"اسرائیل" کے نسخوں کے درمیان فرق

94 بائٹ کا ازالہ ،  15 نومبر 2023ء
سطر 20: سطر 20:
اسرائیل کا کل رقبہ  بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔
اسرائیل کا کل رقبہ  بشمول مقبوضہ علاقوں کے 22145 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ دنیا کا 149واں بڑا ملک ہے۔
== بالفور  اعلامیہ ==
== بالفور  اعلامیہ ==
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ  آرتھر جیمس بالفور نے '''بالفور اعلامیہ'''  پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آچکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ  آرتھر جیمس بالفور نے '''بالفور اعلامیہ'''  پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ازم کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔1932ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔
عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عرب جذبات کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے:  
عربوں نے ابتدائی مدت کے دوران انتداب اور اعلان بالفور کے خلاف سخت مہم جاری رکھی۔ عرب جذبات کا پہلا ملک گیر احتجاج اپریل 1920ء کو ہوا اسی طرح دوسرا 1921ء اور تیسرا 1929ء کو ہوا۔ پھر 1936ء اور 1939ء کے دوران بغاوت رونما ہوئی۔ جس کے تحت چھ ماہ کی ہڑتال کی گئی۔ عربوں نے تین مطالبات پر زور طریقے سے پیش کئے:  
یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے
یہودیوں کی فلسطین آمد فوری روکی جائے
سطر 27: سطر 27:


== زیر زمین یہودی گروپ ==
== زیر زمین یہودی گروپ ==
جب مقامی عربوں اور باہر سے آکر آباد ہونے والے یہودیوں میں کشیدگی بڑھی اور انگریزوں کی حمایت مین قدرے کمی آئی تو یہودیوں نے '''ہگاناہ''' کے نام سے دفاعی گروپ بنا لیا۔ بعد از اں ہگاناہ کے چند اراکین نے عسکری گروپ ارگن بنالیا۔ اس کے بعد اوراہام سٹرن نے ارگن سے الگ ہو کر ایک زیادہ انتہا پسند گروپ لیہی بنالیا، جسے عرف عام '''سٹرن گینگ''' کہا جاتا تھا۔ 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ چھڑنے میں ان گروپوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ اس کے علاوہ یورپ سے یورپ سے یہودیوں کی نقل مکانی، اسرائیلی دفاعی افواج کی تشکیل، فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء اور اسرائیل کی بہت سی موجودہ سیاسی پارٹیوں کے قیام میں بھی ان زیر زمین یہودی گروپوں نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔
جب مقامی عربوں اور باہر سے آکر آباد ہونے والے یہودیوں میں کشیدگی بڑھی اور انگریزوں کی حمایت میں قدرے کمی آئی تو یہودیوں نے '''ہگاناہ''' کے نام سے دفاعی گروپ بنا لیا۔ بعد از اں ہگاناہ کے چند اراکین نے عسکری گروپ ارگن بنالیا۔ اس کے بعد اوراہام سٹرن نے ارگن سے الگ ہو کر ایک زیادہ انتہا پسند گروپ لیہی بنالیا، جسے عرف عام میں  '''سٹرن گینگ''' کہا جاتا تھا۔ 1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ چھڑنے میں ان گروپوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ اس کے علاوہ یورپ سے یہودیوں کی نقل مکانی، اسرائیلی دفاعی افواج کی تشکیل، فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء اور اسرائیل کی بہت سی موجودہ سیاسی پارٹیوں کے قیام میں بھی ان زیر زمین یہودی گروپوں نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔
== ریاست اسرائیل کی تشکیل ==
== ریاست اسرائیل کی تشکیل ==
بڑھتے ہو‎‎ۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے '''1947ء کا یو این پارٹیشن پلان''' منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہوتا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوربان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب نے اسے مسترد کردیا۔  
بڑھتے ہو‎‎ۓ تشدد اور یہودیوں اور عربوں میں مفاہمت کروانے میں ناکام ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطینی انتداب سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے '''1947ء کا یو این پارٹیشن پلان''' منظور کیا، جس کے تحت علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہودیوں کو 55 فی صد جبکہ عربوں کو 45 فی صد دینا منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق یروشلم کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہونا طے پایا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے تقسیم کے منصوبے کی منظوری کے فوری بعد ڈیوڈ بن گوربان نے اسے تسلیم کرلیا جبکہ عرب نے اسے مسترد کردیا۔  
== ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ ==
== ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ ==
14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک پہلے تل ابیب میں واقع '''تل ابیب میوزیم آف آرٹ''' میں منعقدہ '''واد لیومی''' (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔
14مئی 1948ء کو جاری کیا جانے والا ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ اس امر کا باقاعدہ اعلان تھا کہ فلسطین کے برطانوی انتداب میں ایک نئی یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ برطانوی انتداب کے خاتمے سے ایک پہلے تل ابیب میں واقع '''تل ابیب میوزیم آف آرٹ''' میں منعقدہ '''واد لیومی''' (یہودی قومی کونسل) کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا اور منظور کیا گیا۔ منظوری سے پہلے اس کی تیاری پر کئی ماہ غور و غوض کیا گیا تھا۔
12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل نے دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔
12 مئی 1948ء کو یہودی قومی انتظامیہ کا اجلاس ہوا جس میں غور کیا گیا کہ امن معاہدے کی امریکی تجویز قبول کی جائے یا نئی ریاست کا قیام کا اعلان کیا جائے۔ کونسل کے  دس میں سے چھ اراکین نے نئی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا۔
اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔
اس اعلان کے بعد چند منٹوں میں نئی ریاست اور اس کی حکومت کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تسلیم کرلیا۔ تین دن بعد سوویت یونین کے صدر سٹالن نے بھی اسرائیل کو قبول کر لیا۔ جبکہ عرب ریاستوں اور فلسطینوں نے اس کی مخالفت کی۔
== قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات ==  
== قیام اسرائیل کے اسباب اور نقصانات ==  
انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظر‏ئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمیگر جنگ سے نبرغ آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی تو اسی وقت ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہو‎ئے ہے کیونکا یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرت علاقے میں قا‏ئم حزب اللہ میلیشیا جو ایک عسکری تنظیم ہے۔ یہ بھی مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرا‏ئیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار ہے <ref>محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص77-87</ref>۔
انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بیسویں صدی کے وسط سے قبل دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی مملکت موجود نہ تھی جو کسی مذہبی نظر‏ئیے یا تفریق کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہو۔ دنیا میں موجود ممالک نسل، زبان اور علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کی بنیاد پر قائم ہوئے ۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا دوسری عالمگیر جنگ سے نبرد آزما ہوکر زندہ رہنے کے نئے اصول مرتب کر رہی تھی تو اسی وقت ایک ایسی سازش نے جنم لیا جو اب تک عالم انسانیت اور بالخصوص عرب دنیا کو بے چین کیے ہو‎ئے ہے۔ کیونکہ یہ بے چینی ایک ایسے خطہ زمین کے تقدس کے حوالے سے ہے جو انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اس لحاظ سے پوری امت مسلمہ مضظرب ہے اور وہ مسئلہ ہے اسرائیلی ریاست جو خالصتا مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم ہوئی اور اس کا کوئی قوی پہلو دنیا کے سامنے موجود نہیں۔ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل اپنی سرحدی حدبندیوں ( جو تسلیم شدہ نہیں) کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے لیے ظلم اور بربریت کے سب ہتکھنڈوں کو استعمال کر رہا ہے۔ عرب علاقے میں قا‏ئم حزب اللہ میلیشیا جو ایک عسکری تنظیم ہے۔یہ بھی مذہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے تحفظ اور اس کے حصول کے لیے جس پر اسرا‏ئیل نے قبضہ کر رکھا ہے، اسرائیل سے بر سر پیکار ہے <ref>محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص77-87</ref>۔
== امریکی اسرائیلی تعلقات ==
== امریکی اسرائیلی تعلقات ==
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟  
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ کئی ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے؟ یا امریکیوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے انتہائی نرم گوشہ کیوں ہے؟  
confirmed
821

ترامیم