"حسن البنا" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 19: سطر 19:


'''حسن البنا''' کا شمار امت اسلامیہ کے اتحاد کے علمبردار اور اپنے دور کے سماجی اور اجتماعی مصلحین میں ہوتا ہے۔  آپ اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کے بانی اور [[مصر]] میں 1928 میں اس کے پہلے مذہبی راہنا اور مبلغ  تھے۔ انہیں 1949 میں مصری حکومت کے ایجنٹوں نے قتل کر دیا تھا۔ حسن البنا پہلے عرب رہنما ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے مسئلے پر توجہ دی ہے اور اس میدان میں اپنی کوششیں بروئے کار لائی۔ 20ویں صدی میں اسلامی فکر پر ان کے گہرے اثرات کی وجہ سے انہیں امام شہید کے نام سے جانا جاتا ہے۔
'''حسن البنا''' کا شمار امت اسلامیہ کے اتحاد کے علمبردار اور اپنے دور کے سماجی اور اجتماعی مصلحین میں ہوتا ہے۔  آپ اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کے بانی اور [[مصر]] میں 1928 میں اس کے پہلے مذہبی راہنا اور مبلغ  تھے۔ انہیں 1949 میں مصری حکومت کے ایجنٹوں نے قتل کر دیا تھا۔ حسن البنا پہلے عرب رہنما ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے مسئلے پر توجہ دی ہے اور اس میدان میں اپنی کوششیں بروئے کار لائی۔ 20ویں صدی میں اسلامی فکر پر ان کے گہرے اثرات کی وجہ سے انہیں امام شہید کے نام سے جانا جاتا ہے۔
== سوانح عمری ==
حسن البنّا نے اکتوبر 1906ء کو آنکھیں کھولی۔ ان کی جائے پیدائش وجائے پناہ محمودیہ ہے جو سرِدست مصر کے نام سے شہرت یافتہ ہے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم والدِ محترم کے زیرِ نگرانی ہوئی، پھر مدرسہ تحفیظ القران میں داخل ہوئے جہاں روشن مستقبل آپ کا منتظر تھا۔ ابتدائی لمحاتِ زندگی سے ہی آپ کے ذہانت کے آثار عیاں تھے اور شاید تابناک مستقبل کے گواہ بھی۔ کم سنی میں تخلیقِ ارض و سما اور طلوعِ آفتاب سے متعلق سوالات ،آپ کے منفرد ہونے کا ثبوت تھے۔ آپ ہمیشہ کہتے زندگی ایک نمایاں کتاب ہے جس کی تفسیرہے [[قرآن]] دائرہ تعلیم کو وسعت دینے کے اس درانیے میں آپ دیگر اطفال کے مشابہ کھیل کود کو ترجیح نہ دیتے بلکہ اپنا وقت اصلاحِ معاشرہ و فروغِ اخلاق کے کاموں میں گذارتے۔
اسکولی تعلیم کے بعد عشاء تک والد سے گھڑی سازی کا ہنر سیکھتے، عشاء سے لیکر سونے تک وہ اسکول کے اسباق ذہن نشین کرتے پھر بعد از فجر حفظِ قرن کا فعل انجام دیتے۔اسکول میں قائم جمیعتِ اخلاقِ ادبیہ کے صدر کی حیثیت سے بھی آپ نے فرائض انجام دئیے جو طلبہ کی اصلاح کے افعال انجام دیتی تھی۔
کم سنی میںہی کچھ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے جن سے ان کی خدا ترسی ظاہر ہوتی ہے۔محلے کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد متاثر ہوتی تھی یہ صورتِ حال دیکھ کرحسن البنّا قبلِ فجر اٹھتے اور محلے کے ہر گھر پر دستک دیتے اس طرح کم سن کی ان مشقتوں کو دیکھ کر لوگوں کا ضمیر جواب دے گیا اور مساجد میں نمازیوں کی تعداد خراماں خراماں بڑھنے لگی ۔حسن البنّا دینی و عصری علوم میں بخوبی دلچسپی رکھتے تھے ،ٹیچرزٹریننگ اسکول سے عصری تعلیم حاصل کرتے ہوئے آپ نے اپنے اسکول میں اول اور پورے مصر میں پانچواں مقام حاصل کیا۔
== تعلیم ==
