"سید دلدار علی نقوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 153: سطر 153:


آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے  <ref>احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءصص53/54۔</ref>۔
آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے  <ref>احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءصص53/54۔</ref>۔
== حضرت غفران مآب، ایک عہد ایک تاریخ ==
حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے، ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا۔
لکھنؤ آکر علمائے فرنگی محل کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب شیعہ و سنّی ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے ۔ شیعوں کا اپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا ۔ حضرت غفران مآبؒ سے پہلے جو مدرسے ہندوستان میںسر گرم تھے ان میں اہل سنت و الجماعت علما تدریس فرماتے تھے۔ بعض شیعہ علما نے حالت تقیہ میں ان مدارس میں تدریس کی لیکن شیعوں کااپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا جہاں ان کی فقہ پڑھائی جاتی ہو۔اکثر شیعہ علماء اپنے گھروں پریا بادشاہوں کے محلوں اور رئیسوں کی ڈیوڑھیوں میں پڑھایا کرتے تھے ۔
دکن میں میر فتح اللہ شیرازی جیساعظیم عالم اور سائنس داں علی عادل شاہ کا اتالیق مقرر کیا گیا ،جن کی تعلیم و تربیت نے دکن میں انقلاب برپا کیا۔اسی طرح شیخ مبارک کا مدرسہ عہد اکبری میں خاصا گرم رہا ۔اس مدرسے کے پروردہ شیخ فیضی اور ابوالفضل جیسے دانشور تھے ۔اس کے بعد شیخ فیضی اور ابوالفضل نے امراء و روساء کے بچوں کی تربیت کی ،جس کے شواہد اس عہد کی تاریخ میں جابہ جا موجود ہیں ۔یہ تمام لوگ اپنے عہد میں تقیہ میں تھے اور برملا اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس بناپر یہ دعویٰ درست ہےکہ حضرت غفران مآب سے پہلے کسی شیعہ مدرسے کی بنیاد نہیں رکھی گئی ۔ ایسا مدرسہ جس میں معارف آل محمد کی تعلیم دی جاتی ہو۔ان سے پہلے درسی کتب میں بھی عمومیت تھی لہذا انہوں نے امامیہ عقاید و تعلیمات پر مبنی اپنا الگ نصاب ترتیب دیا ۔
آپ کے تبحر علمی اور مروجہ علوم میں ان کی مہارت پر اس وقت کے مشہورعالم اور فلسفی مولانا عبدالحیٔ فرنگی محلی نے کہا تھاکہ ’’ جب میں جناب غفران مآب کے حاشیہ صدرا کو دیکھتا ہوں تو متاخرین فلاسفہ پر ان کو ترجیح دیتاہوں‘‘۔(معراج العقول۔سید مرتضیٰ فلسفی ) ان کا یہ مقولہ آپ کے عراق اور ایران جانے سے پہلے کاہے ،اس تناظر میں حضرت غفران مآب کی علمی و فلسفیانہ لیاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
=== تبلیغ ===
تکمیل علم کےبعد انہوں نے نہ صرف لکھنؤ کو اپنا تعلمی و تبلیغی مرکز قرار دیا بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کا سفر بھی کیا ۔ترویج شیعیت کے لئے یہ اسفار نہایت اہم تھے ۔ سفر کے دوران انہوں نے مختلف اخباری اور سنّی علماء سے مناظرے و مباحثے کئے ۔ ہندوستان میں اس وقت اخباریت اپنے عروج پر تھی ،جس کا آپ نے قلع قمع کیا ۔اسی طرح تصوف کے خلاف بھی علمی و فکری محاذ آرائی کی ۔اخباریت اور تصوف کے رواج کی بنیاد پر شیعیت کی اپنی الگ کوئی شناخت نہیں تھی ۔بلکہ یوں کہاجائے کہ شیعیت صوفیت کے لبادے میں لپٹی ہوئی تھی ۔عزاداری اور دیگر عقاید و احکامات تصوف کے سلسلے کے زیر اثر انجام پذیر ہوتے تھے ۔لکھنؤ تو خاص کر تصوف کا مرکز تھا ۔بلاتفریق نذرونیاز میں شیخ سدّو کا بکرا،احمد کبیر کی گائے،شیخ فرید کی شیرینی،اور اس طرح کی رسومات عام تھیں۔انہوں نےان کی جگہ عمل گوسفند،حضرت عباس کی حاضری،علم و تعزیے بنام شہدائے کربلا جاری کروائے ۔نماز جمعہ اور جماعت کو اخباریت کے زیر اثر حرام تصور کرلیاگیاتھا ۔
یہ دور نہایت کشمکش اور فکری تذبذب کاتھا جس میں آپ نے امامیہ عقائد کی تبلیغ و ترویج کا بیڑا اٹھایا ۔نوابین اودھ بھی تصوف کے مشرب پر عمل پیراتھے ۔شیعی عقائداور معارف اہلبیتؑ کی تدریس و تبلیغ کے لئے کوئی علمی مرکز موجود نہیں تھا ۔اس لئے حضرت غفران مآب نے نوابین اودھ سے بھی رابطہ قائم کیا ۔نواب آصف الدولہ اور نواب حسن رضاخاں جیسے افراد نے انہیں تبلیغ کی آزادی فراہم کی ۔
اس وقت عیدین اور جمعہ کی نمازیں اہل سنت پڑھاتے تھے ۔شیعوں کی بحیثیت قوم کوئی پہچان نہیں تھی ۔سنّی مفتی اور قاضی نکاح ،طلاق ،تجہیز و تکفین اور دیگر اہم امور سنّی طریقے پر انجام دیتے تھے ۔شیعوں میں پیری مریدی ،عرس ،قوالی اور صوفیانی نیرنگیاں عام تھیں ۔اپنے مسلکی امتیازات سےبے خبر دوسروں کے مسلکی امتیازات پر عمل ہورہا تھا ۔تعزیہ داری عام تھی لیکن اس میں بھی اصلاح کی گنجائش تھی ۔اس وقت آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ شیعی عقائد کی تعلیم و تدریس کے لئے مدرسےکی بنیاد رکھی ۔ابتدا میں انہوں نے خود اس مدرسے میں درس دیا ۔رفتہ رفتہ شاگردوں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی جس میں ان کے بیٹے سیدالعلما سید حسین اور سلطان العلماء سید محمد جیسے زبردست علماء شامل تھے ۔
آپ کو ہندوستان میں تبلیغ کے لئے شاگردوں کی فوج کی ضرورت تھی ،اس لئے انہوں نے اپنی زیادہ تر توجہ شاگرد سازی پر مرکوز کی ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ۱۲۰۰ ھ کے بعد جتنے علماء نظر آتے ہیں وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ حضرت غفران مآبؒ کے شاگرد ہوتے ہیں ۔
نواب حسن رضا خاں ایک خدا ترس اور دین دار آدمی تھے ۔انہوں نے حضرت غفران مآب کو تبلیغ دین میں سہولیتں فراہم کیں اور نوابین اودھ کے مزاج کو بھی آپ کے لئے سازگار بنایا۔
=== شیعہ قومیت کی تشکیل ===
اس وقت ہندوستان میں شیعوں کی بحیثیت قوم کے کوئی پہچان نہیں تھی ۔کوئی علمی و تبلیغی مرکز قائم نہیں تھا ۔اس لئے آپ نے مدرسہ کی بنیاد رکھی جہاں معارف اہلبیتؑ کی تدریس و تبلیغ شروع ہوئی ۔ساتھ شیعوں کے لئے الگ قبرستان قائم کیا جس کے بعد متعدد الگ قبرستان شیعوں کے لئے وقف کئے گئے ۔یہی وہ عہد تھاکہ جب نواب حسن رضاخاں کی مدد سے حضرت غفران مآب نے شیعوں کی نماز جماعت قائم کی ۔
۱۳ رجب المرجب ۱۲۰۰ھ کو نواب حسن رضا خاں کی کوٹھی میں نماز جماعت شروع ہوئی ،جس میں مع نواب صاحب کے چند افراد موجود تھے ۔اس کے بعد ۲۷ رجب کو جمعہ کی نماز بھی شروع کردی اور اس کی ترویج کے لئے نہایت جدوجہد کی ۔اخباریت کی رد کے ساتھ نماز جمعہ کے وجوب پر رسالہ تحریر کیا تاکہ فتنوں کی سرکوبی کردی جائے۔رفتہ رفتہ نماز جمعہ میں لوگوں کا ہجوم امڈنے لگا۔اس وقت آپ نے موعظہ کی ابتداکی ۔ان موعظوں کا یہ اثرہواکہ نوابوں کے ساتھ ساتھ بہتوں نے غیر شرعی حرکات سے اجتناب شروع کیا ۔خاص طورپر لکھنؤ میں افیون اور دیگر نشے عام تھے ۔حضرت غفران مآبؒ کی تحریک کے بعد نشے کی لت پر روک لگی ۔اس کے باوجود بعض افیونی رہ رہ کے نشے کے جوازپر اصرارکرتے رہے ۔طرح طرح کے بہانے تراشے گئے لیکن حضرت غفران مآب ،ان کے بیٹوں اور شاگردوں نے کبھی نشے کی حلیت کا حکم نہیں دیا ۔ اور نہ مصلحت کا شکار ہوکر اُمراءاور رئیسوں سے مرعوب ہوئے ۔علامہ کنتوری کے بقول:’’انہوں نے بھنگ نوشی کے چبوتروں پر سجّادے بچھوادیے ‘‘۔
اس تحریک کا نتیجہ یہ ہواکہ نوابین اودھ شریعت کےاس قدر پابند ہوئے کہ سلطان العلماء سید محمد کے عہد میں نواب امجد علی شاہ نے اپنا تاج ان کے قدموں پر رکھ دیا ۔حکومت اودھ ایک فقیہ کے سپرد کردی گئی جس کا قلق آج تک مورخین کوہے ۔سلطان العلما کی عدالت تاریخ میں الگ شہرت رکھتی ہے ۔اس قدر منصفانہ رویہ اختیارکیاکہ کئی بار بادشاہ کو بھی تاوان بھگتنے کے لئے عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔(حیات رضوان مآبؒ ص ۳۹۔م)اسی بناپر بعض متعصب مورخ امجد علی شاہ کو اودھ کا کمزورترین بادشاہ قراردیتے ہیں کیونکہ وہ نہایت متشرع تھے ۔ان کے نزدیک وہ بادشاہ حکومت کا اہل ہے جو شریعت کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ظلم و جبر،ناانصافی ،شراب و شباب اور انسانی زندگی میں مداخلت کی کھلی اجازت دیدے ۔
آپ نے اپنی حیات میں مختلف علمی،فکری اور سماجی محاذوں پر جنگ لڑی ۔اودھ کے متصوفانہ معاشرے میں انقلاب برپا کیا ۔شریعت کو حکومتی اداروں میں رواج دیا ۔علوی نظام حکومت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جس کے لئے سلطان العلماسید محمد نے بھی تگ و دو کی ،لیکن انگریزی حکومت کے بڑھتے ہوئے عمل دخل نے اس تحریک کو بہت کامیاب نہیں ہونے دیا۔علامہ مفتی محمد قلیؒ کی کتاب’احکام عدالت علویہ‘ کا مطالعہ یہ ظاہر کرتاہے کہ کس طرح اس عہد میں علماء نے علوی نظام حکومت کو رائج کرنے کی سعی کی ۔اودھ میں جس قدر علمی و ادبی سرگرمیاں نظر آتی ہیں اس کا سہرا علماکے سربندھتاہے ۔ورنہ ۱۲۰۰ھ سے پہلے اودھ میں مرثیہ نگاری اور عزاداری کی کوئی قابل ذکر تاریخ نہیں ہے ۔
بہر کیف!آج حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے ۔ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا ،لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا ۔آج عالم یہ ہے کہ ہمارے بیشتر علمااور محققین اپنی میراث سے بے خبر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علمی و تحقیقی امتیازات کو پیش کرنے کے بجائے احساس کمتری یا شرمندگی کا شکار ہیں ۔
ہمارے علمانے علم کلام ،فلسفہ اور دیگر علوم میں بے پناہ آثار پس انداز کئے ہیں ۔ان آثار کے احیاکے لئے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اودھ میں موجود علمی و ادبی میراث دیگر خطوں سے زیادہ اور انفرادیت و امتیاز کی حامل ہے ،اس لئے اودھ کو فراموش کرنا گویا اپنی تاریخ کو فراموشی کے ملبے میں دفنادیناہے <ref>عادل فراز، حضرت غفران مآبؒ : ایک عہد ایک تاریخ، [https://ur.hawzahnews.com/news/388461/%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%BA%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%85%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%B9%DB%81%D8%AF-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE hawzahnews.com]</ref>۔
== سید دلدار علی کا زمانہ ==
== سید دلدار علی کا زمانہ ==
آیت اللہ سید دلدار علی کی دینی خدمات کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اس صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب ہم اس زمانے کے حالات سے کسی حد تک واقف ہوں ۔اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے آئینۂ حق نما میں مذکور ہے:
آیت اللہ سید دلدار علی کی دینی خدمات کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اس صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب ہم اس زمانے کے حالات سے کسی حد تک واقف ہوں ۔اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے آئینۂ حق نما میں مذکور ہے: