"چکڑالوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 30: سطر 30:
"اہلِ حدیث جماعت کے جوش وخروش کا دوسرا نتیجہ "طبقہ اہل القرآن" کا آغاز ہے، اہلِ حدیث اپنے آپ کوغیرمقلد کہتے ہیں، وہ فقہی ائمہ مثلاً ابوحنیفہ  کی تقلید سے آزاد ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کئی طبیعتوں کو جو زیادہ آزاد خیال تھیں فقط فقہاء کی تقلید سے آزادی کافی معلوم نہ ہوئی اور انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پراحادیث سے بھی آزادی حاصل کرنا چاہی، اس گروہ کا ایک مرکز پنجاب میں ہے، جہاں لوگ اُنہیں چکڑالوی کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کواہل القرآن کا لقب دیتے ہیں، اس گروہ کا بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلِ حدیث تھا"۔
"اہلِ حدیث جماعت کے جوش وخروش کا دوسرا نتیجہ "طبقہ اہل القرآن" کا آغاز ہے، اہلِ حدیث اپنے آپ کوغیرمقلد کہتے ہیں، وہ فقہی ائمہ مثلاً ابوحنیفہ  کی تقلید سے آزاد ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کئی طبیعتوں کو جو زیادہ آزاد خیال تھیں فقط فقہاء کی تقلید سے آزادی کافی معلوم نہ ہوئی اور انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پراحادیث سے بھی آزادی حاصل کرنا چاہی، اس گروہ کا ایک مرکز پنجاب میں ہے، جہاں لوگ اُنہیں چکڑالوی کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کواہل القرآن کا لقب دیتے ہیں، اس گروہ کا بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلِ حدیث تھا"۔
<ref>موجِ کوثر، ص۵۲</ref>۔
<ref>موجِ کوثر، ص۵۲</ref>۔
پھرایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"فی الحقیقت حدیث میں اس قدر لغویات ہزلیات اور دور ازکار اور بے سراپا باتیں مندرج ہیں کہ وہ اس کی شکل کونہایت ہی بدنما بناتی ہیں؛ لیکن واضعینِ حدیث (حدیث بنانے والوں) نے یہ بڑی کاریگری کی کہ اس کوخاتم النبیین کی طرف منسوب کردیا اور اس طرح اس کے بدشکل چہرہ پرسفید (پاوڈر) مل دیا"۔
حدیث لٹریچر معتمد ذخیرہ حدیث ہے یانہ؟ اس کی بحث تدوینِ حدیث کے زیرِعنوان پہلے ہوچکی ہے، آپ اس وقت صرف چکڑالوی صاحب کے موقف پرغور کریں، اس کا حاصل یہ ہے کہ حدیث کا کوئی وجود حضور کے زمانے میں نہ تھا، حضور نے قرآن کے سوا کبھی کوئی بات نہ کی تھی، صحابہؓ نے حضورکے کسی قول یاعمل کوکبھی کسی کے سامنے نقل کیا تھا نہ ان میں حضور کی وفات کے بعد حضور کی کسی بات کوآگے نقل کرنے کا داعیہ پیدا ہوا اور نہ ہی اگلوں نے پچھلوں سے حضور یاصحابہؓ کے زمانے کی کوئی بات پوچھی؛ انہی حالات پراسلام کی دوتین صدیاں بسر ہوئیں اور اس کے بعد یہود ونصاریٰ کے کہنے سے حدیث کی کتابیں یکایک لکھ دی گئیں اور مسلمان یکا یک ان کی باتوں میں آکر ان ہزلیات کودین سمجھنے لگے، پہلی تین صدیوں میں جوقرآنی نماز قائم تھی، وہ یکایک ترک ہوگئی اور نماز کا موجودہ نقشہ جوسراسر قرآن کے خلاف تھا، مسلمانوں میں قائم ہوگیا، اسلامی دنیا جہاں تک وسیع ہوتی گئی؛ یہی عجمی نماز ہرجگہ پہنچی اور کسی عربی