"علی بن موسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: Manual revert
(2 صارفین 20 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
[[فائل:ضریح امام رضا.jpg|250px|بدون_چوکھٹا|بائیں]]
[[فائل:220px-ضریح امام رضا.jpg|250px|بدون_چوکھٹا|بائیں]]
'''علی بن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام''' جو امام رضا (148-203ھ) کے نام سے مشہور ہیں، 12ویں صدی کے آٹھویں شیعہ امام ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کی امامت ہارون الرشید، محمد امین اور مامون کی 20 سالہ مدت خلافت کے ساتھ موافق ہوئی۔ امام جواد علیہ السلام کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ خدا نے ان کے والد کو رضا کا لقب دیا تھا۔ انہیں آل محمد عالم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ امام رضا علیہ السلام کو مامون عباسی نے زبردستی خراسان لایا اور ہچکچاتے ہوئے مامون کے ولی عہد بن گئے۔ سونے کی زنجیر کی حدیث جو نیشابور میں ان سے مروی ہے، مشہور ہے۔ مامون اپنے اور دوسرے مذاہب کے عمائدین کے درمیان مباحثے کی نشستیں منعقد کیا کرتا تھا، جس سے وہ سب اس کی برتری اور علم کا اعتراف کرتے تھے۔ انہیں طوس میں مامون نے شہید کیا۔ مشہد میں ان کا مزار مسلمانوں کے لیے زیارت گاہ ہے۔
'''علی بن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام''' جو امام رضا (148-203ھ) کے نام سے مشہور ہیں، 12ویں صدی کے آٹھویں [[شیعہ]] امام ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کی امامت ہارون الرشید، محمد امین اور مامون کی 20 سالہ مدت خلافت کے ساتھ موافق ہوئی۔ [[امام جواد علیہ السلام]] کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ خدا نے ان کے والد کو رضا کا لقب دیا تھا۔ انہیں آل محمد عالم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ امام رضا علیہ السلام کو مامون عباسی نے زبردستی خراسان لایا اور ہچکچاتے ہوئے مامون کے ولی عہد بن گئے۔ سونے کی زنجیر کی حدیث جو نیشابور میں ان سے مروی ہے، مشہور ہے۔ مامون اپنے اور دوسرے مذاہب کے عمائدین کے درمیان مباحثے کی نشستیں منعقد کیا کرتا تھا، جس سے وہ سب اس کی برتری اور علم کا اعتراف کرتے تھے۔ انہیں طوس میں مامون نے شہید کیا۔ مشہد میں ان کا مزار مسلمانوں کے لیے زیارت گاہ ہے۔
== رضا ==
== رضا ==
علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، ان کی کنیت ابو الحسن اور سب سے مشہور لقب رضا ہے۔ [[امام جواد علیہ السلام]] کی ایک روایت میں ہے کہ یہ لقب ان کے والد کو خدا نے دیا تھا۔ <ref>ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 1، صفحہ 13</ref> لیکن بعض ذرائع نے کہا ہے کہ مامون نے اسے رضا کا خطاب دیا۔ صابر ، صدیق، رازی اور وفی اس نبی کے دوسرے القاب ہیں  <ref>ابن شہراشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، جلد 4، صفحہ 366 اور 367؛ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، 1418ھ، ج2، ص545</ref>
