"سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 11 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 18: سطر 18:
2024ء اس عسکری تنظیم  کے تقریباً 125,000 کل اہلکار تھے. سپاہ پاسداران نیوی اب [[ایران]] کی بنیادی فورس ہے جو خلیج فارس پر آپریشنل کنٹرول کا استعمال کرتی ہے۔  سپاہ کی بسیج، ایک نیم فوجی رضاکار ملیشیا، کے تقریباً 90,000 فعال اہلکار اس وقت موجود ہیں۔ ایران کے اندر "سپاہ نیوز" کے نام سے ایک میڈیا بازو چلاتی ہے۔ 16 مارچ 2022 کو، اس نے ایک نئی آزاد شاخ "کمانڈ فار دی پروٹیکشن اینڈ سیکیورٹی آف نیوکلیئر سینٹرز" کو اپنایا جو ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ہے۔
2024ء اس عسکری تنظیم  کے تقریباً 125,000 کل اہلکار تھے. سپاہ پاسداران نیوی اب [[ایران]] کی بنیادی فورس ہے جو خلیج فارس پر آپریشنل کنٹرول کا استعمال کرتی ہے۔  سپاہ کی بسیج، ایک نیم فوجی رضاکار ملیشیا، کے تقریباً 90,000 فعال اہلکار اس وقت موجود ہیں۔ ایران کے اندر "سپاہ نیوز" کے نام سے ایک میڈیا بازو چلاتی ہے۔ 16 مارچ 2022 کو، اس نے ایک نئی آزاد شاخ "کمانڈ فار دی پروٹیکشن اینڈ سیکیورٹی آف نیوکلیئر سینٹرز" کو اپنایا جو ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ہے۔
ایک نظریاتی ملیشیا کے طور پر شروع ہونے والی  سپاہ فورس نے ایرانی سیاست اور معاشرے کے تقریباً ہر پہلو میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔
ایک نظریاتی ملیشیا کے طور پر شروع ہونے والی  سپاہ فورس نے ایرانی سیاست اور معاشرے کے تقریباً ہر پہلو میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔
== تأسیس ==
مذکورہ اقدامات کے بعد امام خمینی نے انقلابی کونسل کی نگرانی اور عارضی حکومت سے آزاد، ایک مسلح اور نظریاتی فورس کے قیام کا حکم دیا <ref>هاشمی رفسنجانی، انقلاب و پیروزی، ۲۶۱–۲۶۲؛ رفیق‌دوست، برای تاریخ می‌گویم، ص۵۴ا</ref>۔ ور پاسداران انقلاب کی تشکیل مذکورہ بالا افواج اور اسلامی انقلاب کمیٹیوں کی افواج کا حصہ تھی۔ محمد منتظری اور سید عبدالکریم موسوی اردبیلی کو آئی آر جی سی کے ڈیزائنرز اور بانی کے طور پر بھی ذکر کیا جاتا ہے <ref>نخعی و یکتا، روزشمار جنگ ایران و عراق، ۱/۸۸۲، الویری، خاطرات، ۸۲؛ خامنه‌ای، حدیث ولایت، ۱۳۶۹، ۴۴۳</ref>۔ انقلابی جوانوں کی تنظیم کی تشکیل کے آغاز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے مسائل میں سے ایک مسئلہ عوامی اقدار اور ثقافت کے تحفظ کے ساتھ ایک فوجی فورس کی شکل میں اور مسلح سیاسی سے وابستہ رضاکاروں کو تفویض کرنا ہے۔ تنظیمیں اور انقلاب کو محفوظ رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، جسے پاسداران انقلاب اسلامی کے اہلکاروں کی تدبر اور برداشت سے حل کیا گیا تھا <ref>یکتا، روزشمار جنگ ایران و عراق، ۲/۳۲؛ آقامیرزایی، مجنون دیروزها، ۱۲
</ref>۔
== قیام اور اغراض و مقاصد ==
1979ء میں ایرانی انقلاب کے نتیجے میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت ختم ہوئی اور اس کی جگہ مذہبی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو نوزائیدہ انقلاب کی نگہبانی اس کے اولین مقاصد میں سے ایک ٹھہری۔
اس موقعے پر رہبرِ اعلیٰ امام خمینی کو خدشہ لاحق ہوا کہ پرانی فوج کے اندر ایسے عناصر موجود ہو سکتے ہیں جو ابھی تک شاہ کے وفادار ہوں، لہٰذا انہوں نے نئے سرے سے ایک ایسی فوج کا ڈول ڈالا جو ایک طرف تو انقلاب کے خلاف ہونے والی سازشوں کا سامنا کر سکے تو دوسری جانب نئی مملکت کی نظریاتی سرحدوں کا تحظ بھی کر سکے۔
