"19 دی کا قیام" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:


انہی مجالس  میں لوگوں نے انہیں اپنے قائد کی جدوجہد اور مصائب کے اعتراف میں ان کو "امام" کا لقب دیا۔ ان دنوں امام کے پیغامات اور کلمات نے انقلاب کے شعلوں کو مزید بھڑکایا اور لوگوں کو بیدار کیا۔ نظام، جو کہ لوگوں کے اپنے قائد کی طرف جانے کی وجہ سے مشتعل ہو گئے تھے، نے عجلت میں کارروائی کی اور توہین آمیز مضمون شائع کر کے امام کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس عمل کی وجہ سے نظام کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور جور کی حکومت کے خلاف زبردست بغاوت  تبدیل ہو گئی <ref>حماسه نوزده دی، ص 16.</ref>
انہی مجالس  میں لوگوں نے انہیں اپنے قائد کی جدوجہد اور مصائب کے اعتراف میں ان کو "امام" کا لقب دیا۔ ان دنوں امام کے پیغامات اور کلمات نے انقلاب کے شعلوں کو مزید بھڑکایا اور لوگوں کو بیدار کیا۔ نظام، جو کہ لوگوں کے اپنے قائد کی طرف جانے کی وجہ سے مشتعل ہو گئے تھے، نے عجلت میں کارروائی کی اور توہین آمیز مضمون شائع کر کے امام کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس عمل کی وجہ سے نظام کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور جور کی حکومت کے خلاف زبردست بغاوت  تبدیل ہو گئی <ref>حماسه نوزده دی، ص 16.</ref>
== اخبار میں توہین آمیز مضمون ==
اخبار میں توہین آمیز مضمون "ارتجاع سرخ و سیاه"  جس نے عوام میں غصہ اور نفرت کو بھڑکایا اس مضمون کا لکھنے والا  احمد رشیدی مطلق نامی تھا۔ اس کے بارے میں بہت سی باتیں سنی گئی ہیں۔ لیکن پہلوی حکومت کے ایجنٹوں کے دستاویزات اور اعترافات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ شاہ نے اس کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صحافتی حلقے اسے اس وقت کے وزیر اطلاعات دریوش ہمایوں سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں: مضمون کی ابتدا دربار کی وزارت سے ہوئی۔ یہ درست ہے کہ شاہ کو مضمون کا ابتدائی بیان پسند نہیں آیا اور کہا کہ اسے تیز تر ہونا چاہیے۔
== بغاوت کی چنگاری ==
17 جنوری 1356 کو ایک مضمون بعنوان ’’سرخ اور سیاہ کالونائزیشن‘‘ شائع ہوا۔ حجاب کی دریافت کی سالگرہ کے موقع پر شائع ہونے والے اس مضمون کے مصنف نے امام خمینی کی توہین کی تھی۔ اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ سامراجی حکومت کے کارندوں نے امام کی توہین کی ہو اور اس بار بھی واضح طور پر توہین نہیں کی گئی لیکن مقدس شہر قم میں ایک چنگاری پڑی جو ایک خونی اور تاریخ ساز میں بدل گئی۔ بغاوت اس مضمون نے لوگوں کے اپنے لیڈر اور لیڈر کے بارے میں جذبات اور جذبات کو ابھارا - جو جلاوطنی میں ہے - اور عوام میں غصہ اور نظام کے خلاف بیزاری پیدا کی^3]۔
جن عوامل نے 19 جنوری کی بغاوت کی تشکیل اور انقلاب کی تشکیل کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے ایک امام خمینی کے قیمتی فرزند کی شہادت تھی۔ سید مصطفی خمینی کی شہادت نے لوگوں میں طاغوت کی حکومت کے خلاف نفرت اور نفرت کی لہر کو جنم دیا۔ کیونکہ وہ اسے نظام کی طرف سے اور بادشاہ کے حکم پر عمل سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے حج آغا مصطفی کے مقدس اجتماعات نظام کے خلاف جدوجہد اور امام کی حمایت کے مناظر بن گئے۔
انہی حلقوں میں لوگوں نے انہیں اپنے قائد کی جدوجہد اور مصائب کے اعتراف میں \ ان دنوں امام کے پیغامات اور کلام نے انقلاب کے شعلوں کو مزید بھڑکایا اور لوگوں کو بیدار کیا۔ نظام، جو کہ لوگوں کے اپنے قائد کی طرف جانے کی وجہ سے مشتعل ہو گئے تھے، نے عجلت میں کارروائی کی اور توہین آمیز مضمون شائع کر کے امام کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس عمل کی وجہ سے نظام کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور جور کی حکومت کے خلاف زبردست بغاوت ہوئی ۔
اخبار میں توہین آمیز مضمون \ اس کے بارے میں بہت سی باتیں سنی گئی ہیں۔ لیکن شیطان پہلوی حکومت کے ایجنٹوں کے دستاویزات اور اعترافات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ شاہ نے اس کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صحافتی حلقے اسے اس وقت کے وزیر اطلاعات دریوش ہمایوں سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں: مضمون کی ابتدا وزارت عدالت سے ہوئی۔ یہ درست ہے کہ شاہ کو مضمون کا ابتدائی بیان پسند نہیں آیا اور کہا کہ اسے تیز تر ہونا چاہیے۔
== بغاوت کے شعلے ==
روزنامہ اخبار میں موہن کے مضمون کی اشاعت کے خلاف پہلی احتجاجی تحریک قم کے پادریوں اور عوام نے اس کی اشاعت کے اگلے دن 18 جنوری کو قائم کی تھی۔ اس دن قم کے علاقے کی کلاسیں بند رہیں اور حکام نے بھی اپنی کلاسیں بند کر دیں۔ اس کے بعد قم کا بازار بھی اس علاقے میں شامل ہو گیا اور لوگ علماء و مشائخ کے ساتھ مذہبی لوگوں کے گھر گئے اور اس گستاخی کے خلاف کارروائی کے لیے آمادگی کا اعلان کیا۔ اپنے الفاظ سے عوام اور پادریوں کو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ اس توہین آمیز اقدام پر حکمرانی کے نظام کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ حکام نے جدوجہد اور احتجاج کو جاری رکھنے پر زور دیا۔
== آیت اللہ گلپائیگانی سے ملاقات ==
18 جنوری کی صبح لوگ اور علماء آیت اللہ گولپائیگانی کے گھر کی طرف بڑھے۔ بہت جلد اس کے گھر کے اندرونی اور بیرونی علاقے لوگوں سے بھر گئے۔ وہ اداس اور افسردہ چہرے کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ ’’انّا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ کی آیت پڑھنے کے بعد لوگوں کا غصہ پھٹ جاتا ہے اور ہر طرف سے رونے کی آواز آتی ہے۔ آیت اللہ گولپائیگانی نے مزید کہا کہ وہ غلط ہیں؛ وہ یہ نہ سوچیں کہ ہم خاموش ہیں اور ہم کچھ نہیں کہیں گے اور ہم ہار جائیں گے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ نیزہ بھی ہمارے گلے میں ڈال دیں گے تو ہم اپنی بات کہہ دیں گے۔