علی بن [[موسی بن جعفر|موسیٰ بن جعفر]] بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، ان کی کنیت ابو الحسن اور سب سے مشہور لقب رضا ہے۔ [[امام جواد علیہ السلام]] کی ایک روایت میں ہے کہ یہ لقب ان کے والد کو خدا نے دیا تھا۔ <ref>ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 1، صفحہ 13</ref> لیکن بعض ذرائع نے کہا ہے کہ مامون نے اسے رضا کا خطاب دیا۔ صابر ، صدیق، رازی اور وفی اس نبی کے دوسرے القاب ہیں  <ref>ابن شہراشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، جلد 4، صفحہ 366 اور 367؛ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، 1418ھ، ج2، ص545</ref>
۔ بعض روایات میں انہیں آل محمد کا عالم کہا گیا ہے۔  <ref>مجلسی، بہار الانوار، 1403ھ، جلد 49، ص100</ref>
۔ بعض روایات میں انہیں آل محمد کا عالم کہا گیا ہے۔  <ref>مجلسی، بہار الانوار، 1403ھ، جلد 49، ص100</ref>
روایت کی گئی ہے کہ امام کاظم علیہ السلام اپنے بچوں سے فرمایا کرتے تھے: تمہارا بھائی علی بن موسی آل محمد کا عالم ہے۔ نیز امام جواد علیہ السلام نے اپنی زیارت کے دوران امام رضا علیہ السلام کو امام رؤف کہہ کر مخاطب کیا۔  <ref>مجلسی، بہار الانوار، ج 99، ص 55</ref>
روایت کی گئی ہے کہ امام کاظم علیہ السلام اپنے بچوں سے فرمایا کرتے تھے: تمہارا بھائی علی بن موسی آل محمد کا عالم ہے۔ نیز امام جواد علیہ السلام نے اپنی زیارت کے دوران امام رضا علیہ السلام کو امام رؤف کہہ کر مخاطب کیا۔  <ref>مجلسی، بہار الانوار، ج 99، ص 55</ref>
امام رؤف کا لقب شیعوں میں بہت مشہور ہے
امام رؤف کا لقب شیعوں میں بہت مشہور ہے
== پیدائش ==
== پیدائش ==
آپ کا یوم ولادت جمعرات یا جمعہ 11 ذی القعدہ، یا ذی الحجہ، یا ربیع الاول 148 یا 153 ہجری کو ہے۔  کلینی اور اکثر علماء اور مورخین  ک<ref>لینی، الکافی، 1363، جلد 1، صفحہ 486</ref>  نے ان کی پیدائش کا سال 148 ہجری بتایا ہے۔
آپ کا یوم ولادت جمعرات یا جمعہ 11 ذی القعدہ، یا ذی الحجہ، یا ربیع الاول 148 یا 153 ہجری کو ہے۔  کلینی اور اکثر علماء اور مورخین  ک<ref>لینی، الکافی، 1363، جلد 1، صفحہ 486</ref>  نے ان کی پیدائش کا سال 148 ہجری بتایا ہے۔
سطر 13: سطر 14:
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی والدہ نجمہ نامی ایک پاکیزہ اور پرہیزگار خادمہ تھیں، جنہیں امام کاظم علیہ السلام کی والدہ حمیدہ نے خرید کر اپنے بیٹے کو دیا تھا، اور حضرت کی ولادت کے بعد رضا علیہ السلام کا نام طاہرہ رکھا گیا۔<ref>صدوق، ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 1، صفحہ 16</ref>
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی والدہ نجمہ نامی ایک پاکیزہ اور پرہیزگار خادمہ تھیں، جنہیں امام کاظم علیہ السلام کی والدہ حمیدہ نے خرید کر اپنے بیٹے کو دیا تھا، اور حضرت کی ولادت کے بعد رضا علیہ السلام کا نام طاہرہ رکھا گیا۔<ref>صدوق، ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 1، صفحہ 16</ref>
== میاں بیوی اور بچے ==
== میاں بیوی اور بچے ==
امام رضا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام سبیکا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ماریہ قبطیہ کے خاندان سے پیغمبر اکرم (ص) کی زوجہ تھیں۔ بعض تاریخی منابع میں امام رضا  کے لیے ایک اور بیوی کا بھی ذکر ملتا ہے: مامون نے امام رضا کو اپنی بیٹی "ام حبیبہ" یا "ام حبیبہ" سے شادی کی تجویز پیش کی اور امام نے قبول کر لی۔ طبری نے 202 ہجری کے واقعات میں اس شادی کا ذکر کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مامون کا مقصد امام رضا علیہ السلام کے قریب جانا اور ان کے گھر میں گھس کر ان کے منصوبوں کے بارے میں جاننا تھا۔  سیوطی نے امام رضا علیہ السلام کے ساتھ مامون کی بیٹی کی شادی کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس نے اس لڑکی کا نام نہیں بتایا۔  <ref>یافی، مرایا الجنان، 1417ھ، جلد 2، صفحہ 10</ref>
