"موسی بن جعفر" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 20: سطر 20:
شیعہ نقطہ نظر سے امام خدا کی طرف سے متعین ہوتا ہے اور اسے پہچاننے کا ایک طریقہ متن (پیغمبر اکرم (ص) کا بیان یا ان کے بعد کے امام کی امامت سے پچھلے امام کا بیان) ہے  <ref>الوری اعلان، جلد 2، صفحہ 6.33</ref>
شیعہ نقطہ نظر سے امام خدا کی طرف سے متعین ہوتا ہے اور اسے پہچاننے کا ایک طریقہ متن (پیغمبر اکرم (ص) کا بیان یا ان کے بعد کے امام کی امامت سے پچھلے امام کا بیان) ہے  <ref>الوری اعلان، جلد 2، صفحہ 6.33</ref>
امام صادق نے متعدد مواقع پر اپنے قریبی ساتھیوں کو موسیٰ بن جعفر کی امامت کا اعلان کیا تھا۔ کافی، طبرسی  ارشاد  الواری کا اعلان  <ref>جعفریہ، شیعہ اماموں کی فکری اور سیاسی زندگی، صفحہ 354-389 </ref>اور بحار الانوار <ref>فضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ھ، ص 337.36</ref>  میں سے ہر ایک میں موسی بن جعفر علیہ السلام کی امامت کے نصوص کے بارے میں ایک باب ہے، جو بالترتیب اس میں 16، 46، 12 اور 14 روایات ہیں، انہوں نے اس کے بارے میں نقل کیا ہے، بشمول:
امام صادق نے متعدد مواقع پر اپنے قریبی ساتھیوں کو موسیٰ بن جعفر کی امامت کا اعلان کیا تھا۔ کافی، طبرسی  ارشاد  الواری کا اعلان  <ref>جعفریہ، شیعہ اماموں کی فکری اور سیاسی زندگی، صفحہ 354-389 </ref>اور بحار الانوار <ref>فضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ھ، ص 337.36</ref>  میں سے ہر ایک میں موسی بن جعفر علیہ السلام کی امامت کے نصوص کے بارے میں ایک باب ہے، جو بالترتیب اس میں 16، 46، 12 اور 14 روایات ہیں، انہوں نے اس کے بارے میں نقل کیا ہے، بشمول:
ایک روایت میں فیض بن مختار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ کے بعد امام کون ہے؟ اس وقت ان کا بیٹا موسیٰ آیا اور امام صادق علیہ السلام نے ان کا تعارف اگلے امام کے طور پر کرایا۔
علی بن جعفر روایت کرده که امام صادق(ع) درباره موسی بن جعفر فرمود: «فَإِنَّهُ أَفْضَلُ وُلْدِی وَ مَنْ أُخَلِّفُ مِنْ بَعْدِی وَ هُوَ الْقَائِمُ مَقَامِی وَ الْحُجَّةُ لِلَّهِ تَعَالَی عَلَی کَافَّةِ خَلْقِهِ مِنْ بَعْدِی  ؛ وہ میری اولاد اور زندہ رہنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور وہی ہے جو میرے بعد میری جگہ پر رکھا جائے گا اور میرے بعد وہ تمام مخلوقات پر خدا کا حاکم ہے۔ ایون اخبار الرضا میں یہ بھی آیا ہے کہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے موسیٰ بن جعفر کو صحیح امام اور پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کا سب سے زیادہ حقدار قرار دیا اور ان کی قیادت کو ظاہری اور زبردست قرار دیا  مجلسی، <ref>بحار الانوار، جلد 48، صفحہ 12-29.40</ref>.