حسن بانا نے آٹھ سے بارہ سال کی عمر تک رشاد اسکول میں تعلیم حاصل کی، 1920 میں انہیں دارالمعلمین دامنہور منتقل کردیا گیا، جہاں انہوں نے چودہ سال کی عمر سے پہلے قرآن پاک کا ایک بڑا حصہ حفظ کرلیا، اور پھر محمودیہ میں داخل ہوئے۔ -جامع درس گاہ. پریپریٹری کالج آف ٹیچرز میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سولہ سال کی عمر میں دارالعلوم میں پڑھنے کے لیے قاہرہ چلے گئے جس کی بنیاد محمد عبدو نے رکھی تھی۔
== اخوان المسلمین کا قیام ==
== اخوان المسلمین کا قیام ==
دہی علاقوں کی نسبت شہروں میں زیادہ اخلاقی انحطاط اور برائیاں ہوتی ہیں۔ شہر قاہر کی  بھی یہی صورت حال تھی۔ البنا جب اپنے گاؤں سے شہر قاہرہ پہنچے تو اس شہر کے غیر اسلامی اور دینی رحجانات نے ان کو پریشان کیا۔ حسن البنا  نے مشاہدہ کیا کہ مصر کو یورپ بنایا جا رہا ہے اور فرعوں کے دور کی طرف پلٹنے کی دعوت دی رہی ہے۔ آپ نے سوچا اگر علماء دین صرف امر بالمعروف اور نہی از منکر کرتے رہے لیکن ان برائیوں کی روک تھام کے لیے کوئی منظم تنظیم اور تحریک نہ ہو تو کوئی خاص نتیجہ نہیں دے گا۔آپ کی باتیں لوگوں کے دلوں پر گھر کر گئی،اس طرح چھ مزدور پیشہ با ہمت افراد کے ساتھ مارچ 1928 میں آپ نے مشرقی وسطی  کا نقشہ بدل دینے والی تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی۔ان کی اس تنظیم کے خلاف بہت سے فتنے کھڑے ہوے لیکن صبر ،ضبطِ نفس اور اچھے کردار جیسے ہتھیاروں سے لیس حسن البنّا نے چومکھی لڑائی لڑی۔ 1933ء کو صدر دفتر اسماعیلیہ سے قاہرہ منتقل ہوا <ref>انور الجندی، امام حسن البنا، ترجمہ، مصطفی اربابی، نشر احسان، 1389ش، ص71۔</ref>۔
دہی علاقوں کی نسبت شہروں میں زیادہ اخلاقی انحطاط اور برائیاں ہوتی ہیں۔ شہر قاہر کی  بھی یہی صورت حال تھی۔ البنا جب اپنے گاؤں سے شہر قاہرہ پہنچے تو اس شہر کے غیر اسلامی اور دینی رحجانات نے ان کو پریشان کیا۔ حسن البنا  نے مشاہدہ کیا کہ مصر کو یورپ بنایا جا رہا ہے اور فرعوں کے دور کی طرف پلٹنے کی دعوت دی رہی ہے۔ آپ نے سوچا اگر علماء دین صرف امر بالمعروف اور نہی از منکر کرتے رہے لیکن ان برائیوں کی روک تھام کے لیے کوئی منظم تنظیم اور تحریک نہ ہو تو کوئی خاص نتیجہ نہیں دے گا۔آپ کی باتیں لوگوں کے دلوں پر گھر کر گئی،اس طرح چھ مزدور پیشہ با ہمت افراد کے ساتھ مارچ 1928 میں آپ نے مشرقی وسطی  کا نقشہ بدل دینے والی تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی۔ان کی اس تنظیم کے خلاف بہت سے فتنے کھڑے ہوے لیکن صبر ،ضبطِ نفس اور اچھے کردار جیسے ہتھیاروں سے لیس حسن البنّا نے چومکھی لڑائی لڑی۔ 1933ء کو صدر دفتر اسماعیلیہ سے قاہرہ منتقل ہوا <ref>انور الجندی، امام حسن البنا، ترجمہ، مصطفی اربابی، نشر احسان، 1389ش، ص71۔</ref>۔
سطر 35: سطر 42:
* وہ لوگ جو بے مقصد مارے گئے انکے لئے بغض کے بجائے رحم دلی کے جذبات رکھنا۔
* وہ لوگ جو بے مقصد مارے گئے انکے لئے بغض کے بجائے رحم دلی کے جذبات رکھنا۔
{{اختتام}}
{{اختتام}}
== سوانح عمری ==
