"عبدالکریم حائری یزدی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م Saeedi نے صفحہ مسودہ:عبدالکریم حائری یزدی کو عبدالکریم حائری یزدی کی جانب منتقل کیا |
||
| (ایک دوسرے صارف 6 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
| سطر 27: | سطر 27: | ||
شیخ عبدالکریم حائری 1937ء میں قم میں تقریباً 15 سال قیام کے بعد انتقال کر گئے۔ حکومتی پابندیوں کے باوجود، ان کی شاندار تدفین کی گئی، آیت اللہ سید صادق قمی نے ان کے لیے نماز پڑھی اور انہیں حرم حضرت معصومہ (س) میں سپرد خاک کیا گیا۔<ref>زنجانی، الکلام یجرّ الکلام، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۱۰۷؛ امینی، مروری... ، ص۲۰، ۳۶-۳۷</ref> | شیخ عبدالکریم حائری 1937ء میں قم میں تقریباً 15 سال قیام کے بعد انتقال کر گئے۔ حکومتی پابندیوں کے باوجود، ان کی شاندار تدفین کی گئی، آیت اللہ سید صادق قمی نے ان کے لیے نماز پڑھی اور انہیں حرم حضرت معصومہ (س) میں سپرد خاک کیا گیا۔<ref>زنجانی، الکلام یجرّ الکلام، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۱۰۷؛ امینی، مروری... ، ص۲۰، ۳۶-۳۷</ref> | ||
== تعلیم == | == تعلیم == | ||
عبدالکریم حائری اپنے خالہ زاد بھائی میرابوجعفر کی خواہش پر اردکان گئے اور وہاں مکتب خانہ میں تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد وہ اپنی والدہ کے پاس مہر جرد چلے گئے۔ | عبدالکریم حائری اپنے خالہ زاد بھائی میرابوجعفر کی خواہش پر اردکان گئے اور وہاں مکتب خانہ میں تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد وہ اپنی والدہ کے پاس مہر جرد چلے گئے۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۲۰-۲۱</ref> کچھ عرصے بعد وہ یزد گئے اور مدرسہ محمدتقی خان (معروف مدرسہ خان) میں مقیم ہو کر سید حسین وامق اور سید یحییٰ بزرگ (معروف مجتہد یزدی) جیسے علماء سے عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔<ref>مرسلوند، زندگینامه رجال و مشاهیر ایران، ۱۳۷۳ش، ج۳، ص۵۹</ref> | ||
== عراق کا سفر == | == عراق کا سفر == | ||
1880 یا 1881ء میں وہ اپنی والدہ کے ہمراہ مزید تعلیم کے لیے عراق گئے۔ پہلے وہ کربلا گئے جہاں تقریباً دو سال تک فاضل اردکانی کی زیر نگرانی فقه و اصول کی درمیانی سطح کی تعلیم حاصل کی۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۲۳-۲۴</ref> پھر مزید تعلیم اور میرزای شیرازی سے استفادہ کے لیے سامرا چلے گئے۔<ref>حائری یزدی، سرّ دلبران، ۱۳۷۷ش، ص۸۰-۸۲</ref> | 1880 یا 1881ء میں وہ اپنی والدہ کے ہمراہ مزید تعلیم کے لیے عراق گئے۔ پہلے وہ کربلا گئے جہاں تقریباً دو سال تک فاضل اردکانی کی زیر نگرانی فقه و اصول کی درمیانی سطح کی تعلیم حاصل کی۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۲۳-۲۴</ref> پھر مزید تعلیم اور میرزای شیرازی سے استفادہ کے لیے سامرا چلے گئے۔<ref>حائری یزدی، سرّ دلبران، ۱۳۷۷ش، ص۸۰-۸۲</ref> | ||
| سطر 35: | سطر 36: | ||
حائری فشارکی کی وفات کے بعد، 1316ھ (تقریباً 1898-1899ء) میں ایران واپس آئے اور سلطان آباد (موجودہ اراک) میں ایک درسگاہ قائم کی۔<ref>استادی، ص۴۴-۵۱</ref> | حائری فشارکی کی وفات کے بعد، 1316ھ (تقریباً 1898-1899ء) میں ایران واپس آئے اور سلطان آباد (موجودہ اراک) میں ایک درسگاہ قائم کی۔<ref>استادی، ص۴۴-۵۱</ref> | ||
== عراق کی طرف درباره سفر == | == عراق کی طرف درباره سفر == | ||
تقریباً 1906-1907ء میں، اراک کی درسگاہ کی انتظامیہ میں عدم آزادی اور مشروطہ تحریک<ref>محقق داماد، مصطفی ص۴۳-۴۴؛ صدرایی خویی، آیتالله اراکی: یک قرن وارستگی، ۱۳۸۲ش، ص۱۷؛ نیکوبرش، ص۴۶-۴۷ | تقریباً 1906-1907ء میں، اراک کی درسگاہ کی انتظامیہ میں عدم آزادی اور مشروطہ تحریک<ref>محقق داماد، مصطفی ص۴۳-۴۴؛ صدرایی خویی، آیتالله اراکی: یک قرن وارستگی، ۱۳۸۲ش، ص۱۷؛ نیکوبرش، ص۴۶-۴۷</ref> کی وجہ سے وہاں کے ماحول کے خراب ہونے کی وجہ سے، شیخ عبدالکریم حائری نجف واپس چلے گئے۔<ref>بامداد، شرح حال رجال ایران... ، ۱۳۴۷ش، ج۲، ص۲۷۵</ref> وہ دوبارہ آخوند خراسانی کے درس میں شامل ہوئے اور سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے درس میں بھی شرکت کی۔ لیکن مشروطہ تحریک کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تنازع سے دور رہنے کے لیے، چند ماہ بعد وہ کربلا چلے گئے۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۵۵</ref> | ||
حائری تقریباً 8 سال کربلا میں رہے اور اسی زمانے سے انہیں "حائری" کا لقب ملا۔ کربلا میں انہوں نے تدریس کا کام جاری رکھا اور مشروطہ تحریک کے جھگڑوں سے دور رہنے کے لیے آخوند خراسانی اور طباطبائی یزدی کی تصانیف پڑھاتے رہے۔<ref>همان، ص۵۵-۵۶</ref> | حائری تقریباً 8 سال کربلا میں رہے اور اسی زمانے سے انہیں "حائری" کا لقب ملا۔ کربلا میں انہوں نے تدریس کا کام جاری رکھا اور مشروطہ تحریک کے جھگڑوں سے دور رہنے کے لیے آخوند خراسانی اور طباطبائی یزدی کی تصانیف پڑھاتے رہے۔<ref>همان، ص۵۵-۵۶</ref> | ||
حائری سیاست سے دور رہتے تھے اور مشروطہ انقلاب میں بھی معاملات میں مداخلت نہیں کی، لیکن اپنی اجتماعی حیثیت کی وجہ سے اپنی زندگی کے آخری ایام میں سیاسی امور میں شریک ہونے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے 1935ء میں کشف حجاب کے مسئلے پر احتجاج کیا اور اپنی وفات تک ان کے رضا شاہ پہلوی کے ساتھ تعلقات خراب رہے۔ | حائری سیاست سے دور رہتے تھے اور مشروطہ انقلاب میں بھی معاملات میں مداخلت نہیں کی، لیکن اپنی اجتماعی حیثیت کی وجہ سے اپنی زندگی کے آخری ایام میں سیاسی امور میں شریک ہونے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے 1935ء میں کشف حجاب کے مسئلے پر احتجاج کیا اور اپنی وفات تک ان کے رضا شاہ پہلوی کے ساتھ تعلقات خراب رہے۔ | ||
== ایران واپسی == | == ایران واپسی == | ||
حائری کے کربلا میں قیام کے دوران، انہیں اراک واپس آنے کی بہت سی درخواستیں موصول ہوئیں۔ آخر کار، 1333ھ/1293ء کے اوائل میں وہ اراک چلے گئے اور اپنے آٹھ سالہ قیام کے دوران وہاں درسگاہ کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ فقہ و اصول کی تعلیم بھی دیتے رہے۔<ref>صفوت تبریزی، «زندگینامه آیة الله حاج شیخ عبدالکریم حائری»، ص۷۳</ref> | حائری کے کربلا میں قیام کے دوران، انہیں اراک واپس آنے کی بہت سی درخواستیں موصول ہوئیں۔ آخر کار، 1333ھ/1293ء کے اوائل میں وہ اراک چلے گئے اور اپنے آٹھ سالہ قیام کے دوران وہاں درسگاہ کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ فقہ و اصول کی تعلیم بھی دیتے رہے۔<ref>صفوت تبریزی، «زندگینامه آیة الله حاج شیخ عبدالکریم حائری»، ص۷۳</ref> | ||
| سطر 95: | سطر 97: | ||
اہل بیت (ع) سے محبت: حائری یزدی اہل بیت (ع) سے انتہائی محبت رکھتے تھے اور جوانی میں سامرا میں اس مناسبت کے نوحہ خوان بھی تھے۔ انہوں نے فاطمیہ کے موقع پر سوگواریاں بھی منعقد کیں۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۴۸-۵۰؛ رضوی، ص۱۵۱-۱۵۴</ref> | اہل بیت (ع) سے محبت: حائری یزدی اہل بیت (ع) سے انتہائی محبت رکھتے تھے اور جوانی میں سامرا میں اس مناسبت کے نوحہ خوان بھی تھے۔ انہوں نے فاطمیہ کے موقع پر سوگواریاں بھی منعقد کیں۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۴۸-۵۰؛ رضوی، ص۱۵۱-۱۵۴</ref> | ||
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی ایک ذمہ دار اور معاشرتی طور پر فعال شخصیت تھے جنہوں نے طلابہ کی فلاح اور عوام کی آسائش کے لیے کام کیا۔ | اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی ایک ذمہ دار اور معاشرتی طور پر فعال شخصیت تھے جنہوں نے طلابہ کی فلاح اور عوام کی آسائش کے لیے کام کیا۔ | ||
== | == سیاسی سرگرمیوں سے متعلق ان کا موقف== | ||
بہت سے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر سیاست سے دور رہتے تھے۔ ان کی سیاست میں عدم مداخلت اتنی شدید تھی کہ اس سے کچھ لوگوں کو حیرت اور یہاں تک کہ اعتراض بھی ہوا۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۶۱-۶۲؛ حائری، عبدالحسین، ص۱۶۱-۱۶۲</ref> لیکن یہ عدم مداخلت مصلحت پسندی سے زیادہ ان کی اپنی شخصیت کا عکس تھی۔ | بہت سے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر سیاست سے دور رہتے تھے۔ ان کی سیاست میں عدم مداخلت اتنی شدید تھی کہ اس سے کچھ لوگوں کو حیرت اور یہاں تک کہ اعتراض بھی ہوا۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۶۱-۶۲؛ حائری، عبدالحسین، ص۱۶۱-۱۶۲</ref> لیکن یہ عدم مداخلت مصلحت پسندی سے زیادہ ان کی اپنی شخصیت کا عکس تھی۔ | ||
خاص طور پر قم میں آنے سے پہلے۔ یہ بتاتا ہے کہ ان کا رویہ ایران کی حکومت سے غیر متعلقہ سیاسی معاملات میں بھی یہی تھا۔ مثال کے طور پر، 1330 ہجری شمسی کے محرم میں جب کچھ علماء نجف اور کربلا سے کاظمین گئے تھے تاکہ غیر ملکی فوجوں کے خلاف احتجاج کریں اور تقریباً تین ماہ وہاں قیام کیا، ان میں میرزا محمد تقی شیرازی، شیخ الشریعہ اصفہانی، نائینی، سید ابوالحسن اصفہانی اور آقا ضیاء عراقی جیسے نامور علماء شامل تھے۔<ref>نظام الدین زاده، ص۱۵۴-۱۵۵</ref> لیکن حائری کا نام اس فہرست میں نہیں ہے۔ اس لیے انہیں اپنے استاد فشارکی کی طرح ایک ایسے عالم دین کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو نہ صرف سیاست میں کبھی فعال نہیں رہے بلکہ سیاسی اور متنازعہ واقعات سے بھی دور رہے۔<ref>شکوری، ص۱۱۶ به بعد؛ امینی، اهتمام... ، ص۱۹۱</ref> | خاص طور پر قم میں آنے سے پہلے۔ یہ بتاتا ہے کہ ان کا رویہ ایران کی حکومت سے غیر متعلقہ سیاسی معاملات میں بھی یہی تھا۔ مثال کے طور پر، 1330 ہجری شمسی کے محرم میں جب کچھ علماء نجف اور کربلا سے کاظمین گئے تھے تاکہ غیر ملکی فوجوں کے خلاف احتجاج کریں اور تقریباً تین ماہ وہاں قیام کیا، ان میں میرزا محمد تقی شیرازی، شیخ الشریعہ اصفہانی، نائینی، سید ابوالحسن اصفہانی اور آقا ضیاء عراقی جیسے نامور علماء شامل تھے۔<ref>نظام الدین زاده، ص۱۵۴-۱۵۵</ref> لیکن حائری کا نام اس فہرست میں نہیں ہے۔ اس لیے انہیں اپنے استاد فشارکی کی طرح ایک ایسے عالم دین کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو نہ صرف سیاست میں کبھی فعال نہیں رہے بلکہ سیاسی اور متنازعہ واقعات سے بھی دور رہے۔<ref>شکوری، ص۱۱۶ به بعد؛ امینی، اهتمام... ، ص۱۹۱</ref> | ||
حائری کی عمر کے آخری حصے میں ان کی سماجی حیثیت کی وجہ سے انہیں سیاسی معاملات میں شرکت کرنا پڑی۔ ان سالوں میں ان کا سب سے بڑا چیلنج رضا شاہ کے ساتھ ان کے تعلقات اور ان کے ساتھ ان کے رویے کا انداز تھا۔ جب رضا خان سردار سپہ تھے، ان کے درمیان تعلقات نسبتاً اچھے تھے۔<ref>دولت آبادی، ج۴، ص۲۸۹</ref> | حائری کی عمر کے آخری حصے میں ان کی سماجی حیثیت کی وجہ سے انہیں سیاسی معاملات میں شرکت کرنا پڑی۔ ان سالوں میں ان کا سب سے بڑا چیلنج رضا شاہ کے ساتھ ان کے تعلقات اور ان کے ساتھ ان کے رویے کا انداز تھا۔ جب رضا خان سردار سپہ تھے، ان کے درمیان تعلقات نسبتاً اچھے تھے۔<ref>دولت آبادی، ج۴، ص۲۸۹</ref> | ||
رضاشاہ کے دورِ حکومت کے قیام سے لے کر کشف حجاب کے مسئلے کے سامنے آنے سے پہلے (1935ء سے پہلے)، ان دونوں کے تعلقات نہ تو اچھے تھے اور نہ ہی برُے۔<ref>حائری یزدی، مهدی، ص۶۴</ref> ایران میں فوجی خدمت کو لازمی بنانے کے معاملے میں، جس کی کچھ شیعہ علماء نے مخالفت کی تھی، حائری نے اس تجویز کی حمایت کی۔<ref>شبیری زنجانی، جرعهای از دریا، ج۴، ص۴۹۷-۴۹۸</ref> لیکن کشف حجا ب کے واقعہ (جولائی 1935ء) سے لے کر حائری کی وفات (1936ء) تک، ان دونوں کے تعلقات خراب ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد، حائری نے 2 جولائی 1935ء کو رضاشاہ کو ایک تار بھیجا، جس میں انہوں نے حالات کو اسلامی شریعت کے خلاف قرار دیا اور اس کے روکنے کا مطالبہ کیا۔<ref>حائری یزدی، مهدی، ص۸۳</ref>اس کے بعد، ان کے تعلقات مکمل طور پر ختم ہو گئے، اور یہاں تک کہ حائری سے ملنے آنے والوں پر بھی سخت نظر رکھی جاتی تھی۔<ref>همان، ص65</ref> | رضاشاہ کے دورِ حکومت کے قیام سے لے کر کشف حجاب کے مسئلے کے سامنے آنے سے پہلے (1935ء سے پہلے)، ان دونوں کے تعلقات نہ تو اچھے تھے اور نہ ہی برُے۔<ref>حائری یزدی، مهدی، ص۶۴</ref> ایران میں فوجی خدمت کو لازمی بنانے کے معاملے میں، جس کی کچھ شیعہ علماء نے مخالفت کی تھی، حائری نے اس تجویز کی حمایت کی۔<ref>شبیری زنجانی، جرعهای از دریا، ج۴، ص۴۹۷-۴۹۸</ref> لیکن کشف حجا ب کے واقعہ (جولائی 1935ء) سے لے کر حائری کی وفات (1936ء) تک، ان دونوں کے تعلقات خراب ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد، حائری نے 2 جولائی 1935ء کو رضاشاہ کو ایک تار بھیجا، جس میں انہوں نے حالات کو اسلامی شریعت کے خلاف قرار دیا اور اس کے روکنے کا مطالبہ کیا۔<ref>حائری یزدی، مهدی، ص۸۳</ref>اس کے بعد، ان کے تعلقات مکمل طور پر ختم ہو گئے، اور یہاں تک کہ حائری سے ملنے آنے والوں پر بھی سخت نظر رکھی جاتی تھی۔<ref>همان، ص65</ref> | ||
تاہم، بعض لوگ اس کی قم کے علمی ادارے (حوزه علمیه قم) کی حفاظت کے لیے کوششوں کو بہت سی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے اور حکومت سے مقابلہ نہ کرنے کی سب سے اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں، حائری جان بوجھ کر اور دانشمندی سے حکومت سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس وقت کے حالات میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف موقف اختیار کرنے کا نتیجہ صرف علمی ادارے کا خاتمہ ہوگا۔ اس لیے، دور اندیشی، دانشمندی اور بردباری سے انہوں نے ایران میں علمی ادارے کی اور بلکہ دین و مذہب کی بقاء کو برقرار رکھا۔<ref></ref> | تاہم، بعض لوگ اس کی قم کے علمی ادارے (حوزه علمیه قم) کی حفاظت کے لیے کوششوں کو بہت سی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے اور حکومت سے مقابلہ نہ کرنے کی سب سے اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں، حائری جان بوجھ کر اور دانشمندی سے حکومت سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس وقت کے حالات میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف موقف اختیار کرنے کا نتیجہ صرف علمی ادارے کا خاتمہ ہوگا۔ اس لیے، دور اندیشی، دانشمندی اور بردباری سے انہوں نے ایران میں علمی ادارے کی اور بلکہ دین و مذہب کی بقاء کو برقرار رکھا۔<ref>شریف رازی، گنجینه دانشمندان، ۱۳۵۲-۱۳۵۴ش، ج۱، ص۲۹-۳۰، ۵۳-۵۴؛ امینی، اهتمام... ، ص۱۹۸</ref> | ||
== آثار == | == آثار == | ||
ان کی سب سے اہم تصنیف "درر الفوائد" ہے، جسے "درر الاصول" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب ایک طرف فشارکی کی بنیادی اصولیات سے جڑی ہوئی ہے، جبکہ دوسری جانب یہ آخوند خراسانی کے اصول فقہ کے اہم آراء سے ماخوذ ہے۔ | ان کی سب سے اہم تصنیف "درر الفوائد" ہے، جسے "درر الاصول" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب ایک طرف فشارکی کی بنیادی اصولیات سے جڑی ہوئی ہے، جبکہ دوسری جانب یہ آخوند خراسانی کے اصول فقہ کے اہم آراء سے ماخوذ ہے۔ | ||
حائری نے خود بتایا ہے کہ اس کتاب کے پہلے جلد میں انہوں نے فشارکی سے اور دوسرے جلد میں آخوند خراسانی سے استفادہ کیا ہے۔ <ref>طبسی، ص۶۳</ref> | حائری نے خود بتایا ہے کہ اس کتاب کے پہلے جلد میں انہوں نے فشارکی سے اور دوسرے جلد میں آخوند خراسانی سے استفادہ کیا ہے۔ <ref>طبسی، ص۶۳</ref> | ||
حائری کے کچھ شاگردوں، جن میں میرزا محمود آشتیانی، میرزا محمد ثقفی، محمد علی اراکی اور سید محمد رضا گلپایگانی شامل ہیں، نے درر الفوائد پر حاشیہ لکھا ہے، جن میں سے کچھ چھپ چکے ہیں۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۱۰۳-۱۰۵</ref> قم میں قیام کے دوران ان کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں، جس کی وجہ سے وہ کم لکھ پائے۔ تاہم ان کی کئی قیمتی تصانیف باقی ہیں، جن کو چار قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ | حائری کے کچھ شاگردوں، جن میں میرزا محمود آشتیانی، میرزا محمد ثقفی، محمد علی اراکی اور سید محمد رضا گلپایگانی شامل ہیں، نے درر الفوائد پر حاشیہ لکھا ہے، جن میں سے کچھ چھپ چکے ہیں۔<ref>کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۱۰۳-۱۰۵</ref> قم میں قیام کے دوران ان کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں، جس کی وجہ سے وہ کم لکھ پائے۔ تاہم ان کی کئی قیمتی تصانیف باقی ہیں، جن کو چار قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ | ||
== | == تالیفات == | ||
ان کی پانچ | ان کی پانچ تصانیف باقی ہیں جو درج ذیل ہیں: درر الفوائد، کتاب النکاح، کتاب الرضاع، کتاب المواریث اور کتاب الصلوة۔<ref>همان، ص۹۹-۱۰۱</ref> | ||
== فقہی کتابوں پر حاشیے == | == فقہی کتابوں پر حاشیے == | ||
جیسے کہ سید محمد کاظم یزدی کی عروة الوثقی پر حاشیہ اور ملا مهدی نراقی کی انیس التجّار پر حاشیہ۔<ref>آقابزرگ طهرانی، الذریعه، ج۲، ص۴۵۳ و ج۲۰، ص۱۵ و ج۲۲، ص۴۰۵-۴۰۶ و ج۲۵، ص۸۷</ref> | جیسے کہ سید محمد کاظم یزدی کی عروة الوثقی پر حاشیہ اور ملا مهدی نراقی کی انیس التجّار پر حاشیہ۔<ref>آقابزرگ طهرانی، الذریعه، ج۲، ص۴۵۳ و ج۲۰، ص۱۵ و ج۲۲، ص۴۰۵-۴۰۶ و ج۲۵، ص۸۷</ref> | ||
حالیہ نسخہ بمطابق 22:08، 28 نومبر 2025ء
| عبدالکریم حائری یزدی | |
|---|---|
| پورا نام | عبدالکریم حائری یزدی |
| دوسرے نام | آیت الله موسس |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1238 ش، 1860 ء، 1275 ق |
| پیدائش کی جگہ | ایران یزد |
| وفات | 1315 ش، 1937 ء، 1355 ق |
| وفات کی جگہ | قم |
| اساتذہ | میرزا حسین نوری، شیخ فضل الله نوری، آخوند خراسانی |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
| اثرات | دُرَرُ الاصول(درر الفوائد)کتاب الصلوة، کتاب المواریث |
| مناصب | مرجع تقلید، قم حوزه علمیه کے موسس اور سربراه |
عبدالکریم حائری یزدی (۱۸۹۹-۱۹۳۶ میلادی) جو آیت اللہ مؤسس کے نام سے مشہور تھے، شیعہ مراجع تقلید میں سے تھے اور ۱۹۲۱ء سے ۱۹۳۶ء تک قم کی حوزه علمیه کے بانی اور سربراه رہے۔ انهوں نے کربلا، سامرا اور نجف کی مدارس میں طویل عرصے تک تعلیم حاصل کی۔ وہ 1894ء میں ہمیشہ کے لیے ایران واپس آئے اور ابتدا میں اراک کی حوزه علمیه کے انتظام میں مصروف رہے۔ آیت اللہ حائری 1901ء میں قم کے علماء کی دعوت پر اس شہر تشریف لے گئے اور قم کی حوزه علمیه کو تشکیل دے کر اس کی سربراہی سنبھالی اور اسی شہر میں مقیم ہو گئے۔ قم کی حوزه کے سربراہ کے طور پر حائری نے سب سے زیادہ حوزه کی استحکام اور ترقی کے لیے منصوبہ بندی پر توجہ دی۔ ان کے منصوبوں میں حوزه میں تعلیم کے طریقوں میں اصلاح، فقہ کے ابواب کی تخصص، حوزه کے طلباء کی معلومات کے دائرے کی توسیع، یہاں تک کہ غیر ملکی زبانوں کی تعلیم، اور خلاصہ یہ کہ محقق اور مجتہد کی تربیت شامل تھی۔ شیح عبدالکریم نے خود کو مرجعیت کے منصب کے لیے پیش نہیں کیا اور سید محمد کاظم یزدی کی 1919ء میں وفات کے بعد عراق جانے اور شیعہ مرجعیت قبول کرنے کی دعوت کو رد کر دیا اور ایران میں قیام کو اپنا فرض قرار دیا۔ تاہم، قم میں ان کی شہرت کے بڑھنے کے ساتھ ہی بہت سے ایرانیوں اور دیگر ممالک کے بعض شیعوں نے ان کی تقلید کی۔
زندگی نامه
شیخ عبدالکریم حائری تقریباً 1859ء [1]میں میبد کے مہر جرد نامی گاوں میں ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد جعفر کو ایک متقی اور پرہیزگار شخص کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔[2] حائری کے پانچ بچے تھے؛ دو بیٹے مرتضیٰ اور مهدی اور تین بیٹیاں جن کی شادی محمد تویسرکانی، احمد ہمدانی اور سید محمد محقق داماد سے ہوئی۔[3] شیخ عبدالکریم حائری 1937ء میں قم میں تقریباً 15 سال قیام کے بعد انتقال کر گئے۔ حکومتی پابندیوں کے باوجود، ان کی شاندار تدفین کی گئی، آیت اللہ سید صادق قمی نے ان کے لیے نماز پڑھی اور انہیں حرم حضرت معصومہ (س) میں سپرد خاک کیا گیا۔[4]
تعلیم
عبدالکریم حائری اپنے خالہ زاد بھائی میرابوجعفر کی خواہش پر اردکان گئے اور وہاں مکتب خانہ میں تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد وہ اپنی والدہ کے پاس مہر جرد چلے گئے۔[5] کچھ عرصے بعد وہ یزد گئے اور مدرسہ محمدتقی خان (معروف مدرسہ خان) میں مقیم ہو کر سید حسین وامق اور سید یحییٰ بزرگ (معروف مجتہد یزدی) جیسے علماء سے عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔[6]
عراق کا سفر
1880 یا 1881ء میں وہ اپنی والدہ کے ہمراہ مزید تعلیم کے لیے عراق گئے۔ پہلے وہ کربلا گئے جہاں تقریباً دو سال تک فاضل اردکانی کی زیر نگرانی فقه و اصول کی درمیانی سطح کی تعلیم حاصل کی۔[7] پھر مزید تعلیم اور میرزای شیرازی سے استفادہ کے لیے سامرا چلے گئے۔[8] سامرا میں ان کا تعلیمی دور تقریباً 1882ء سے 1894ء تک رہا۔ پہلے دو یا تین سال انہوں نے شیخ فضل اللہ نوری، میرزا ابراہیم محلاتی شیرازی اور میرزا مهدی شیرازی جیسے اساتذہ سے فقه و اصول کی اعلیٰ سطح کی تعلیم مکمل کی۔[9] اس کے بعد وہ سید محمد فشارکی اصفہانی اور میرزا محمد تقی شیرازی کے درس خارج فقه و اصول میں شریک ہوئے اور کچھ عرصہ میرزا محمد حسن شیرازی کے درس میں بھی شرکت کی۔ انہوں نے میرزا حسین نوری سے اجازہ روایت حاصل کیا۔ میرزای شیرازی کی وفات (1894ء) کے چند ماہ بعد سید محمد فشارکی اور عبدالکریم حائری سامرا سے نجف منتقل ہو گئے۔ [10]نجف میں حائری فشارکی اور آخوند خراسانی کے دروس میں شرکت کرتے رہے اور فشارکی کی زندگی کے آخری مہینوں میں ان کی خدمت بھی کی۔[11]
ایران واپسی
حائری فشارکی کی وفات کے بعد، 1316ھ (تقریباً 1898-1899ء) میں ایران واپس آئے اور سلطان آباد (موجودہ اراک) میں ایک درسگاہ قائم کی۔[12]
عراق کی طرف درباره سفر
تقریباً 1906-1907ء میں، اراک کی درسگاہ کی انتظامیہ میں عدم آزادی اور مشروطہ تحریک[13] کی وجہ سے وہاں کے ماحول کے خراب ہونے کی وجہ سے، شیخ عبدالکریم حائری نجف واپس چلے گئے۔[14] وہ دوبارہ آخوند خراسانی کے درس میں شامل ہوئے اور سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے درس میں بھی شرکت کی۔ لیکن مشروطہ تحریک کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تنازع سے دور رہنے کے لیے، چند ماہ بعد وہ کربلا چلے گئے۔[15] حائری تقریباً 8 سال کربلا میں رہے اور اسی زمانے سے انہیں "حائری" کا لقب ملا۔ کربلا میں انہوں نے تدریس کا کام جاری رکھا اور مشروطہ تحریک کے جھگڑوں سے دور رہنے کے لیے آخوند خراسانی اور طباطبائی یزدی کی تصانیف پڑھاتے رہے۔[16] حائری سیاست سے دور رہتے تھے اور مشروطہ انقلاب میں بھی معاملات میں مداخلت نہیں کی، لیکن اپنی اجتماعی حیثیت کی وجہ سے اپنی زندگی کے آخری ایام میں سیاسی امور میں شریک ہونے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے 1935ء میں کشف حجاب کے مسئلے پر احتجاج کیا اور اپنی وفات تک ان کے رضا شاہ پہلوی کے ساتھ تعلقات خراب رہے۔
ایران واپسی
حائری کے کربلا میں قیام کے دوران، انہیں اراک واپس آنے کی بہت سی درخواستیں موصول ہوئیں۔ آخر کار، 1333ھ/1293ء کے اوائل میں وہ اراک چلے گئے اور اپنے آٹھ سالہ قیام کے دوران وہاں درسگاہ کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ فقہ و اصول کی تعلیم بھی دیتے رہے۔[17]
سید محمد کاظم یزدی کی وفات (1337ھ/1298ء) کے بعد، میرزا محمد تقی شیرازی کے خط کے جواب میں، جس میں انہوں نے حائری سے درخواست کی تھی کہ وہ عتبات عالیات واپس آئیں اور شیعہ مرجعیت کے لیے تیاری کریں، حائری نے ایران میں قیام کو اپنا فرض قرار دیا اور ایران اور ایرانیوں کے فکری زوال اور تباہی کی راہ پر چلنے پر تشویش کا اظہار کیا۔[18] ان کے کچھ شاگرد، جن میں سید روح اللہ خمینی، محمد علی اراکی، گلپائیگانی، شریعتمداری، سید محمد تقی خوانساری، اور سید احمد خوانساری شامل ہیں، بعد کے سالوں میں مرجعیت کے مقام پر فائز ہوئے۔ حائری سماجی امور میں بھی فعال تھے اور ان کے فلاحی کاموں میں سے ایک قم میں سہامیہ ہسپتال کا قیام اور فاطمی ہسپتال کی تعمیر کی ترغیب دینا تھا۔
قم میں حوزه علمیه کی تاسیس
سنه 1918ء میں آیت الله حائری امام رضا (ع) کی زیارت کے لیے مشہد گئے اور راستے میں چند روز قم میں قیام کیا، جہاں وہ شہر اور اس کے علمی مرکز سے واقف ہوئے۔[19] سنه 1921ء میں، قم کے کئی علماء کی دعوت پر اور حضرت معصومہ (س) کی زیارت کے لیے وہ دوبارہ قم گئے۔ قم کے علماء اور عوام کا ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور ان سے وہاں قیام کرنے کی درخواست کی گئی۔ پہلے تو وہ تردد میں مبتلا رہے لیکن کئی علماء، خاص کر محمد تقی بافقی کے اصرار پر، انہوں نے استخارہ کیا اور پھر قم میں قیام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں شہر میں ایک بڑا علمی مرکز قائم ہوا اور حائری کو "آیت اللہ مؤسس" کا لقب ملا۔[20] سید محمد تقی خوانساری، جو حائری کے ساتھ قم آئے تھے، کے علاوہ ان کے بہت سے شاگرد، جن میں سید احمد خوانساری، سید روح اللہ خمینی، سید محمد رضا گلپایگانی اور محمد علی اراکھی شامل ہیں،[21] قم منتقل ہو گئے۔ سید ابو الحسن اصفہانی اور محمد حسین نائینی، جنہیں 1302ش میں عراق سے جلاوطن کیا گیا تھا اور جنہوں نے آٹھ ماہ قم میں گزارے تھے، نے بھی اس علمی مرکز کی استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔[22] قم کے علمی مرکز کی شہرت بڑھنے اور کئی علماء، اساتذہ اور دیگر علمی مراکز کے طلباء کے آنے سے طلباء کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی۔[23] سامرا، نجف اور کربلا کے بڑے شیعہ علمی مراکز سے واقفیت اور اپنے پیش روؤں کی کامیابیوں اور کمزوریوں اور اراک کے علمی مرکز میں اپنے تجربات کی روشنی میں، حائری سب سے زیادہ علمی مرکز کے استحکام اور ترقی کے لیے منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کرتے تھے۔ ان کے منصوبوں میں تعلیم کے طریقوں میں تبدیلی، فقہ کے ابواب کی تخصص، طلباء کی معلومات کے دائرے کا وسعت، یہاں تک کہ غیر ملکی زبانوں کی تعلیم، اور خلاصہ یہ کہ محقق اور مجتہد کی تربیت شامل تھی۔[24]
مرجعیت
اگرچہ آیت الله حائری نے کبھی بھی خود کو مرجعیت کے منصب کے لیے پیش نہیں کیا اور حتیٰ کہ عراق کے علمی مرکز کو چھوڑ کر اس سے فاصلہ بھی اختیار کر لیا تھا، لیکن سید محمد کاظم یزدی، شیخ الشریعہ اصفہانی اور میرزا محمد تقی شیرازی کی وفات کے بعد، 1337ھ سے 1339ھ کے درمیان، جب حائری ابھی اراک میں مقیم تھے، بہت سے لوگوں نے، جو مرجع تقلید کے انتخاب میں مصروف تھے، ان سے رجوع کیا۔ قم ہجرت کرنے اور ان کی شہرت بڑھنے کے بعد، ان کے مقلدین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ بہت سے ایرانیوں اور دیگر ممالک، بشمول عراق اور لبنان، کے بعض شیعوں نے ان کو اپنا مرجع تقلید قرار دے دیا۔[25]
تدریس کا اسلوب
عبد الکریم حائری نے سامرا کے مدرسے کے طریقے سے اور میرزا شیرازی سے متاثر ہو کر درس دیا۔ اس طریقے میں، مسئلے کے بیان کے بعد، بغیر کسی رائے ظاہر کیے، سب سے پہلے مختلف نقطہ نظر اور ہر ایک کی دلیلیں بیان کی جاتی تھیں، پھر استاد شاگردوں سے رائے لینے اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے بعد آراء کی خلاصہ بندی کرتے تھے، پھر اپنی رائے بیان کرتے تھے اور آخر میں شاگردوں کو اجازت دیتے تھے کہ وہ اس رائے پر بحث کریں اور اس کی تنقید کریں۔ اسی طرح حائری ہر روز اگلے درس کا موضوع متعین کرتے تھے تاکہ شاگرد پہلے سے اسے پڑھ سکیں۔ ان کا خیال تھا کہ اصول فقه کے مباحث مختصر اور عملی ہونے چاہئیں؛ اس لیے، درر الاصول کی تصنیف میں انہوں نے اس نظر کو عمل میں لایا اور تقریباً چار سال میں اصول فقه کا مکمل درس پڑھایا۔[26]
اساتذه
شیخ عبدالکریم حائری نے اپنی زندگی کے دوران کئی نامور اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ان کے بعض اساتذہ یہ ہیں:
- میرزا حسین نوری
- شیخ فضل اللہ نوری
- سید محمد فشارکی
- میرزا محمد تقی شیرازی
- میرزا محمد حسن شیرازی
- آخوند خراسانی
- میرزا مهدی شیرازی
- فاضل اردکانی
- سید محمد کاظم طباطبائی[27]
شاگردیں
آیت الله حائری کے درس گاہ سے متعدد ممتاز علماء فارغ التحصیل ہوئے، جن میں سے کئی اپنے زمانے میں مرجعیت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ان کے بعض شاگرد یہ ہیں:
- علی اکبر کاشانی
- مصطفی کشمیری
- احمد مازندرانی
- سید صدرالدین صدر
- میرزا هاشم آملی
- محمدعلی اراکی
- سید احمد حسینی زنجانی
- سید روح اللہ موسوی خمینی
- سید احمد خوانساری
- سید محمد تقی خوانساری
- سید محمد داماد
- سید ابوالحسن رفیعی قزوینی
- سید کاظم شریعتمداری
- سید کاظم گلپایگانی
- سید محمد رضا گلپایگانی
- ملا علی معصومی همدانی
- سید شهاب الدین مرعشی نجفی[28]
- سید رضا موسوی زنجانی[29]
- محمد جواد انصاری همدانی
اخلاقی خصوصیات اور سماجی خدمات
حائری یزدی خوش اخلاق، شوخ طبع، معتدل، ظاہرسازی اور ریاکاری سے دور تھے۔ انہوں نے شرعی وجوہات کے استعمال میں انتہائی احتیاط برتی اور سادگی اور زہد کا طریقہ زندگی اختیار کیا۔[30] طلابہ کی فلاح و بہبود: انہوں نے طلابہ کی زندگی کے حالات اور ان کی پریشانیوں کے حل پر خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے خود طلابہ کی حجروں کا دورہ کیا، ان کی مطالعے کی کوششوں اور کارکردگی کا جائزہ لیا، اور محنت کرنے والوں کو حوصلہ افزائی کی۔[31] عام فلاحی کام: حائری یزدی عوام کی آسائش اور فلاح پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور ان کی پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کے اہم عام فلاحی کاموں میں قم میں سہامیہ ہسپتال کی بنیاد اور قم میں فاطمیہ ہسپتال کے قیام کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔[32] اہل بیت (ع) سے محبت: حائری یزدی اہل بیت (ع) سے انتہائی محبت رکھتے تھے اور جوانی میں سامرا میں اس مناسبت کے نوحہ خوان بھی تھے۔ انہوں نے فاطمیہ کے موقع پر سوگواریاں بھی منعقد کیں۔[33] اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی ایک ذمہ دار اور معاشرتی طور پر فعال شخصیت تھے جنہوں نے طلابہ کی فلاح اور عوام کی آسائش کے لیے کام کیا۔
سیاسی سرگرمیوں سے متعلق ان کا موقف
بہت سے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر سیاست سے دور رہتے تھے۔ ان کی سیاست میں عدم مداخلت اتنی شدید تھی کہ اس سے کچھ لوگوں کو حیرت اور یہاں تک کہ اعتراض بھی ہوا۔[34] لیکن یہ عدم مداخلت مصلحت پسندی سے زیادہ ان کی اپنی شخصیت کا عکس تھی۔ خاص طور پر قم میں آنے سے پہلے۔ یہ بتاتا ہے کہ ان کا رویہ ایران کی حکومت سے غیر متعلقہ سیاسی معاملات میں بھی یہی تھا۔ مثال کے طور پر، 1330 ہجری شمسی کے محرم میں جب کچھ علماء نجف اور کربلا سے کاظمین گئے تھے تاکہ غیر ملکی فوجوں کے خلاف احتجاج کریں اور تقریباً تین ماہ وہاں قیام کیا، ان میں میرزا محمد تقی شیرازی، شیخ الشریعہ اصفہانی، نائینی، سید ابوالحسن اصفہانی اور آقا ضیاء عراقی جیسے نامور علماء شامل تھے۔[35] لیکن حائری کا نام اس فہرست میں نہیں ہے۔ اس لیے انہیں اپنے استاد فشارکی کی طرح ایک ایسے عالم دین کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو نہ صرف سیاست میں کبھی فعال نہیں رہے بلکہ سیاسی اور متنازعہ واقعات سے بھی دور رہے۔[36] حائری کی عمر کے آخری حصے میں ان کی سماجی حیثیت کی وجہ سے انہیں سیاسی معاملات میں شرکت کرنا پڑی۔ ان سالوں میں ان کا سب سے بڑا چیلنج رضا شاہ کے ساتھ ان کے تعلقات اور ان کے ساتھ ان کے رویے کا انداز تھا۔ جب رضا خان سردار سپہ تھے، ان کے درمیان تعلقات نسبتاً اچھے تھے۔[37] رضاشاہ کے دورِ حکومت کے قیام سے لے کر کشف حجاب کے مسئلے کے سامنے آنے سے پہلے (1935ء سے پہلے)، ان دونوں کے تعلقات نہ تو اچھے تھے اور نہ ہی برُے۔[38] ایران میں فوجی خدمت کو لازمی بنانے کے معاملے میں، جس کی کچھ شیعہ علماء نے مخالفت کی تھی، حائری نے اس تجویز کی حمایت کی۔[39] لیکن کشف حجا ب کے واقعہ (جولائی 1935ء) سے لے کر حائری کی وفات (1936ء) تک، ان دونوں کے تعلقات خراب ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد، حائری نے 2 جولائی 1935ء کو رضاشاہ کو ایک تار بھیجا، جس میں انہوں نے حالات کو اسلامی شریعت کے خلاف قرار دیا اور اس کے روکنے کا مطالبہ کیا۔[40]اس کے بعد، ان کے تعلقات مکمل طور پر ختم ہو گئے، اور یہاں تک کہ حائری سے ملنے آنے والوں پر بھی سخت نظر رکھی جاتی تھی۔[41] تاہم، بعض لوگ اس کی قم کے علمی ادارے (حوزه علمیه قم) کی حفاظت کے لیے کوششوں کو بہت سی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے اور حکومت سے مقابلہ نہ کرنے کی سب سے اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں، حائری جان بوجھ کر اور دانشمندی سے حکومت سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس وقت کے حالات میں رضا شاہ پہلوی کے خلاف موقف اختیار کرنے کا نتیجہ صرف علمی ادارے کا خاتمہ ہوگا۔ اس لیے، دور اندیشی، دانشمندی اور بردباری سے انہوں نے ایران میں علمی ادارے کی اور بلکہ دین و مذہب کی بقاء کو برقرار رکھا۔[42]
آثار
ان کی سب سے اہم تصنیف "درر الفوائد" ہے، جسے "درر الاصول" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب ایک طرف فشارکی کی بنیادی اصولیات سے جڑی ہوئی ہے، جبکہ دوسری جانب یہ آخوند خراسانی کے اصول فقہ کے اہم آراء سے ماخوذ ہے۔ حائری نے خود بتایا ہے کہ اس کتاب کے پہلے جلد میں انہوں نے فشارکی سے اور دوسرے جلد میں آخوند خراسانی سے استفادہ کیا ہے۔ [43] حائری کے کچھ شاگردوں، جن میں میرزا محمود آشتیانی، میرزا محمد ثقفی، محمد علی اراکی اور سید محمد رضا گلپایگانی شامل ہیں، نے درر الفوائد پر حاشیہ لکھا ہے، جن میں سے کچھ چھپ چکے ہیں۔[44] قم میں قیام کے دوران ان کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں، جس کی وجہ سے وہ کم لکھ پائے۔ تاہم ان کی کئی قیمتی تصانیف باقی ہیں، جن کو چار قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
تالیفات
ان کی پانچ تصانیف باقی ہیں جو درج ذیل ہیں: درر الفوائد، کتاب النکاح، کتاب الرضاع، کتاب المواریث اور کتاب الصلوة۔[45]
