"پاراچنار" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 11: سطر 11:
}}
}}


'''پاراچنار''' [[افغانستان]] کی سرحد کے قریب [[پاکستان]] کے خوبصورت علاقوں میں سے ایک ہے۔ پاراچنار علاقہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ہے جو کہ مشرق اور شمال مشرق میں ہنگو، اورکزئی اور خیبر کے شہروں اور جنوب مشرق میں شمالی وزیرستان سے ملحق ہے۔ پاراچنار کے جنوب میں صوبہ خوست، صوبہ پکتیا مغرب میں اور صوبہ ننگرہار کے شمال میں واقع ہیں۔ یہ سٹریٹجک اور سوق الجیشی علاقہ مغربی اداکاروں کے لیے بہت اہم اور اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کا فاصلہ سب سے کم ہے- دوسرے قبائلی علاقوں کے درمیان- کابل شہر سے، اور کمیونسٹ حکومتوں کی موجودگی کے دوران، مغربی علاقوں کا راستہ۔ اس راستے سے مجاہدین کو امداد ملتی تھی۔ بین الاقوامی تزویراتی اصطلاح میں پاراچنار - جو کہ کرم ایجنسی کا مرکز ہے- کو طوطے کی چونچ (Parrots Beak) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خطہ اسٹریٹجک ہے کیونکہ یہ واحد مسلح [[شیعہ]] خطہ ہے اور اس کی ناکامی کو پاکستان کے تمام شیعوں کی ناکامی سمجھا جاتا ہے اور یہ پاکستان کے شیعوں کے لیے بہت اہم ہے۔
'''پاراچنار''' [[افغانستان]] کی سرحد کے قریب [[پاکستان]] کے خوبصورت علاقوں میں سے ایک ہے۔ پاراچنار کا علاقہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ہے جو کہ مشرق اور شمال مشرق میں ہنگو، اورکزئی اور خیبر کے شہروں اور جنوب مشرق میں شمالی وزیرستان سے ملحق ہے۔ پاراچنار کے جنوب میں صوبہ خوست، صوبہ پکتیا مغرب میں اور صوبہ ننگرہار کے شمال میں واقع ہیں۔ یہ سٹریٹجک اور سوق الجیشی علاقہ مغربی اداکاروں کے لیے بہت اہم اور اہمیت کا حامل جگه ہے کیونکہ اس کا فاصلہ سب سے کم ہے- دوسرے قبائلی علاقوں کے درمیان- کابل شہر سے، اور کمیونسٹ حکومتوں کی موجودگی کے دوران، مغربی علاقوں کا راستہ۔ اس راستے سے مجاہدین کو امداد ملتی تھی۔ بین الاقوامی تزویراتی اصطلاح میں پاراچنار - جو کہ کرم ایجنسی کا مرکز ہے- کو طوطے کی چونچ (Parrots Beak) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خطہ اسٹریٹجک ہے کیونکہ یہ واحد مسلح [[شیعہ]] خطہ ہے اور اس جس  کی ناکامی کو پاکستان کے تمام شیعوں کی ناکامی سمجھا جاتا ہے اور یہ پاکستان کے شیعوں کے لیے بہت اہم ہے۔
== نام رکھنے کی وجہ ==
== نام رکھنے کی وجہ ==
بعض کا کہنا ہے کہ اس شہر کا نام اس علاقے میں درختوں کی کثرت وجہ سے رکھا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس کا نام "پارا"  قبیلہ سے لیا گیا ہے۔ اس شہر کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے لیے کرم کے علاقے کی تاریخ کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ وادی کرم کا گذرگاہ ایک آسان ترین راستہ رہا ہے جس سے آریائی قبائل 2000-4000 قبل مسیح میں ہندوستان میں اپنی عظیم ہجرت کے دوران گزرے تھے۔ 5ویں-7ویں صدی میں کرم عالیہ کے علاقے کا دورہ کرنے والے بدھ چینی راہبوں کے مطابق، اس علاقے کے لوگوں نے بدھ مت مذہب کو قبول کیا تھا۔
بعض کا کہنا ہے کہ اس شہر کا نام اس علاقے میں درختوں کی کثرت کی وجہ سے رکھا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس کا نام "پارا"  قبیلہ سے لیا گیا ہے۔ اس شہر کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے لیے کُرم کے علاقے کی تاریخ کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ وادی کرم کا گذرگاہ ایک آسان ترین راستہ رہا ہے جس سے آریائی قبائل 2000-4000 قبل مسیح میں ہندوستان میں اپنی عظیم ہجرت کے دوران گزرے تھے۔ 5ویں-7ویں صدی میں کرم عالیہ کے علاقے کا دورہ کرنے والے بدھ چینی راہبوں کے مطابق، اس علاقے کے لوگوں نے بدھ مت مذہب کو قبول کیا تھا۔
== پاراچنار کا پس منظر ==
== پاراچنار کا پس منظر ==
ایک سیاسی تقسیم میں پاکستان کی سرحدی ریاست کئی ایجنسیوں میں تقسیم ہے۔ پاراچنار شہر دراصل شمال مغربی سرحدی ریاست کی ایک ایجنسی کا مرکز ہے جسے کرم ایجنسی کہا جاتا ہے، اور یہ پاکستان کے پشتونستان علاقے کا بھی ایک حصہ ہے، جو پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے جس میں سبز وادیوں، آبشاروں، سرچشموں اور دیودار اور پودے کے جنگلات اور پھل دار باغات اور زرخیز زرعی زمینیں بند ہیں۔  
ایک سیاسی تقسیم میں پاکستان کی سرحدی ریاست، کئی ایجنسیوں میں تقسیم ہوی  ہے۔ پاراچنار شہر دراصل شمال مغربی سرحدی ریاست کی ایک ایجنسی کا مرکز ہے جسے کرم ایجنسی کہا جاتا ہے، اور یہ پاکستان کے پشتونستان علاقے کا بھی ایک حصہ ہے، جو پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے جس میں سبز وادیوں، آبشاروں، سرچشموں اور دیودار اور پودے کے جنگلات اور پھل دار باغات اور زرخیز زرعی زمینیں بند ہیں۔  


انگریزوں کے زمانے سے اپنے سنہری رنگ کے لیے مشہور سیب گولڈن ڈشز مشہور ہیں۔ پاراچنار نام کی وجہ پرانے چنار کے درختوں کی موجودگی یا اس علاقے میں ایک بڑے چنار کے آس پاس پارا یا پارہ قبیلے کی رہائش کو قرار دیا جاتا ہے۔
انگریزوں کے زمانے سے اپنے سنہری رنگ کے لیے مشہور سیب گولڈن ڈشز مشہور ہیں۔ پاراچنار نام رکھنے کی وجہ، پرانے چنار کے درختوں کی موجودگی یا اس علاقے میں ایک بڑے چنار کے آس پاس پارا یا پارہ قبیلے کی رہائش کو قرار دیا جاتا ہے۔
کرم ایجنسی دو شمالی اور جنوبی حصوں پر مشتمل ہے۔ شمال میں اکثریت [[شیعہ]] اور جنوب میں اکثریت [[اہل السنۃ والجماعت|سنیوں]] کی ہے۔ ایجنسی افغانستان کی سرحد پر واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباً 10 لاکھ افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 60% شیعہ ہیں۔ جو زیادہ تر پاراچنار اور اس کے گردونواح میں رہائیش پذیر ہیں۔ ایدی زئی، دوئیل زئی، غنڈی خیل، مستوخیل، حمزہ خیل، منگل، مستب، درزداران منٹواں، وازئی، حاجی غلزئی، لسانی اور پارہ قبائل اس علاقے میں رہتے ہیں۔۔
کرم ایجنسی دو شمالی اور جنوبی حصوں پر مشتمل ہے۔ شمال میں اکثریت [[شیعہ]] اور جنوب میں اکثریت [[اہل السنۃ والجماعت|سنیوں]] کی ہے۔ ایجنسی افغانستان کی سرحد پر واقع ہے اور اس کی آبادی تقریباً 10 لاکھ افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 60% شیعہ ہیں۔ جو زیادہ تر پاراچنار اور اس کے گردونواح میں رہائیش پذیر ہیں۔ ایدی زئی، دوئیل زئی، غنڈی خیل، مستوخیل، حمزہ خیل، منگل، مستب، درزداران منٹواں، وازئی، حاجی غلزئی، لسانی اور پارہ قبائل اس علاقے میں رہتے ہیں۔۔