امام رضا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام سبیکا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ماریہ قبطیہ کے خاندان سے [[پیغمبر اکرم]] (ص) کی زوجہ تھیں۔ بعض تاریخی منابع میں امام رضا  کے لیے ایک اور بیوی کا بھی ذکر ملتا ہے: مامون نے امام رضا کو اپنی بیٹی "ام حبیبہ" یا "ام حبیبہ" سے شادی کی تجویز پیش کی اور امام نے قبول کر لی۔ طبری نے 202 ہجری کے واقعات میں اس شادی کا ذکر کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ مامون کا مقصد امام رضا علیہ السلام کے قریب جانا اور ان کے گھر میں گھس کر ان کے منصوبوں کے بارے میں جاننا تھا۔  سیوطی نے امام رضا علیہ السلام کے ساتھ مامون کی بیٹی کی شادی کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس نے اس لڑکی کا نام نہیں بتایا۔  <ref>یافی، مرایا الجنان، 1417ھ، جلد 2، صفحہ 10</ref>


امام رضا علیہ السلام کی اولاد کی تعداد اور ناموں میں اختلاف ہے۔ شیخ مفید اپنے لیے محمد بن علی کے علاوہ کوئی اولاد نہیں جانتے۔ ابن شہراشوب اور طبرسی بھی اسی رائے کے ہیں۔بعض نے ان کے لیے فاطمہ نامی لڑکی کا ذکر کیا ہے۔  بعض نے ان کی اولاد کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی لکھا ہے، جن کے نام محمد قانی، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین اور عائشہ ہیں۔ سبط بن جوزی نے نام لیے بغیر چار بیٹوں کا ذکر کیا جن کا نام محمد (ابو جعفر ثانی)، جعفر، ابو محمد حسن، ابراہیم اور ایک بیٹی ہے۔  <ref>فضل اللہ، امام رضا علیہ السلام کی زندگی کا تجزیہ، 1377، ص 44</ref> کہا جاتا ہے کہ اس پیغمبر کا ایک بچہ جس کی عمر دو سال یا اس سے کم تھی قزوین میں دفن ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ قزوین کے امام زادہ حسین بھی وہی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام نے 1933 میں اس شہر کا سفر کیا۔  <ref>ابن جوزی کا قبیلہ، تذکرہ الخواص، الشریف الرازی کا منشور، ص 123</ref>
امام رضا علیہ السلام کی اولاد کی تعداد اور ناموں میں اختلاف ہے۔ [[شیخ مفید]] اپنے لیے محمد بن علی کے علاوہ کوئی اولاد نہیں جانتے۔ ابن شہراشوب اور طبرسی بھی اسی رائے کے ہیں۔بعض نے ان کے لیے فاطمہ نامی لڑکی کا ذکر کیا ہے۔  بعض نے ان کی اولاد کو پانچ بیٹے اور ایک بیٹی لکھا ہے، جن کے نام محمد قانی، حسن، جعفر، ابراہیم، حسین اور عائشہ ہیں۔ سبط بن جوزی نے نام لیے بغیر چار بیٹوں کا ذکر کیا جن کا نام محمد (ابو جعفر ثانی)، جعفر، ابو محمد حسن، ابراہیم اور ایک بیٹی ہے۔  <ref>فضل اللہ، امام رضا علیہ السلام کی زندگی کا تجزیہ، 1377، ص 44</ref> کہا جاتا ہے کہ اس پیغمبر کا ایک بچہ جس کی عمر دو سال یا اس سے کم تھی قزوین میں دفن ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ قزوین کے امام زادہ حسین بھی وہی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام نے 1933 میں اس شہر کا سفر کیا۔  <ref>ابن جوزی کا قبیلہ، تذکرہ الخواص، الشریف الرازی کا منشور، ص 123</ref>