اسی خیال کے پیشِ نظر پانچ مئی 1979 کو "سپاہِ پاسدارانِ انقلاب" کا وجود عمل میں آیا جس کے مشن میں حکومت کے خلاف فوجی یا غیر فوجی مسلح بغاوت کا قلع قمع کرنا اور ساتھ ہی بیرونی ممالک کی سازشوں پر بند باندھنا شامل تھا۔ اس کے علاوہ اس کا ایک کام قاضیوں کی جانب سے جاری کردہ اسلامی فیصلوں کا نفاذ بھی تھا۔
پاسداران منتخب ایرانی حکومت کی بجائے رہبرِ اعلیٰ کو جواب دہ ہیں۔
پاسداران انقلاب، انقلاب اور اسلامی نظام کا سب سے اہم بازو ہیں۔ آئین کے شق نمبر 150 کے مطابق انقلاب اور اس کی کامیابیوں کی حفاظت، اس ادارے کے اہم ترین فلسفے کا ذکر کیا گیا ہے۔ امام خمینی نے [[اسلام]] اور [[قرآن]] کی حفاظت، اسلامی تحریک کی کامیابیوں کا دفاع، اسلامی جمہوریہ کی حفاظت اور دشمنان اسلام کی سازشوں سے لڑنے، ملک کی آزادی اور نظم و نسق کی حفاظت اور شخصیات کی حفاظت کو اس عسکری تنظیم سے آپ توقعات میں سے قرار دیا تھا۔
اسی طرح دوسری قوتوں کے ساتھ مل کر عوامی خلفشار کو دور کرنے میں مدد کرنا، نظام کے اہلکار بھی عصری تاریخ کے سب سے اہم مذہبی اور آمریت مخالف انقلاب کی حفاظت کرتے ہیں۔ فوج اور پولیس کی غیر تیاری کے حالات میں ملکی اور غیر ملکی حریفوں کے خلاف اس کی کامیابیاں اور انقلابی اور اسلامی اخلاقیات سے آراستہ ایک تیار فورس کی تربیت کو پاسداران انقلاب کی تشکیل کے اہداف میں شامل کیا گیا ہے <ref>رفیق‌دوست، برای تاریخ می‌گویم، ۴۸</ref>۔
آئی آر جی سی کمانڈ کونسل کے پہلے نوٹیفکیشن میں، آئی آر جی سی کے فرائض سیکورٹی امور کے نفاذ اور انقلاب دشمن عناصر کی گرفتاری میں مدد کرنا، اسلامی جمہوریہ کے تخریبی اور مخالف دھاروں کے خلاف مسلح جدوجہد، غیر ملکیوں کے خلاف ملک کا دفاع کرنا ہے۔ حملہ آوروں، مسلح افواج کے ساتھ تعاون، عدالتی احکامات کے نفاذ میں مدد، عالم اسلام کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کو قیادت کی نگرانی میں شمار کیا گیا ہے اور قدرتی حالات سے نمٹنے کے لیے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی انسانی افواج کا استعمال ہے۔
انقلاب مخالف گروہوں سے نمٹنا اور پہلوی حکومت کے حامیوں کی طرف سے رکاوٹیں ڈالنا اس تنظیم کے اولین کاموں میں سے ایک تھا  <ref>رفیق‌دوست، برای تاریخ می‌گویم، ۶۱، ۷۱ و ۹۷</ref>۔
==  پاسداران کا تنظیمی ڈھانچہ ==
عسکری ادارے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے مطابق پاسداران کی کل تعداد سوا لاکھ نفوس پر مبنی ہے۔ اس میں سازمان بسیج اور القدس فورس شامل ہیں۔ بسیج دراصل رضاکاروں پر مشتمل پیرا ملٹری ملیشیا ہے جو سڑکوں پر ہونے والے احتجاج پر قابو پانے کے علاوہ سرحدوں پر بھی لڑتی ہے۔
بسیج کے ایک کمانڈر احمدی نژاد تھے جو بعد میں سیاست کی طرف آئے اور ملک کے صدر منتخب ہوئے۔
اس کے مقابلے پر القدس (قدس یروشلم کا دوسرا نام ہے) کا مقصد ملک کی سرحدوں سے باہر ایرانی مفادات کا تحفظ ہے۔ اس پر الزام ہے کہ وہ مختلف ملکوں میں [[شیعہ]] جنگجوؤں کو تربیت، سرمایہ اور اسلحہ فراہم کرتی ہے۔
اس کے علاوہ پاسداران کی اپنی فضائیہ اور بحریہ بھی ہے۔
امام خمینی کی نظر میں مسلح افواج کی کمان، اعلان جنگ اور حکومتی امور اسلامی حکمران کی ذمہ داری ہیں۔ اس کے قیام کے آغاز میں، اسلامی انقلابی گارڈ کور کو امام خمینی کے حکم سے انقلابی کونسل کی نگرانی میں رکھا گیا تھا، اور انقلابی کونسل نے 9 آرٹیکلز اور 9 نوٹوں میں اس کے لیے ایک قانون منظور کیا تھا، اور سید عبدالکریم موسوی اردبیلی اسے حکومت اور پاسداران انقلاب اسلامی کے درمیان رابطہ سمجھا جاتا تھا۔