== علماء کرام سے ملاقات ==
29 محرم 1398 ہجری مطابق 19 جنوری 1356 کی صبح مسجد قم کی حمایت اور حکومت کے اقدامات کی مذمت اور مساجد کے اسباق کی بندش کے سلسلہ میں قم کے بازار کی بندش کے ساتھ ایک بڑا ہجوم جمع ہوا۔ گرینڈ مسجد. زائرین کے گھروں میں جانا بعد میں آیا اور آیت اللہ مرزا ہاشم آملی، علامہ طباطبائی، آیت اللہ واحد خراسانی اور آیت اللہ مکارم شیرازی نے لوگوں سے خطاب کیا اور امام خمینی کی حمایت کی۔
== خاموش چیخیں ==
آیت اللہ نوری ہمدانی نے 19 جنوری 56 کی شام کو ایک تقریر کی۔ اس کے کہنے کے بعد لوگ خاموشی سے آیت اللہ مشکینی کے گھر کی طرف چل پڑے۔ 10 حکام کے مشورے کے مطابق لوگ آہستہ آہستہ مارچ کر رہے تھے۔ بعد میں مذہبی مقررین نے اس خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا، اس نے ایسے لوگوں پر گولیاں کیوں برسائیں جنہیں نعرہ تک نہیں آتا۔
== تنازعہ کا آغاز ==
19 دسمبر کی شام تقریباً 16:30 بجے پولیس اور ساواک کے افسران جنہوں نے ایک فرضی پروگرام کے تحت قم کے ایک چوک میں لوگوں کا راستہ روکا تھا، بنک کی کھڑکی توڑ کر ان بے دفاع لوگوں پر گولی چلا دی جنہیں خبر تک نہیں تھی۔ نعرہ جن لوگوں کے دلوں میں کوئی خوف نہیں تھا، انہوں نے لاٹھیوں اور پتھروں سے تیروں اور گولیوں کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ پہلے شہید کو دیکھ کر حکومت کے تئیں لوگوں کا غصہ اور نفرت بڑھ گئی اور ان کے دلوں سے خوف و دہشت ختم ہو گئی۔ ہجوم نے اداس غروب آفتاب
19 جنوری کی شام سرخ اور گلابی تھی اور شہر کی فضا اداسی اور بے گھری سے بھری ہوئی تھی۔ ہر طرف پولیس اہلکاروں کی بھرمار تھی اور لوگ بکھرے پڑے تھے۔ تصادم کے علاقے میں صرف ایک ہی چیز دیکھی جا سکتی تھی وہ لباس، پگڑیاں اور جوتے جو علماء اور لوگوں نے چھوڑے تھے اور خون سے رنگے ہوئے تھے۔ لوگ آس پاس کی سڑکوں پر نکلے اور یہ نعرہ لگایا: ہم نے اپنی جان دی، ہم نے اپنے خون سے لکھا، یا موت یا خمینی؛ اس اداس دن کے اختتام پر، اس خوبصورت نعرے نے اپنے محبوب قائد کے لیے عوام کی لامحدود محبت کو ظاہر کیا۔
== زخمی اور شہید ==
19 جنوری کی بغاوت کے زخمیوں اور شہداء کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں۔ جیسا کہ عینی شاہدین کے بیانات اور تحریروں سے سمجھا جا سکتا ہے، بہت سے زخمی ساواک کے خوف سے ہسپتال نہیں گئے۔ کیونکہ اس وقت ساواک نے زخمی مظاہرین کو ہسپتال کے بستر پر جکڑ دیا تھا تاکہ انہیں صحت یابی کے بعد ساواک منتقل کیا جائے۔ شہداء کے بارے میں اس دن یقینی طور پر شہید ہونے والے چند لوگوں کے علاوہ کسی اور شہید کا ذکر نہیں کیا گیا۔
البتہ یہ امکان کہ شہداء کے بعض خاندانوں نے ساواک کے خوف سے اپنے شہداء کو چپکے سے دفن کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تاہم صرف پانچ شہداء کے نام درج ہوئے ہیں جن میں سے تین طالب علم ہیں، ایک نوجوان اور دوسرا تیرہ سالہ نوجوان ہے۔
== تمام طبقات کی موجودگی ==
19 دسمبر کی بغاوت کی خاص خصوصیت تمام طبقات کی شرکت اور تعاون تھی۔ ہمیشہ کی طرح، یہ بغاوت پادریوں کی قیادت نے تشکیل دی تھی، لیکن اگر یہ عوامی حمایت اور پادریوں کی شمولیت کے لیے نہ ہوتی تو اسے فتح حاصل نہ ہوتی۔ علمائے کرام کی جانب سے مدرسے کی کلاسیں بند کرنے کے بعد مختلف طبقوں کے لوگ ان میں شامل ہو گئے۔ قم بازار بند کر کے بازار والوں نے حکومت کے اقدامات کے خلاف احتجاج میں اہم کردار ادا کیا۔ لوگوں نے بھی نوجوانوں کی پیروی کی اور امام خمینی اور پادریوں کی حمایت میں علماء اور طلباء کے ساتھ شامل ہوئے۔
== پریس اور میڈیا کا ردعمل ==
اس وقت کے پریس اور میڈیا نے 19 دسمبر کے کیس کو بہت مختصر کیا اور اس کی تذلیل کی۔ انہوں نے بغاوت کو کم کرنے کی کوشش کی اور یہ دکھاوا کیا کہ کچھ نہیں ہوا۔ نیز مارچ میں موجود لوگوں کو جانے پہچانے لوگوں کا جتھا کہا گیا جو ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے تھے۔ \ لیکن اس کے بعد انہوں نے سرخیوں کا سہارا لیا جیسے:  بہرحال اس بغاوت نے انقلاب کے عمل پر بہت زیادہ اثر ڈالا اور خبروں کی سنسر شپ اور ذلت اس بغاوت کو نہ روک سکی اور اس کی خبریں پورے ملک میں پھیلائیں۔ پریس اور میڈیا کا ردعمل
اس وقت کے پریس اور میڈیا نے 19 دسمبر کے کیس کو بہت مختصر کیا اور اس کی تذلیل کی۔ انہوں نے بغاوت کو کم کرنے کی کوشش کی اور یہ دکھاوا کیا کہ کچھ نہیں ہوا۔ نیز مارچ میں موجود لوگوں کو جانے پہچانے لوگوں کا جتھا کہا گیا جو ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے تھے۔ قم کے فساد کو دبانا بغاوت کے بارے میں میڈیا میں استعمال ہونے والی تشریح تھی۔
لیکن اس کے بعد انہوں نے سرخیوں کا سہارا لیا جیسے: قم کے مظاہرے خاک و خون میں ڈھل گئے اور اس سے ظاہر ہوا کہ میڈیا میں امام خمینی اور انقلاب کے حق میں واضح خیالات موجود ہیں۔ بہرصورت اس بغاوت نے انقلاب کے عمل پر بہت زیادہ اثر ڈالا اور خبروں کے سنسر اور گستاخیاں اس بغاوت کو روکنے اور اس کی خبروں کو پورے ملک میں پھیلانے سے نہ روک سکے۔
== کلام رہبری ==
19ویں واقعہ میں ہی سبق ہیں۔ میں نے اکثر قم کے عزیزوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں ان میں سے بعض واقعات کا تذکرہ کیا ہے، لیکن اگر کوئی اس واقعہ پر ایک جامع نظر ڈالے تو وہ سمجھے گا کہ یہ بڑا عجیب واقعہ ہے۔ یہ واقعہ عبرت پر مشتمل ہے۔ کیس اس طرح شروع ہوتا ہے؛ ایک مضحکہ خیز مضمون جس کا خود عدالت نے حکم دیا؛ یعنی طاغوت کی حکومت کے اتار چڑھاؤ کے حکم کے مطابق یہ ان مڈل اور ان نیچوں کا کام نہیں تھا۔