اپنے والد امام کاظم (ع) کی شہادت کے بعد امام رضا (ع) نے 183 ہجری میں امامت سنبھالی۔ ان کی امامت کی مدت 20 سال تھی، جو ہارون الرشید ، محمد امین اور مامون  کی خلافت کے ساتھ موافق تھی۔
اپنے والد امام کاظم (ع) کی شہادت کے بعد امام رضا (ع) نے 183 ہجری میں امامت سنبھالی۔ ان کی امامت کی مدت 20 سال تھی، جو ہارون الرشید ، محمد امین اور مامون  کی خلافت کے ساتھ موافق تھی۔
سطر 48: سطر 49:
== عید کی نماز ==
== عید کی نماز ==
گورنر ادود کے معاہدے کے بعد (7 رمضان 201ء) جب عید الفطر (بظاہر عید الفطر 201 ہجری قمری) پہنچی تو مامون نے امام سے عید کی نماز ادا کرنے کو کہا، لیکن امام نے ان شرائط کی بنیاد پر عید کی نماز قبول کرنے پر معذرت کی جو انہوں نے امام کے خطبے کے آغاز میں مامون کے ساتھ بیان کی تھیں۔ مامون نے اصرار کیا اور امام کو قبول کرنا پڑا اور فرمایا: پس میں پیغمبر اکرم(ص) کی طرح نماز پڑھنے جاؤں گا۔ مامون نے بھی قبول کر لیا۔ لوگوں کو توقع تھی کہ امام رضا خلیفہ کی طرح مخصوص رسم و رواج کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں گے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ ننگے پاؤں چل رہے تھے جبکہ تکبیر نے کہا کہ وہ اپنے راستے میں ہیں۔ اس طرح کی تقریبات کی رسمی اور عام یونیفارم میں ملبوس امیروں نے ایک بار گھوڑوں کو اترتے ہوئے دیکھا اور جوتے اتار ے اور روتے اور تکبیرگوین کے ساتھ امام کے پیچھے چل پڑے۔ امام نے ہر قدم پر تین مرتبہ تکبیر کہی۔
گورنر ادود کے معاہدے کے بعد (7 رمضان 201ء) جب عید الفطر (بظاہر عید الفطر 201 ہجری قمری) پہنچی تو مامون نے امام سے عید کی نماز ادا کرنے کو کہا، لیکن امام نے ان شرائط کی بنیاد پر عید کی نماز قبول کرنے پر معذرت کی جو انہوں نے امام کے خطبے کے آغاز میں مامون کے ساتھ بیان کی تھیں۔ مامون نے اصرار کیا اور امام کو قبول کرنا پڑا اور فرمایا: پس میں پیغمبر اکرم(ص) کی طرح نماز پڑھنے جاؤں گا۔ مامون نے بھی قبول کر لیا۔ لوگوں کو توقع تھی کہ امام رضا خلیفہ کی طرح مخصوص رسم و رواج کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں گے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ ننگے پاؤں چل رہے تھے جبکہ تکبیر نے کہا کہ وہ اپنے راستے میں ہیں۔ اس طرح کی تقریبات کی رسمی اور عام یونیفارم میں ملبوس امیروں نے ایک بار گھوڑوں کو اترتے ہوئے دیکھا اور جوتے اتار ے اور روتے اور تکبیرگوین کے ساتھ امام کے پیچھے چل پڑے۔ امام نے ہر قدم پر تین مرتبہ تکبیر کہی۔
== عبادی کی زندگی ==
کہا جاتا ہے کہ فضل نے مامون سے کہا: اگر امام رضا اس طرح سے مصلہ (نماز کی جگہ) پر پہنچ جائیں تو لوگ ان کے دھوکے میں آ جائیں گے، بہتر ہے کہ آپ ان سے واپس آنے کے لیے کہیں۔ چنانچہ مامون نے ایک آدمی کو بھیجا اور امام کو واپس آنے کے لیے کہا۔ رسول خدا نے اپنے جوتے پہنے اور احاطے میں سوار ہو کر واپس آ گئے  <ref>جعفریان، شیعہ اماموں کی فکری اور سیاسی زندگی، 2001، صفحہ 442-443؛ مزید دیکھیں: صدوق، ایون اخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص172</ref>.