بعد میں یہ ذمہ داری [[سید علی خامنہ ای]] کو سونپی گئی۔ وہ اب تک اس ذمہ داری کے انچارج تھے 49 آرٹیکلز اور 16 نوٹوں میں IRGC کا آئین بالآخر اسلامی کونسل سے منظور ہوا۔ پارلیمنٹ نے آئین میں تبدیلیاں کیں۔ بشمول کونسل کمانڈ اور لبریشن موومنٹ ڈیپارٹمنٹ کو اس سے ہٹا دیا گیا۔ آئین کے مطابق، IRGC انقلاب کی حفاظت اور اسلامی جمہوریہ کے قوانین کے خلاف خدا کے قانون کی حکمرانی کو محسوس کرنے اور اس کی دفاعی بنیاد کو مضبوط بنانے کے مقصد کے لیے قیادت کی کمان میں ہے۔ مجلس نے بسیج کو IRGC کا ذیلی ادارہ بنایا۔ اس لیے اس سے متعلق تمام سرکاری اور غیر سرکاری سہولیات اس ادارے کو فراہم کی گئیں <ref>اداره کل، مجموعه قوانین، ۲۵۴–۲۶۱</ref>۔
== تنظیمی عناصر ==
آئین کے آرٹیکل 13 کے مطابق، پاسداران انقلاب کے تنظیمی عناصر ہیں: پاسداران انقلاب کی جنرل کمان، انقلابی گارڈز کی وزارت اور انقلابی گارڈز کی سپریم کونسل 1361 میں، پاسداران انقلاب کی ایک وزارت تھی۔ اور محسن رفیق دوست کو انقلابی گارڈز کے پہلے وزیر کے طور پر متعارف کرایا گیا اس وزارت نے جنگ میں خریداری کا کردار ادا کیا۔ آئین کی نظرثانی کونسل میں اسے ہٹا دیا گیا اور آئی آر جی سی کی کمان آئین کے آرٹیکل 110 کے مطابق کمانڈر انچیف کی نگرانی میں رکھ دی گئی۔
1364 تک، IRGC کے پاس صرف زمینی افواج تھیں۔ اس سال 26 ستمبر کو امام خمینی نے انقلاب کے خلاف حفاظت کے لیے IRGC کی ہمہ جہت تیاری کی ضرورت پر آئین کے آرٹیکل 150 کے مطابق اس ادارے کو زمینی، فضائی اور سمندری افواج سے لیس کرنے کا حکم دیا <ref>امام‌خمینی، صحیفه، ۱۹/۳۸۶</ref>۔
== کارکردگی ==
سپاہ پاسداران کا تمام مشنز میں ایک قابل ذکر ریکارڈ رہا ہے، داخلی سلامتی فراہم کرنے اور مقدس دفاع اور ثقافتی کاموں سے لے کر تعمیرات تک۔ امام خمینی کی نظر میں اس مثبت قوت اور انقلابی اداروں کے کاموں کا اسلامی انقلاب کی کامیابیوں کو محفوظ بنانے میں پہلا کردار تھا اور ملک کی بقا اس کی سرگرمیوں پر منحصر تھی۔ نظام کے دیگر حکام نے بھی انقلاب کے مسائل کو حل کرنے میں آئی آر جی سی کی کارکردگی سے مطمئن کیا ہے کہ ملک کی اندرونی سلامتی کا ایک اہم حصہ گارڈز کی قربانیوں کا مرہون منت ہے۔
جیسا کہ انقلاب کے آغاز میں، اس ادارے نے وزارت انٹیلی جنس کا کام بھی انجام دیا، اس فورس نے انقلاب مخالف قوتوں کو دبانے اور گرفتار کرنے میں بھرپور حصہ لیا، جن میں فرقان جیسے دہشت گرد، غدار، پہلوی کے حامی شامل تھے۔ حکومت، اور مخالف گروہ، اور نسلی بحرانوں کو حل کرنا، اور جہاں کہیں بھی ضد انقلاب نے اپنی موجودگی کا اعلان کیا اور علیحدگی پسندوں سے لڑنے اور ایران کی سالمیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے <ref>رضایی، آشنای غریب، ۷۷</ref>۔
== عراق جنگ میں قربانیاں ==
پاسداران کے قیام کے ڈیڑھ سال کے اندر اندر ایران۔عراق جنگ چھڑ گئی جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس دوران دونوں طرف سے لاکھوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس جنگ میں پاسداران نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بہت سے ایرانیوں کے دل جیت لیے۔
جنگ کے دوران پاسداران کے سینکڑوں سپاہی قطار بنا کر دشمن کی گولیوں کی بوچھاڑ میں لہروں کی شکل بڑھتے چلے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ باردوی سرنگوں کو صاف کرنے کے لیے بھی پاسداران کے سپاہیوں کی لہریں میدانِ جنگ سے گزر جاتی تھیں۔
ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سال  سپاہ پاسداران کی شان اور استقامت کا ایک اہم موڑ تھا، زیادہ تر لڑنے والی فوجیں سپاہ پاسداران کی کمان میں تھیں، اور اس نے شکست جیسے ڈیزائن اور کارروائیوں میں حصہ لیا۔ آبادان کے محاصرے، طریق القدس، فتح المبین اور بیت المقدس کی کارروائیوں نے آہستہ آہستہ جنگ کی نبض سنبھال لی۔
آئی آر جی سی نے بعثی دشمن کے خلاف جنگ فاؤ اور خیبر جیسی بڑی اور اہم کارروائیوں کو ڈیزائن کرنے میں پہل کی اور خلیج فارس کی حفاظت اور تجارتی بحری جہازوں کو روکنے والی سرگرمیوں کے ساتھ ایک مراعات یافتہ کردار ادا کرنے میں کامیاب رہا۔
سپاہ پاسداران نے ملک کا دفاع کرنے والی دیگر افواج کے ساتھ مل کر، بشمول آرمی ایئر فورس اور ایئر فورس کی انقلابی کمیٹیوں نے، ایران کی عوامی مجاہدین تنظیم کو مرسد آپریشن میں پھنسایا اور ملک کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی سرگرمیاں جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت کو تباہ کر دیا۔ امام خمینی کے بعد پاک فوج کے دیگر عہدیداروں نے محاذوں پر محافظوں کی بہادری، قربانیوں، ایمان اور شہادت کے جذبے کو سراہا <ref>دفتر عقیدتی، روزها و رویدادها، ۱/۲۲۱</ref>۔
== غیر فوجی سرگرمیاں ==
[[پاکستان|پاکستانی]] فوج کی طرح ایرانی پاسداران بھی کئی غیر فوجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہے۔ عراقی جنگ کے بعد اس نے تعمیرات کے شعبے میں بڑی تیزی سے کام کیا اور تباہ کن جنگ کے دوران ملک کے بنیادی ڈھانچے کی از سرِ نو تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے تعمیرات کے شعبے میں 40 ہزار سے زیادہ افراد ملازم ہیں جو ملک میں سڑکیں، پل، کارخانے اور دوسری تنصیبات تعمیر کرتے ہیں۔
پاسداران انجینیئرنگ کی کئی کمپنیاں بھی چلاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ تیل اور گیس کے منصوبوں میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ حال ہی میں اس نے حکومت کے ساتھ تیل کی پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا ہے جس کی مالیت 1.3 ارب ڈالرز ہے <ref>[https://www.independenturdu.com/node/4726/%D9%85%DB%8C%DA%AF%D8%B2%DB%8C%D9%86/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE/%D9%BE%D8%A7%D8%B3%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86%D9%90-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%DB%81%DB%92-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%DA%A9%D8%B1%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DB%81%DB%92%D8%9F-%D9%BE%D8%A7%D9%86%DA%86-%D8%AD%D9%82%D8%A7%D8%A6%D9%82 پاسدارانِ انقلاب ہے کیا اور کرتی کیا ہے؟ پانچ حقائق]-independenturdu.com- شائع شدہ از: 9 اپریل 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 اکتوبر 2024ء۔</ref>۔
== پاسداران انقلاب ایران کی طاقتور ترین فوج ==
اس خصوصی فوجی دستے میں ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب جدید اسلحہ سے لیس اہلکار شامل ہیں۔ سپاہ پاسداران انقلاب براہ راست سپریم لیڈر خامنہ ای کو جواب دہ ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب ایران کی باقاعدہ یا ریگولر فوج کی بہ نسبت طاقتور ترین فوج مانی جاتی ہے۔ یہ فوجی دستہ نیم فوجی ملیشیا بسیج کو بھی کنٹرول کرتی ہے جس کے اہلکاروں کی تعداد 90000 کے قریب ہے۔ بسیج فوج کے اہل کارانقلاب کے وفادار ہیں اورحکومتی نظام کے خلاف ہونے والے اقدامات کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب مشرق وسطیٰ میں بھی اثر رسوخ رکھتی ہے اور اپنی اتحادی حکومتوں کو پیسہ، اسلحہ،ٹیکنالوجی، تربیت اور مشورے دیتی ہیں۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے ذیلی یونٹ القدس فورس کی مدد سے باہر کے ممالک میں مسلح گروپس بھی بھجواتی ہیں۔
اس کی بحری فوج تذویراتی طور پر اہم آبنائے ہرمز پر گشت کرتی ہے جس کے ذریعے دنیا کا20 فیصد تیل گزرتا ہے۔
ایران نے [[شام]] کے تنازع میں [[القدس فورس]] کے کردار کو بھی تسلیم کیا ہے، القدس فورس نے شام کی حکومت کی حمایت یافتہ افواج کی مدد کی ہے۔
== حکومت میں اثر ورسوخ ==
ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کی مضبوط حمایت کی وجہ سے سپاہ پاسداران انقلاب ایران کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور حکومت کی پالیسیوں پر بھی تنقید کرتی ہے۔
ملٹری کارخانوں کے علاوہ سپاہ پاسداران انقلاب ہاؤسنگ اسکیموں، ڈیم اور سڑکوں کی تعمیرات، تیل اور گیس کے پروجیکٹس، خوراک، نقل و حمل، تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھی فعال ہے۔
== سپاہ پاسداران انقلاب اب کیوں دہشت گرد قرار؟ ==
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئٹر بیان میں کہا ہے کہ " [[اسرائیل]] کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے انتخابات کے موقع پریہ ایک اوربلا جواز تحفہ ہے ۔ امریکہ کی جانب سے خطے میں یہ ایک اور غلطی ہے۔"
امریکہ کی جانب سے سپاہ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے کو اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے سراہا اور اپنے بیان میں کہا کہ ’ میرے دوست ٹرمپ آپ کاپاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے کا شکریہ۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ان کی درخواست پر یہ اقدام اٹھایا ہے۔
== امریکہ کسی کو دہشت گرد تنظیم کیسے قرار دیتا ہے؟ ==
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے مطابق انسداد دہشت گردی کا ادارہ بیورو آف کاؤنٹر ٹیررازم دنیا بھر میں ان تنظیموں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے جو دہشت گرد ی میں ملوث ہو، یہ بیورو ان کی مکمل معلومات اکھٹی کرتا ہے اور سیکریٹری خارجہ، اٹارنی جنرل اور سیکریٹری خزانہ کے ساتھ مشاورت کے بعد دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر کانگریس کو مطلع کیا جاتا ہے ۔
امریکہ محکمہ خارجہ کے مطابق دہشت گرد قرار دینے والی تنظیمیں غیرملکی ہو، دہشت گردی میں ملوث ہو اور امریکی مفادات اور امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔
امریکہ کی جانب سے کسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد ان پر مالی پابندیاں بھی لگتی ہیں اور کوئی ان کے ساتھ کاروبار یا لین دین نہیں کر سکتا <ref>[https://www.urdunews.com/node/414541/%D8%AE%D8%A8%D8%B1%DB%8C%DA%BA/%D8%A7%D9%86%D9%B9%D8%B1-%D9%86%DB%8C%D8%B4%D9%86%D9%84/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%BE%D8%A7%DB%81-%D9%BE%D8%A7%D8%B3%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%DB%81%DB%92%D8%9F ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کیا ہے؟]-urdunews.com- شائع شدہ از: 9اپریل 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 اکتوبر 2024ء۔</ref>۔
== سپاہ پاسداران کے میزائلوں کے "نئے زیر زمین شہر" کی رونمائی ==
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ جنرل سلامی کی موجودگی میں میزائلوں کے نئے زیر زمین شہر کی رونمائی کی گئی۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے کے مطابق، سپاہ پاسداران کے زیر زمین میزائلوں کے نئے شہر کی رونمائی سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی کی موجودگی میں کی گئی۔
اس سے پہلے جنرل حسین سلامی نے "راہیان نور" اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ہم میزائل، ڈرون اور بحری شعبوں میں  بے مثال طاقت حاصل کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ جلد ہی مزید میزائلوں اور ڈرونز کے شہروں کی رونمائی کریں گے۔