پاراچنار کے علاقے سے بہت سے علماء منسوب ہیں، جن میں مولانا سید پادشاہ حسین، مولانا علی سرور سرحدی (14ویں صدی)، مولانا غلام قاسم خان کورائی (14ویں صدی)، مولانا عبدالحسین (وفات 1365) اور مولانا محمد عباس (وفات 1364) شامل ہیں۔ جس نے اپنی مذہبی تعلیم [[ایران]] اور [[عراق]] میں مکمل کی
پاراچنار کے علاقے سے بہت سے علماء منسوب ہیں، جن میں مولانا سید پادشاہ حسین، مولانا علی سرور سرحدی (14ویں صدی)، مولانا غلام قاسم خان کورائی (14ویں صدی)، مولانا عبدالحسین (وفات 1365) اور مولانا محمد عباس (وفات 1364) شامل ہیں۔ جنهوں نے اپنی مذہبی تعلیم [[ایران]] اور [[عراق]] میں مکمل کی ہیں۔


== جغرافیائی محل وقوع ==
== جغرافیائی محل وقوع ==
پاراچنار شہر صوبہ خیبر پختونخوا کے آخری حصوں میں اور افغانستان کی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ شہر پشاور سے 280 کلومیٹر جنوب مغرب میں کرم کی سرسبز وادی میں افغان سرحد کے قریب واقع ہے۔ وادی کرم کو بالائی اور نچلے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور پاراچنار بالائی کورم کا مرکز ہے۔ کرم، جو ایک پہاڑی سرزمین ہے، ایک وسیع وادی میں ختم ہوتی ہے اور ایک کھڑا میدان بناتا ہے جہاں پارچنار واقع ہے۔  
پاراچنار شہر صوبہ خیبر پختونخوا کے آخری حصوں میں اور افغانستان کی سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ شہر پشاور سے 280 کلومیٹر جنوب مغرب میں کرم کی سرسبز وادی میں افغان سرحد کے قریب واقع ہے۔ وادی کرم کو بالائی اور نچلے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور پاراچنار بالائی کورم کا مرکز ہے۔ کرم، جو ایک پہاڑی سرزمین ہے، ایک وسیع وادی میں ختم ہوتی ہے اور ایک کھڑا میدان بناتا ہے جہاں پارچنار واقع ہے۔  


پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام فاٹا کرم ایجنسی کا صدر مقام پاڑاچنار جو پشاور سے 80 میل کے فاصلے پر مغرب کی طرف کوہ سفید کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں سے درۂ پیوار سے ہو کر افغانستان کو راستہ جاتا ہے بلکہ درحقیقت میں پاڑاچنار کے تین اطراف میں افغانستان ہے اور صرف مشرق میں پاکستانی سرزمین ہے۔ شہر کا نام چنار کے درخت کی وجہ سے مشہور ہوا جو اب بھی موجود ہے۔ جس کے سائے تلے قبیلے کے لوگ آکر بیٹھتے تھے۔  
پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام فاٹا کرم ایجنسی کا صدر مقام پاڑاچنار جو پشاور سے 80 میل کے فاصلے پر مغرب کی طرف کوہ سفید کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں سے درۂ پیوار سے ہو کر افغانستان کو راستہ جاتا ہے بلکہ درحقیقت پاڑاچنار کے تین اطراف میں افغانستان ہے اور صرف مشرق میں پاکستانی سرزمین ہے۔ شہر کا نام چنار کے درخت کی وجہ سے مشہور ہوا جو اب بھی موجود ہے۔ جس کے سائے تلے قبیلے کے لوگ آکر بیٹھتے تھے۔  