دان کوقرآن کے مطالعہ سے قرآن میں یہ نقشہ نماز نظر نہ آیا جومولوی عبداللہ چکڑالوی نے اب برہان القرآن علی صلوۃ القرآن میں درج فرمایا ہے؛ پھرمسلمانوں میں ان قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ میں جتنے بھی قانون دان اور ماہرینِ فقہ گزرے، ان میں سے کسی کوپتہ نہ چل سکا کہ یہ معتبرراویوں کے نقل کئے ذخائرِ حدیث ہرگز ماخذ علم نہیں؛ بلکہ یہ سب ہزلیات کا ایک ذخیرہ ہے، جودشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے تیار کیا ہے؎
بریں عقل ودانش بباید گریست
چکڑالوی صاحب کا یہ تبصرہ صرف اس امت پر نہیں، وہ پہلی اُمتوں کوبھی برابر کامجرم قرار دیتے ہیں اور مولوی کا دعویٰ ہے کہ اتباعِ حدیث کی تجویز پہلے ادوار میں بھی تھی، فرعون اہلِ حدیث میں سے تھا اور موسیٰ علیہ السلام تورات کے سوا اور کسی چیز کوبنواسرائیل کے لیے حجت نہ سمجھتے تھے اور نہ آپ نے کبھی کسی اور بات کی دعوت دی تھی، مولوی صاحب کی یہ بات "پنسبہ کجا کجا نہم" کا مصداق ہے، ہم ان کی کس کس بات پرمرہم رکھیں اور ان کے لگائے کس کس زخم کومندمل کرنے کی کوشش کریں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی تھی اور وہ اسرائیل کے لیے بے شک تشریعی پیغمبر تھے، ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام توصاحب کتاب نہ تھے؛ پھرقرآن کریم میں یہ بات کیوں ہے کہ انہوں نے بھی قوم کواپنی پیروی کی دعوت دی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اور رسول اسی لیے توبھیجے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے؟ اور ان سے رضاءِ الہٰی کے طریقے جاری ہوں؟ بنی اسرائیل جب سامری کے چکر میں گھرے توحضرت ہارون علیہ السلام نے کیا یہ نہ کہا تھا:
چکڑالوی صاحب کا یہ تبصرہ صرف اس امت پر نہیں، وہ پہلی اُمتوں کوبھی برابر کامجرم قرار دیتے ہیں اور مولوی کا دعویٰ ہے کہ اتباعِ حدیث کی تجویز پہلے ادوار میں بھی تھی، فرعون اہلِ حدیث میں سے تھا اور موسیٰ علیہ السلام تورات کے سوا اور کسی چیز کوبنواسرائیل کے لیے حجت نہ سمجھتے تھے اور نہ آپ نے کبھی کسی اور بات کی دعوت دی تھی، مولوی صاحب کی یہ بات "پنسبہ کجا کجا نہم" کا مصداق ہے، ہم ان کی کس کس بات پرمرہم رکھیں اور ان کے لگائے کس کس زخم کومندمل کرنے کی کوشش کریں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی تھی اور وہ اسرائیل کے لیے بے شک تشریعی پیغمبر تھے، ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام توصاحب کتاب نہ تھے؛ پھرقرآن کریم میں یہ بات کیوں ہے کہ انہوں نے بھی قوم کواپنی پیروی کی دعوت دی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اور رسول اسی لیے توبھیجے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے؟ اور ان سے رضاءِ الہٰی کے طریقے جاری ہوں؟ بنی اسرائیل جب سامری کے چکر میں گھرے توحضرت ہارون علیہ السلام نے کیا یہ نہ کہا تھا:
"يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي"
"يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي"