اوپر سے یہ امام کے خلاف شائع ہوا ہے اور اس میں عزاداری امام کی توہین ہے جو جلاوطن تھے اور نجف میں تھے اور جن کا بیٹا ابھی شہید ہوا تھا۔ لوگوں نے اس محترم و محترم فرزند کی رحلت کی وجہ سے امام عالی مقام سے ہمدردی کا اظہار کیا - حاج آغا مصطفی واقعی ایک باکمال انسان تھے - انہوں نے دیکھا کہ انہیں کچھ کرنا ہے لیکن انہوں نے حماقت سے کام لیا، اپنے لئے مسئلہ پیدا کیا اور آکر شائع کیا۔
یہ مضمون. تو اللہ نے ان پر الزام لگایا جہاں سے اسے حشر کی امید نہیں تھی۔ انہیں وہیں سے تھپڑ مارا گیا جہاں سے انہیں توقع نہیں تھی۔ خیر، اب مضمون شائع ہوا ہے۔ عموماً یہ اخبار دوپہر دو بجے کے قریب شائع ہوتا تھا، مثال کے طور پر تہران سے قم پہنچنے میں دو گھنٹے لگتے تھے۔ یہ کس کا ہے؟ 17 دسمبر کو جیسے ہی یہ اخبار قم میں پہنچا اور لوگوں نے دیکھا اور دیکھا کہ یہ کچھ ایسا ہی ہے۔
کچھ لوگ باہر نکل آئے۔ یعنی کیس 17 دسمبر سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے فوری ردعمل کا اظہار کیا، وہ گلیوں میں نکل آئے، اس اخبار کے کچھ شمارے لیے، انہیں آگ لگا دی، اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ یہ 17 واں دن ہے۔ 18 تاریخ کی صبح طلباء کی باری ہے۔ انہوں نے سبق اور بحث بند کر دی، وہ ایک گروپ میں گلی میں آئے اور گاہکوں کے گھر کی طرف بڑھے۔ طلبہ کی یہ تحریک رات گئے تک جاری رہی اور اس ایک دن میں کئی بار حکومت کی فوج اور ایجنٹوں کے ساتھ جھڑپیں اور جھڑپیں ہوئیں۔ 19 دسمبر کو، جو واقعہ کا مرکزی دن ہے۔
لوگ چوک میں داخل ہوئے۔ نوجوان آئے، بازار کے لوگ آئے، عام لوگ آئے، سب آئے۔ طاغوت کا آلہ کار لوگوں پر ظلم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ وہ بھی میدان میں داخل ہوئے، بہت سے لوگوں کو شہید کیا، بہت سے لوگوں کو زخمی کیا، کچھ لوگوں کو مارا پیٹا، آخر کار اس دن کا واقعہ شہادت وغیرہ پر ختم ہوا، لیکن حقیقت میں یہ ختم نہیں ہوا، شروع ہو گیا۔ یہ شروعات تھی۔
== 19 جنوری کی بغاوت کے اثرات اور نتائج ==
19 جنوری کی بغاوت شہداء کے ظلم اور پادریوں اور عوام کی تحریک کی وجہ سے ہوئی۔ امام کے پیغام نے قوم کے زخمی جسم میں ایک نئی روح پھونک دی اور انقلاب نے ایک نیا گیت اور رفتار حاصل کی۔ طاغوت کے خلاف جدوجہد نے ہمہ گیر شکل اختیار کر لی اور تحریک کی رگوں میں نیا خون ابلنے لگا۔ 19 جنوری کو ہونے والی بغاوت کے بعد یہ تحریک دوسرے شہروں تک پھیل گئی اور چالیس کی دہائی کی کہانی بن گئی۔
تبریز، یزد، جہروم، تہران، مشہد اور ملک کے دیگر شہروں میں شہداء کی یاد میں خونریز بغاوتیں دیکھنے میں آئیں۔ سب سے پہلے تبریز کو قم کے شہدا کی 40ویں برسی میں تباہ کیا گیا اور اس کے بعد دیگر شہروں نے اسی طرح لازوال داستانوں کا مشاہدہ کیا۔ چالیس کی دہائی کی کہانی نے تحریک کو عملی جامہ پہنایا اور امام خمینی کی واپسی سے یہ انقلاب اسلامی کی فتح کا باعث بنا۔ 19 جنوری امام کی قیادت میں لوگوں کی اسلامی تحریک میں ایک اہم موڑ تھا جس نے انقلاب کی مشعل کو جلایا اور طاغوت حکومت کے خلاف فتح حاصل کی۔
== طاغوت کے نظام پر بغاوت کے اثرات ==
19 جنوری کو عوامی بغاوت سے قبل سامراجی حکومت نے جدوجہد اور عوامی غصے اور طاغوت کی حکومت سے نفرت کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ تحریک کے پھیلاؤ اور پے در پے بغاوتوں نے محل کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں اور شاہی جبر کی بھڑک اٹھی اور نظام کو احساس ہوا کہ اسے تباہی کا شدید خطرہ ہے۔ اس لیے اس نے جدوجہد اور بغاوتوں کو دبانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت استعمال کی۔
لیکن وہ اس کام میں کامیاب نہ ہو سکا۔ کیونکہ شہداء کا خون اور امام نے قوم میں جو جذبہ پھونک دیا تھا وہ اپنا کام کرچکا ہے اور کوئی رکاوٹ تحریک کے گرجتے سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ حکومت اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آئی اور علماء اور عوام نے امام کی قیادت میں اور خدا پر توکل کرتے ہوئے حکومت کا مقابلہ کیا۔
== نئی نسل کی ذمہ داریاں ==
آج نئی نسل کے پاس بہت بھاری اور اہم مشن اور فرض ہے۔ اس نسل نے طاغوت کے خلاف جدوجہد اور جہاد کے دور کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دفاع مقدس کے آٹھ سالوں میں ایثار و قربانی کے خوبصورت ترین مظاہر بھی تخلیق کیے اور اس کے علاوہ اس نے طاغوت کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری بھی ادا کی۔
اسلامی حکومت کے آغاز سے ہی نظام کے انتظامی امور۔ 19 جنوری کی بغاوت اور انقلاب کی فتح کا باعث بننے والے جنگی جذبے اور تحریکوں اور عقائد کو آج کی نسل اور تیسری نسل کے نوجوانوں تک منتقل کرنا 19 جنوری کی نسل کا بنیادی اور اہم فریضہ ہے۔ . بلاشبہ اسلامی نظام کی مستقبل کی بقا کا دارومدار انقلاب کی شاندار ماضی کی تاریخ کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے پر ہے۔
== فتح کی خوشخبری ==
19 دسمبر انقلاب کے دنوں میں نیلے آسمان پر سورج کی طرح چمکتا ہے۔ وہ سورج جس نے سردی کے موسم میں تحریک کو گرم جوشی بخشی اور دلوں میں فتح کی امید کو زندہ کیا۔ اس مہینے کی 19 تاریخ کو فتح انقلاب کے سوکھے ہونٹوں پر تھی۔ تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ محرم کے مہینے میں \ انقلاب کا سرخ درخت اُگ آیا اور آزادی و آزادی کے پھول ہرے بھرے ہوئے بہمن 57 میں جنم لینے لگے۔ ہم 19 جنوری کی بغاوت کے مظلوم شہداء اور تمام شہدائے اسلام اور انقلاب کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی پاکیزہ روحوں کو تہہ دل سے سلام پیش کرتے ہیں۔

