتر حدیث
یہ وہ حدیث ہے جس کو ہر زمانہ میں راویوں نے کثرت سے روایت کیا ہو سب راویوں کا کسی جھوٹی بات پر متفق ہو جانا عقل کے نزدیک محال ہو۔ اس کی مثال نماز کی رکعتوں والی روایت یا زکوۃ کی مقداروں والی روایت ہو متواتر وہ حدیث ہے جسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے پر امت کا اجماع ہوا ہو۔ اور جس کو مذکورہ جماعت سند کے اول اوسط اور آخر میں ایک ہی قسم کے الفاظ کے ساتھ روایت کرتی ہو مثلا۔ (1) متواتر حدیث جس میں چاند کے دوٹکڑے ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔
(۲) واقعہ معراج
(۳) متواتر حدیث میں حضور کی شفاعت کا ذکر کیا گیا ہو۔
(۴) متواتر حدیث جس میں آپ کی انگلیوں سے پانی پھوٹنے لگا اور سب لشکر سیراب ہو گیا ہو۔
(۵) وہ حدیث جس میں کھجور کے اس تنے کے رونے کا ذکر کیا گیا ہے جس کے ساتھ سہارا لگا کر آپ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔
متواتر حدیث کی حجیت پر سب عقل مند متفق ہیں متواتر کے سوا باقی سب آحاد حدیثیں ہیں۔
آحاد
آحاد حدیث اُس کو کہتے ہیں جن کی روایت میں اتنی کثرت نہ ہو جو کئی طریقوں سے حاصل ہوئی ہو اور ان کے ثبوت میں کوئی شبہ بھی نہ رہا ہو۔ آگے آحاد کی تین قسمیں ہیں۔
(1) مشہور: جس حدیث کے راوی ہر زمانے میں دو سے زائد رہے ہوں اس کو مشہور حدیث کہتے ہیں۔
(۲) عزیز: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں کم سے کم دور ہے ہوں اس کو عزیز کہتے ہیں۔
(۳) غریب: جس حدیث کے راوی کسی زمانے میں ایک رہا ہو غریب“ کہلاتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اکثر یہ دیکھنے میں آئے گا کہ یہ حدیث غریب ہے یہ حدیث مشہور ہے اور یہ حدیث عزیز ہے تو اُس وقت یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ یہ حدیث کی کون کی قسم ہے ۔ مشہور حدیث کی آگے قسمیں ہے ہیں جن کا بہت دفعہ کر آئے گاصیح حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) صبح (۲) حسن (۳) ضعیف۔
صحیح حدیث
(صحیح حدیث اس کو کہتے ہیں جن کی سند حسن ہو اور جس کے بارے میں راوی عادل ہوں مجروح ( بد نام ) اور مستور الحال ( گم نام ) نہ ہوں اور مصنف سے رسول اللہ تک سند متصل ہو ( متصل سے مراد یہ ہے کہ سند کہیں سے منقطع نہ ہو ) یعنی سلسلہ روایت کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ اور دوسرے راویوں کی روایت سے نہ ٹکرائے اور اس میں کوئی پوشیدہ سبب موجود نہ ہو۔ صحیح حدیث شاذ نہیں ہوتی شاذ سے مراد ایک راوی اپنے سے بڑے راوی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل مدینہ نے روایت کیا اس کے بعد اہل بصرہ کا درجہ ہے پھر اہل شام کا صحیح ترین احادیث وہ ہیں جن کو اہل حرمین ( مکہ و مدینہ ) نے روایت کیا اور اس میں کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو اور نہ معتبر لوگوں نے مخالفت کی ہو۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ محمد ثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن اور سنت مظہرہ کے خلاف ہو وہ قول رسول نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری ، مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی روح سے جن احادیث کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن وسنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری و مسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں۔ اس لئے ان میں کوئی روایت نہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہو: (1) حضرت عیسی ابن مریم کا دوبارہ دنیا میں آنا۔