== حواله جات ==
== حواله جات ==

نسخہ بمطابق 10:52، 1 مارچ 2023ء

امام موسی کاظم.jpg

موسی بن جعفر (127 یا 128-183 ہجری) امام موسی کاظم کے نام سے جانا جاتا ہے اور کاظم اور باب الحوائج کے نام سے جانا جاتا ہے بارہ شیعوں کے ساتویں امام ہیں ۔ آپ 128 ہجری میں اسی وقت پیدا ہوئے جب بنو امیہ سے عباسیوں کو اقتدار منتقل ہوا اور 148 ہجری میں اپنے والد امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت پر فائز ہوئے ۔ ان کی 35 سال کی امامت منصور، ہادی، مہدی اور ہارون عباسی کی خلافت کے ساتھ ہوئی ۔ آپ کو مہدی اور ہارون عباسی نے متعدد بار قید کیا اور 183 ہجری میں سندی بن شاہک جیل میں شہید کر دیا گیا ۔ ان کی شہادت کے ساتھ ہی امامت ان کے بیٹے علی ابن موسیٰ (ع) کو دی گئی۔منتقل کیا گیا تھا امام کاظم علیہ السلام کی امامت کا زمانہ خلافت عباسیہ کے اقتدار کے عروج کے ساتھ موافق تھا اور آپ نے حکومت وقت کے خلاف تقیہ کیا اور شیعوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا۔ اس لیے شیعوں کے ساتویں امام نے عباسی خلفاء اور علوی بغاوتوں جیسے کہ شہید فخ کی بغاوت کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ اس کے باوجود اس نے عباسی خلفاء اور دیگر لوگوں کے ساتھ مباحثوں اور گفتگو میں خلافت عباسیہ کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی۔

بعض یہودی اور عیسائی علماء کے ساتھ موسیٰ بن جعفر کی بحثیں اور گفتگویں تاریخی اور حدیثی منابع میں نقل ہوئی ہیں جو ان کے سوالات کے جواب میں تھیں۔ مسند الامام کاظم میں ان کی تین ہزار سے زائد احادیث جمع ہیں، جن میں سے بعض کو بعض صحابہ کرام نے روایت کیا ہے۔ امام کاظم علیہ السلام نے شیعوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے لیے وکلاء تنظیم کو وسعت دی اور مختلف علاقوں میں لوگوں کو وکیل مقرر کیا۔ دوسری طرف امام کاظم علیہ السلام کی زندگی شیعوں میں تفرقہ کے ظہور کے ساتھ موافق ہوئی اور آپ کی امامت کے آغاز کے ساتھ ہی اسماعیلیہ ، الفتحیہ اور نووسیہ کے فرقے قائم ہوئے اور آپ کی شہادت کے بعد فرقہ وقوفیہ قائم ہوا۔ شیعہ اور سنی ذرائعان کے علم، عبادت، رواداری اور سخاوت کی وجہ سے ان کی تعریف کی گئی اور انہیں کاظم اور عبدالصالح کے لقب سے پکارا گیا۔ سنی عمائدین نے 7ویں شیعہ امام کا ایک عالم دین کی حیثیت سے احترام کیا اور شیعوں کی طرح ان کی قبر کی زیارت کی۔ بغداد کے شمال میں کاظمین کے علاقے میں امام کاظم علیہ السلام اور ان کے پوتے امام جواد علیہ السلام کا مزار کاظمین کے نام سے جانا جاتا ہے اور مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے لیے زیارت گاہ ہے

سوانح عمری

موسی بن جعفر ذوالحجہ 127 قمری سال یا 7 صفر 128 قمری سال [1] میں پیدا ہوئے جب امام صادق علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حمیدہ حج سے واپس آ رہے تھے ، آپ کی ولادت ابووا کے علاقے میں ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ مدینہ میں قمری سال 129 میں پیدا ہوئے تھے ۔ بعض ذرائع نے امام صادق علیہ السلام کی عظیم دلچسپی کے بارے میں اطلاع دی ہے [2].

احمد برقی کی روایت کے مطابق امام صادق علیہ السلام نے اپنے بیٹے موسیٰ کی پیدائش کے بعد تین دن تک لوگوں کو کھانا کھلایا۔ موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کا نسب چار ثالثوں کے ذریعے امام علی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد امام صادق علیہ السلام شیعوں کے چھٹے امام ہیں اور ان کی والدہ حمیدہ بربیریا ہیں۔ ان کا لقب ابو ابراہیم، ابو الحسن اول، ابو الحسن ماضی اور ابو علی تھا۔ دوسروں کے برے برتاؤ کے خلاف اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی وجہ سے ان کا لقب کاظم رکھا گیا اور عبد صالح اپنی عظیم عبادت کی وجہ سے۔ باب الحوائج بھی ان کے لقبوں میں سے ایک ہے اور اہل مدینہ نے انہیں زین المجتہدین (جہد کرنے والوں کا زیور) کہا [3]

موسی بن جعفر بنو امیہ سے عباسیوں کو اقتدار کی منتقلی کے دوران پیدا ہوئے۔ چار سال کی عمر میں پہلا عباسی خلیفہ اقتدار میں آیا۔ امام کاظم علیہ السلام کی امامت تک کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، سوائے ان کے بچپن میں ہونے والی چند سائنسی گفتگووں کے، جن میں ابو حنیفہ اور دیگر مذاہب کے علماء کے ساتھ مکالمے بھی شامل ہیں جو مدینہ میں ہوئیں [4].