نسخہ بمطابق 15:23، 6 جنوری 2025ء

قیام مردمی 19 دی.jpg

19 دی کا قیام 1356 کو رونما ہونے والا 19 جنوری کی بغاوت اس عظیم اور شاندار حماسہ کی یاد دہانی ہے جس نے انقلاب اسلامی کی سنہری کتاب میں ایک اور صفحہ کو نشان زد کیا۔ 19 جنوری قم کے عوام کی خونریز بغاوت کا دن ہے۔ اسی دن جب ظلم و جبر کے اندھیروں میں دلوں کو روشنی کی طرف راغب کیا اور انقلاب کے عمل کو اس طرح ڈھالا کہ مختصر مدت میں دو ہزار پانچ سو سالہ شاہنشاہی نظام کا طومار لپیٹ میں آگیا۔ اس مضمون میں اس دن کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔

قم، قیام اور انقلاب کا مرکز

انقلاب کی تاریخ میں مقدس شہر قم کو ہمیشہ شاہی جبر کے نظام کے خلاف بغاوت اور جدوجہد کا مرکزی مرکز اور منتظم سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس شہر میں حوزہ علمیہ اور مرکزی علماء کی موجودگی نے بھی اس مسئلے پر خاصا اثر ڈالا۔ جدوجہد کا آغاز اور اس کی تشکیل نیز امام خمینی کے ہاتھوں عوام کی قیادت اسی شہر میں ہوئی۔ 15 جون 1342 کو ہونے والی بغاوت کے بعد قم کا نام جدوجہد کے مرکزی مرکز اور رہنما کے طور پر مشہور ہوا اور چودہ سال بعد 19 جنوری 1356 کو بغاوت ہوئی۔ جس کو انقلاب کی چنگاری کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے، اس بغاوت اور قیام کا دائرہ وسیع ہونے کا سبب بنا[1]۔