امام رضا(ع) کے عملی کورس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ علمی مباحثوں میں جن میں مذاہب اور فرقوں کے بزرگ شرکت کرتے تھے، اذان کی آواز سن کر اجلاس سے چلے جاتے تھے اور حاضرین کی سائنسی بحث جاری رکھنے کی درخواست کے جواب میں فرمایا: ہم دعا کریں گے اور واپس آئیں گے۔ ان کی رات کی عبادت اور نائٹ لائف کے بارے میں خبریں ہیں۔ جب امام رضا(ع) نے اپنی قمیص داعیب خزاعی کو تحفے میں دی تو آپ نے فرمایا: اس قمیص کی حفاظت کرو جس سے میں نے ایک ہزار راتیں اور ایک ہزار رکعت نماز ادا کی ہے اور اس کے ساتھ میں نے ایک ہزار مرتبہ قرآن کا اختتام کیا ہے۔ ان کے لمبے سجدے کی بھی اطلاع ملی ہے۔ <ref>ایون اخبار الرضا، 1378ھ، جلد 2، صفحہ 17</ref>
== اخلاقی زندگی ==
دوسروں کے ساتھ میل جول کے بارے میں امام کے اچھے رویے کے بارے میں بہت سی مثالیں نقل کی گئی ہیں۔ ولی عہد بننے کے بعد بھی امام کا غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ محبت بھرا اور ہم آہنگ برتاؤ ان رپورٹوں کی ایک مثال ہے۔ ابن شہر آشوب سے روایت ہے کہ ایک دن امام غسل خانے میں گئے تو لوگوں میں سے ایک شخص جو امام کو نہیں جانتا تھا اس نے ان سے اپنی دالکی کرنے کو کہا۔ امام نے قبول کر لیا اور جھکنا شروع کر دیا۔ دوسروں نے یہ دیکھ کر امام کو اس شخص سے متعارف کرایا اور جب اس شخص کو شرمندگی ہوئی اور اس نے معافی مانگی تو امام نے اسے پرسکون کیا اور دلکی کرتا رہا۔<ref>صدوق، ایون اخبار الرضا (ع)، 1378ھ، جلد 2، ص 159</ref>
== سائنسی زندگی ==
امام رضا علیہ السلام جب مدینہ منورہ میں تھے تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بیٹھے رہتے تھے اور جو علما سوالات کا جواب دینے سے قاصر تھے وہ امام سے مدد طلب کرتے تھے۔ مرو میں اپنی موجودگی کے بعد ، انہوں نے ہونے والی بحثوں کے ذریعہ بہت سے شکوک و شبہات اور سوالات کے جوابات دیئے۔ اس کے علاوہ امام نے اپنے گھر اور مسجد مرو میں ایک مدرسہ قائم کیا لیکن جب امام کا لیکچر بہت زیادہ ہو گیا تو مامون نے اسے بند کرنے کا حکم دیا اور امام نے اس پر لعنت کی۔
== امامت کی بحث میں تقیہ نہیں ==
امام رضا کی امامت نے تقیہ کو جزوی طور پر ختم نہیں کیا کیونکہ وقفیہ تحریک کے ابھرنے سے متعلق واقعات نے امامیہ برادری کو شدید خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس کے علاوہ، امام رضا(ع) کے زمانے میں فتیحیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سرگرم تھے۔ ان شرائط کے مطابق امام نے کسی حد تک تقیہ کی پالیسی سے دوری اختیار کی اور امامت کی جہتوں کو واضح طور پر بیان کیا۔ مثال کے طور پر امام صادق کے زمانے سے ہی دینی اور دینی حلقوں میں امام طعاء کی مفتی التعاء کی بحث زیر بحث رہی ہے، لیکن ائمہ نے اس معاملے میں تقیہ سے نمٹا ہے۔ امام رضا نے احادیث کی تشریح کرتے ہوئے اسے "باغیوں کا خوف" قرار دیے بغیر اپنے آپ کو امام مفتارض الطعع کے طور پر شناخت کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امام نے شیعوں پر زور دیا کہ وہ خدا سے پرہیزگار رہیں اور اپنی باتوں کو سب تک نہ پھیلائیں۔