فقہی کتابوں پر حاشیے
جیسے کہ سید محمد کاظم یزدی کی عروة الوثقی پر حاشیہ اور ملا مهدی نراقی کی انیس التجّار پر حاشیہ۔[46]
اساتذه کے دروس کی تقریرات
انهوں نے فقط اپنے استاد سید محمد فشارکی کے اصول فقه کے درس کی تقریر لکھی ہیں۔[47]
ان کے دروس کی تقریرات
یہ تقریرات ان کے شاگردوں نے مرتب کی ہیں، جیسے کہ رسالہ الاجتهاد و التقلید، کتاب البیع اور کتاب التجارة، یه تینوں محمد علی اراکی نے لکھے ہیں، اور ان کے دیگر دروس کی تقریرات، سید محمد رضا گلپایگانی اور میرزا محمود آشتیانی نے بھی لکھے ہیں۔[48]
رساله عملیه اور فتوا کی کتابیں
جیسے کہ ذخیرة المعاد، مجمع الاحکام، مجمع المسائل، منتخب الرسائل، وسیلة النجاة اور مناسک حج وغیره ان کی فتوا پر مشتمل کتابیں ہیں۔[49]
حوالہ جات
- ↑ حائری، علی، روزشمار قمری، ۱۳۸۱ش، ص۳۱۷
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۱۳-۱۴
- ↑ فیاضی، زندگینامه و شخصیت اجتماعی سیاسی... ، ۱۳۷۸ش، ص۱۱۴-۱۱۵
- ↑ زنجانی، الکلام یجرّ الکلام، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۱۰۷؛ امینی، مروری... ، ص۲۰، ۳۶-۳۷
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۲۰-۲۱
- ↑ مرسلوند، زندگینامه رجال و مشاهیر ایران، ۱۳۷۳ش، ج۳، ص۵۹
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۲۳-۲۴
- ↑ حائری یزدی، سرّ دلبران، ۱۳۷۷ش، ص۸۰-۸۲
- ↑ حبیبآبادی، مکارم الآثار، ۱۳۶۴ش، ج۶، ص۲۱۱۸
- ↑ شریف رازی، گنجینه دانشمندان، ۱۳۵۲-۱۳۵۴ش، ج۱، ص۲۸۳-۲۸۴
- ↑ حائری یزدی، سرّ دلبران، ۱۳۷۷ش، ص۳۹ و ۸۷-۸۸
- ↑ استادی، ص۴۴-۵۱
- ↑ محقق داماد، مصطفی ص۴۳-۴۴؛ صدرایی خویی، آیتالله اراکی: یک قرن وارستگی، ۱۳۸۲ش، ص۱۷؛ نیکوبرش، ص۴۶-۴۷
- ↑ بامداد، شرح حال رجال ایران... ، ۱۳۴۷ش، ج۲، ص۲۷۵
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۵۵
- ↑ همان، ص۵۵-۵۶
- ↑ صفوت تبریزی، «زندگینامه آیة الله حاج شیخ عبدالکریم حائری»، ص۷۳
- ↑ آقابزرگ طهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۰۴ق، قسم ۳، ص۱۱۶۴؛ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۵۶؛ صدرایی خویی، آیتالله اراکی: یک قرن وارستگی، ۱۳۸۲ش، ص۱۷-۱۸
- ↑ شریف رازی، گنجینه دانشمندان، ۱۳۵۲-۱۳۵۴ش، ج۱، ص۲۸۶؛ مرسلوند، زندگینامه رجال و مشاهیر ایران، ۱۳۷۳ش، ج۳، ص۵۹-۶۰
- ↑ آقابزرگ طهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۰۴ق، قسم ۳، ص۱۱۵۹؛ فیض قمی، ج۱، ص۳۳۱-۳۳۴؛ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۵۸-۵۹
- ↑ استادی، ص۵۴-۶۴
- ↑ آقابزرگ طهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۰۴ق، قسم ۳، ص۱۱۶۰-۱۱۶۱؛ صفوت تبریزی، «زندگینامه آیة الله حاج شیخ عبدالکریم حائری»، ص۷۷
- ↑ استادی، یادنامه حضرت آیة اللهالعظمی اراکی، ۱۳۷۵ش، ص۷۷-۷۸
- ↑ زنجانی، الکلام یجرّ الکلام، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۱۲۴؛ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۴۷؛ «مصاحبه با حجة الاسلام والمسلمین دکتر سید مصطفی محقق داماد»، ص۶۷-۶۸، ۸۷-۸۸، ۹۲
- ↑ مستوفی، شرح زندگانی من، ۱۳۶۰ش، ج۳، ص۶۰۱؛ حائری یزدی، خاطرات دکتر مهدی حائری یزدی، ۱۳۸۱ش، ص۱۸و۷۶
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۷۴-۷۵؛ «مصاحبه با حضرت آیتالله حاج سید علی آقا محقق داماد»، ص۵۰، ۵۵
- ↑ حائری یزدی، سرّ دلبران، ۱۳۷۷ش، ص۳۹-۸۰-۸۲-۸۷
- ↑ شریف رازی، گنجینه دانشمندان، ۱۳۵۲-۱۳۵۴ش، ج۱، ص۵۹، ۸۷ـ ۸۸
- ↑ جعفر سعیدی (پژوم)، ۱۳۸۶، ص ۵۰
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۵۲-۵۴؛ «مصاحبه با حضرت آیتالله حاج سید علی آقا محقق داماد»، ص۴۷-۴۸
- ↑ مصاحبه با حضرت آیتالله حاج سید علی آقا محقق داماد»، ص۴۱-۴۲
- ↑ روزنامه اطلاعات، ۳۰ و ۳۱ فروردین ۱۳۱۰
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۴۸-۵۰؛ رضوی، ص۱۵۱-۱۵۴
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۶۱-۶۲؛ حائری، عبدالحسین، ص۱۶۱-۱۶۲
- ↑ نظام الدین زاده، ص۱۵۴-۱۵۵
- ↑ شکوری، ص۱۱۶ به بعد؛ امینی، اهتمام... ، ص۱۹۱
- ↑ دولت آبادی، ج۴، ص۲۸۹
- ↑ حائری یزدی، مهدی، ص۶۴
- ↑ شبیری زنجانی، جرعهای از دریا، ج۴، ص۴۹۷-۴۹۸
- ↑ حائری یزدی، مهدی، ص۸۳
- ↑ همان، ص65
- ↑ شریف رازی، گنجینه دانشمندان، ۱۳۵۲-۱۳۵۴ش، ج۱، ص۲۹-۳۰، ۵۳-۵۴؛ امینی، اهتمام... ، ص۱۹۸
- ↑ طبسی، ص۶۳
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۱۰۳-۱۰۵
- ↑ همان، ص۹۹-۱۰۱
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذریعه، ج۲، ص۴۵۳ و ج۲۰، ص۱۵ و ج۲۲، ص۴۰۵-۴۰۶ و ج۲۵، ص۸۷
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذریعه... ، ج۴، ص۳۷۸
- ↑ کریمی جهرمی، آیة الله موسس... ، ۱۳۷۲ش، ص۱۰۵
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذریعه، ج۲، ص۴۵۳ و ج۲۰، ص۱۵ و ج۲۲، ص۴۰۵-۴۰۶ و ج۲۵، ص۸۷