مقام رہبری کی نگاہ میں شہر قم کا مقام

آیت اللہ سید علی خامنہ ای انقلاب اسلامی کی فتح میں قم شہر کے مقام کے بارے میں فرماتے ہیں:"عمارت جتنی بڑی، بھاری اور پائیدار ہوگی، اس کی بنیادیں اتنی ہی مضبوط اور ناقابل تنسخیر ہوں گی۔ اگر ہم 1956 میں شروع ہونے والی ایرانی قوم کی جدوجہد کو ایک بلند اور مضبوط عمارت سے تشبیہ دیں تو اس مضبوط عمارت کی مضبوط، ناقابل تسخیر اور پائیدار بنیادیں قم میں رکھی گئیں۔ قم اسلام کے لیے ایک خدائی ذخیرہ تھا[2]۔

بغاوت کی چنگاری

17 جنوری 1356 کو ایک مضمون بعنوان استعمار سرخ و سیاه (سرخ اور سیاہ کالونائزیشن) شائع ہوا۔ کشف حجاب کی سالگرہ کے موقع پر شائع ہونے والے اس مضمون کے مصنف نے امام خمینی کی توہین کی تھی۔ اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ شاہنشاہی حکومت کے کارندوں نے امام کی توہین کی ہو اور اس بار بھی واضح طور پر توہین نہیں کی گئی لیکن مقدس شہر قم میں ایک چنگاری پڑی جو ایک خونی اور تاریخ ساز میں بغاوت بدل گئی۔ اس مضمون نے لوگوں کے اپنے لیڈر اور رہبر کے بارے میں جذبات کو ابھارا جو جلاوطن تھا اور عوام میں غصہ اور نظام کے خلاف بیزاری پیدا کی [3]

شہادت سید مصطفی خمینی

جن عوامل نے 19 جنوری کی بغاوت کی تشکیل اور انقلاب کی تشکیل کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے ایک امام خمینی کے فرزند کی شہادت تھی۔ سید مصطفی خمینی کی شہادت نے لوگوں میں طاغوت کی حکومت کے خلاف نفرت کی لہر کو جنم دیا۔ کیونکہ عوام شہید مصطفی کی شہادت کا ذمہ دار شاہ اور شاہ حکومت کو سمجھتی تھی۔ اسی وجہ سے آغا مصطفی کے فاتحہ خوانی اور مجلس ترحیم، نظام کے خلاف جدوجہد اور امام کی حمایت کے مناظر بن گئے۔

انہی مجالس میں لوگوں نے انہیں اپنے قائد کی جدوجہد اور مصائب کے اعتراف میں ان کو "امام" کا لقب دیا۔ ان دنوں امام کے پیغامات اور کلمات نے انقلاب کے شعلوں کو مزید بھڑکایا اور لوگوں کو بیدار کیا۔ نظام، جو کہ لوگوں کے اپنے قائد کی طرف جانے کی وجہ سے مشتعل ہو گئے تھے، نے عجلت میں کارروائی کی اور توہین آمیز مضمون شائع کر کے امام کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس عمل کی وجہ سے نظام کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور جور کی حکومت کے خلاف زبردست بغاوت تبدیل ہو گئی [4]

اخبار میں توہین آمیز مضمون

اخبار میں توہین آمیز مضمون "ارتجاع سرخ و سیاه" جس نے عوام میں غصہ اور نفرت کو بھڑکایا اس مضمون کا لکھنے والا احمد رشیدی مطلق نامی تھا۔ اس کے بارے میں بہت سی باتیں سنی گئی ہیں۔ لیکن پہلوی حکومت کے ایجنٹوں کے دستاویزات اور اعترافات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ شاہ نے اس کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صحافتی حلقے اسے اس وقت کے وزیر اطلاعات دریوش ہمایوں سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں: مضمون کی ابتدا دربار کی وزارت سے ہوئی۔ یہ درست ہے کہ شاہ کو مضمون کا ابتدائی بیان پسند نہیں آیا اور کہا کہ اسے تیز تر ہونا چاہیے۔

بغاوت کی چنگاری

17 جنوری 1356 کو ایک مضمون بعنوان ’’سرخ اور سیاہ کالونائزیشن‘‘ شائع ہوا۔ حجاب کی دریافت کی سالگرہ کے موقع پر شائع ہونے والے اس مضمون کے مصنف نے امام خمینی کی توہین کی تھی۔ اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ سامراجی حکومت کے کارندوں نے امام کی توہین کی ہو اور اس بار بھی واضح طور پر توہین نہیں کی گئی لیکن مقدس شہر قم میں ایک چنگاری پڑی جو ایک خونی اور تاریخ ساز میں بدل گئی۔ بغاوت اس مضمون نے لوگوں کے اپنے لیڈر اور لیڈر کے بارے میں جذبات اور جذبات کو ابھارا - جو جلاوطنی میں ہے - اور عوام میں غصہ اور نظام کے خلاف بیزاری پیدا کی^3]۔

جن عوامل نے 19 جنوری کی بغاوت کی تشکیل اور انقلاب کی تشکیل کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں سے ایک امام خمینی کے قیمتی فرزند کی شہادت تھی۔ سید مصطفی خمینی کی شہادت نے لوگوں میں طاغوت کی حکومت کے خلاف نفرت اور نفرت کی لہر کو جنم دیا۔ کیونکہ وہ اسے نظام کی طرف سے اور بادشاہ کے حکم پر عمل سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے حج آغا مصطفی کے مقدس اجتماعات نظام کے خلاف جدوجہد اور امام کی حمایت کے مناظر بن گئے۔

انہی حلقوں میں لوگوں نے انہیں اپنے قائد کی جدوجہد اور مصائب کے اعتراف میں \ ان دنوں امام کے پیغامات اور کلام نے انقلاب کے شعلوں کو مزید بھڑکایا اور لوگوں کو بیدار کیا۔ نظام، جو کہ لوگوں کے اپنے قائد کی طرف جانے کی وجہ سے مشتعل ہو گئے تھے، نے عجلت میں کارروائی کی اور توہین آمیز مضمون شائع کر کے امام کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس عمل کی وجہ سے نظام کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور جور کی حکومت کے خلاف زبردست بغاوت ہوئی ۔