بچہ  سقا جو افغانستان کا بادشاہ بنا تھا۔ پارار چنار کے ایک بازار میں ماشکی کا کام کرتا رہا۔ قدرتی مناظر اور دلکش ہیں۔ جب کہ لوگوں کی زیادہ تر تعداد ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم اور ترقی کی شرح بھی کافی بہتر رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں افغان جنگ میں مجاہدین نے پاڑا چنار کو ہی اپنا مزاحمتی گڑھ بنایا۔ 2005ء کے بعد تو کئی سالوں تک پاکستان سے پارا چنار جانے والا راستہ بند رہا اور افغانستان کے راستے ایک لمبا چکر کاٹ کر ہی یہاں پہنچنا ممکن تھا۔  
بچہ  سقا جو افغانستان کا بادشاہ بنا تھا۔ پارار چنار کے ایک بازار میں ماشکی کا کام کرتا رہا۔ قدرتی مناظر اور دلکش ہیں۔ جب کہ لوگوں کی زیادہ تر تعداد ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم اور ترقی کی شرح بھی کافی بہتر رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں افغان جنگ میں مجاہدین نے پاڑا چنار کو ہی اپنا مزاحمتی گڑھ بنایا۔ 2005ء کے بعد تو کئی سالوں تک پاکستان سے پارا چنار جانے والا راستہ بند رہا اور افغانستان کے راستے ایک لمبا چکر کاٹ کر ہی یہاں پہنچنا ممکن تھا۔  
سطر 33: سطر 33:
== پاراچنار موجود قبائل ==
== پاراچنار موجود قبائل ==
یہاں پر اکثریت طوری اور بنگش قبائیل کی ہیں۔ طوری عرصہ دراز سے یہی آباد ہیں۔ جبکہ بنگش قبائیل افغانستان سے آکر یہاں آباد ہوگئے ہیں۔
یہاں پر اکثریت طوری اور بنگش قبائیل کی ہیں۔ طوری عرصہ دراز سے یہی آباد ہیں۔ جبکہ بنگش قبائیل افغانستان سے آکر یہاں آباد ہوگئے ہیں۔
وادئ کرم میں طوری اور بنگش قبائل پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ سے آباد ہیں اور اس کا ذکر پہلی دفعہ پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی سوانح حیات "بابُرنامہ" میں کیا ہے۔ ظہیر الدین بابر جب افغانستان پر قبضہ مضبوط کر چکا تو ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور درہ خیبر سے ہوتے ہوئے کوہاٹ، ہنگو، ٹل اور بنوں میں قتل و غارت گری کی داستان رقم کی۔
وادئ کرم میں طوری اور بنگش قبائل پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ سے آباد ہیں اور اس کا ذکر پہلی دفعہ پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی سوانح حیات "بابُرنامہ" میں کیا ہے۔ ظہیر الدین بابر نے جب افغانستان پر قبضہ مضبوط کر چکا تو ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور درہ خیبر سے ہوتے ہوئے کوہاٹ، ہنگو، ٹل اور بنوں میں قتل و غارت گری کی داستان رقم کی۔


وادی کرم وزیرستان، خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت زرخیز وادئ ہے لہٰذا یہاں کے لوگ آبا و اجداد کے وقت سے کھیتی باڑی کرتے رہے ہیں، مال مویشی رکھتے ہیں اور باغات بھی قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ لہٰذا اجناس اور میوہ جات اور مال مویشی کے حوالے سے وادی کرم نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ زمانہ قدیم سے نزدیکی علاقوں کو برآمد بھی کرتے رہے ہیں، جن میں میںٹل بازار، ہنگو، کوہاٹ اور پشاور سمیت کابل، گردیز اور ہرات تک کی مارکیٹس شامل ہیں۔ جب کہ وہاں سے وہ اشیائے ضرورت، جو وادئ کرم میں ناپید تھیں/ہیں، درآمد کرتے تھے/ہیں جن میں کپڑا، نمک، گُڑ وغیرہ شامل ہیں۔
وادی کرم وزیرستان، خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت زرخیز وادئ ہے لہٰذا یہاں کے لوگ آبا و اجداد کے وقت سے کھیتی باڑی کرتے رہے ہیں، مال مویشی رکھتے ہیں اور باغات بھی قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ لہٰذا اجناس اور میوہ جات اور مال مویشی کے حوالے سے وادی کرم نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ زمانہ قدیم سے نزدیکی علاقوں کو برآمد بھی کرتے رہے ہیں، جن میں میںٹل بازار، ہنگو، کوہاٹ اور پشاور سمیت کابل، گردیز اور ہرات تک کی مارکیٹس شامل ہیں۔ جب کہ وہاں سے وہ اشیائے ضرورت، جو وادئ کرم میں ناپید تھیں/ہیں، درآمد کرتے تھے/ہیں جن میں کپڑا، نمک، گُڑ وغیرہ شامل ہیں۔
سطر 55: سطر 55:


== سیاسی تاریخ ==
== سیاسی تاریخ ==
پاراچنار اور اس کے آس پاس کے دیہات کے زیادہ تر لوگ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلامی دور میں یہ خطہ پہلے غزنویوں اور پھر غوریوں نے فتح کیا۔ آخر کار، یہ ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا الحاق بن گیا اور ان کے اہم ترین اڈوں میں سے ایک بن گیا۔ منگول حکمرانی کے کمزور ہوتے ہی یہ سرزمین افغان حکمرانوں کی سرزمین کا حصہ بن گئی۔ 1151ھ/1738ء میں نادر شاہ نے ہندوستان جاتے ہوئے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔  
پاراچنار اور اس کے آس پاس کے دیہات کے زیادہ تر لوگ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلامی دور میں یہ خطہ پہلے غزنویوں اور پھر غوریوں نے فتح کیا۔ آخر کار، یہ ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا الحاق بن گیا اور ان کے اہم ترین اڈوں میں سے ایک بن گیا۔ منگول حکمرانی کمزور ہوتے ہی یہ سرزمین افغان حکمرانوں کی سرزمین کا حصہ بن گئی۔ 1151ھ/1738ء میں نادر شاہ نے ہندوستان جاتے ہوئے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔  


1272ھ/1856ء میں برطانوی افواج وہاں داخل ہوئیں اور اس پر قبضہ کر لیا، لیکن وہاں پر برطانوی افواج اور افغان قبیلوں کے درمیان تنازعات جاری رہے، یہاں تک کہ 1309 ہجری میں اس علاقے میں رہنے والے 1326/1947ء میں تقسیم ہند اور ملک پاکستان کے قیام کے بعد پاراچنار پاکستان کا حصہ بن گیا۔
1272ھ/1856ء میں برطانوی افواج وہاں داخل ہوئیں اور اس پر قبضہ کر لیا، لیکن وہاں پر برطانوی افواج اور افغان قبیلوں کے درمیان تنازعات جاری رہے، یہاں تک کہ 1309 ہجری میں اس علاقے میں رہنے والے 1326/1947ء میں تقسیم ہند اور ملک پاکستان کے قیام کے بعد پاراچنار پاکستان کا حصہ بن گیا۔
== نقشہ کی تبدیلی ==
== نقشہ کی تبدیلی ==
جنوری 2007ء میں، کرم ایجنسی کے علاقے کے گورنر نے تقریر کی کہ یہ تقریر علاقے کے شیعوں کے خلاف ایک پوشیدہ اور جامع سازش کی نشاندہی کرتی تھی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاراچنار میں سپاہ صحابہ نے مقامی حکام کے تعاون سے دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کیں اور اس گروہ کے مقامی رہنما وزارت داخلہ کی سفارش پر انہیں فاروقیہ ایسوسی ایشن (مقامی سنی اسمبلی) کا سیکرٹری منتخب کیا گیا اور اس انجمن کو سرکاری طور پر دہشت گردوں کے حوالے کر دیا گیا اور انہیں اور ان کے دوستوں کو محفوظ علاقہ بنانے کی مکمل اجازت دے دی گئی۔ یزیدی سوچ کو زندہ کرکے پاراچنار کو غیر محفوظ بنایا گیا۔
جنوری 2007ء میں، کرم ایجنسی کے علاقے کے گورنر نے تقریر کی اور یہ تقریر علاقے کے شیعوں کے خلاف ایک پوشیدہ اور جامع سازش کی نشاندہی کرتی تھی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاراچنار میں سپاہ صحابہ نے مقامی حکام کے تعاون سے دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کیں اور اس گروہ کے مقامی رہنما وزارت داخلہ کی سفارش پر انہیں فاروقیہ ایسوسی ایشن (مقامی سنی اسمبلی) کا سیکرٹری منتخب کیا گیا اور اس انجمن کو سرکاری طور پر دہشت گردوں کے حوالے کر دیا گیا اور انہیں اور ان کے دوستوں کو محفوظ علاقہ بنانے کی مکمل اجازت دے دی گئی۔ یزیدی سوچ کو زندہ کرکے پاراچنار کو غیر محفوظ بنایا گیا۔