(۲) حضور پر ذاتی حیثیت سے جادو کے چند اثرات کا ہو جانا۔
(3) دجال سے متعلق ۔
(4)عذاب قبر سے متعلق اخبار (احادیث) اور ان جیسی باتیں قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں تو یہ دراصل ان کی کم علمی اور جہالت یہ وہ روایات ہیں جنہیں تحقیق کے بعد محمد ثین نے صحیح کہا ہے۔ یہ قرآن کے خلاف نہیں بلکہ ان منکرین کی خود ساختہ شرح قرآن اور مفہوم کتاب اللہ کے الٹ ہے۔
حدیث حسن
اس کی تعریف میں اختلاف ہے اس کی دو قسمیں ہیں ابن صلاح نے حسن حدیث کی تعریف یوں بیان کی ہے۔ (1) وہ حدیث جس کے کسی ایک راوی کی اہلیت اور حالات کا پوری طرح علم نہ ہو لیکن اتنا ضرور معلوم ہو کہ فاسق اور کثیر الخطا نہیں تھا اور نہ اس پر جھوٹ کا الزام ہو۔ وہ حدیث جس کا راوی صدق و امانت میں مشہور ہولیکن قوت حفظ اور ملکہ اخذ میں اس کا مرتبہ صحیح حدیث کے راویوں سے فروتر محدثین تک ہو۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق، دیندار، پر ہیز گار اور خوب یاد رکھنے والے لوگوں نے اسے ہر زمانہ میں برابر روایت کیا ہو اور اس میں چھپا ہوا عیب نہ ہو اور نہ ہی معتبر لوگوں نے اُس روایت کی مخالفت کی ہو۔ حدیث بخاری اور حدیث مسلم میں زیادہ تر انہی الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔
حدیث ضعیف
وہ حدیث جس کے راوی معتبر نہ ہوں اور جو مشکوک کبھی سمجھتی جاتی ہو۔ یہ حدیث کی تیسری قسم ہے اس کا اطلاق اس حدیث پر ہوتا ہے جس کے متن یا سند میں کوئی صعف پایا جائے اور جس میں صحیح یا حسن کی صفات موجود نہ ہوں جس کے راوی معتبر نہ ہوں اور جو مشکوک سمجھی جاتی ہو۔
ضعیف حدیث
ضعیف حدیث سے نہ کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہے اور نہ اس سے حلال وحرام ثابت ہوتا ہے اس پر عمل کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے ضعیف حدیث کی کتب کتاب الضعفا ابن حیان ابن حبان کتاب المراسل ، کتاب العلل۔
ضعیف حدیث کی اقسام
- مرسل
- منقطع
- منکر
- متروک
- شاذ
- معلل
- مدرج
- مقلوب
- مفطرب
- مفحف
متفق علیہ حدیث
وہ حدیث ہے جس کو امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتب میں نقل کیا ہو۔
حدیث مرسل
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے آخری کڑی یعنی صحابی مفقود ہو۔
حدیث منقطع
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے کوئی راوی چھوٹ جائے۔
حدیث معضل
وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد سے دو یا دو سے زائد راوی غائب ہوں یا کسی تبع تابعی نے حدیث بیان کی ہو مگر تابعی اور صحابی دونوں کا ذکر نہ کیا ہو۔ حدیث معضل کو حدیث ضعیف بھی کہتے ہیں جس کے دو راوی برابر ساقط ہوں۔
حدیث منکر
وہ حدیث ہے جس کا راوی اپنی روایت میں منفرد ہو اور اس کے اندر عدالت اور ضبط دونوں صفات موجود ہوں۔
حدیث مضطرب
اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی روایات اپنے متن اور سند میں باہم مختلف ہوں۔ وہ تصانیف جو بخاری سے قبل یا ان کے زمانہ میں یا اُن کے بعد تصنیف ہوئیں ان میں صحیح حسن ، ضعیف، معروف ، غریب، منکر خطا ثواب ہر قسم کی احادیث شامل ہیں ۔