اخبار میں توہین آمیز مضمون \ اس کے بارے میں بہت سی باتیں سنی گئی ہیں۔ لیکن شیطان پہلوی حکومت کے ایجنٹوں کے دستاویزات اور اعترافات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ شاہ نے اس کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صحافتی حلقے اسے اس وقت کے وزیر اطلاعات دریوش ہمایوں سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں: مضمون کی ابتدا وزارت عدالت سے ہوئی۔ یہ درست ہے کہ شاہ کو مضمون کا ابتدائی بیان پسند نہیں آیا اور کہا کہ اسے تیز تر ہونا چاہیے۔


بغاوت کے شعلے

روزنامہ اخبار میں موہن کے مضمون کی اشاعت کے خلاف پہلی احتجاجی تحریک قم کے پادریوں اور عوام نے اس کی اشاعت کے اگلے دن 18 جنوری کو قائم کی تھی۔ اس دن قم کے علاقے کی کلاسیں بند رہیں اور حکام نے بھی اپنی کلاسیں بند کر دیں۔ اس کے بعد قم کا بازار بھی اس علاقے میں شامل ہو گیا اور لوگ علماء و مشائخ کے ساتھ مذہبی لوگوں کے گھر گئے اور اس گستاخی کے خلاف کارروائی کے لیے آمادگی کا اعلان کیا۔ اپنے الفاظ سے عوام اور پادریوں کو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ اس توہین آمیز اقدام پر حکمرانی کے نظام کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ حکام نے جدوجہد اور احتجاج کو جاری رکھنے پر زور دیا۔

آیت اللہ گلپائیگانی سے ملاقات

18 جنوری کی صبح لوگ اور علماء آیت اللہ گولپائیگانی کے گھر کی طرف بڑھے۔ بہت جلد اس کے گھر کے اندرونی اور بیرونی علاقے لوگوں سے بھر گئے۔ وہ اداس اور افسردہ چہرے کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ ’’انّا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ کی آیت پڑھنے کے بعد لوگوں کا غصہ پھٹ جاتا ہے اور ہر طرف سے رونے کی آواز آتی ہے۔ آیت اللہ گولپائیگانی نے مزید کہا کہ وہ غلط ہیں؛ وہ یہ نہ سوچیں کہ ہم خاموش ہیں اور ہم کچھ نہیں کہیں گے اور ہم ہار جائیں گے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ نیزہ بھی ہمارے گلے میں ڈال دیں گے تو ہم اپنی بات کہہ دیں گے۔


علماء کرام سے ملاقات

29 محرم 1398 ہجری مطابق 19 جنوری 1356 کی صبح مسجد قم کی حمایت اور حکومت کے اقدامات کی مذمت اور مساجد کے اسباق کی بندش کے سلسلہ میں قم کے بازار کی بندش کے ساتھ ایک بڑا ہجوم جمع ہوا۔ گرینڈ مسجد. زائرین کے گھروں میں جانا بعد میں آیا اور آیت اللہ مرزا ہاشم آملی، علامہ طباطبائی، آیت اللہ واحد خراسانی اور آیت اللہ مکارم شیرازی نے لوگوں سے خطاب کیا اور امام خمینی کی حمایت کی۔

خاموش چیخیں

آیت اللہ نوری ہمدانی نے 19 جنوری 56 کی شام کو ایک تقریر کی۔ اس کے کہنے کے بعد لوگ خاموشی سے آیت اللہ مشکینی کے گھر کی طرف چل پڑے۔ 10 حکام کے مشورے کے مطابق لوگ آہستہ آہستہ مارچ کر رہے تھے۔ بعد میں مذہبی مقررین نے اس خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا، اس نے ایسے لوگوں پر گولیاں کیوں برسائیں جنہیں نعرہ تک نہیں آتا۔

تنازعہ کا آغاز

19 دسمبر کی شام تقریباً 16:30 بجے پولیس اور ساواک کے افسران جنہوں نے ایک فرضی پروگرام کے تحت قم کے ایک چوک میں لوگوں کا راستہ روکا تھا، بنک کی کھڑکی توڑ کر ان بے دفاع لوگوں پر گولی چلا دی جنہیں خبر تک نہیں تھی۔ نعرہ جن لوگوں کے دلوں میں کوئی خوف نہیں تھا، انہوں نے لاٹھیوں اور پتھروں سے تیروں اور گولیوں کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ پہلے شہید کو دیکھ کر حکومت کے تئیں لوگوں کا غصہ اور نفرت بڑھ گئی اور ان کے دلوں سے خوف و دہشت ختم ہو گئی۔ ہجوم نے اداس غروب آفتاب

19 جنوری کی شام سرخ اور گلابی تھی اور شہر کی فضا اداسی اور بے گھری سے بھری ہوئی تھی۔ ہر طرف پولیس اہلکاروں کی بھرمار تھی اور لوگ بکھرے پڑے تھے۔ تصادم کے علاقے میں صرف ایک ہی چیز دیکھی جا سکتی تھی وہ لباس، پگڑیاں اور جوتے جو علماء اور لوگوں نے چھوڑے تھے اور خون سے رنگے ہوئے تھے۔ لوگ آس پاس کی سڑکوں پر نکلے اور یہ نعرہ لگایا: ہم نے اپنی جان دی، ہم نے اپنے خون سے لکھا، یا موت یا خمینی؛ اس اداس دن کے اختتام پر، اس خوبصورت نعرے نے اپنے محبوب قائد کے لیے عوام کی لامحدود محبت کو ظاہر کیا۔

زخمی اور شہید

19 جنوری کی بغاوت کے زخمیوں اور شہداء کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں۔ جیسا کہ عینی شاہدین کے بیانات اور تحریروں سے سمجھا جا سکتا ہے، بہت سے زخمی ساواک کے خوف سے ہسپتال نہیں گئے۔ کیونکہ اس وقت ساواک نے زخمی مظاہرین کو ہسپتال کے بستر پر جکڑ دیا تھا تاکہ انہیں صحت یابی کے بعد ساواک منتقل کیا جائے۔ شہداء کے بارے میں اس دن یقینی طور پر شہید ہونے والے چند لوگوں کے علاوہ کسی اور شہید کا ذکر نہیں کیا گیا۔