گورنر کے علاوہ کچھ دوسرے سرکاری اہلکاروں نے بھی کہا کہ 2007 میں طالبان کی اس خطے میں بڑی موجودگی ہوگی! اسی سال مارچ میں عید نظر نے ایوب نامی ایک شیعہ کو بے دردی سے قتل کر دیا جس کے ساتھ کئی دوسرے لوگ بھی تھے جس کا مقصد شباک کے علاقے میں شیعہ اور سنی کے اتحاد کو نقصان پہنچانا تھا۔ کچھ عرصہ بعد شباک اور شاشو کے ایک ہی علاقے میں شیعوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی وجہ سے نواب نے دو سنیوں کے سر قلم کر دیے!
گورنر کے علاوہ کچھ دوسرے سرکاری اہلکاروں نے بھی کہا کہ 2007 میں طالبان کی اس خطے میں بڑی موجودگی ہوگی! اسی سال مارچ میں عید نظر نے ایوب نامی ایک شیعہ کو بے دردی سے قتل کر دیا جس کے ساتھ کئی دوسرے لوگ بھی تھے جس کا مقصد شباک کے علاقے میں شیعہ اور سنی کے اتحاد کو نقصان پہنچانا تھا۔ کچھ عرصہ بعد شباک اور شاشو کے ایک ہی علاقے میں شیعوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی وجہ سے نواب نے دو سنیوں کے سر قلم کر دیے!


اسی دوران اس خطے کو سیلاب کی آسمانی آفت کا سامنا کرنا پڑا اور ریاست کے گورنر نے شلوزان کے علاقے میں ایک عوامی اجتماع میں تقریر کی اور کہا: اس کے بعد پاراچنار میں 12 [[ربیع الاول]] کو ناامنی ہوگی! اس کے بعد چونکہ پاراچنار کا منصوبہ علاقے کے اہل تشیع کی جرأت مندانہ مزاحمت کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوا تھا، اس لیے پشاور میں سپاہ صحابہ نے اعلان کیا کہ اس بار کشمیر اور افغانستان کے تمام جہادی گروہ جو ہندوستان، سوویت یونین اور امریکیوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ پاراچنار کے شیعوں پر لشکر حملہ کرے گا! اس دھمکی کے بعد اگست 2007 میں شیعوں کے خلاف ایک خودکش حملہ ہوا
اسی دوران اس خطے کو سیلاب کی آسمانی آفت کا سامنا کرنا پڑا اور ریاست کے گورنر نے شلوزان کے علاقے میں ایک عوامی اجتماع میں تقریر کی اور کہا: اس کے بعد پاراچنار میں 12 [[ربیع الاول]] کو ناامنی ہوگی! اس کے بعد چونکہ پاراچنار کا منصوبہ علاقے کے اہل تشیع کی جرأت مندانہ مزاحمت کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوا تھا، اس لیے پشاور میں سپاہ صحابہ نے اعلان کیا کہ اس بار کشمیر اور افغانستان کے تمام جہادی گروہ جو ہندوستان، سوویت یونین اور امریکیوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ پاراچنار کے شیعوں پر حملہ کرے گا! اس دھمکی کے بعد اگست 2007 میں شیعوں کے خلاف ایک خودکش حملہ ہوا۔


جس میں 14 افراد شہید اور 40 زخمی ہوئے، جس کا بعد میں پتہ چلا کہ بعض مقامی حکام کو اس کا علم تھا۔ جیسا کہ حملہ آور ڈپٹی گورنر کے ساتھ شہر میں آیا تھا تاکہ راستے میں سرکاری فوج اس کی گاڑی کا معائنہ نہ کر لے!
جس میں 14 افراد شہید اور 40 زخمی ہوئے، جس کا بعد میں پتہ چلا کہ بعض مقامی حکام کو اس کا علم تھا۔ جیسا کہ حملہ آور ڈپٹی گورنر کے ساتھ شہر میں آیا تھا تاکہ راستے میں سرکاری فوج اس کی گاڑی کا معائنہ نہ کر لے!
325

ترامیم