"حسن البنا" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
سطر 43: سطر 43:
{{اختتام}}
{{اختتام}}
== اہم نظریات ==
== اہم نظریات ==
البنا کی نظر میں اسلام کا مطلوبہ کمال مسلمانوں کی پہلی نسل میں پوشیدہ تھا۔ وہ دور جب قرآن کے اصولوں کا احترام کیا جاتا تھا اور قومیتوں سے قطع نظر اسلام کو واحد '''قومیت'''سے پہچانا جاتا تھا۔ ان کی رائے میں موجودہ اسلامی معاشروں اور حقیقی اسلام کے درمیان ایک خلیج تھی جو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بنی۔ اس وجہ سے اس نے اسلام کو احیاء کرنے کی کوشش کی، نہ صرف مسلمانوں کو جھان خواروں  کی گرفت سے نجات دلانے بلکہ انسانیت کو نجات دلانے کیلے کوششیں کیں۔ ان کا خیال تھا کہ یورپی فلسفہ اور مادیت کے بجائے اسلام کی ثقافت اور تہذیب کو قبول کرنا چاہیے۔
البنا کی نظر میں اسلام کا مطلوبہ کمال مسلمانوں کی پہلی نسل میں پوشیدہ تھا۔ وہ دور جب قرآن کے اصولوں کا احترام کیا جاتا تھا اور قومیتوں سے قطع نظر اسلام کو واحد قومیت کے عنوان سے پہچانا جاتا تھا۔ ان کی رائے میں موجودہ اسلامی معاشروں اور حقیقی اسلام کے درمیان ایک خلیج تھی جو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بنی۔ اس وجہ سے انہوں نے اسلام کو احیاء کرنے کی کوشش کی، نہ صرف مسلمانوں کو جھان خواروں  کی گرفت سے نجات دلانے بلکہ انسانیت کو نجات دلانے کیلے کوششیں کیں۔ ان کا خیال تھا کہ یورپی فلسفہ اور مادیت کے بجائے اسلام کی ثقافت اور تہذیب کو قبول کرنا چاہیے۔


اس عقیدہ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسلامی معاشرے کی تعمیر نو میں تمام مغربی طریقوں کے خلاف ہے، بلکہ اس کی سوچ کی جڑیں روایت پرستی اور مذہبی معیارات پر مبنی معاشرے کی اصلاح پر تھیں۔
اس عقیدہ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ  اسلامی معاشرے کی تعمیر نو میں تمام مغربی طریقوں کے خلاف ہیں، بلکہ ان کی سوچ کی جڑیں روایت پرستی اور مذہبی معیارات پر مبنی معاشرے کی اصلاح پر تھیں۔
حسن البنا مذہب کو سیاست (سیکولرازم) سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مذہبی قوم پرستی کے سخت مخالف تھے، جس کی بنیاد ساطع الحصر نے 1920 میں رکھی تھی اور مشیل عفلق نے اسے 1940 میں [[شام]] میں لاگو کیا تھا (اور پھر البنا کی موت کے بعد کمال عبد الناصر کے دور میں  اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ نیز عربیت کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ اسلام کسی جغرافیائی حدود، نسلی یا شہریت کے فرق کو تسلیم نہیں کرتا۔ البنا تمام مسلمانوں کو ایک امت اور تمام اسلامی ممالک کو ایک ملک مانتے تھے۔ اسی لیے آپ قوم پرستی بالخصوص فاشیزم اور نازیسم کے سخت مخالف تھے۔
حسن البنا مذہب کو سیاست (سیکولرازم) سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مذہبی قوم پرستی کے سخت مخالف تھے، جس کی بنیاد ساطع الحصر نے 1920 میں رکھی تھی اور مشیل عفلق نے اسے 1940 میں [[شام]] میں لاگو کیا تھا (اور پھر البنا کی موت کے بعد جمال عبد الناصر کے دور میں  اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ نیز عربیت کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ اسلام کسی جغرافیائی حدود، نسلی یا شہریت کے فرق کو تسلیم نہیں کرتا۔ البنا تمام مسلمانوں کو ایک امت اور تمام اسلامی ممالک کو ایک ملک مانتے تھے۔ اسی لیے آپ قوم پرستی بالخصوص فاشیزم اور نازیسم کے سخت مخالف تھے۔
== وحدت اسلامی کے بارے میں ان کا نظریہ ==
== وحدت اسلامی کے بارے میں ان کا نظریہ ==
اخوان المسلمین کے تیسرے مرشد شیخ عمر التلمسانی شیعہ اور سنی کے بارے میں اخوان المسلمون کے بانی اور پہلے مرشد حسن البنا کے نظریے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: امام البنا رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے اسلامی اتحاد کی تشکیل پر خصوصی توجہ دی اور اخوان المسلمون ماضی اور آج اور مستقبل میں اس راہ پر گامزن ہے، وہ اتحاد کے لیے کوشاں رہیں گے، خواہ اس عظیم مقصد میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ قرآن کے واضح نص کے مطابق مسلمان ایک قوم ہیں:"انَّ هذِهِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً واحِدَةً"<ref>انبیاء/92۔</ref>۔ مجھے یاد ہے کہ 1940 کی دہائی میں جناب قمی جو کہ شیعہ عالم تھے، اخوان کی مرکزی عمارت میں مہمان کے طور پر ٹھہرے ہوئے تھے اور اس وقت امام شہید اسلامی مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کر رہے تھے تاکہ دشمن، مسلمانوں کی دوری اور جدائی سے سوء استفادہ اور امت اسلامیہ کے اتحاد کو تباہ نہ کر دیں۔
اخوان المسلمین کے تیسرے مرشد شیخ عمر التلمسانی شیعہ اور سنی کے بارے میں اخوان المسلمون کے بانی اور پہلے مرشد حسن البنا کے نظریے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: امام البنا رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے اسلامی اتحاد کی تشکیل پر خصوصی توجہ دی اور اخوان المسلمون ماضی اور آج اور مستقبل میں اس راہ پر گامزن ہے، وہ اتحاد کے لیے کوشاں رہیں گے، خواہ اس عظیم مقصد میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ قرآن کے واضح نص کے مطابق مسلمان ایک قوم ہیں:"انَّ هذِهِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً واحِدَةً"<ref>انبیاء/92۔</ref>۔ مجھے یاد ہے کہ 1940 کی دہائی میں جناب قمی جو کہ شیعہ عالم تھے، اخوان کی مرکزی عمارت میں مہمان کے طور پر ٹھہرے ہوئے تھے اور اس وقت امام شہید اسلامی مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کر رہے تھے تاکہ دشمن، مسلمانوں کی دوری اور جدائی سے سوء استفادہ اور امت اسلامیہ کے اتحاد کو تباہ نہ کر دیں۔