البتہ یہ امکان کہ شہداء کے بعض خاندانوں نے ساواک کے خوف سے اپنے شہداء کو چپکے سے دفن کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تاہم صرف پانچ شہداء کے نام درج ہوئے ہیں جن میں سے تین طالب علم ہیں، ایک نوجوان اور دوسرا تیرہ سالہ نوجوان ہے۔

تمام طبقات کی موجودگی

19 دسمبر کی بغاوت کی خاص خصوصیت تمام طبقات کی شرکت اور تعاون تھی۔ ہمیشہ کی طرح، یہ بغاوت پادریوں کی قیادت نے تشکیل دی تھی، لیکن اگر یہ عوامی حمایت اور پادریوں کی شمولیت کے لیے نہ ہوتی تو اسے فتح حاصل نہ ہوتی۔ علمائے کرام کی جانب سے مدرسے کی کلاسیں بند کرنے کے بعد مختلف طبقوں کے لوگ ان میں شامل ہو گئے۔ قم بازار بند کر کے بازار والوں نے حکومت کے اقدامات کے خلاف احتجاج میں اہم کردار ادا کیا۔ لوگوں نے بھی نوجوانوں کی پیروی کی اور امام خمینی اور پادریوں کی حمایت میں علماء اور طلباء کے ساتھ شامل ہوئے۔

پریس اور میڈیا کا ردعمل

اس وقت کے پریس اور میڈیا نے 19 دسمبر کے کیس کو بہت مختصر کیا اور اس کی تذلیل کی۔ انہوں نے بغاوت کو کم کرنے کی کوشش کی اور یہ دکھاوا کیا کہ کچھ نہیں ہوا۔ نیز مارچ میں موجود لوگوں کو جانے پہچانے لوگوں کا جتھا کہا گیا جو ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے تھے۔ \ لیکن اس کے بعد انہوں نے سرخیوں کا سہارا لیا جیسے: بہرحال اس بغاوت نے انقلاب کے عمل پر بہت زیادہ اثر ڈالا اور خبروں کی سنسر شپ اور ذلت اس بغاوت کو نہ روک سکی اور اس کی خبریں پورے ملک میں پھیلائیں۔ پریس اور میڈیا کا ردعمل

اس وقت کے پریس اور میڈیا نے 19 دسمبر کے کیس کو بہت مختصر کیا اور اس کی تذلیل کی۔ انہوں نے بغاوت کو کم کرنے کی کوشش کی اور یہ دکھاوا کیا کہ کچھ نہیں ہوا۔ نیز مارچ میں موجود لوگوں کو جانے پہچانے لوگوں کا جتھا کہا گیا جو ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے تھے۔ قم کے فساد کو دبانا بغاوت کے بارے میں میڈیا میں استعمال ہونے والی تشریح تھی۔

لیکن اس کے بعد انہوں نے سرخیوں کا سہارا لیا جیسے: قم کے مظاہرے خاک و خون میں ڈھل گئے اور اس سے ظاہر ہوا کہ میڈیا میں امام خمینی اور انقلاب کے حق میں واضح خیالات موجود ہیں۔ بہرصورت اس بغاوت نے انقلاب کے عمل پر بہت زیادہ اثر ڈالا اور خبروں کے سنسر اور گستاخیاں اس بغاوت کو روکنے اور اس کی خبروں کو پورے ملک میں پھیلانے سے نہ روک سکے۔


کلام رہبری

19ویں واقعہ میں ہی سبق ہیں۔ میں نے اکثر قم کے عزیزوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں ان میں سے بعض واقعات کا تذکرہ کیا ہے، لیکن اگر کوئی اس واقعہ پر ایک جامع نظر ڈالے تو وہ سمجھے گا کہ یہ بڑا عجیب واقعہ ہے۔ یہ واقعہ عبرت پر مشتمل ہے۔ کیس اس طرح شروع ہوتا ہے؛ ایک مضحکہ خیز مضمون جس کا خود عدالت نے حکم دیا؛ یعنی طاغوت کی حکومت کے اتار چڑھاؤ کے حکم کے مطابق یہ ان مڈل اور ان نیچوں کا کام نہیں تھا۔

اوپر سے یہ امام کے خلاف شائع ہوا ہے اور اس میں عزاداری امام کی توہین ہے جو جلاوطن تھے اور نجف میں تھے اور جن کا بیٹا ابھی شہید ہوا تھا۔ لوگوں نے اس محترم و محترم فرزند کی رحلت کی وجہ سے امام عالی مقام سے ہمدردی کا اظہار کیا - حاج آغا مصطفی واقعی ایک باکمال انسان تھے - انہوں نے دیکھا کہ انہیں کچھ کرنا ہے لیکن انہوں نے حماقت سے کام لیا، اپنے لئے مسئلہ پیدا کیا اور آکر شائع کیا۔

یہ مضمون. تو اللہ نے ان پر الزام لگایا جہاں سے اسے حشر کی امید نہیں تھی۔ انہیں وہیں سے تھپڑ مارا گیا جہاں سے انہیں توقع نہیں تھی۔ خیر، اب مضمون شائع ہوا ہے۔ عموماً یہ اخبار دوپہر دو بجے کے قریب شائع ہوتا تھا، مثال کے طور پر تہران سے قم پہنچنے میں دو گھنٹے لگتے تھے۔ یہ کس کا ہے؟ 17 دسمبر کو جیسے ہی یہ اخبار قم میں پہنچا اور لوگوں نے دیکھا اور دیکھا کہ یہ کچھ ایسا ہی ہے۔

