"محسن علی نجفی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 9: سطر 9:
=== عالم مسافرت اور حصول علم ===
=== عالم مسافرت اور حصول علم ===
بلتستان سے باہر جانے اور مزید تعلیم کے لیے اداروں کی تلاش آپ کا ذاتی فیصلہ تھا اور کسی نے انھیں یہ سوچ نہیں دی تھی کہ انھیں تعلیم کے لیے بلتستان سے باہر جانا چاہیے چنانچہ وہ از خود حصول علم کا شوق لیئے 1960ء میں بلتستان سے چلے تاہم تعلیمی اداروں کی بابت ضروری معلومات نہ ہونے کے باعث کراچی کا چکر لگا کر واپس بلتستان آ گئے اور حصول تعلیم کے لیے کوئی راہ نہ نکال سکے یہاں تک کہ پھر تین سال بعد یعنی 1963ء میں دوبارہ کراچی آئے اور حیدر آباد سندھ کے مدرسہ مشارع العلوم میں داخلہ لیا۔ اس وقت وہاں مولانا ثمر حسن زیدی صاحب مدرسے کے پرنسپل تھے اور مولانا منظور حسین صاحب ان کے ادبیات کے استاد تھے مولانا ثمر حسن زیدی اور مولانا منظور حسین رحمۃ اللہ علیہم دونوں ہی ان کے پسندیدہ استاد تھے۔ مدرسہ مشارع العلوم حیدر آباد سندھ میں علامہ صاحب نے ایک سال گذارا۔ ابتدا میں انھیں اردو اچھی طرح نہیں آتی تھی لیکن جب وہ حیدر آباد میں رہے تو وہاں کیونکہ اردو بولنے کا رواج تھا اور مولانا ثمر حسن زیدی و مولانا منظور حسین، ان دونوں کی مادری زبان بھی اردو تھی اگرچہ وہاں سندھی طالب علم بھی تھے تاہم اردو کا غلبہ تھا اس لیے وہاں رہ کر انھوں نے بھی اردو سیکھ لی۔ مدرسہ مشارع العلوم سندھ میں شرح لمعہ سے نیچے تک تعلیم دی جاتی تھی چنانچہ انھیں بھی وہاں ایک سال تک شرح لمعہ سے نیچے تعلیم دی جاتی رہی لہٰذا انھیں مزید تعلیم کے حصول کی خاطر ایک سال بعد ہی یہ مدرسہ چھوڑنا پڑا البتہ عربی ادب میں وہاں پڑھائی جانے والی کتب اور اردو لکھنے بولنے کی مشق نے انھیں آئندہ زندگی میں بہت فائدہ پہنچایا۔<ref>شیخ محسن علی نجفی کے حالات زندگی اور دینی خدمات، ص26۔</ref>۔
بلتستان سے باہر جانے اور مزید تعلیم کے لیے اداروں کی تلاش آپ کا ذاتی فیصلہ تھا اور کسی نے انھیں یہ سوچ نہیں دی تھی کہ انھیں تعلیم کے لیے بلتستان سے باہر جانا چاہیے چنانچہ وہ از خود حصول علم کا شوق لیئے 1960ء میں بلتستان سے چلے تاہم تعلیمی اداروں کی بابت ضروری معلومات نہ ہونے کے باعث کراچی کا چکر لگا کر واپس بلتستان آ گئے اور حصول تعلیم کے لیے کوئی راہ نہ نکال سکے یہاں تک کہ پھر تین سال بعد یعنی 1963ء میں دوبارہ کراچی آئے اور حیدر آباد سندھ کے مدرسہ مشارع العلوم میں داخلہ لیا۔ اس وقت وہاں مولانا ثمر حسن زیدی صاحب مدرسے کے پرنسپل تھے اور مولانا منظور حسین صاحب ان کے ادبیات کے استاد تھے مولانا ثمر حسن زیدی اور مولانا منظور حسین رحمۃ اللہ علیہم دونوں ہی ان کے پسندیدہ استاد تھے۔ مدرسہ مشارع العلوم حیدر آباد سندھ میں علامہ صاحب نے ایک سال گذارا۔ ابتدا میں انھیں اردو اچھی طرح نہیں آتی تھی لیکن جب وہ حیدر آباد میں رہے تو وہاں کیونکہ اردو بولنے کا رواج تھا اور مولانا ثمر حسن زیدی و مولانا منظور حسین، ان دونوں کی مادری زبان بھی اردو تھی اگرچہ وہاں سندھی طالب علم بھی تھے تاہم اردو کا غلبہ تھا اس لیے وہاں رہ کر انھوں نے بھی اردو سیکھ لی۔ مدرسہ مشارع العلوم سندھ میں شرح لمعہ سے نیچے تک تعلیم دی جاتی تھی چنانچہ انھیں بھی وہاں ایک سال تک شرح لمعہ سے نیچے تعلیم دی جاتی رہی لہٰذا انھیں مزید تعلیم کے حصول کی خاطر ایک سال بعد ہی یہ مدرسہ چھوڑنا پڑا البتہ عربی ادب میں وہاں پڑھائی جانے والی کتب اور اردو لکھنے بولنے کی مشق نے انھیں آئندہ زندگی میں بہت فائدہ پہنچایا۔<ref>شیخ محسن علی نجفی کے حالات زندگی اور دینی خدمات، ص26۔</ref>۔
=== نجف اشرف روانگی ===
آپ پوری یکسوئی کے ساتھ لاہور میں زیر تعلیم تھے کہ یکایک ان کے دل میں ایک روشنی سی اتری اور چشم تصور میں انھیں حوزہ علمیہ نجف اشرف جگمگاتا دکھائی دینے لگا۔ علامہ صاحب کے والد صاحب تو اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے ایسے میں انہیں حصول علم کے لئے بہتر تعلیمی ادارے بتانے اور بہتر مستقبل کی جانب راہنمائی کرنے والا کوئی بھی نہ تھا یہاں تک کہ کسی نے نہ شوق دلایا اور نہ ہی کسی نے کوئی وسائل فراہم کئے بس بے سرو سامانی کے عالم میں وہ جگہ جگہ خود قیام کرتے تھے اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنا ہر فیصلہ خود کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کا اس وقت نجف اشرف جانے کا فیصلہ بروقت تھا چنانچہ انھوں نے جب لاہور سے نجف جانے کا ارادہ کیا تو ایک بار پھر کراچی میں اپنے چچا کے پاس پہنچے اس وقت ان کے چچا کے مالی حالات پورا کرایہ دینے کے تو نہ تھے البتہ انہوں نے تھوڑا سا کرایہ دے دیا جسے لے کر خدا کے سہارے علامہ صاحب اور ان کی اہلیہ کسی نہ کسی طرح نجف اشرف پہنچ ہی گئے <ref>سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔</ref>۔