احادیث سے سے متعلق علوم
علماء حدیث نے تحفظ حدیث کے لئے جو ذرائع اختیار کیے اور جو علوم مدون کئے اُن کی تعداد پیٹھ (65) تک بیان کی گئی ہے۔
علم اسماء الرجال
یہ علم حدیث کے راویوں کے حالات سے بحث کرتا ہے گویا تمام حدیث کے راویوں کی مفصل تاریخ ، حالات ، پیدائش، وفات ، اساتذہ کی تفصیل ماہرین علم حدیث کے فیصلے درج ہیں یہ علم بہت ہی وسیع مفید اور دلچستپ ہے۔ محدثین نے تابعین اور تبع تابعین کے بعد راویوں کے حالات اُن کے ضبط واتقان وعدالت، امانت و دیانت، اخلاق و عادات اور معمولات و معاملات سے تعلق رکھنے والے اوصاف کو پوری چھان بین کے بعد قلم بند کیا۔ جن لوگوں نے یہ جلیل القدر کام سرانجام دیا انہیں رجال جرح و تعدیل کہا جاتا ہے ( نوٹ جرح سے مراد کسی رادی میں کسی خامی و خرابی کی نشاندہی کرنا اور تعدیل کے معنی ہیں عادل اور ثقہ قرار دینا ۔ جرح و تعدیل کے اس فن کو دفن جرح وتعدیل‘ یا علم اسماء الرجال کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ علم الحدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے۔ جس میں اُن لوگوں کے حالات قلم بند کئے گئے ہیں جنہوں نے احادیث و آثار کوبلواسطہ یا بلا واسطہ نقل کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک لاکھ انسانوں کی تاریخ تیار کی گئی جس میں صرف وطن اور ولادت ، وفات کا وقت یا عام حالات زندگی بتانے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس میں امانت و خیانت اور صدق و کذب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان ایک لاکھ انسانوں میں صحابہ کرام کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے ۔ اسماء الرجال کی ایک جامع کتاب ابن خلکان نے ۶۸۱ ھ میں تصانیف کی ہے جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے یہ سب کتابیں عربی میں ہیں۔
راوی
حضور پاک حدیث کی کتاب لکھنے والے تک جن جن لوگوں نے حدیث بیان کی ہو اُس کو راوی کہا جاتا ہے امام بخاری وغیرہ نے حدیث کے ساتھ اُس کے راویوں کے نام بھی لکھے ہیں۔
محدث
(م - ح- دت ) تین لفظ میں اسلامی اصطلاح میں محدث حدیث بیان کرنے والے کو کہتے ہیں ۔ اُردو لغت میں محدث (م - حد درث) علم حدیث کا جاننے والا فقیہ۔
لفظ محد ثین
حدیثیں جمع کرنے والوں یا حدیثوں کو نقل کرنے والوں کو محدثین کہتے ہیں یا حدیثیں بیان کرنے والوں کو بھی محدثین کہتے ہیں۔ یا جو شخص ” علوم حدیث میں ماہرانہ بصیرت رکھتا ہوا اسے محدث کہتے ہیں اور محدث کی جمع محدثین ہے۔
اثر
صحابہ کے قول اور فعل کو اثر کہا جاتا ہے اس کی جمع آثار ہے۔ کسی چیز کے بقیہ اور نشان کو کہتے ہیں نقل کو اثر سے تعبیر کیا جاتا ہے جس بات میں تم بحث کر رہے ہو سننے والے نقل کرنے والے کی نگاہ میں برابر ہے صحابہ کرام اور تابعین سے جو مسائل معقول نہیں انہیں آثار کہا جاتا ہے اصطلاحاً حضور کے ارشادات پر بھی اثر بولا جاتا ہے۔
اسناد
