"علی بن محمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 27: سطر 27:


== امامت کا دور ==
== امامت کا دور ==
علی بن محمد 220 ہجری میں 8 سال کی عمر میں امامت پر پہنچے۔ ذرائع کے مطابق امام ہادی علیہ السلام کی کم عمری میں امامت کے آغاز سے شیعوں کے درمیان شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے تھے کیونکہ کم عمری میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کے آغاز نے آپ کے بعد شیعوں کو اس بات پر مجبور کر دیا تھا کہ ان کی امامت کے آغاز میں شیعوں میں کوئی شکوک پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح کے مسئلے کا سامنا کرتے وقت شکوک و شبہات۔


== حواله جات ==
== حواله جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]

نسخہ بمطابق 07:02، 4 اپريل 2023ء

علی بن محمد امام علی نقی ؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے دسویں امام ہیں۔ آپ کے والد ماجد نویں امام امام محمد تقیؑ ہیں۔ آپؑ سنہ 220 سے 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ہیں۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔

عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہیں من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں۔ زیارت جامعۂ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق شیعہ عقائد کے عمدہ مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔

امامت کے دوران مختلف علاقوں میں وکلاء تعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاء کے ذریعے شیعوں کے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔ آپؑ کے شاگردوں میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، ایوب بن نوح، حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر شامل ہیں۔

آپ کا روضہ سامرا میں حرم عسکریین کے نام سے مشہور ہے۔ سنہ 2006 اور 2007 ء میں مختلف دہشت گردانہ حملوں میں اسے تباہ کیا گیا تھا جسے بعد میں پہلے سے بہتر انداز میں تعمیر کیا گیا ہے

نسب، کنیت و لقب

علی بن محمد، جو امام ہادی اور علی النقی کے نام سے مشہور ہیں، شیعوں کے دسویں امام ہیں۔ ان کے والد امام جواد تھے، جو شیعوں کے نویں امام تھے، اور ان کی والدہ سمنیہ مغربیہ یا سوسن نامی لونڈی تھیں۔

شیعوں کے دسویں امام کے مشہور ترین القاب میں سے ایک ہادی اور نقی ہے۔ انہیں لیڈر کا خطاب اس لیے دیا گیا کہ وہ اپنے دور میں لوگوں کی بھلائی کی طرف بہترین رہنما تھے [1]۔

شیخ صدوق نے اپنے اساتذہ کو بتایا کہ امام ہادی اور ان کے بیٹے امام حسن عسکری کو امام عسکری کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سامرا میں عسکری نامی علاقے میں رہتے تھے [2]۔

کلینی اور شیخ طوسی کے مطابق امام ہادی کی ولادت 15 ذی الحجہ 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب سریہ نامی علاقے میں ہوئی، آپ کی ولادت بھی اسی سال رجب 214 ہجری اور جمادی الاول کی 2 یا 5 تاریخ کو درج ہے۔ الثانی 215ھ۔ [3]

ولادت اور شہادت

کلینی، شیخ مفید، اور شیخ طوسی نیز ابن اثیر کے بقول امام ہادیؑ 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ شیخ مفید اور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ رجب سنہ 254 ہجری کو سامرا میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔ بعض مآخذ میں آپؑ کی شہادت کی تاریخ 3 رجب نقل کی گئی ہے، جبکہ دیگر مآخذ میں یہ تاریخ  25  یا  26  جمادی الثانی بیان کی گئی ہے۔ اس زمانے میں تیرہواں عباسی خلیفہ معتز برسر اقتدار تھا۔

وہ 233 ہجری یا 243 ہجری تک مدینہ میں رہے۔ اسی سال متوکل نے امام ہادی علیہ السلام کو سامرہ بلوایا اور ان کے زیر تسلط عسکر نامی علاقے میں سکونت اختیار کی اور آخری عمر تک عسکر میں رہے۔ امام ہادی، امام جواد اور امام عسکری کی زندگی کے بارے میں دیگر شیعہ ائمہ کے مقابلے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

بعض محققین نے ان ائمہ کی مختصر زندگی، ان کی قید اور اس وقت کی تاریخ کی کتابوں کے غیر شیعہ مصنفین کو اسباب قرار دیا ہے۔

اولاد

شیعہ علماء نے امام ہادی کے چار بیٹے حسن، محمد، حسین اور جعفر کا ذکر کیا ہے۔ ان سے ایک بیٹی بھی منسوب کی گئی ہے جس کا نام شیخ مفید نے عائشہ رکھا اور ابن شہر آشوب نے اسے عالیہ کہا [4]۔

سنی مصنفین بھی دسویں شیعہ امام کے بچوں کو چار بیٹے اور ایک بیٹی مانتے ہیں۔

امامت کا دور

علی بن محمد 220 ہجری میں 8 سال کی عمر میں امامت پر پہنچے۔ ذرائع کے مطابق امام ہادی علیہ السلام کی کم عمری میں امامت کے آغاز سے شیعوں کے درمیان شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے تھے کیونکہ کم عمری میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کے آغاز نے آپ کے بعد شیعوں کو اس بات پر مجبور کر دیا تھا کہ ان کی امامت کے آغاز میں شیعوں میں کوئی شکوک پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح کے مسئلے کا سامنا کرتے وقت شکوک و شبہات۔

حواله جات

  1. ابن شہراشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج4، ص401
  2. سبط بن جوزی، تذکرہ الخاوس، ۱۴۲۶ق، ص۲، ص۴۹۲
  3. کفامی، مصباح، ص512؛ محدث قمی، ج3، ص1835؛ مسعودی، تقیہ، 1426ق، ص228
  4. ابن شہراشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج4، ص402