یاد رہے کہ صہیونی حکومت کے خلاف وعدہ صادق آپریشن 1 اور 2 کی کارروائیوں کا ایک حصہ اس زیر زمین میزائل اڈے کے ذریعے انجام دیا گیا۔
"[[آپریشن وعدہ صادق 2|وعدہ صادق آپریشن 2]]" کے دوران اس اڈے سے فائر کیے گئے میزائلوں نے صہیونی فوجی اڈے نواتیم کو خصوصی نشانہ بنایا جو مقبوضہ فلسطین کے مرکز میں واقع ہے۔
ایرانی میزائل حملوں کے بارے صہیونی حکومت تاحال نواتیم اڈے کو فعال نہیں کرسکی ہے<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1929480/%D8%B3%D9%BE%D8%A7%DB%81-%D9%BE%D8%A7%D8%B3%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D9%86%D8%A6%DB%92-%D9%85%DB%8C%D8%B2%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D8%B4%DB%81%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%88%DB%8C%DA%88%DB%8C%D9%88 سپاہ پاسداران کے میزائلوں کے "نئے زیر زمین شہر" کی رونمائی]- شائع شدہ از: 10 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 11 جنوری 2025ء</ref>۔
== کسی بھی مقام پر دشمن کے اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ==
سپاہ پاسداران کی بحریہ کے سربراہ نے کہا کہ ایران کسی بھی مقام پر دشمن کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی انقلابی کی بحریہ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے میزائل ذخائر پر مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران کسی بھی حملے کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایران کبھی بھی اپنے میزائل پروگرام یا دفاعی صلاحیتوں پر مذاکرات نہیں کرے گا۔
تنگسیری نے کہا کہ ایران اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات کا خواہاں ہے۔ ہم ہمیشہ خطے کے ممالک کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان، ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہیں۔
ایرانی بحریہ کے سربراہ نے واضح کیا کہ ایران جنگ شروع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، لیکن اگر ایرانی مفادات یا عوام پر حملہ کیا گیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ آبنائے ہرمز کی بندش کا فیصلہ اعلی حکام کے اختیار میں ہے، لیکن اگر انہیں ایسا کوئی حکم ملا تو اس پر عمل درآمد ان کی ذمہ داری ہوگی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیغام اور دھمکیوں کے بارے میں سوال پر تنگسیری نے کہا کہ مجھے ٹرمپ کے پیغام کی کوئی خبر نہیں، نہ ہی میں اس کا تجزیہ کرنے کا خواہش مند ہوں۔ میں اس کی دھمکیاں سنتا ہوں، اس کے اقدامات دیکھتا ہوں، اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتا ہوں۔
تنگسیری نے مزید کہا کہ ایران دشمن کے کسی بھی اڈے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر ایران پر کسی بھی مقام سے حملہ کیا گیا تو جواب میں اسی مقام پر بھرپور حملہ کیا جائے گا۔ ہم دشمن کے تمام اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔ کوئی ہمیں نشانہ بنا کر بچ نہیں سکتا۔ اگر ہمیں انہیں خلیج میکسیکو تک بھی پیچھا کرنا پڑا، تو ہم کریں گے۔
ایڈمرل تنگسیری نے واضح کیا کہ ایران کسی دباؤ یا دھمکی کے آگے سر نہیں جھکائے گا۔ ہم ٹرمپ کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی مرضی ہم پر مسلط کرے<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1931471/%DA%A9%D8%B3%DB%8C-%D8%A8%DA%BE%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85-%D9%BE%D8%B1-%D8%AF%D8%B4%D9%85%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%DA%88%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D9%88-%D9%86%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%8C-%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD%DB%8C%D8%AA-%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D8%AA%DB%92-%DB%81%DB%8C%DA%BA کسی بھی مقام پر دشمن کے اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سپاہ پاسداران انقلاب]- شائع شدہ از: 29 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 مارچ 2025ء۔</ref>۔
== مقاومتی محاذ قابض طاقتوں کا منحوس وجود ختم کرکے دم لے گا ==
سپاہ پاسداران انقلاب نے شہید جنرل زاہدی کی برسی کی مناسبت سے کہا ہے کہ مقاومتی محاذ خطے سے قابض طاقتوں کا منحوس وجود ختم کردے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سپاہ پاسداران انقلاب نے [[شام]] میں صہیونی حکومت کے حملے میں شہید ہونے والے اپنے کمانڈر جنرل زاہدی کی پہلی برسی کے موقع پر ایک بیان میں کہا ہے کہ مزاحمتی محاذ بالآخر فلسطین پر  قابض صہیونی حکومت کے منحوس وجود کا خاتمہ کر دے گا۔
سپاہ پاسداران انقلاب نے یہ بیان قدس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور ان کے نائب محمد ہادی حاجی رحیمی کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر جاری کیا، جو یکم اپریل 2024 کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ خطے میں صیہونی حکومت اور امریکہ سازشوں کے ذریعے قابض حکومت کو زوال کو نہیں روک سکیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ خدا کے فضل سے مقاومتی محاذ کو یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں بھرپور حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ صیہونی غاصبوں کے خلاف مزاحمت ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے اور اس جنگ میں حتمی فتح مزاحمتی قوتوں کی ہوگی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ صہیونی حکومت نے جنرل زاہدی اور مقاومتی کمانڈروں کو شہید کیا تاہم ان کاروائیوں سے صہیونی مجرموں کے جرائم اور مزاحمتی محاذ کی عظیم کامیابی پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔
سپاہ پاسداران انقلاب نے واضح کیا کہ اسرائیلی حکومت اپنی سیکیورٹی کو بحال کرنے میں ناکام رہی ہے، اور آخرکار جنگ بندی معاہدے کو تسلیم کرکے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور فلسطینی جنگجوؤں کے عزم کے سامنے جھک گئی۔
واضح رہے کہ بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی 1960 میں پیدا ہوئے اور 1980 میں سپاہ پاسداران انقلاب میں شامل ہوئے۔ انہوں نے 1980-88 کی عراق-ایران جنگ کے دوران اہم کردار ادا کیا<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1931590/%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%AA%DB%8C-%D9%85%D8%AD%D8%A7%D8%B0-%D9%82%D8%A7%D8%A8%D8%B6-%D8%B7%D8%A7%D9%82%D8%AA%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%86%D8%AD%D9%88%D8%B3-%D9%88%D8%AC%D9%88%D8%AF-%D8%AE%D8%AA%D9%85-%DA%A9%D8%B1%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%85-%D9%84%DB%92-%DA%AF%D8%A7-%D8%B3%D9%BE%D8%A7%DB%81 مقاومتی محاذ قابض طاقتوں کا منحوس وجود ختم کرکے دم لے گا، سپاہ پاسداران انقلاب]- شائع شدہ از: 3 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 3 اپریل 2025ء۔</ref>۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}