صحابہ کرام کے عہد میں کسی روایت کی توثیق کا قاعدہ یہ تھا کہ راوی سے شہادت طلب کی جاتی تھی۔ تابعین کے عہد میں صرف شہادت کافی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس لئے اسناد کا سلسلہ قائم کیا گیا یعنی جب بھی کوئی راوی روایت بیان کرتا تھا تو اُسے بتانا پڑتا تھا کہ اس نے وہ روایت کس سے سنی ہے اور اس روایت کا سلسلہ صحابہ تک پہنچ جاتا تھا اور پھر اُس روایت کا سلسلہ ثقہ راویوں کے ذریعہ حضور تک پہنچتا تھا جب طرح طرح کے فرقے پیدا ہو گئے تو عقائد باطلہ کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع ہونا شروع ہوئیں تو سند حدیث کی روایت کے لئے ایک لازمی اور اہم شرط قرار دے دی گئی ۔ حدیث کے راویوں کے سلسلہ کو سند کہتے ہیں۔ عظیم محدت این مبارک کہتے ہیں جو شخص دین کو بغیر اسناد کے حاصل کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھے اسناد کے بغیر حدیث کی کوئی وقعت نہیں ۔ (۱) اسناد بیان کرنا (۲) نسب بیان کرنا (۳) اعراب لگانا ۔ سند اور روایت کا علم اللہ کا وہ انعام ہے جس کے ساتھ اُمت محمدیہ کو خاص کیا گیا ہے۔ اور اسے درایت کا زینہ و وسیلہ بنایا سند کے ذریعے ضیعف کی سیدھی اور ٹیڑھی بات کی شناخت ہوتی ہے۔ احادیث نبویہ خواہ قولی ہو یا فعلی یا تقریری دو حصوں میں منقسم ہے۔ (۱) وہ جس میں مولف کتاب مثلاً بخاری و مسلم سے لے کر حضور تک راویان حدیث کے نام مذکور ہوتے ہیں اس کو اسناد کہتے ہیں۔ (۲) دوسرا حصہ جس میں حضور کا ارشاد گرامی مذکور ہوتا ہے اس کو متن حدیث کہتے ہیں صحابہ کرام نے براہ راست حضور سے حدیثیں سنی تھیں اس لئے صحابہ میں اسناد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ آگے چل کر راویان حدیث اور حضور کے درمیان واسطے بڑھے تو اسناد کی ضرورت پڑی ۔
متن
حدیث کی عبارت کو متن کہتے ہیں۔
غریب
جس کے راوی کسی دور میں ایک ہی رہ گیا ہو۔
مرسل
تابعی اور حضور کے درمیان صحابی کا ذکر نہ ہو۔
منکر
اگر ضعیف راوی دوسرے ثقہ راوی کی مخالفت کرے تو ضعیف کی روایت کو منکر اور اس کے بالمقابل ثقہ کی روایت کو معروف کہتے ہیں۔
موطا
موطا کے معنی ہیں ایسی راہ جولوگوں کے چلنے سے بن جائے ۔ امام مالک نے دستورات مدینہ سے شریعت کا ایسا علم نکالا جو زندگی کے کل معاملات پر حاوی ہو مالک نے جو تالیف کیا اُس کا نام انہوں نے موطا رکھا۔ یہ کتاب زیادہ تر صحابہ کے شرعی اقوال پر مبنی ہے موطا کے لغوی معنی ہیں سنوارا ہوا، ہموار کرده ، تحقیق شده متفق علیہ، موطا اس راستہ کو بھی کہتے ہیں جس پر لوگوں کا عام گزر ہو۔ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ نام رکھتے وقت مالک کے سامنے موطا کا کونسا مفہوم تھا۔ 1۔مالک بن انس پہلے شخص تھے جنہوں نے احادیث کو ایک مجموعی اور منضبط شکل میں پیش کیا حدیث کی اس کتاب کا نام موطا ہے ۔ یہ احادیث کی کتابوں میں سب سے اول حدیث کی کتاب سمجھی جاتی ہے۔
2۔ ان کے بعد امام احمد بن حنبل ۲۴۱ ہجری میں ایک اسی قسم کا مخزن احادیث کی کتاب لکھی جومسند کے نام سے مشہور ہے۔
3۔ تیسری صدی ۲۵۶ ہجری میں بخاری شریف ترتیب دی گئی ۔
4۔ اور مسلم حدیث ۲۶۱ ہجری میں ترتیب دی ان کے بعد ابوداؤد۔ ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ کے مجموعے کو تیسری صدی ہجری میں ترتیب دی گئی۔
اصحاب سنن
صحاح ستہ کی چار کتابوں کے مرتبین امام نسائی ، امام تر ندی، امام ابوداؤد، امام ابن ماجہ کو اصحاب سنن کہتے ہیں۔ ان حدیثوں کے مجموعوں میں صرف ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن کا تعلق احکام سے ہے اس لئے ان کو سنن کا نام دیا گیا ہے۔