مامون کے خط کے جواب میں امام نے پیغمبر اکرم  کی توحید اور نبوت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد امام علی اور ان کے بعد گیارہ ائمہ کی امامت اور جانشینی کا ذکر کیا ہے اور امام کے بارے میں قائم بمر المسلم: مسلمانوں کے امور کو سنبھالنے والا کا فقرہ استعمال کیا ہے۔ <ref>الکافی، 1363، جلد 2، صفحہ 224</ref>
== اہل سنت کے ساتھ موقف ==
بعض اہل سنت بزرگوں نے اپنی تقاریر میں امام رضا کے نسب، علم اور فضل کی تعریف کی اور امام رضا کے مزار پر حاضری دی۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں اہل سنت کے محدث ابن حبان کہتے ہیں کہ وہ مشہد میں علی ابن موسی ٰ کی قبر کی زیارت کے لیے گئے تھے اور ان سے اپیل کرنے سے ان کے کچھ مسائل حل ہو گئے تھے۔ ابن حجر عسقلانی نے روایت کیا ہے کہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں اہل سنت کے فقیہ، مفسر اور محدث ابوبکر محمد بن خزیمہ اور ابو علی ثقفی دوسرے اہل سنت کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے گئے۔ اس قصے کے راوی (جو انہوں نے خود ابن حجر سے روایت کی ہے) کہتے ہیں کہ ابو بکر بن خزیمہ اس قبر کا اتنا احترام کرتے تھے اور اس کے سامنے عاجزی اور ماتم کرتے تھے کہ ہم حیران رہ گئے۔ ابن نجار نے سائنس اور دین میں امام کے مقام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: وہ سائنس اور دین میں ایسا مقام رکھتے تھے کہ جب وہ بیس سال کے تھے تو انہوں نے مسجد النبی میں فتوے دیئے۔ <ref>عسقلانی، تہذیب التہذیب، دار الصدر، ج7، ص388</ref>
== شہادت ==
حضرت علی بن موسی کی شہادت جمعہ یا پیر کو ماہ صفر کے آخر میں، 17 صفر یا 21 رمضان، یا 18 جمادی الاولی، یا 23 ذی القعدہ یا اس کے اختتام پر 2022، 203 یا 206 میں بیان کی جاتی ہے۔ علینی کی وفات صفر کے مہینے میں سنہ 203 ہجری قمری میں ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۵۵ سال کی عمر میں۔ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے سال 203 ہجری کے اکثر علماء اور مورخین کے مطابق۔ یہ ہو چکا ہے.  <ref>کلینی، الکافی، 1363، جلد 1، صفحہ 486</ref>  طبرسی نے ماہ صفر کے آخر میں شہادت کے دن کو بیان کیا ہے۔
علی بن موسیٰ کی زندگی کے سالوں کی تعداد میں ان کی تاریخ پیدائش اور شہادت میں فرق کی وجہ سے 47 سال سے 57 سال تک کہا گیا ہے۔ تاریخ ولادت کے مشہور قول کے مطابق شہادت کے وقت امام رضا علیہ السلام کی عمر 55 سال تھی۔ امام رضا(ع) کی شہادت کے بارے میں بھی مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں:
یقدی کی تاریخ میں مامون نے 202 ہجری قمری میں عراق میں مرو کو چھوڑ دیا اور ان کے ساتھ ان کے ولی عہد رضا(ع) اور ان کے وزیر فضل بن سہل الضول الریاستان بھی تھے۔ جب وہ طوس پہنچے تو امام رضا(ع) کی وفات یکم سنہ 203 ہجری قمری کو نقان نامی گاؤں میں ہوئی اور ان کی بیماری تین دن سے زیادہ نہیں تھی اور کہا جاتا ہے کہ علی بن ہشام نے انہیں زہریلا انار دیا اور مامون نے انہیں مشکل وقت دکھایا۔ یعقوبی نے مزید کہا: اس نے مجھے ابوالحسن بن ابی عباد کی خبر دی اور کہا کہ میں نے مامون کو ایک سفید فام قبیلہ لیتے ہوئے دیکھا اور رضا سربریح کے جنازے میں دونوں قیوم کی لاشوں کے درمیان چل کر کہا: یا ابا الحسن تمہارے بعد خوش ہو جائے گا؟


کہا جاتا ہے کہ فضل نے مامون سے کہا: اگر امام رضا اس طرح سے مصلہ (نماز کی جگہ) پر پہنچ جائیں تو لوگ ان کے دھوکے میں آ جائیں گے، بہتر ہے کہ آپ ان سے واپس آنے کے لیے کہیں۔ چنانچہ مامون نے ایک آدمی کو بھیجا اور امام کو واپس آنے کے لیے کہا۔ رسول خدا نے اپنے جوتے پہنے اور احاطے میں سوار ہو کر واپس آ گئے <ref>جعفریان، شیعہ اماموں کی فکری اور سیاسی زندگی، 2001، صفحہ 442-443؛ مزید دیکھیں: صدوق، ایون اخبار الرضا، 1378ھ، ج2، ص172</ref>.
اور وہ تین دن تک اپنی قبر کے پاس رہا اور ہر روز اس کے لیے ایک روٹی اور تھوڑا سا نمک لے کر آیا اور اس کا کھانا بھی وہی تھا اور پھر وہ چوتھے دن واپس آیا۔ شیخ مفید بیان کرتے ہیں کہ مامون نے عبداللہ بن بشیر کو حکم دیا کہ وہ اپنے ناخن معمول سے زیادہ لمبے نہ کریں اور پھر اپنے ہاتھوں سے آٹے میں ہندوستانی ترش جیسی چیز چھڑک دیں۔ اس کے بعد مامون امام رضا(ع) کے پاس گئے اور عبداللہ کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے انار کا رس لیں اور پھر اسے امام رضا(ع) کے پاس پئیں اور اس سے دو دن بعد امام رضا(ع) کی بے حرمتی ہوئی۔ <ref>یغوئی، یغوئی تاریخ، 1999ء، ج2، ص471</ref>


امام رضا(ع) کی شہادت کے بعد مامون نے انہیں ثناء آباد کے گاؤں میں حامد بن قحبہ طائی کے گھر میں دفن کیا۔ آج، رضوی کا مزار ایران اور مشہد شہر میں واقع ہے، اور ہر سال یہ مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمانوں کا مزار ہے. <ref>مفید، الرشاد، ۱۹۹۳ء، ج۲، ص۲۷۱</ref>
== حواله جات ==
== حواله جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:علی بن موسی بن جعفر]]
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]
[[زمرہ:اہل بیت ]]