confirmed
821
ترامیم
سطر 288: | سطر 288: | ||
تمام وحدت کانفرنسوں میں وہ ایک دن کانفرنس کے مہمانوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ان کے لیے ایک اہم تقریر کرتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی یہ تقاریر بجائے خود ایک روڈ میپ اور ایک اہم تقریبی میراث ہے جو نہ صرف عالم اسلام کے دانشور طبقے بلکہ عام مسلمانوں کو بھی زیادہ سے زیادہ اتحاد اور ہمدردی کی ترغیب دیتی ہے۔ | تمام وحدت کانفرنسوں میں وہ ایک دن کانفرنس کے مہمانوں کے لیے وقف کرتے ہیں اور ہر سال ان کے لیے ایک اہم تقریر کرتے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی یہ تقاریر بجائے خود ایک روڈ میپ اور ایک اہم تقریبی میراث ہے جو نہ صرف عالم اسلام کے دانشور طبقے بلکہ عام مسلمانوں کو بھی زیادہ سے زیادہ اتحاد اور ہمدردی کی ترغیب دیتی ہے۔ | ||
== مشترک عقائد پر توجہ دیں == | == مشترک عقائد پر توجہ دیں == | ||
مسلمانوں اور مختلف فرقوں کے پیروکاروں کے لیے ان پاکیزہ تعلیمات | مسلمانوں اور مختلف فرقوں کے پیروکاروں کے لیے اگر ان پاکیزہ تعلیمات کو محور بنا کر دین کی ترویج و اشاعت کی جائے تو یقینی طور پر ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دے گی۔ انہوں نے بارہا اس نکتے پر زور دیا ہے : آج ہمارے سامنے دشمن بھی ایک ہی ہے علاوہ اس کے کہ اسلامی معاشرے کی ایک ہی کتاب، ایک ہی سنت، ایک ہی نبی، ایک ہی قبلہ، ایک ہی کعبہ، ایک ہی حج، ایک ہی عبادت اور ایک ہی عقیدہ ہے۔ یقینا، اختلافات بھی ہیں۔ علمی اختلاف ہر دو علما کے درمیان ہو سکتا ہے۔ علاوہ بر ایں، عالم اسلام کے خلاف واحد دشمن ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اسے اس طرح ہینڈل کیا جانا چاہئے۔ اس مسئلے میں ایک دن کی بھی تاخیر ہوتی ہے تو گویا عالم اسلام نے ایک دن کھو دیا ہے اور یہ دن ایسے ہیں کہ ان میں سے کچھ اتنے حساس ہیں کہ زندگی بھر متاثر کرتے ہیں۔ تاخیر نہ ہونے دیجئے۔ | ||
ہم تمام مسلمانوں کو - [[شیعہ]] اور [[سنی]] - بتانا اور یاد دلانا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے درمیان ایک نقطہ اشتراک ہے اور ایک نقطہ افتراق۔ کچھ چیزوں میں آپ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور کچھ چیزوں میں ہر فرقے کا اپنا طریقہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ،مشترکات اختلافات سے زیادہ ہیں۔ یعنی تمام مسلمان ایک خدا، ایک قبلہ، ایک نبی، ایک طرح کے احکام ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ایمان رکھتے ہیں۔ | |||
آپ کو دو مسلمان ایسے نہیں ملیں گے جو صبح ہوتے ہی نماز کے لیے نہ اٹھیں مگر یہ کہ وہ اپنا فرض ادا نہ کرنا چاہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسے صبح، دوپہر، شام اور رات کی نماز پڑھنی چاہیے، اور مستحب ہے کہ وہ نصف شب میں نماز شب ادا کرے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نماز کعبہ کی طرف اور قرآن کی زبان میں اور قرآن کی آیات سے ادا کی جانی چاہیے۔ دنیا کے تمام مسلمان جب رمضان کا مہینہ آتا ہے اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہ رمضان کا پہلا دن ہے تو روزہ رکھتے ہیں۔ | |||
بڑے اہم مشترکات موجود ہیں؛ سب اس محور کے گرد جمع ہو جائیں، ایک دوسرے کوتحمل کریں۔ اصول ہیں، محور ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہم ان اصولوں میں ایک دوسرے کے ہم درد ہوجائیں۔ ممکن ہے لوگوں میں سو فروعی باتوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ہو۔کوئی بات نہیں۔ یہ باہم جمع ہونےسے منافات نہیں رکھتا ہے۔ ان مشترکات کو معیار ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی تقریروں اور گفتگو میں محتاط رہنا چاہئے۔ ثانوی مسائل میں ایک دوسرے کو رد کرنا قطعاً مناسب نہیں۔ | |||
تمام ایرانی عوام کو ہمارے پیارے امام کے اس بامعنی اور مختصر سبق کو یاد رکھنا چاہیے اور اسلام کے محور پر اتحاد کو نہ بھولنا چاہیے: اللہ کی رسی کو پکڑو اور اسلام کے محور پر متحد ہو جاؤ۔ یہ اتحاد تمام دردوں کا علاج ہے اور تمام دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔ ایرانی قوم کی فتح کا اکسیر اعظم یہی ایک نکتہ ہے: اسلام کی بنیاد پر اتحاد ۔ | |||
آج عالم اسلام کو پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے تمسک کی ضرورت ہے۔ قرآن کہتا ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران، 103) حبل اللہ سے تمسک ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن قرآن ہمیں حبل اللہ سے وابستگئ کے حکم پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ ہمیں اجتماعی اور سماجی طور پر حبل اللہ سے وابستہ رہنے کا کا حکم دیتا ہے۔ "جمیعاً"؛ سب مل کر وابستہ رہو۔اتحاد کے بارے میں رہبر معظم کے ارشادات کے سلسلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: ’’مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ کوئی مذاق یا نعرہ نہیں ہے۔ تمام اسلامی معاشروں کو باہم متحد ہوجانا چاہیے اور ساتھ چلنا چاہیے۔ اس تناظر میں جو عناصر مرکز بن سکتے ہیں ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذات مبارک ہے۔ | |||