== حوالہ جات==  
== حوالہ جات==  

نسخہ بمطابق 09:11، 30 اکتوبر 2023ء

شیخ محسن علی نجفی شیخ محسن علی نجفی شیعہ عالم دین، اتحاد بین المسلمین کے داعی، مفسر، مؤلف اور مترجم قرآن کریم، مدارس اہل بیت(ع) اور جامعۂ الکوثر کے بانی اور سرپرست اعلی ہیں۔ آپ نے تعلیمی پسماندگی کی خاتمہ کے لئے اسوہ پبلک سکول اینڈ کالج کی بنیاد رکھی جس کے شعبہ جات ملک کے مختلف مقامات پر فعال ہیں۔ شیخ محسن علی نجفی نے فقراء اور مساکین کی مشکلات کے حل کے لیے ایک ادارہ بنایا ہے اور اسی طرح آپ سیاسی میدان میں بھی فعال ہیں، اتحاد بین المسلمین اور شیعوں کے سیاسی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔ آپ آیت اللہ سیستانی کے وکیل اور شہید صدر کے شاگردوں میں سے ہیں۔

سوانح عمری

آپ اسکردو بلتستان کی ضلع کھرمنگ کے گاؤں منٹھوکھا میں 1938 کو پیدا ہوئے۔ منٹوکھا مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی کی جائے ولادت ہے۔ خاندانی ریکارڈ کے مطابق آپ کا سنِ ولادت 1943ء ہے۔ آپ کے پر دادا جان کا اسم گرامی حسین حلیم، دادا جان کا نام عبد الحلیم اور والد صاحب کا نام نامی مولانا حسین جان ہے [1]۔

زندگی کے اہم واقعات

قیام پاکستان کے وقت آپ کی عمر مبارک پانچ سال جبکہ آزادی بلتستان کے وقت آپ کی عمر چھ سال تھی تاہم کم عمری کے باوجود اس وقت کے اہم واقعات آج بھی آپ کے ذہن پر پوری طرح نقش ہیں چنانچہ انھیں یاد ہے کہ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح کا نام زبانِ زد عام تھا اور علاقے کے مکینوں کی پاکستان میں شمولیت کے لیے رائے شماری کا شور و غوغا بھی ان کے کانوں میں پڑتا تھا اس کے علاوہ بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے بلتستان کی آزادی کے لیے جو عظیم جدوجہد کی اس حوالے سے بھی انھیں یاد ہے کہ جنگ آزادی بلتستان میں شرکت کرنے والے مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے گاؤں میں ایک تقریب ہوئی تھی اور اس تقریب میں ان کے والد صاحب نے مجاہدین کی جدوجہد کے حوالے سے اشعار پڑھ کر لوگوں سے زبردست داد پائی تھی۔ تقریب کے اختتام پر صدرِ محفل نے انکے والد صاحب کو دس روپے کا ہندوستانی سکہ بطور انعام دیا تھا (اسوقت تک پاکستانی کرنسی گردش میں نہ آئی تھی) دس روپے کا وہ سکہ ایک عرصے تک ان کے خاندان کے پاس بطور یادگار محفوظ رہا [2]۔

تعلیم

آپ کی عمر ابھی 14 سال تھی کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور شفقت پدری سے محرومی کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا ایسے میں ان کے گاؤں سے متصل ایک گاؤں تھا جو اب بھی آخوند گاؤں کہلاتا ہے۔ آخوند گاؤں قدیم شیعہ بستی تھی جبکہ ان کا سارا علاقہ نور بخشی تھا اور اس کے برعکس اس وقت وہ سارا گاؤں شیعہ تھا اس گاؤں کے ایک عالم دین مولانا حسین کے پاس انھوں نے دوبارہ تعلیم شروع کی اور صرف میر وغیرہ بھی وہیں پڑھی [3]۔ ان کے استاد اخوند حسین نے مقامی طور تعلیم حاصل کی تھی اس کے بعد علامہ سید احمد موسوی (جو کہ نجف کے فارغ التحصیل تھے) کے پاس وہ پڑھتے رہے اور ان سے خاطر خواہ تعلیم حاصل کی یہ مولانا صاحب ان کے گاؤں کی دوسری جانب واقع قریبی گاؤں میں رہتے تھے چنانچہ شرح لمعہ تک تعلیم انھوں نے علامہ سید احمد موسوی رحمۃ اللہ علیہ ہی سے حاصل کی [4]۔