مناقب کی روایت کے مطابق وہ شام کے ایک گاؤں میں گمنامی میں داخل ہوا اور وہاں ایک راہب سے گفتگو کی جس کی وجہ سے وہ اور اس کے ساتھی مسلمان ہوگئے [5] امام کے حج یا عمرہ کے لیے مکہ کے دوروں کی بھی اطلاعات ہیں عباسی خلفاء کی طرف سے امام کو کئی بار بغداد بلوایا گیا۔ ان صورتوں کے علاوہ امام نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مدینہ میں گزارا ہے [6]

موسیٰ بن جعفر، 148ھ میں امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد۔ آپ 20 سال کی عمر میں امام بنے۔ ان کی امامت کا دور چار عباسی خلفاء کی خلافت سے ہم آہنگ تھا۔ منصور کی خلافت (حکومت 158-136 ہجری) میں ان کی امامت کے تقریباً 10 سال، مہدی عباسی کی خلافت میں 11 سال (حکومت 158-169 ہجری)، ہادی عباسی کی خلافت میں ایک سال (حکومت 169 ہجری)۔ 170ھ) اور ہارون کی خلافت میں 13 سال (حکومت 170-193ھ) گزرے [7]. موسیٰ بن جعفر کی امامت کی مدت 35 سال تھی اور 183 ہجری میں ان کی شہادت کے ساتھ ہی امامت ان کے فرزند امام رضا علیہ السلام کو منتقل ہوئی [8].

امامت کے نصوص

شیعہ نقطہ نظر سے امام خدا کی طرف سے متعین ہوتا ہے اور اسے پہچاننے کا ایک طریقہ متن (پیغمبر اکرم (ص) کا بیان یا ان کے بعد کے امام کی امامت سے پچھلے امام کا بیان) ہے [9] امام صادق نے متعدد مواقع پر اپنے قریبی ساتھیوں کو موسیٰ بن جعفر کی امامت کا اعلان کیا تھا۔ کافی، طبرسی ارشاد الواری کا اعلان [10]اور بحار الانوار [11] میں سے ہر ایک میں موسی بن جعفر علیہ السلام کی امامت کے نصوص کے بارے میں ایک باب ہے، جو بالترتیب اس میں 16، 46، 12 اور 14 روایات ہیں، انہوں نے اس کے بارے میں نقل کیا ہے، بشمول: ایک روایت میں فیض بن مختار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ کے بعد امام کون ہے؟ اس وقت ان کا بیٹا موسیٰ آیا اور امام صادق علیہ السلام نے ان کا تعارف اگلے امام کے طور پر کرایا۔ علی بن جعفر روایت کرده که امام صادق(ع) درباره موسی بن جعفر فرمود: «فَإِنَّهُ أَفْضَلُ وُلْدِی وَ مَنْ أُخَلِّفُ مِنْ بَعْدِی وَ هُوَ الْقَائِمُ مَقَامِی وَ الْحُجَّةُ لِلَّهِ تَعَالَی عَلَی کَافَّةِ خَلْقِهِ مِنْ بَعْدِی ؛ وہ میری اولاد اور زندہ رہنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور وہی ہے جو میرے بعد میری جگہ پر رکھا جائے گا اور میرے بعد وہ تمام مخلوقات پر خدا کا حاکم ہے۔ ایون اخبار الرضا میں یہ بھی آیا ہے کہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے موسیٰ بن جعفر کو صحیح امام اور پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کا سب سے زیادہ حقدار قرار دیا اور ان کی قیادت کو ظاہری اور زبردست قرار دیا مجلسی، [12].

حواله جات

  1. مسند الامام کاظم از عزیز اللہ عطاردی، باب الحوائج امام موسیٰ کاظم از حسین حاج حسن، حیات
  2. مسعودی، وصیت کا ثبوت، صفحہ 356-357
  3. مفید، الارشاد، جلد 2، صفحہ 215.8
  4. بغدادی، بغداد کی تاریخ، جلد 13، صفحہ 29.10
  5. الانوار البهیه، ص۱۷۷.11
  6. مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۳۵.12
  7. مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۴۴.30
  8. سمعانی، الانساب، ج۱۲، ص۴۷۸.31
  9. الوری اعلان، جلد 2، صفحہ 6.33
  10. جعفریہ، شیعہ اماموں کی فکری اور سیاسی زندگی، صفحہ 354-389
  11. فضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ھ، ص 337.36
  12. بحار الانوار، جلد 48، صفحہ 12-29.40