نسخہ بمطابق 09:26، 2 جنوری 2024ء

چکڑالوی
نامچکڑالوی
عام نامچکڑالوی
بانی
  • مالک
  • شافعی
نظریہصرف قرآن کی پیروی

چکڑالوی اہلِ قرآن چند سالوں سے مسلمانوں میں ایک نیا مسلک جاری ہو گیا ہے۔ اس میں اکثر پنجاب سرحد اور ہندوستان کے لوگ بھی شامل ہیں اس جدید مسلک کی بنیاد مولوی عبد اللہ چکڑالوی صاحب نے ڈالی۔

مولوی عبد اللہ چکڑالوی

پہلا شخص جس نے ہندوستان میں کھلم کھلا حدیث کا انکار کیا قاضی غلام نبی تھا، یہ شخص چکڑالہ ضلع میانوالی کا رہنے والا تھا اور قاضی نورعالم مرحوم کا بیٹا تھا، حدیث سے یہاں تک نفرت بڑھی کہ اپنا نام غلام نبی بدل کرعبداللہ رکھ لیا؛ اسی کوعبداللہ چکڑالوی کہتے ہیں: قاضی غلام نبی المعروف بہ عبداللہ چکڑالوی ڈپٹی نذیراحمد کے شاگردتھے، سنہ۱۲۸۲ھ میں علوم دینیہ کی تکمیل کی، ڈپٹی نذیراحمد ترکِ تقلید کی طرف مائل تھے، اُن کے زیرِاثرقاضی غلام نبی صاحب بھی آہستہ آہستہ ترکِ تقلید کی رُو میں بہنے لگے، کچھ عرصہ اہلِ حدیث رہنے کے بعد اُنہوں نے سرے سے حدیث کا انکار شروع کردیا، چکڑالہ کے لوگوں نے آپ کو خطابت اور افتاء سے الگ کردیا اور آپ نے جلال پور ضلع ملتان جاکر ملازمت کرلی؛ پھراس علاقے کی دینی قیادت قاضی قمرالدین کے سپرد ہوئی، قاضی قمرالدین قاضی غلام نبی کے چچازاد بھائی تھے، آپ نے مولانا احمدعلی محدث سہارنپوری سے حدیث پڑھی تھی اور مولانا احمد حسین کانپوری سے بھی علمی استفادہ کیا تھا، آپ نے فتنہ انکارِ حدیث کا خوب کھل کرمقابلہ کیا، مولوی عبداللہ کے لڑکے قاضی ابر اہیم نے اپنے والد کے مسلک کوقبول کرنے سے انکار کردیا؛ یہاں تک کہ والد کی جائداد سے بھی محروم ہوگئے، اُن کے بھائی قاضی محمدعیسیٰ کچھ دنوں تک اپنے والد کے ساتھ رہے، انجام کاروہ بھی اس سے منحرف ہوگئے اور انکارِ حدیث سے تائب ہوکر مسلکِ حق اختیار کیا [1]۔

میانوالی تحصیل کے شہباز خیل اور یار وخیل دیہات میں ان کے کافی پیرو کار موجود ہیں ڈیرہ اسماعیل خان اور لاہور میں بھی چکڑالوی پائے جاتے ہیں لاہور میں اس مسلک کے ایک سرکردہ پیرو کار شیخ چتو اشاعت القرآن نامی ماہوار جریدہ شائع کرتا ہے۔ لاہور میں زیادہ پذیرائی نہ ملنے پر اس کا بانی اب ڈیرہ اسماعیل خان میں مقیم ہو گیا ہے۔ انکار حدیث کی بنا پر یہ مسلک بھی دوسرے منکرین حدیث کی طرح معجزات و شفاعت ، عذاب قبر ایصال ثواب اور تعداد ازدواج وغیرہ کے قائل نہیں۔ تعداد ازدواج کے سلسلے میں چکڑالوی ایسے تمام اُمت کے افراد و گناہ کا مرتکب قرار دے [2]۔

نظریہ

مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نے ترجمۃ القرآن بآیات القرآن کے نام سے ایک تفسیر بھی لکھی، جس کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں، ان سے مولوی عبداللہ چکڑالوی کا نظریہ انکارِ حدیث کھل کرسامنے آتا ہے:

  • کتاب اللہ کے مقابلہ میں انبیاء اور رسولوں کے اقوال وافعال یعنی احادیث قولی، فعلی، تقریری پیش کرنے کا مرض ایک قدیم مرض ہے، محمدرسول کے مقابل ومخاطب بھی قطعی اور یقینی طور پر اہلِ حدیث ہی تھے [3]۔
  • کسی جگہ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور شئے رسول پرنازل ہوئی تھی؛ اگرکوئی شخص کسی مسئلہ میں قرآن کریم کے سوا کسی اور چیز سے دینِ اسلام میں حکم کرے گا تووہ مطابق آیاتِ مذکورہ بالاکافر، ظالم اور فاسق ہوجائے گا
  • رسول اللہ کی زبان مبارک سے دین کے متعلق یاقرآن شریف نکلتا تھا اور یاسہواً اپنے خیالات وقیاسات، جن میں القاء شیطانی موجود ہوتا تھا، جن کوخدا تعالیٰ نے منسوخ ومذکور فی القرآن کرکے آپ کی اُن سے بریت کردی
  • مولوی عبداللہ چکڑالوی کی ان تصریحات میں ان کا اعتقادی چہرہ بہت کھل کر سامنے آجاتا ہے، کاش کہ وہ ترکِ تقلید کے زیرِسایہ تفسیر نہ پڑھتے اور ترکِ تقلید انہیں اس گڑھے میں نہ اُتارتی، مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی پہلے فقہ کی بندش سے آزاد ہوئے؛ پھرحدیث سے آزادی کی راہ ہموار کرنے لگے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے پیشگوئی کی کہ اس کے بعد وہ قرآن کریم کی جمع وتدوین کے پیچھے پڑیں گے، دین سے آزادی حاصل کرنے کی یہ آخری منزل ہے، مولانا ثناء اللہ صاحب لکھتے ہیں:
  • امام اہل قرآن نے نفسیات کے اس مسئلہ پراچھی طرح غور کرلیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے عقائد دیرمیں اور بتدریج بدلتے ہیں، اس لیئے جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگ فقہ کی بندش سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں توانہوں نے حدیث پرنکتہ چینی شروع کردی اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائےگا تووہ جمع وتدوین قرآن میں رخنے نکالنے شروع کردیں گے۔

انکار تقلید

اِن کا ہرشخص خود امام ہے اور مجتہد ہے، اس کوکسی کی تقلید کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ تقلید نام ہے پابندی کا اور اسی پابندی سے بھاگنے کے لیئے تویہ سارا کھیل کھیلا گیا ہے؛ اس لیئے یہ لوگ ایک دوسرے کی بالکل نہیں سنتے ہرشخص قرآن مجید کوجس طرح سمجھتا ہے؛ اسی طرح اس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے [4]۔ اس میں شبہ نہیں کہ انکارِ حدیث کی تحریک غیرمقلدوں کے جوشِ ترکِ تقلید سے اُٹھی مشہور مؤرخ شیخ محمداکرام لکھتے ہیں: "اہلِ حدیث جماعت کے جوش وخروش کا دوسرا نتیجہ "طبقہ اہل القرآن" کا آغاز ہے، اہلِ حدیث اپنے آپ کوغیرمقلد کہتے ہیں، وہ فقہی ائمہ مثلاً ابوحنیفہ کی تقلید سے آزاد ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کئی طبیعتوں کو جو زیادہ آزاد خیال تھیں فقط فقہاء کی تقلید سے آزادی کافی معلوم نہ ہوئی اور انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پراحادیث سے بھی آزادی حاصل کرنا چاہی، اس گروہ کا ایک مرکز پنجاب میں ہے، جہاں لوگ اُنہیں چکڑالوی کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کواہل القرآن کا لقب دیتے ہیں، اس گروہ کا بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلِ حدیث تھا"۔ [5]۔ چکڑالوی صاحب کا یہ تبصرہ صرف اس امت پر نہیں، وہ پہلی اُمتوں کوبھی برابر کامجرم قرار دیتے ہیں اور مولوی کا دعویٰ ہے کہ اتباعِ حدیث کی تجویز پہلے ادوار میں بھی تھی، فرعون اہلِ حدیث میں سے تھا اور موسیٰ علیہ السلام تورات کے سوا اور کسی چیز کوبنواسرائیل کے لیے حجت نہ سمجھتے تھے اور نہ آپ نے کبھی کسی اور بات کی دعوت دی تھی، مولوی صاحب کی یہ بات "پنسبہ کجا کجا نہم" کا مصداق ہے، ہم ان کی کس کس بات پرمرہم رکھیں اور ان کے لگائے کس کس زخم کومندمل کرنے کی کوشش کریں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی تھی اور وہ اسرائیل کے لیے بے شک تشریعی پیغمبر تھے، ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام توصاحب کتاب نہ تھے؛ پھرقرآن کریم میں یہ بات کیوں ہے کہ انہوں نے بھی قوم کواپنی پیروی کی دعوت دی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اور رسول اسی لیے توبھیجے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے؟ اور ان سے رضاءِ الہٰی کے طریقے جاری ہوں؟ بنی اسرائیل جب سامری کے چکر میں گھرے توحضرت ہارون علیہ السلام نے کیا یہ نہ کہا تھا: "يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي" (طٰہٰ:۹۰) ترجمہ:اے میری قوم! بات یہی ہے کہ تم بہک گئے، اس (بچھڑے) کے ساتھ اور بے شک تمہارا رب تورحمٰن ہے؛ سومیری پیروی کرو اور مانو میری بات۔ قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ بنواسرائیل کے لیے صرف تورات ماننے کی دعوت نہ تھی، اتباعِ رسالت بھی ان کے ذمہ تھا اور موسیٰ علیہ السلام تواپنی جگہ رہے، حضرت ہارون علیہ السلام کی اتباع اور پیروی بھی ان پرلازم تھی، حدیث ماننے کا سبق پہلی اُمتوں میں اس وقت کے نبیوں کے زیرِتربیت رہا ہے، یہ کہنا کہ یہ ملعون کام پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے بڑی جسارت ہے، ہندوستان کے منکرینِ حدیث میں مولوی عبداللہ چکڑالوی کے بعد جناب حافظ محمداسلم کانام آتا ہے۔

  • روایات (احادیثِ نبویہ )محض تاریخ ہے [6]۔
  • حدیث کا پورا سلسلہ ایک عجمی سازش تھی اور جس کو شریعت کہا جاتا ہے وہ بادشاہوں کی پیدا کردہ ہے۔
  • رسول اللہ کی سنّت اور احادیث مبارکہ دین میں حجت نہیں ۔رسول اللہ کے اقوال کو رواج دیکر جو دین میں حجّت ٹہرایا گیا ہے یہ دراصل قرآن مجید کی خلاف عجمی سازش ہے [7]۔

طریقہ نماز

طریق نماز : چکڑالوی کہتے ہیں کہ عام مسلمان جونماز پڑھتے ہیں یہ قرآن کے طابق نہیں اللہ تعالی نہیں بنائی بلکہ انہوں نے اصل نماز کو بدل ڈالا ہے قرآن ہی کی سیکھائی ہوئی نماز پڑھنی فرض ہے اور اس کے سوا اور کسی طرح کی نماز پڑھنا جائز نہیں۔ قرآن مجید سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی شخص نمازیوں کے آگے اکیلا کھڑا ہو اور نہ ہی امام کا لفظ نماز کے متعلق کتاب اللہ میں کسی جگہ آیا ہے پس نماز پڑھانے والے کو بھی دوسرے نمازیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے آگے کھڑا ہونا ہرگز جائز نہیں اور نہ اذان کا قرآن مجید میں کوئی ذکر ہے اس لئے اذان کا کہنا نا جائز ہے۔ انبیاء کے نام کے ساتھ علیہ اسلام کی جگہ سلام علیہ کہتے ہیں اور اسلام علیک کی جگہ سلام علیک بولتے ہیں۔ اور جس ذبیحہ پر بسم اللہ اللہ ھوا کبر پڑھی جائے یا قرآن کی کوئی اور آیت پڑھی جائے چکڑالوی وہ ذبیحہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی سے متعلق ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ صرف قیام ہی کرتے ہیں اور چند قرآنی آیات پڑھ کر ختم کر دیتے ہیں جیسا کہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے نماز سے متعلق رکوع اور سجدہ والی آیت پر عمل کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے [8]۔

مساجد

مساجد: وہ ایسی تمام مسجدیں جن میں احادیث وفقہ کی تعلیم ہوتی ہے ضرار ہیں کیونکہ ان میں کتاب اللہ کو ضرر پہنچ رہا ہے۔ جس مسجد میں اس پاک کتاب کے ساتھ اور بھی مذہبی کتابوں کو پڑھایا جاتا ہے سب مسجد ضرار کا حکم رکھتی ہیں۔ مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے ایک لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے اور مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں پچاس ہزار کا اور یہ بالکل غلط ہے قرآن مجید میں ان باتوں کا ذکر نہیں یہ ملاؤں کی من گھڑت باتیں ہیں ۔

شفاعت

شفاعت : قیامت کے دن کوئی کسی کی خیر خواہی یا شفارش نہیں کر سکے گا بلکہ اگر ملائکہ مقربین اور تمام رسول انبیاء بھی مل کر چاہیں کے اپنے کسی پیارے کو جو مجرم ہے سزا سے بچالیں تو ایسا بھی ہر گز نہیں ہو سکے گا۔

مردے کو ثواب

مردے کو ثواب : مردے کے لئے بدنی عبادات یا مالی صدقہ وغیرہ سے مردے کو کسی چیز کا ثواب نہیں پہنچ سکتا۔

قربانی

قربانی: قربانی کے متعلق ہے کہ بجائے جانور ذبح کرنے کے جانور کی قیمت کے برابر صدقہ دے دیا جائے لیکن جہاں گوشت کے لینے والے مومن مساکین موجود ہوں وہاں قربانی ہی کرنا ضرور ہے۔ چکڑالوی قرآن مجید کو بغیر حدیث کے نور کو سمجھنا چاہتے ہیں اور براہ راست ان تک پہنچنا چاہتے ہیں یہ فرقہ رسول اللہ کی تمام دیگر روایات کو مسترد کرتا ہے اس کا عقیدہ ہے کہ قرآن واحد کتاب ہے جو سچے مسلمان کو ہدایت دے سکتی ہے اور دیگر تمام کتب اور احادیث بے معنی ہیں [9]۔ ان کے وجود سے قرآن مجید کو بہت ضرر پہنچ رہا ہے قرآن کو اپنی آنکھوں سے پڑھیں تو حقیقت نظر آئے گی بخاری مسلم یا امام ابو حنیفہ، امام شافعی یا فخرالدین و جلال الدین کی آنکھوں سے نہ دیکھنا چاہئے [10]۔

حوالہ جات

  1. deobandi-books.aislam.org
  2. عبد الرحمن کیلانی، آئینہ پرویزیت، مکتبہ اسلام شریک نمبر ۲ دن پور لاہور
  3. تفسیرترجمۃ القرآن:۹۷، مطبوعہ سنہ۱۳۲۰ھ
  4. فتاویٰ ثنائیہ:۱۰/۲۸۰
  5. موجِ کوثر، ص۵۲
  6. طلوع اسلام ص49ماہِ جولائی، 1950ء
  7. چکڑالوی فرقہ (منکرین حدیث ) کے عقائد و نظریات، hurdumehfil.net
  8. مولوی حجم الغنی خان رامپوری ، مذہب اسلام ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور
  9. ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا، ص، ۱۸۳
  10. مذاہب عالم تقابلی، ص ۷۲۹