عالم مسافرت اور حصول علم

بلتستان سے باہر جانے اور مزید تعلیم کے لیے اداروں کی تلاش آپ کا ذاتی فیصلہ تھا اور کسی نے انھیں یہ سوچ نہیں دی تھی کہ انھیں تعلیم کے لیے بلتستان سے باہر جانا چاہیے چنانچہ وہ از خود حصول علم کا شوق لیئے 1960ء میں بلتستان سے چلے تاہم تعلیمی اداروں کی بابت ضروری معلومات نہ ہونے کے باعث کراچی کا چکر لگا کر واپس بلتستان آ گئے اور حصول تعلیم کے لیے کوئی راہ نہ نکال سکے یہاں تک کہ پھر تین سال بعد یعنی 1963ء میں دوبارہ کراچی آئے اور حیدر آباد سندھ کے مدرسہ مشارع العلوم میں داخلہ لیا۔ اس وقت وہاں مولانا ثمر حسن زیدی صاحب مدرسے کے پرنسپل تھے اور مولانا منظور حسین صاحب ان کے ادبیات کے استاد تھے مولانا ثمر حسن زیدی اور مولانا منظور حسین رحمۃ اللہ علیہم دونوں ہی ان کے پسندیدہ استاد تھے۔ مدرسہ مشارع العلوم حیدر آباد سندھ میں علامہ صاحب نے ایک سال گذارا۔ ابتدا میں انھیں اردو اچھی طرح نہیں آتی تھی لیکن جب وہ حیدر آباد میں رہے تو وہاں کیونکہ اردو بولنے کا رواج تھا اور مولانا ثمر حسن زیدی و مولانا منظور حسین، ان دونوں کی مادری زبان بھی اردو تھی اگرچہ وہاں سندھی طالب علم بھی تھے تاہم اردو کا غلبہ تھا اس لیے وہاں رہ کر انھوں نے بھی اردو سیکھ لی۔ مدرسہ مشارع العلوم سندھ میں شرح لمعہ سے نیچے تک تعلیم دی جاتی تھی چنانچہ انھیں بھی وہاں ایک سال تک شرح لمعہ سے نیچے تعلیم دی جاتی رہی لہٰذا انھیں مزید تعلیم کے حصول کی خاطر ایک سال بعد ہی یہ مدرسہ چھوڑنا پڑا البتہ عربی ادب میں وہاں پڑھائی جانے والی کتب اور اردو لکھنے بولنے کی مشق نے انھیں آئندہ زندگی میں بہت فائدہ پہنچایا۔[5]۔

نجف اشرف روانگی

آپ پوری یکسوئی کے ساتھ لاہور میں زیر تعلیم تھے کہ یکایک ان کے دل میں ایک روشنی سی اتری اور چشم تصور میں انھیں حوزہ علمیہ نجف اشرف جگمگاتا دکھائی دینے لگا۔ علامہ صاحب کے والد صاحب تو اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے ایسے میں انہیں حصول علم کے لئے بہتر تعلیمی ادارے بتانے اور بہتر مستقبل کی جانب راہنمائی کرنے والا کوئی بھی نہ تھا یہاں تک کہ کسی نے نہ شوق دلایا اور نہ ہی کسی نے کوئی وسائل فراہم کئے بس بے سرو سامانی کے عالم میں وہ جگہ جگہ خود قیام کرتے تھے اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنا ہر فیصلہ خود کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کا اس وقت نجف اشرف جانے کا فیصلہ بروقت تھا چنانچہ انھوں نے جب لاہور سے نجف جانے کا ارادہ کیا تو ایک بار پھر کراچی میں اپنے چچا کے پاس پہنچے اس وقت ان کے چچا کے مالی حالات پورا کرایہ دینے کے تو نہ تھے البتہ انہوں نے تھوڑا سا کرایہ دے دیا جسے لے کر خدا کے سہارے علامہ صاحب اور ان کی اہلیہ کسی نہ کسی طرح نجف اشرف پہنچ ہی گئے [6]۔

حوالہ جات

  1. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  2. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  3. شیخ محسن علی نجفی کے حالات زندگی اور دینی خدمات، ص26۔
  4. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  5. شیخ محسن علی نجفی کے حالات زندگی اور دینی خدمات، ص26۔
  6. سید عارف حسین نقوی، تذکرۂ علمای امامیہ پاکستان، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد/1363ش/1984م، ص266-268۔