"چکڑالوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 30: سطر 30:
"اہلِ حدیث جماعت کے جوش وخروش کا دوسرا نتیجہ "طبقہ اہل القرآن" کا آغاز ہے، اہلِ حدیث اپنے آپ کوغیرمقلد کہتے ہیں، وہ فقہی ائمہ مثلاً ابوحنیفہ  کی تقلید سے آزاد ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کئی طبیعتوں کو جو زیادہ آزاد خیال تھیں فقط فقہاء کی تقلید سے آزادی کافی معلوم نہ ہوئی اور انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پراحادیث سے بھی آزادی حاصل کرنا چاہی، اس گروہ کا ایک مرکز پنجاب میں ہے، جہاں لوگ اُنہیں چکڑالوی کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کواہل القرآن کا لقب دیتے ہیں، اس گروہ کا بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلِ حدیث تھا"۔
"اہلِ حدیث جماعت کے جوش وخروش کا دوسرا نتیجہ "طبقہ اہل القرآن" کا آغاز ہے، اہلِ حدیث اپنے آپ کوغیرمقلد کہتے ہیں، وہ فقہی ائمہ مثلاً ابوحنیفہ  کی تقلید سے آزاد ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کئی طبیعتوں کو جو زیادہ آزاد خیال تھیں فقط فقہاء کی تقلید سے آزادی کافی معلوم نہ ہوئی اور انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پراحادیث سے بھی آزادی حاصل کرنا چاہی، اس گروہ کا ایک مرکز پنجاب میں ہے، جہاں لوگ اُنہیں چکڑالوی کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کواہل القرآن کا لقب دیتے ہیں، اس گروہ کا بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلِ حدیث تھا"۔
<ref>موجِ کوثر، ص۵۲</ref>۔
<ref>موجِ کوثر، ص۵۲</ref>۔
پھرایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"فی الحقیقت حدیث میں اس قدر لغویات ہزلیات اور دور ازکار اور بے سراپا باتیں مندرج ہیں کہ وہ اس کی شکل کونہایت ہی بدنما بناتی ہیں؛ لیکن واضعینِ حدیث (حدیث بنانے والوں) نے یہ بڑی کاریگری کی کہ اس کوخاتم النبیین کی طرف منسوب کردیا اور اس طرح اس کے بدشکل چہرہ پرسفید (پاوڈر) مل دیا"۔
حدیث لٹریچر معتمد ذخیرہ حدیث ہے یانہ؟ اس کی بحث تدوینِ حدیث کے زیرِعنوان پہلے ہوچکی ہے، آپ اس وقت صرف چکڑالوی صاحب کے موقف پرغور کریں، اس کا حاصل یہ ہے کہ حدیث کا کوئی وجود حضور کے زمانے میں نہ تھا، حضور نے قرآن کے سوا کبھی کوئی بات نہ کی تھی، صحابہؓ نے حضورکے کسی قول یاعمل کوکبھی کسی کے سامنے نقل کیا تھا نہ ان میں حضور کی وفات کے بعد حضور کی کسی بات کوآگے نقل کرنے کا داعیہ پیدا ہوا اور نہ ہی اگلوں نے پچھلوں سے حضور یاصحابہؓ کے زمانے کی کوئی بات پوچھی؛ انہی حالات پراسلام کی دوتین صدیاں بسر ہوئیں اور اس کے بعد یہود ونصاریٰ کے کہنے سے حدیث کی کتابیں یکایک لکھ دی گئیں اور مسلمان یکا یک ان کی باتوں میں آکر ان ہزلیات کودین سمجھنے لگے، پہلی تین صدیوں میں جوقرآنی نماز قائم تھی، وہ یکایک ترک ہوگئی اور نماز کا موجودہ نقشہ جوسراسر قرآن کے خلاف تھا، مسلمانوں میں قائم ہوگیا، اسلامی دنیا جہاں تک وسیع ہوتی گئی؛ یہی عجمی نماز ہرجگہ پہنچی اور کسی عربی دان کوقرآن کے مطالعہ سے قرآن میں یہ نقشہ نماز نظر نہ آیا جومولوی عبداللہ چکڑالوی نے اب برہان القرآن علی صلوۃ القرآن میں درج فرمایا ہے؛ پھرمسلمانوں میں ان قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ میں جتنے بھی قانون دان اور ماہرینِ فقہ گزرے، ان میں سے کسی کوپتہ نہ چل سکا کہ یہ معتبرراویوں کے نقل کئے ذخائرِ حدیث ہرگز ماخذ علم نہیں؛ بلکہ یہ سب ہزلیات کا ایک ذخیرہ ہے، جودشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے تیار کیا ہے؎
بریں عقل ودانش بباید گریست
چکڑالوی صاحب کا یہ تبصرہ صرف اس امت پر نہیں، وہ پہلی اُمتوں کوبھی برابر کامجرم قرار دیتے ہیں اور مولوی کا دعویٰ ہے کہ اتباعِ حدیث کی تجویز پہلے ادوار میں بھی تھی، فرعون اہلِ حدیث میں سے تھا اور موسیٰ علیہ السلام تورات کے سوا اور کسی چیز کوبنواسرائیل کے لیے حجت نہ سمجھتے تھے اور نہ آپ نے کبھی کسی اور بات کی دعوت دی تھی، مولوی صاحب کی یہ بات "پنسبہ کجا کجا نہم" کا مصداق ہے، ہم ان کی کس کس بات پرمرہم رکھیں اور ان کے لگائے کس کس زخم کومندمل کرنے کی کوشش کریں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی تھی اور وہ اسرائیل کے لیے بے شک تشریعی پیغمبر تھے، ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام توصاحب کتاب نہ تھے؛ پھرقرآن کریم میں یہ بات کیوں ہے کہ انہوں نے بھی قوم کواپنی پیروی کی دعوت دی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اور رسول اسی لیے توبھیجے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے؟ اور ان سے رضاءِ الہٰی کے طریقے جاری ہوں؟ بنی اسرائیل جب سامری کے چکر میں گھرے توحضرت ہارون علیہ السلام نے کیا یہ نہ کہا تھا:
چکڑالوی صاحب کا یہ تبصرہ صرف اس امت پر نہیں، وہ پہلی اُمتوں کوبھی برابر کامجرم قرار دیتے ہیں اور مولوی کا دعویٰ ہے کہ اتباعِ حدیث کی تجویز پہلے ادوار میں بھی تھی، فرعون اہلِ حدیث میں سے تھا اور موسیٰ علیہ السلام تورات کے سوا اور کسی چیز کوبنواسرائیل کے لیے حجت نہ سمجھتے تھے اور نہ آپ نے کبھی کسی اور بات کی دعوت دی تھی، مولوی صاحب کی یہ بات "پنسبہ کجا کجا نہم" کا مصداق ہے، ہم ان کی کس کس بات پرمرہم رکھیں اور ان کے لگائے کس کس زخم کومندمل کرنے کی کوشش کریں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی تھی اور وہ اسرائیل کے لیے بے شک تشریعی پیغمبر تھے، ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام توصاحب کتاب نہ تھے؛ پھرقرآن کریم میں یہ بات کیوں ہے کہ انہوں نے بھی قوم کواپنی پیروی کی دعوت دی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اور رسول اسی لیے توبھیجے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے؟ اور ان سے رضاءِ الہٰی کے طریقے جاری ہوں؟ بنی اسرائیل جب سامری کے چکر میں گھرے توحضرت ہارون علیہ السلام نے کیا یہ نہ کہا تھا:
"يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي"
"يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي"