"شام؛ منصوبوں کی ناکامی(نوٹس)" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م Saeedi نے صفحہ مسودہ:شام؛ منصوبوں کی ناکامی(نوٹس) کو شام؛ منصوبوں کی ناکامی(نوٹس) کی جانب منتقل کیا |
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| (2 صارفین 3 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
| سطر 1: | سطر 1: | ||
[[فائل: سوریه؛ شکست پروژه ها.jpeg|تصغیر|بائیں|]] | [[فائل: سوریه؛ شکست پروژه ها.jpeg|تصغیر|بائیں|]] | ||
''' | '''شام؛ منصوبوں کی ناکامی ''' ایک تجزیاتی نوٹ کا عنوان ہے جو اُن منصوبوں کی ناکامی کی صورتِ حال کا جائزہ لیتا ہے جو [[شام]] کی سرزمین پر اور شام کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ [[شام]] کی سرزمین پر نظر ڈالیں تو سب سے پہلے جو بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے وہ اس کا چھ الگ الگ حصوں میں تقسیم ہونا ہے، جن میں سے ہر حصہ دوسرے حصوں سے مختلف انداز میں زیرِ انتظام ہے۔ | ||
اس ملک کے ایک حصے پر [[ہیئت تحریر الشام]] کی حکومت ہے، جس میں دمشق اور صوبہ ریف، حمص، حما اور ادلب کے بعض علاقے شامل ہیں۔ یہ حصہ شام کے تقریباً ۳۰ فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ | اس ملک کے ایک حصے پر [[ہیئت تحریر الشام]] کی حکومت ہے، جس میں دمشق اور صوبہ ریف، حمص، حما اور ادلب کے بعض علاقے شامل ہیں۔ یہ حصہ شام کے تقریباً ۳۰ فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ | ||
| سطر 59: | سطر 59: | ||
* [[شام ]] | * [[شام ]] | ||
* [[بشار اسد]] | * [[بشار اسد]] | ||
* [[ابو محمد جولانی]] | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
| سطر 64: | سطر 65: | ||
[[زمرہ:نوٹس اور تجزیے]] | [[زمرہ:نوٹس اور تجزیے]] | ||
[[زمرہ:شام]] | [[زمرہ:شام]] | ||
[[fa:سوریه؛ شکست پروژهها (یادداشت)]] | |||
حالیہ نسخہ بمطابق 18:47، 24 دسمبر 2025ء

شام؛ منصوبوں کی ناکامی ایک تجزیاتی نوٹ کا عنوان ہے جو اُن منصوبوں کی ناکامی کی صورتِ حال کا جائزہ لیتا ہے جو شام کی سرزمین پر اور شام کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ شام کی سرزمین پر نظر ڈالیں تو سب سے پہلے جو بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے وہ اس کا چھ الگ الگ حصوں میں تقسیم ہونا ہے، جن میں سے ہر حصہ دوسرے حصوں سے مختلف انداز میں زیرِ انتظام ہے۔
اس ملک کے ایک حصے پر ہیئت تحریر الشام کی حکومت ہے، جس میں دمشق اور صوبہ ریف، حمص، حما اور ادلب کے بعض علاقے شامل ہیں۔ یہ حصہ شام کے تقریباً ۳۰ فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ شام کے ایک اور حصے پر غاصب صہیونی اسرائیلی رژیم کا فوجی اور سیکورٹی کنٹرول ہے، جس میں صوبہ قنیطرہ، سویدا، درعا اور صوبہ ریف کے بعض علاقے شامل ہیں۔
شام کا ایک حصہ امریکی فوج کے قبضے میں ہے، جس میں صوبہ حسکہ، دیرالزور اور رَقّہ کے بعض علاقے اور صوبہ دمشق کا ایک چھوٹا سا حصہ شامل ہے۔ شام کا ایک اور حصہ ترک فوج کے زیرِ تسلط ہے، جس میں صوبہ ادلب، صوبہ حسکہ کے کچھ علاقے اور نیز صوبہ رَقّہ کے بعض علاقے شامل ہیں۔ شام کے کچھ حصے ایسے مسلح دہشت گرد گروہوں کے قبضے میں ہیں جو جولانی حکومت سے باہر ہیں، جن میں صوبہ لاذقیہ اور طرطوس شامل ہیں۔
اس ملک کے شمال مشرقی علاقوں کے بعض حصے قسد (کردوں) کے نسبتی کنٹرول میں ہیں جو مرکزی حکومت سے الگ ہو کر عمل کرتے ہیں، جبکہ جنوبی علاقوں (بادِیہ) کے کچھ حصے مسلح عرب قبائل کے کنٹرول میں ہیں جو مرکزی حکومت سے جداگانہ طور پر کام کرتے ہیں اور امریکی حمایت یافتہ ہیں۔
شام؛ بیرونی منصوبوں کا نذر

بشار اسد کی حکومت کے سقوط کے ایک سال بعد، شام کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی تجزیہ (تقسیم) ہے۔ اس طرح موجودہ شام اپنی سب سے اہم شناختی اساس، یعنی حاکمیت، اور اپنی سب سے اہم سیاسی اساس، یعنی علاقائی سالمیت، سے محروم ہو چکا ہے۔ ایک جملے میں کہا جائے تو شام اُن منصوبوں کی قربان گاه بن چکا ہے جو اس پر ملک کے باہر سے مسلط کیے گئے۔
جو کوئی یہ گمان کرے کہ اس اسٹریٹجک سرزمین کی موجودہ صورتِ حال اندرونی نسلی اختلافات کا نتیجہ ہے، اور اس میں شامی قوم—جو دہائیوں تک باہمی ہم آہنگی اور مشترکہ شناخت کی حامل رہی—کا کردار ہے، وہ حقائق سے چشم پوشی کر رہا ہے۔ اسی طرح جن لوگوں نے سنہ ۱۳۹۱ تا ۱۳۹۷ ہجری شمسی کے واقعات کو ’’خانہ جنگی‘‘ قرار دیا، وہ بھی غلطی پر تھے۔
بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ امریکہ، ترکیہ، صہیونی اسرائیلی رژیم اور بعض عرب ریاستوں، جن میں قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب شامل ہیں، نے ان سات برسوں کے دوران پیش آنے والے سکیورٹی و عسکری واقعات کی منصوبہ بندی کی، انہیں حمایت فراہم کی اور ان کی نگرانی و قیادت کی۔
مزاحمتی بلاک، شام کا حامی
ان سات برسوں کے دوران شامی قوم نے محورِ مقاومت کی مدد سے اس ملک کے دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والی تبدیلیاں شامی عوام اور محورِ مقاومت کی عدم موجودگی میں رونما ہوئیں، جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ شامی قوم اور محورِ مقاومت کا دوبارہ میدانِ عمل میں آنا ناگزیر ہے۔ کیونکہ ان کے فعال کردار کے بغیر نہ شام کی حاکمیت بحال ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کی علاقائی سالمیت دوبارہ قائم ہو سکتی ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ شام اپنی حاکمیت کی بحالی اور اپنی علاقائی سالمیت کے احیا کے لیے نہ کسی کٹھ پتلی حکومت پر بھروسا کر سکتا ہے، نہ اُن گروہوں سے کوئی امید رکھ سکتا ہے جو اپنے تنگ نظر اور گروہی مفادات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، اور نہ ہی اُن جارح ریاستوں سے—جنہوں نے اس ملک کے بعض حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے—اپنی آزادی اور علاقائی وحدت کی توقع کر سکتا ہے۔
جولانی کی نیم بند ریاست=
جولانی کی کمزور اور نیم بند ریاست نے گزشتہ ایک سال میں وہ تمام غدارانہ لچک اور سمجھوتے اختیار کیے جو تصور میں آ سکتے تھے، تاکہ وہ شام کو ایک ہی پرچم تلے جمع کر سکے، لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن فریقوں سے اس نے رجوع کیا، وہ بنیادی طور پر ایک متحد اور طاقتور شام کے خواہاں ہی نہیں ہیں۔ ترکی کسی بھی صورت میں اپنے زیرِ قبضہ علاقوں کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں اور نہ ہی بطور تحریر الشام کے سرپرست، ان حکومتوں اور گروہوں سے الجھنا چاہتا ہے جو شام کے بعض حصوں پر قابض ہیں۔
اسی طرح امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم، جو پورے خطے کی تقسیم اور تجزیے کے درپے ہیں، کسی متحد شام کو پسند نہیں کرتے۔ عرب حکومتیں، جنہوں نے سات برسوں کے دوران سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے، ایک آزاد اور خودمختار شام کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ چنانچہ آج شرپسند اماراتی حکومت، غاصب صہیونی رژیم کی مدد سے، شام کے شمال مغربی حصوں میں جنگی منظرنامے پر عمل درآمد میں مصروف ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس نے سوڈان اور یمن میں کیا اور اب اسے مکمل کرنے کے مرحلے میں ہے۔ لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ شامی قوم خود اپنی حاکمیت اور علاقائی سالمیت کی بحالی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے۔
ایک دوسرے زاویے سے بھی گزشتہ ایک سال کے دوران شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان حکومتوں کا آخری ہدف، جن کا ذکر کیا گیا، شام کی تجزیہ نہ مانا جائے اور ہم ان کے تجزیے سے پہلے کے دعوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فرض کریں کہ ان کا اصل مقصد شام کو اپنی مطلوبہ حکمرانی اور اثر و رسوخ کے تحت لانا تھا، تو اس صورت میں بھی کوئی ایک فریق اب تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ترکی نے بھاری فوجی موجودگی، تحریر الشام کی تربیت، مسلح سازی اور اسے میدان میں اتارنے کا اقدام اس لیے نہیں کیا تھا کہ آخرکار ایسی شام وجود میں آئے۔ وہ ایک ایسی شام چاہتا تھا جو مکمل طور پر اس کے کنٹرول میں ہو اور جسے وہ خطے میں اپنی طاقت کے پھیلاؤ، عرب دنیا میں نفوذ اور اخوانیت کے فروغ کے لیے ایک راہداری کے طور پر استعمال کر سکے۔ ترکی نہ صرف اس مقصد تک نہیں پہنچ سکا بلکہ اب وہ اس بات پر بھی فکرمند ہے کہ کہیں جولانی امریکہ یا عرب دنیا کی طرف رخ نہ کر لے۔
امریکہ کا هدف
امریکہ کا ہدف یہ رہا ہے کہ عراق اور شام کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں محورِ مقاومت کو قابو میں رکھا جائے؛ لیکن شام کی موجودہ کثیرالجہتی اور منقسم صورتحال—جسے یکجا کرنے کی امریکہ میں سکت نہیں—اور عراق کے حالیہ پارلیمانی انتخابات، جو تقریباً مکمل طور پر مقاومت کے وفادار دھڑوں کی کامیابی پر منتج ہوئے، اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ امریکی اہداف کا حصول ان کی دسترس سے باہر ہے۔
اسرائیلی رژیم یہ چاہتا تھا کہ بشار اسد کی حکومت کے انہدام سے جولان کے مشرقی اور شمالی دامن میں ایک محفوظ سیکورٹی پٹی قائم کر لے اور ہمیشہ کے لیے شام کی سرحدوں سے آنے والے خطرات سے نجات پا جائے؛ مگر اب، اگرچہ اس نے جنوبی شام کے بعض حصوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے، تاہم گزشتہ دو ہفتوں کے واقعات اور «بیت جن» میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران—جن کے نتیجے میں غاصب رژیم کے سات فوجی ہلاک اور دس دیگر زخمی ہوئے—اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہے کہ اس کی توسیع پسندانہ کارروائیاں دلیر شامی عوام کی مزاحمت کو جنم دے رہی ہیں۔ یوں مقاومت کی ازسرِنو قوت یابی سے پیدا ہونے والی اسٹریٹجک ابہام نے ایک بار پھر اس کے لیے عدمِ اطمینان کی فضا قائم کر دی ہے۔
امارات کی مداخلت

خلیجِ فارس کے عرب ممالک یہ سمجھ رہے تھے کہ بشار اسد کے ہٹنے کے بعد شام ان کے حلقۂ اثر کا حصہ بن جائے گا، مگر اس ملک کی موجودہ صورتحال نے انہیں مایوسی اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک ماہ قبل شام کے ساحلی علاقے میں ہونے والی جھڑپوں میں امارات کی مداخلت، شام کی تبدیلیوں کے بارے میں عرب دنیا کی گہری بے چینی کو ظاہر کرتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے مجرمانہ اسرائیلی حکومت کا سہارا لیا ہے تاکہ شام کے ساحلی اور جنوبی علاقوں—جو جولانی کے کنٹرول سے باہر ہیں—پر اپنا قبضہ جما سکیں۔
فی الحال یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا اور عرب دنیا اب بھی شام کے حالات کے حاشیے پر ہی کھڑی ہے۔ مزید یہ کہ ان کی پسِ پردہ سرگرمیاں اور مالی رشوتیں ترکی اور نیم بند دمشق حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات کو بھی کشیدہ کر رہی ہیں۔ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ شامی عوام کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ آج اس قوم نے اپنی سرزمین کھو دی ہے، نہ یہ کہ اقتدار ایک شامی گروہ سے دوسرے شامی گروہ کو منتقل ہوا ہو۔ ایک سال گزرنے کے باوجود یہ عوام اب بھی دہشت گردانہ کارروائیوں کی زد میں ہیں۔
صرف علوی، کرد، دروزی، شیعہ اور مسیحی ہی قتل و غارت کا شکار نہیں ہو رہے بلکہ حمص اور حما کے سنی باشندے بھی شدید عدمِ تحفظ کی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لوگوں کے کاروبار اور روزگار کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی واضح افق دکھائی دیتا ہے۔ عرب ممالک اور ترکی نے حتیٰ کہ جولانی کی حکومت کو بھی کوئی مؤثر اقتصادی امداد فراہم نہیں کی۔ خلیجِ فارس کے جنوبی عرب، جو دمشق میں کسی نیم اخوانی حکومت یا ترکی کے زیرِ سایہ حکومت کے قیام کو برداشت نہیں کرتے، ابتدائی وعدوں کے باوجود دمشق کو خاطر خواہ مالی مدد فراہم نہ کر سکے، اور جولانی کی ان کے سامنے کی گئی دستِ سوال بھی بے نتیجہ رہی۔ رہا معاملہ ٹرمپ کی امریکہ کا، تو اس سلسلے میں بھی سب کچھ واضح ہے؛ ٹرمپ صرف لینا جانتا ہے۔
شامی عوام کے لیے تنبیہ
یہ تمام نکات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جاری تبدیلیوں کا سلسلہ شامی عوام کو سنجیدہ غور و فکر پر مجبور کرے گا۔ آج شامی بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ آزادی اور خودانحصاری کی کیا قدر و قیمت ہے۔ شامی عوام خود کو اُن فریقوں سے کہیں زیادہ قدیم تاریخی پس منظر اور تہذیبی ورثے کا حامل سمجھتے ہیں جنہوں نے شام کے بعض حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے، اور وہ ان کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کریں گے۔
شامی عوام ان لوگوں میں فرق کرنا جانتے ہیں جو مشکل دنوں میں بغیر کسی لالچ، بغیر کسی اڈے یا گاؤں پر قبضہ کیے ان کے ساتھ کھڑے رہے، اور ان قبضہ گروں و جنگ بھڑکانے والوں میں جو صرف تباہی لائے۔ شامی عوام ماضی کی طرف لوٹے بغیر ایک طاقتور، پیش رو اور مقاومتی نوعیت کی حکومت قائم کر سکتے ہیں۔
قبضہ گروں نے ایک سال تک شام کو بحرانوں کے بھنور میں دھکیلنے کے بعد، نادانستہ مگر عملاً، شامی عوام کو اس نتیجے تک پہنچانے میں مدد دی ہے کہ آزادی اور مقاومت کی روح رکھنے والی ایک مقامی حکومت کی ضرورت ناگزیر ہے۔[1]
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ سوریه؛ شکست پروژهها (یادداشت روز)، تارنمای روزنامۀ کیهان تحریر: سعدالله زارعی(زبان فارسی) درج شده تاریخ: 13/دسمبر/2025ء اخذشده تاریخ: 21/دسمبر/2025ء