حسن البنّا نے اکتوبر 1906ء کو آنکھیں کھولی۔ ان کی جائے پیدائش وجائے پناہ محمودیہ ہے جو سرِدست مصر کے نام سے شہرت یافتہ ہے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم والدِ محترم کے زیرِ نگرانی ہوئی، پھر مدرسہ تحفیظ القران میں داخل ہوئے جہاں روشن مستقبل آپ کا منتظر تھا۔ ابتدائی لمحاتِ زندگی سے ہی آپ کے ذہانت کے آثار عیاں تھے اور شاید تابناک مستقبل کے گواہ بھی۔ کم سنی میں تخلیقِ ارض و سما اور طلوعِ آفتاب سے متعلق سوالات ،آپ کے منفرد ہونے کا ثبوت تھے۔ آپ ہمیشہ کہتے زندگی ایک نمایاں کتاب ہے جس کی تفسیرہے [[قرآن]] دائرہ تعلیم کو وسعت دینے کے اس درانیے میں آپ دیگر اطفال کے مشابہ کھیل کود کو ترجیح نہ دیتے بلکہ اپنا وقت اصلاحِ معاشرہ و فروغِ اخلاق کے کاموں میں گذارتے۔
اسکولی تعلیم کے بعد عشاء تک والد سے گھڑی سازی کا ہنر سیکھتے، عشاء سے لیکر سونے تک وہ اسکول کے اسباق ذہن نشین کرتے پھر بعد از فجر حفظِ قرن کا فعل انجام دیتے۔اسکول میں قائم جمیعتِ اخلاقِ ادبیہ کے صدر کی حیثیت سے بھی آپ نے فرائض انجام دئیے جو طلبہ کی اصلاح کے افعال انجام دیتی تھی۔
کم سنی میںہی کچھ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے جن سے ان کی خدا ترسی ظاہر ہوتی ہے۔محلے کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد متاثر ہوتی تھی یہ صورتِ حال دیکھ کرحسن البنّا قبلِ فجر اٹھتے اور محلے کے ہر گھر پر دستک دیتے اس طرح کم سن کی ان مشقتوں کو دیکھ کر لوگوں کا ضمیر جواب دے گیا اور مساجد میں نمازیوں کی تعداد خراماں خراماں بڑھنے لگی ۔حسن البنّا دینی و عصری علوم میں بخوبی دلچسپی رکھتے تھے ،ٹیچرزٹریننگ اسکول سے عصری تعلیم حاصل کرتے ہوئے آپ نے اپنے اسکول میں اول اور پورے مصر میں پانچواں مقام حاصل کیا۔
== اہم نظریات ==
== اہم نظریات ==
البنا کی نظر میں اسلام کا مطلوبہ کمال مسلمانوں کی پہلی نسل میں پوشیدہ تھا۔ وہ دور جب قرآن کے اصولوں کا احترام کیا جاتا تھا اور قومیتوں سے قطع نظر اسلام کو واحد  '''قومیت'''سے پہچانا جاتا تھا۔ ان کی رائے میں موجودہ اسلامی معاشروں اور حقیقی اسلام کے درمیان ایک خلیج تھی جو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بنی۔ اس وجہ سے اس نے اسلام کو احیاء کرنے کی کوشش کی، نہ صرف مسلمانوں کو جھان خواروں  کی گرفت سے نجات دلانے بلکہ انسانیت کو نجات دلانے کیلے کوششیں کیں۔ ان کا خیال تھا کہ یورپی فلسفہ اور مادیت کے بجائے اسلام کی ثقافت اور تہذیب کو قبول کرنا چاہیے۔
البنا کی نظر میں اسلام کا مطلوبہ کمال مسلمانوں کی پہلی نسل میں پوشیدہ تھا۔ وہ دور جب قرآن کے اصولوں کا احترام کیا جاتا تھا اور قومیتوں سے قطع نظر اسلام کو واحد  '''قومیت'''سے پہچانا جاتا تھا۔ ان کی رائے میں موجودہ اسلامی معاشروں اور حقیقی اسلام کے درمیان ایک خلیج تھی جو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بنی۔ اس وجہ سے اس نے اسلام کو احیاء کرنے کی کوشش کی، نہ صرف مسلمانوں کو جھان خواروں  کی گرفت سے نجات دلانے بلکہ انسانیت کو نجات دلانے کیلے کوششیں کیں۔ ان کا خیال تھا کہ یورپی فلسفہ اور مادیت کے بجائے اسلام کی ثقافت اور تہذیب کو قبول کرنا چاہیے۔
سطر 50: سطر 52:
== شیعہ حسن البنا کے نظر میں ==  
== شیعہ حسن البنا کے نظر میں ==  
اخوان المسلمین کے تیسرے مرشد شیخ عمر التلمسانی شیعہ اور سنی کے بارے میں اخوان المسلمین کے بانی اور پہلے مرشد حسن البنا کے نظریے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انہوں نے ہمیں اس قسم کے مسائل میں الجھنے سے منع کیا اور کہا کہ مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل سے خود کو پریشان نہیں کرنا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کے دشمن ایسے مسائل کو آگ بھڑکانے اور فتنہ پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے تقدس مآب سے کہا: ہم نے یہ مسئلہ تعصب یا مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا دائرہ بڑھانے کے لیے نہیں اٹھایا، بلکہ ہمارا مقصد حقیقت کو جاننا ہے۔ کیونکہ شیعہ اور سنی کے بارے میں کتابوں کے مندرجات کو شمار نہیں کیا جا سکتا اور قدرتی طور پر ہم ان کتابوں اور ذرائع کی تحقیق  نہیں کر سکتے۔ حسن البنا فرمایا: جان لو کہ سنی اور شیعہ سب مسلمان ہیں اور کلمہ توحید: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ]] کے رسول ہیں۔ سب مل کر، اور عقیدہ کے اس بنیادی اصول میں، شیعہ اور سنی ایک ہیں اور اکٹھے ہیں۔ لیکن ان دونوں دھڑوں میں فرق شاخوں اور مسائل میں ہے کہ ہم ان کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ ہم نے پوچھا: کیا آپ کوئی مثال دے سکتے ہیں؟ امام نے فرمایا: شیعہ کے بھی مختلف فرقے ہیں جیسے چار سنی مذاہب۔ مثال کے طور پر شیعہ امامیہ مسئلہ امامت کو اسلام میں ایک ضروری مسئلہ سمجھتے ہیں، جس کا ادراک ہونا ضروری ہے، کیونکہ امام شریعت کا متولی ہے، اور شرعی احکام کے بارے میں اس کے الفاظ باب اور امامت کے الفاظ ہیں۔ حتمی حکم، اور اس کی اطاعت بالکل واجب ہے۔ بعض فقہی مسائل میں اختلافات ہیں جنہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ عارضی شادی کا مسئلہ یا بعض شیعہ فرقوں کی نظر میں بیویوں کی تعداد اور اس طرح کے مسائل، جنہیں ہمیں سنیوں اور شیعوں کے درمیان علیحدگی کے ذریعہ استعمال نہیں کرنا چاہئے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دونوں مذاہب سینکڑوں سالوں سے ایک ساتھ رہے ہیں۔ سالوں کے بغیر ان کو ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہے - سوائے کتابوں اور تحریروں کے - اور ہم جانتے ہیں کہ شیعہ اماموں اور رہنماؤں نے اپنے بہت سے کام یادداشت میں چھوڑے ہیں، جو حقیقت میں مسلم لائبریریوں میں ایک انمول خزانہ ہیں۔
اخوان المسلمین کے تیسرے مرشد شیخ عمر التلمسانی شیعہ اور سنی کے بارے میں اخوان المسلمین کے بانی اور پہلے مرشد حسن البنا کے نظریے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انہوں نے ہمیں اس قسم کے مسائل میں الجھنے سے منع کیا اور کہا کہ مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل سے خود کو پریشان نہیں کرنا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کے دشمن ایسے مسائل کو آگ بھڑکانے اور فتنہ پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے تقدس مآب سے کہا: ہم نے یہ مسئلہ تعصب یا مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا دائرہ بڑھانے کے لیے نہیں اٹھایا، بلکہ ہمارا مقصد حقیقت کو جاننا ہے۔ کیونکہ شیعہ اور سنی کے بارے میں کتابوں کے مندرجات کو شمار نہیں کیا جا سکتا اور قدرتی طور پر ہم ان کتابوں اور ذرائع کی تحقیق  نہیں کر سکتے۔ حسن البنا فرمایا: جان لو کہ سنی اور شیعہ سب مسلمان ہیں اور کلمہ توحید: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ]] کے رسول ہیں۔ سب مل کر، اور عقیدہ کے اس بنیادی اصول میں، شیعہ اور سنی ایک ہیں اور اکٹھے ہیں۔ لیکن ان دونوں دھڑوں میں فرق شاخوں اور مسائل میں ہے کہ ہم ان کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ ہم نے پوچھا: کیا آپ کوئی مثال دے سکتے ہیں؟ امام نے فرمایا: شیعہ کے بھی مختلف فرقے ہیں جیسے چار سنی مذاہب۔ مثال کے طور پر شیعہ امامیہ مسئلہ امامت کو اسلام میں ایک ضروری مسئلہ سمجھتے ہیں، جس کا ادراک ہونا ضروری ہے، کیونکہ امام شریعت کا متولی ہے، اور شرعی احکام کے بارے میں اس کے الفاظ باب اور امامت کے الفاظ ہیں۔ حتمی حکم، اور اس کی اطاعت بالکل واجب ہے۔ بعض فقہی مسائل میں اختلافات ہیں جنہیں حل کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ عارضی شادی کا مسئلہ یا بعض شیعہ فرقوں کی نظر میں بیویوں کی تعداد اور اس طرح کے مسائل، جنہیں ہمیں سنیوں اور شیعوں کے درمیان علیحدگی کے ذریعہ استعمال نہیں کرنا چاہئے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دونوں مذاہب سینکڑوں سالوں سے ایک ساتھ رہے ہیں۔ سالوں کے بغیر ان کو ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہے - سوائے کتابوں اور تحریروں کے - اور ہم جانتے ہیں کہ شیعہ اماموں اور رہنماؤں نے اپنے بہت سے کام یادداشت میں چھوڑے ہیں، جو حقیقت میں مسلم لائبریریوں میں ایک انمول خزانہ ہیں۔
== تعلیم ==
حسن بانا نے آٹھ سے بارہ سال کی عمر تک رشاد اسکول میں تعلیم حاصل کی، 1920 میں انہیں دارالمعلمین دامنہور منتقل کردیا گیا، جہاں انہوں نے چودہ سال کی عمر سے پہلے قرآن پاک کا ایک بڑا حصہ حفظ کرلیا، اور پھر محمودیہ میں داخل ہوئے۔ -جامع درس گاہ. پریپریٹری کالج آف ٹیچرز میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سولہ سال کی عمر میں دارالعلوم میں پڑھنے کے لیے قاہرہ چلے گئے جس کی بنیاد محمد عبدو نے رکھی تھی۔
== تبلیغ ==  
== تبلیغ ==  
آپ نے قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اس زمانے میں قاہرہ اپنی دینی و اسلامی شناخت کھوتا جارہا تھا گویا یہ ابتذال کی شروعات تھی اس طرح مغربی تہذیب کا سیلاب اخلاقی قدروں کے لیے موت کا پیغام بن کر آیا تھا۔ انہوں نے اپنی وسیع النظری سے اسے بھانپ لیا او ر سارے آسائش، برگ و ساز ترک کرتے ہوئے از برائے خدا ان اجل رسیدہ افراد کے حق میں کوششیں کرنے لگے۔احباب کے احتباس و انکار کے باوجود آپ نے مسجدوں کے بر عکس قہوہ خانوں کو وعظ کے لئے ترجیح دی،یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا۔اس طرح ابتذال کی طرف کوچ کررہے معاشرہ نے اپنا رخ تبدیل کر دیا <ref>انور الجندی، امام حسن البنا، ترجمہ، مصطفی اربابی، نشر احسان، 1389ش، ص51۔</ref>۔
آپ نے قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اس زمانے میں قاہرہ اپنی دینی و اسلامی شناخت کھوتا جارہا تھا گویا یہ ابتذال کی شروعات تھی اس طرح مغربی تہذیب کا سیلاب اخلاقی قدروں کے لیے موت کا پیغام بن کر آیا تھا۔ انہوں نے اپنی وسیع النظری سے اسے بھانپ لیا او ر سارے آسائش، برگ و ساز ترک کرتے ہوئے از برائے خدا ان اجل رسیدہ افراد کے حق میں کوششیں کرنے لگے۔احباب کے احتباس و انکار کے باوجود آپ نے مسجدوں کے بر عکس قہوہ خانوں کو وعظ کے لئے ترجیح دی،یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا۔اس طرح ابتذال کی طرف کوچ کررہے معاشرہ نے اپنا رخ تبدیل کر دیا <ref>انور الجندی، امام حسن البنا، ترجمہ، مصطفی اربابی، نشر احسان، 1389ش، ص51۔</ref>۔