آج عالم اسلام کو پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی اور قرآن سے | |||
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران، 103) حبل اللہ | |||
مسلمانوں اور اسلامی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ | مسلمانوں اور اسلامی دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اسلام کے متعلق ہمہ جہت نظر یہ کے ساتھ اس عظیم ہستی کی شخصیت اور تعلیمات اور اس سے محبت میں سرمایہ کاری کریں ۔ | ||
پیغمبر اسلام (ص) | پیغمبر اسلام (ص) کا وجود مبارک تمام اسلامی ادوار میں اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے اور آج بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا اس عظیم اور مقدس وجود پر عقیدہ محبت اور جذبات کے ساتھ ہے ۔ اسی لیے آنحضرت ص تمام مسلمانوں کے جذبات اور عقائد کا مرکز اور محور ہے ۔اور یہ مرکزیت مسلمانوں کے دلوں کی باہمی انسیت اور اسلامی فرقوں کی ایک دوسرے سے قربت کا سبب بنتی ہے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ہماری نصیحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی ذات، آپ کی زندگی، آپ کے اخلاق اور آپ کی کہی اور لکھی ہوئی تعلیمات کے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام کریں۔ | ||
جو عوامل اس اتحاد کا مرکز ہو سکتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر متفق ہو سکتے ہیں، ان میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اہل بیت کی پیروی ہے۔ تمام مسلمان پیغمبر کے اہل بیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ شیعہ ان کی امامت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن غیر شیعہ انہیں شیعہ اصطلاح کے مطابق امام نہیں مانتے۔ لیکن وہ انہیں اسلام کے بزرگوں میں سے تو مانتے ہیں ، پیغمبر کے خاندان سے تو مانتے ہیں، اسلامی تعلیمات اور احکام سے مطلع تو مانتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور اہل بیت کے ارشادات پر عمل کے سلسلے میں متحد ہوجائیں۔ | |||
یہ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔ | یہ اتحاد کا ایک ذریعہ ہے۔ البتہ یہ ایک فنی کام ہے۔ آسان کام نہیں ہے اور اس کےکے کچھ مقدمات ہیں۔ جو لوگ اہل فن ہیں، حدیث کے ماہر ہیں، اور حدیث سے متعلق علوم کے ماہر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس کام کے مقدمات کیا ہیں۔ | ||
=== غدیر === | === غدیر === | ||
مسئلہ غدیر بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خود غدیر کا مسئلہ، اس پہلو | مسئلہ غدیر بھی اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خود غدیر کا مسئلہ، اس پہلو کے سوا جسے شیعوں نے عقیدہ کے طور پر قبول کیا ہے( یعنی وہ حکومت جو امیر المومنین (ع) کو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سےحاصل ہوئی ہے، جو حدیث غدیر میں واضح ہے) سرپرستی کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے۔ اب اس میں شیعہ یا سنی نہیں ہیں۔ اگر آج پوری دنیا کے مسلمان اور اسلامی ممالک کی قومیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو امت اسلامیہ کی بے شمار حل نہ ہونے والی گرہیں کھل جائیں گی اور اسلامی ممالک کے مسائل حل ہونے کے قریب پہنچ جائیں گے | ||
امیرالمومنین علیہ السلام اتحاد کا محور ہیں۔ تمام عالم اسلام امیر المومنین علیہ السلام کا احترام کرتا ہے؛ نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی۔ نواصب نامی ایک چھوٹی سی جماعت امیر المومنین کے دشمن تھے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں، اموی اور عباسی دونوں ادوار میں بعض گروہ امیر المومنین کے دشمن تھے۔ لیکن عالم اسلام کے عام لوگ - سنی اور شیعہ دونوں - امیر المومنین کی عزت کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سنی فقہی ائمہ کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں تعریفی اشعارموجود ہیں۔ | امیرالمومنین علیہ السلام اتحاد کا محور ہیں۔ تمام عالم اسلام امیر المومنین علیہ السلام کا احترام کرتا ہے؛ نہ کوئی شیعہ ہے نہ سنی۔ نواصب نامی ایک چھوٹی سی جماعت امیر المومنین کے دشمن تھے۔ اسلام کی پوری تاریخ میں، اموی اور عباسی دونوں ادوار میں بعض گروہ امیر المومنین کے دشمن تھے۔ لیکن عالم اسلام کے عام لوگ - سنی اور شیعہ دونوں - امیر المومنین کی عزت کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سنی فقہی ائمہ کے ہاں امیر المومنین کے بارے میں تعریفی اشعارموجود ہیں۔ |