کچھ لوگ باہر نکل آئے۔ یعنی کیس 17 دسمبر سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے فوری ردعمل کا اظہار کیا، وہ گلیوں میں نکل آئے، اس اخبار کے کچھ شمارے لیے، انہیں آگ لگا دی، اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ یہ 17 واں دن ہے۔ 18 تاریخ کی صبح طلباء کی باری ہے۔ انہوں نے سبق اور بحث بند کر دی، وہ ایک گروپ میں گلی میں آئے اور گاہکوں کے گھر کی طرف بڑھے۔ طلبہ کی یہ تحریک رات گئے تک جاری رہی اور اس ایک دن میں کئی بار حکومت کی فوج اور ایجنٹوں کے ساتھ جھڑپیں اور جھڑپیں ہوئیں۔ 19 دسمبر کو، جو واقعہ کا مرکزی دن ہے۔

لوگ چوک میں داخل ہوئے۔ نوجوان آئے، بازار کے لوگ آئے، عام لوگ آئے، سب آئے۔ طاغوت کا آلہ کار لوگوں پر ظلم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ وہ بھی میدان میں داخل ہوئے، بہت سے لوگوں کو شہید کیا، بہت سے لوگوں کو زخمی کیا، کچھ لوگوں کو مارا پیٹا، آخر کار اس دن کا واقعہ شہادت وغیرہ پر ختم ہوا، لیکن حقیقت میں یہ ختم نہیں ہوا، شروع ہو گیا۔ یہ شروعات تھی۔

19 جنوری کی بغاوت کے اثرات اور نتائج

19 جنوری کی بغاوت شہداء کے ظلم اور پادریوں اور عوام کی تحریک کی وجہ سے ہوئی۔ امام کے پیغام نے قوم کے زخمی جسم میں ایک نئی روح پھونک دی اور انقلاب نے ایک نیا گیت اور رفتار حاصل کی۔ طاغوت کے خلاف جدوجہد نے ہمہ گیر شکل اختیار کر لی اور تحریک کی رگوں میں نیا خون ابلنے لگا۔ 19 جنوری کو ہونے والی بغاوت کے بعد یہ تحریک دوسرے شہروں تک پھیل گئی اور چالیس کی دہائی کی کہانی بن گئی۔

تبریز، یزد، جہروم، تہران، مشہد اور ملک کے دیگر شہروں میں شہداء کی یاد میں خونریز بغاوتیں دیکھنے میں آئیں۔ سب سے پہلے تبریز کو قم کے شہدا کی 40ویں برسی میں تباہ کیا گیا اور اس کے بعد دیگر شہروں نے اسی طرح لازوال داستانوں کا مشاہدہ کیا۔ چالیس کی دہائی کی کہانی نے تحریک کو عملی جامہ پہنایا اور امام خمینی کی واپسی سے یہ انقلاب اسلامی کی فتح کا باعث بنا۔ 19 جنوری امام کی قیادت میں لوگوں کی اسلامی تحریک میں ایک اہم موڑ تھا جس نے انقلاب کی مشعل کو جلایا اور طاغوت حکومت کے خلاف فتح حاصل کی۔

طاغوت کے نظام پر بغاوت کے اثرات

19 جنوری کو عوامی بغاوت سے قبل سامراجی حکومت نے جدوجہد اور عوامی غصے اور طاغوت کی حکومت سے نفرت کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ تحریک کے پھیلاؤ اور پے در پے بغاوتوں نے محل کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں اور شاہی جبر کی بھڑک اٹھی اور نظام کو احساس ہوا کہ اسے تباہی کا شدید خطرہ ہے۔ اس لیے اس نے جدوجہد اور بغاوتوں کو دبانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت استعمال کی۔

لیکن وہ اس کام میں کامیاب نہ ہو سکا۔ کیونکہ شہداء کا خون اور امام نے قوم میں جو جذبہ پھونک دیا تھا وہ اپنا کام کرچکا ہے اور کوئی رکاوٹ تحریک کے گرجتے سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ حکومت اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آئی اور علماء اور عوام نے امام کی قیادت میں اور خدا پر توکل کرتے ہوئے حکومت کا مقابلہ کیا۔

نئی نسل کی ذمہ داریاں

آج نئی نسل کے پاس بہت بھاری اور اہم مشن اور فرض ہے۔ اس نسل نے طاغوت کے خلاف جدوجہد اور جہاد کے دور کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دفاع مقدس کے آٹھ سالوں میں ایثار و قربانی کے خوبصورت ترین مظاہر بھی تخلیق کیے اور اس کے علاوہ اس نے طاغوت کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری بھی ادا کی۔

اسلامی حکومت کے آغاز سے ہی نظام کے انتظامی امور۔ 19 جنوری کی بغاوت اور انقلاب کی فتح کا باعث بننے والے جنگی جذبے اور تحریکوں اور عقائد کو آج کی نسل اور تیسری نسل کے نوجوانوں تک منتقل کرنا 19 جنوری کی نسل کا بنیادی اور اہم فریضہ ہے۔ . بلاشبہ اسلامی نظام کی مستقبل کی بقا کا دارومدار انقلاب کی شاندار ماضی کی تاریخ کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے پر ہے۔

فتح کی خوشخبری

19 دسمبر انقلاب کے دنوں میں نیلے آسمان پر سورج کی طرح چمکتا ہے۔ وہ سورج جس نے سردی کے موسم میں تحریک کو گرم جوشی بخشی اور دلوں میں فتح کی امید کو زندہ کیا۔ اس مہینے کی 19 تاریخ کو فتح انقلاب کے سوکھے ہونٹوں پر تھی۔ تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ محرم کے مہینے میں \ انقلاب کا سرخ درخت اُگ آیا اور آزادی و آزادی کے پھول ہرے بھرے ہوئے بہمن 57 میں جنم لینے لگے۔ ہم 19 جنوری کی بغاوت کے مظلوم شہداء اور تمام شہدائے اسلام اور انقلاب کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی پاکیزہ روحوں کو تہہ دل سے سلام پیش کرتے ہیں۔

  1. هفته‌نامه نوزده دی، ویژه‌نامه 18 دی‌ماه 1379 ش، و حماسه نوزده دی، ص 23
  2. حدیث ولایت، ج 3، ص 126.
  3. هفته‌نامه نوزده دی ویژه‌نامه، 18 دی‌ماه 1379 ش.
  4. حماسه نوزده دی، ص 16.